Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

زلیخا کی بد نیتی سے الزام تک عزیز مصر جس نے آپ کو خریدا تھا اور بہت اچھی طرح اولاد کے مثل رکھا تھا اپنی گھر والی سے بھی تاکیداً کہا تھا کہ انہیں کسی طرح تکلیف نہ ہو عزت و اکرام سے انہیں رکھو ۔ اس عورت کی نیت میں کھوٹ آ جاتی ہے ۔ جمال یوسف پر فریفتہ ہو جاتی ہے ۔ دروازے بھیڑ کر بن سنور کر برے کام کی طرف یوسف کو بلاتی ہے لیکن حضرت یوسف بڑی سختی سے انکار کر کے اسے مایوس کر دیتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ تیرا خاوند میرا سردار ہے ۔ اس وقت اہل مصر کے محاورے میں بڑوں کے لیے یہی لفظ بولا جاتا تھا ۔ آپ فرماتے ہیں تمہارے خاوند کی مجھ پر مہربانی ہے وہ میرے ساتھ سلوک و احسان سے پیش آتے ہیں ۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں ان کی خیانت کروں ۔ یاد رکھو چیز کو غیر جگہ رکھنے والے بھلائی سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ ( آیت ھیت لک ) کو بعض لوگ سریانی زبان کا لفظ کہتے ہیں بعض قطبی زبان کا بعض اسے غریب لفظ بتلاتے ہیں ۔ کسائی اسی قرأت کو پسند کرتے تھے اور کہتے تھے اہل حوران کا یہ لغت ہے جو حجاز میں آگیا ہے ۔ اہل حوران کے ایک عالم نے کہا ہے کہ یہ ہمارا لغت ہے ۔ امام ابن جریر نے اس کی شہادت میں شعر بھی پیش کیا ہے ۔ اس کے دوسری قرأت ھئت بھی ہے پہلی قرأت کے معنی تو آؤ کے تھے ، اس کے معنی میں تیرے لیے تیار ہوں بعض لوگ اس قرأت کا انکار ہی کرتے ہیں ۔ ایک قرأت ھئت بھی ہے ۔ یہ قرأت غریب ہے ۔ عام مدنی لوگوں کی یہی قرأت ہے ۔ اس پر بھی شہادت میں شعر پیش کیا جاتا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قاریوں کی قرأت یں قریب قریب ہیں پس جس طرح تم سکھائے گئے ہو پڑھتے رہو ۔ گہرائی سے اور اختلاف سے اور لعن طعن سے اور اعتراض سے بچو اس لفظ کے یہی معنی ہیں کہ آ اور سامنے ہو وغیرہ ۔ پھر آپ نے اس لفظ کو پڑھا کسی نے کہا اسے دوسری طرح بھی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا درست ہے مگر میں نے تو جس طرح سیکھا ہے اسی طرح پڑھوں گا ۔ یعنی ھَیتَ نہ کہ ھِیتُ یہ لفظ تذکیر تانیث واحد تثنیہ جمع سب کے لیے یکساں ہوتا ہے ۔ جیسے ( آیت ھیت لک ھیت لکم ھیت لکماا ھیتا لکن ھیت لھن ) ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یہاں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا نیا امتحان شروع ہوا عزیز مصر کی بیوی، جس کو اس کے خاوند نے تاکید کی تھی کہ یوسف (علیہ السلام) کو اکرام و احترام کے ساتھ رکھے، وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگئی اور انھیں دعوت گناہ دینے لگی، جسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ٹھکرا دیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] سیدنا یوسف کے لئے دور ابتلاء :۔ عزیز مصر کے گھر میں قیام کے دوران جہاں سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو مذکورہ بالا فوائد حاصل ہوئے وہاں یہی دور قیام آپ کے لیے ابتلاء و آزمائش کا دور بھی ثابت ہوا۔ آپ نہایت حسین و جمیل تھے۔ غیر شادی شدہ تھے اور نوخیز نوجوانی تھی۔ دوسری طرف عزیز مصر کی بیوی جوان تھی اور بےاولاد تھی اور اپنے جاذب لباس اور پوری رعنائیوں سے اپنا آپ پیش کر رہی تھی۔- زلیخا کا یوسف کو بدکاری کے لئے ورغلانا :۔ تیسری طرف معاشرہ متمدن قسم کا تھا جیسے آج کا مغربی معاشرہ ہے جس میں اختلاط مرد و زن کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، پردہ کو دقیانوسی سمجھا جاتا ہے اور اگر فریقین باہمی رضا مندی سے بدکاری کرلیں تو اسے بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا جاتا ان حالات میں عزیز مصر کی بیوی زلیخا میں شہوانی جذبات انگڑائیاں لینے لگے جو بالآخر عشق کی حدود کو چھونے لگے۔ لیکن سیدنا یوسف اس قسم کے جذبات سے بالکل پاک صاف تھے۔ جب زلیخا نے سیدنا یوسف کی طرف سے اس قدر بےاعتنائی اور اس میں اپنی توہین کا پہلو دیکھا تو اپنے مالکانہ حقوق استعمال کرتے ہوئے راست اقدام پر اتر آئی۔ ایک دن جب کہ اس کا خاوند گھر پر موجود نہ تھا۔ اس نے گھر کے تمام دروازے بند کرتے ہوئے یوسف کو واشگاف الفاظ میں اور تحکمانہ انداز میں اپنی طرف بلایا تاکہ اس کے شہوانی جذبات کی تسکین ہوسکے۔- [٢٣] سیدنا یوسف (علیہ السلام) نے اس کے پاس جانے کی بجائے اسے جواب دیا کہ میرے پروردگار نے تو مجھ پر اس قدر انعام و اکرام فرمائے ہیں اور میں اس کی معصیت میں ایسی بدکاری کا ارتکاب کروں، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا اور صاف طور پر انکار کردیا۔- بعض مفسرین نے اس مقام پر رب کے معنی آقا اور مالک لیا ہے جو لغوی اعتبار سے درست ہے اور قرآن کریم نے خود بھی رب کے لفظ کو آقا اور مالک کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جب عزیز مصر مجھ پر اس قدر مہربان ہے تو میں اس کے گھر میں رہ کر اس کے گھر میں ہی ایسی خیانت کروں یہ نمک حرامی مجھ سے نہیں ہوسکتی اور ہم نے پہلے معنی کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ ایک نبی یا بعد میں ہونے والا نبی ایک عام دنیا دار رئیس کو اپنا رب کہے یہ عقل و نقل سے بعید ہے اور قرآن میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں اور دوسرے اس لیے کہ جب پہلے معنی کے لحاظ سے اخذ شدہ مطلب زیادہ وقیع اور جامع ہے تو پھر دوسرے معنی لینے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا : ” رَاوَدَ “ باب مفاعلہ سے ہے، نرمی اور ملائمت سے بار بار مطالبہ کرنا، پھسلانا، فریب سے غلط کام پر آمادہ کرنا۔ یہاں باب مفاعلہ مشارکت کے لیے نہیں بلکہ مبالغہ کے لیے ہے، یعنی بار بار اور ہر طریقے سے پھسلایا۔ کیونکہ ایک ہی گھر میں رہ کر خدمت کرنے والے غلام سے ہزار انداز سے اور بار بار اپنے شوق کا اظہار ہوسکتا ہے، مثلاً غلام کھانا لایا ہے تو حکم ہو، دور کیوں بیٹھے ہو ؟ ادھر میرے ساتھ آ کر بیٹھو وغیرہ۔” بَیْتٌ“ ” بَاتَ یَبِیْتُ “ (رات گزارنا) سے ہے، اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں آدمی رات رہتا ہو، پھر گھر کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اب بھی اس کا اصل استعمال اینٹ پتھر کے مکان یا اون، پشم اور کپڑے وغیرہ کے خیمے پر ہوتا ہے۔ صحن سمیت پورے گھر کو عموماً ” دَارٌ“ کہتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) جب تک بچے تھے، عزیز کی بیوی کی نظر بچے پر شفقت و محبت والی تھی، اب جب جوانی آئی تو وہ نگاہ نہ رہی۔ یہی اصل بیٹے اور متبنّیٰ کا فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بےمثال حسن سے نوازا تھا۔ حدیث معراج میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ( وَ إِذَا ھُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ ) [ مسلم، الإیمان، باب الإسراء ۔۔ : ١٦٢] ” انھیں حسن کا شطر عطا کیا گیا تھا۔ “ شطر کا معنی نصف بھی ہے اور ایک حصہ بھی۔ (قاموس) یعنی یوسف (علیہ السلام) کو حسن کا خاصا بڑا حصہ عطا ہوا تھا۔ عزیز کی بیوی کے غلط راستے پر چل نکلنے کا ایک باعث ترمذی (٢١٦٥) میں موجود اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی بھی تھی کہ کوئی عورت کسی غیر محرم مرد کے ساتھ اکیلی نہ ہو، ورنہ ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوگا (جو دونوں کو ایک دوسرے کی نگاہ میں خوبصورت بنا کر دکھائے گا) ۔ یہاں یوسف (علیہ السلام) تو ویسے ہی شیطان سے محفوظ تھے، اگرچہ غلام ہونے کی وجہ سے پردہ لازم نہ تھا، مگر ایک ہی گھر اور کمرے میں سال ہا سال کی خلوت عزیز مصر کی بیوی کو لے ڈوبی۔ افسوس مسلمان اب بھی اس کی پروا نہیں کرتے، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاوند کے بھائی کے ساتھ خلوت سے بھی منع کیا، فرمایا : ( اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ ) [ بخاری، النکاح، باب لا یخلون رجل۔۔ : ٥٢٣٢ ] ” خاوند کا بھائی تو موت ہے۔ “ - اللہ تعالیٰ نے اس عورت کا نام نہیں لیا جس کے گھر میں یوسف (علیہ السلام) تھے۔ حق یہی ہے کہ ہم بھی نہ لیں، خصوصاً جب ہمیں اس کا نام کسی صحیح ذریعے سے معلوم ہی نہ ہو اور نام لینے میں کسی گناہ گار خصوصاً عورت کی پردہ دری ہو رہی ہو۔ اس لیے بار بار زلیخا کہنے والے قرآن سے سبق سیکھیں اور اپنے اس رویے کو ترک کریں۔- عَنْ نَّفْسِهٖ : قرآن مجید کے بیان کی پاکیزگی ملاحظہ فرمایئے، پوری بات سمجھ میں آرہی ہے اور کوئی ناشائستہ لفظ بھی استعمال نہیں ہوا۔- وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ ۔۔ : ” غَلَّقَ “ باب تفعیل میں سے ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” دروازے اچھی طرح بند کرلیے “ کیا ہے۔ ” هَيْتَ لَكَ “ اسم فعل ہے جس کا معنی ہے ” آ، جلدی کر۔ “ ” لَکَ “ خطاب کی صراحت کے لیے ہے، جیسے کہتے ہیں : ” شُکْرًا لَکَ ، سَقْیًا لَکَ “ اہل علم فرماتے ہیں کہ اس وقت یوسف (علیہ السلام) کو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہر چیز موجود تھی اور روکنے والی دنیا کی کوئی چیز نہ تھی۔ یوسف (علیہ السلام) کی صحت، جوانی، قوت، خلوت، فریق ثانی کا حسن، پیش کش، اس پر اصرار، غرض ہر چیز ہی بہکا دینے والی تھی، جب کہ انسان کو روکنے والی چیز اس کی اپنی جسمانی یا جنسی کمزوری ہوسکتی ہے، یا فریق ثانی کے حسن کی کمی، یا اس کی طرف سے انکار یا مزاحمت کا امکان یا راز فاش ہونے کا خطرہ یا اپنے خاندان، قوم اور لوگوں میں رسوائی کا خوف، ان میں سے کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔ اٹھتی جوانی تھی، بےمثال حسن تھا، دروازے بند تھے، دوسری طرف سے پیش کش بلکہ درخواست اور اس پر اصرار تھا، اپنے وطن سے دور تھے کہ قبیلے یا قوم میں رسوائی کا ڈر ہو۔ یہاں کتنے ہی لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو اپنوں سے دور ہونے کی وجہ سے بہک جاتے ہیں، پھر دروازے خوب بند تھے، راز فاش ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی اور جب مالکہ خود کہہ رہی ہو تو سزا کا کیا خوف ؟- قَالَ مَعَاذ اللّٰهِ : یوسف (علیہ السلام) کے سامنے جب بچنے کی کوئی راہ نہ رہی تو انھوں نے اس ذات پاک کی پناہ مانگی جس کی پناہ ملنے کے بعد کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ” مَعَاذَ “ مصدر میمی ہے، معنی ہے : ” أَعُوْذُ باللّٰہِ مَعَاذًا مِمَّا تُرِیْدِیْنَ “ یعنی تم جو چاہتی ہو میں اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی پناہ میں لے کر اس سے بچا لے۔ - اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور مفسرین میں سے ہر ایک نے اپنے ذوق کے مطابق کسی ایک معنی کو ترجیح دی ہے۔ ایک تو یہ کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، بیشک وہ اللہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا، اس کی نافرمانی کرکے میں ظالموں میں شامل نہیں ہوسکتا۔ دوسرا معنی ہے کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، تم اس عزیز مصر کی بیوی ہو جو میرا مالک ہے، میں اس کا غلام ہوں، اس نے میرے لیے رہنے کا ایسا اچھا انتظام کیا ہے، میں اپنے مالک کی خیانت کیسے کرسکتا ہوں، یہ تو سراسر ظلم ہے۔ پہلے معنی میں عزیز کی بیوی کو اللہ سے ڈرایا اور اس کے احسان یاد دلائے ہیں، دوسرے معنی میں اسے خاوند کی شرم دلائی ہے، شاید اس طرح ہی وہ باز آجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں معنی درست ہیں، دونوں بیک وقت مراد بھی ہوسکتے ہیں، مگر دوسرا معنی زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کی تقدیر پر شاکر ہو کر اپنے آپ کو عزیز مصر کا غلام سمجھتے تھے اور ہر طرح اس کی خدمت اور اطاعت کرتے تھے۔ اس لیے وہ اپنے مالک اور مربی کے احسان کا بدلہ اس پر ظلم کے ساتھ دینے کے لیے تیار نہ تھے اور لفظ ” رب “ غلام کے مالک کے لیے یوسف (علیہ السلام) کی زبانی اسی سورت میں کئی جگہ آیا ہے، فرمایا : (قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ فَسْـــَٔـلْهُ ) [ یوسف : ٥٠ ] اور فرمایا : (اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا) [ یوسف : ٤١ ] اور فرمایا : (فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّه) [ یوسف : ٤٢ ]- اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ : یعنی زنا ظلم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ زنا اپنے آپ پر ظلم ہے، اس عورت پر ظلم ہے، اس کے خاوند پر ظلم ہے، اپنے خاندان اور اس کے خاوند کے خاندان دونوں پر ظلم ہے کہ کسی خاندان کا بچہ دوسرے خاندان کا بچہ شمار ہوگا، نسب برباد ہوگا۔ زنا پوری انسانیت پر ظلم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا) [ بنی إسرائیل : ٣٢ ] ” اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بیشک وہ ہمیشہ سے بڑی بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے۔ “ یعنی زنا بےحیائی ہونے کے ساتھ ایک برا راستہ ہے جو آج تمہیں دوسرے کی عزت برباد کرنے کے لیے لے گیا ہے تو کل کسی کو تمہارے گھر بھی لے آئے گا، مثلاً شریعت نے جب آپ کو چوری سے روکا ہے تو اس نے صرف آپ کو نہیں روکا بلکہ کروڑوں، اربوں کو آپ کی چوری کرنے سے روکا ہے۔ اگر آپ باز نہ آئے تو دوسرے کیوں باز آئیں گے ؟ مسلمانوں کے نسب کے محفوظ رہنے اور ان کے معاشرے کی پاکیزگی پر کفار کو بیحد حسد ہے۔ وہ اس شرف سے محروم ہوجانے کے بعد اب ہم میں بھی بےحیائی پھیلا کر ہمیں اس شرف سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کا طرز عمل اس معاملے میں ہمارے لیے بہترین چراغ راہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۔ یعنی جس عورت کے گھر میں یوسف (علیہ السلام) رہتے تھے وہ ان پر مفتون ہوگئی اور ان سے اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے ان کو پھسلانے لگی اور گھر کے سارے دروازے بند کر دئیے اور ان سے کہنے لگی کہ جلد آجاؤ تمہیں سے کہتی ہوں - پہلی آیت میں معلوم ہوچکا ہے کہ یہ عورت عزیز مصر کی بیوی تھی مگر اس جگہ قرآن کریم نے زوجہ عزیز کا مختصر لفظ چھوڑ کر اَلَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا کے الفاظ اختیار کئے اس میں اشارہ اس کی طرف ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے گناہ سے بچنے کی مشکلات میں اس بات نے اور بھی اضافہ کردیا تھا کہ وہ اسی عورت کے گھر میں اسی کی پناہ میں رہتے تھے اس کے کہنے کو نظرانداز کرنا آسان نہ تھا - گناہ سے بچنے کا قوی ذریعہ خود اللہ سے پناہ مانگنا ہے :- اور اس کا ظاہری سبب یہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) نے جب اپنے آپ کو سب طرف سے گھرا ہوا پایا تو پیغمبرانہ انداز پر سب سے پہلے خدا کی پناہ مانگی قال مَعَاذ اللّٰهِ محض اپنے عزم و ارادہ پر بھروسہ نہیں کیا اور یہ ظاہر ہے کہ جس کو خدا کی پناہ مل جائے اس کو کون صحیح راستہ سے ہٹا سکتا ہے اس کے بعد پیغمبرانہ حکمت وموعظمت کے ساتھ خود زلیخا کو نصیحت کرنا شروع کیا کہ وہ بھی خدا سے ڈرئے اور اپنے ارادہ سے باز آجائے فرمایا - اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ وہ میرا پالنے والا ہے اس نے مجھے آرام کی جگہ دی خوب سمجھ لو کہ ظلم کرنے والوں کو فلاح نہیں ہوتی، بظاہر مراد یہ ہے کہ تیرے شوہر عزیز مصر نے میری پرورش کی اور مجھے اچھا ٹھکانا دیا، میرا محسن ہے میں اس کے حرم پر دست اندازی کروں ؟ یہ بڑا ظلم کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے اس کے ضمن میں خود زلیخا کو بھی یہ سبق دے دیا کہ جب میں اس کی چند روزہ پرورش کا اتنا حق پہچانتا ہوں تو تجھے مجھ سے زیادہ پہچاننا چاہئے،- اس جگہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عزیز مصر کو اپنا رب فرمایا حالانکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں وجہ یہ کہ ایسے الفاظ موہم شرک اور مشرکین کے ساتھ مشابہت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں اسی لئے شریعت محمدیہ میں ایسے الفاظ استعمال کرنا بھی ممنوع کردیا گیا صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا کو اپنا رب نہ کہے اور کوئی آقا اپنے غلام کو اپنا بندہ نہ کہے مگر یہ خصوصیت شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے جس میں شرک کی ممانعت کے ساتھ ایسی چیزوں کی بھی ممانعت کردی گئی ہے جن میں ذریعہ شرک بننے کا احتمال ہو انبیاء سابقین کی شریعتوں میں شرک سے تو سختی کے ساتھ روکا گیا ہے مگر اسباب و ذرائع پر کوئی پابندی نہ تھی اسی وجہ سے پچھلی شریعتوں میں تصویر سازی ممنوع نہ تھی مگر شریعت محمدی چونکہ قیامت تک کے لئے آئی ہے اس کو شرک سے پوری طرح محفوظ کرنے لئے ذرائع شرک تصویر اور ایسے الفاظ سے بھی روک دیا گیا جو موہم شرک ہو سکیں بہرحال یوسف (علیہ السلام) کا اِنَّهٗ رَبِّيْٓ فرمانا اپنی جگہ درست تھا،- اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہو اسی کو اپنا رب فرمایا اور اچھا ٹھکانا بھی درحقیقت اسی نے دیا اس کی نافرمانی سب سے بڑا ظلم ہے اور ظلم کرنے والوں کو فلاح نہیں۔- بعض مفسرین سدی اور ابن اسحاق وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ اس خلوت میں زلیخا نے یوسف (علیہ السلام) کو مائل کرنے کے لئے ان کے حسن و جمال کی تعریف شروع کی کہا کہ تمہارے بال کس قدر حسین ہیں یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ بال موت کے بعد سب سے پہلے میرے جسم سے علیحٰدہ ہوجائیں گے پھر کہا تمہاری آنکھیں کتنی حسین ہیں تو فرمایا موت کے بعد یہ سب پانی ہو کر میرے چہرے پر بہہ جائیں گی پھر کہا تمہارا چہرہ کتنا حسین ہے تو فرمایا کہ یہ سب مٹی کی غذا ہے اللہ تعالیٰ نے فکر آخرت آپ پر اس طرح مسلط کردی کہ نوجوانی کے عالم میں دنیا کی ساری لذتیں ان کے سامنے گرد ہوگئیں صحیح ہے کہ فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو ہر جگہ ہر شر سے محفوظ رکھ سکتی ہے،- اللہم ارزقنا ایاہ،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَرَاوَدَتْہُ الَّتِيْ ہُوَفِيْ بَيْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَيْتَ لَكَ۝ ٠ۭ قَالَ مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٢٣- راود - والمُرَاوَدَةُ : أن تنازع غيرک في الإرادة، فترید غير ما يريد، أو ترود غير ما يرود، ورَاوَدْتُ فلانا عن کذا . قال : هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] ، وقال : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] ، أي : تصرفه عن رأيه، - ( ر و د ) الرود - المراودۃ ( مفاعلہ ) یہ راود یراود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں ۔ یعنی ایک کا ارداہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ اور راودت فلان عن کزا کے معنی کسی کو اس کے ارداہ سے پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] اس نے مجھے میرے ارداہ سے پھیرنا چاہا ۔ تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] وہ اپنے غلام سے ( ناجائز ) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے ۔ یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - غلق - الْغَلَقُ والْمِغْلَاقُ : ما يُغْلَقُ به، وقیل : ما يفتح به لکن إذا اعتبر بِالْإِغْلَاقِ وعلی هذا : وَغَلَّقَتِ الْأَبْوابَ [يوسف 23] .- ( غ ل ق ) الغلق - والمغلاق قفل وغیرہ جس کے دروازہ بند کیا جاتا ہے اور بعض نے وہ چیز مراد لے ہے جس کے ساتھ اسے کھولا جاتا ہے اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوابَ [يوسف 23] اور دروازے بند کر کے ۔ - باب - البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب .- الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔- (هيت)- ، اختلف في تخریج هذا اللفظ، فبعضهم جعل التاء أصليّة، واللفظ هو اسم فعل ماض أو أمر، وبعضهم جعل التاء ضمیر الرفع دخل علی فعل هاء يهيء مثل جاء يجيء، أو هاء يهاء مثل شاء يشاء، وخفّفت الهمزة ياء ساکنة علی لغة أهل الحجاز ... إلخ .- هيت - هَيْتَ : قریب من هلمّ ، وقرئ : هَيْتَ لَكَ : أي : تهيّأت لك، ويقال : هَيْتَ به وتَهَيَّتْ : إذا قالت : هَيْتَ لك . قال اللہ تعالی: وَقالَتْ هَيْتَ لَكَ [يوسف 23] . يقال : هَاتِ ، وهَاتِيَا، وهَاتُوا . قال تعالی: هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة 111] قال الفرّاء : ليس في کلامهم هاتیت، وإنما ذلک في ألسن الحیرة قال : ولا يقال لا تهات . وقال الخلیل : المُهَاتَاةُ والهتاءُ مصدر ها - ( ھ ی ت ) ھیت اور ھلم کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں اور آیت وقالتْ هَيْتَ لَكَ [يوسف 23] کہنے لگی ( یوسف ) چلاآؤ ۔ میں ایک قرات ھیت لک بھی ہے جس کے معنی تھیات لک کے ہیں ییعنی میں تیرے لئے تیار ہوں اور ھیت بہ وتھیت کے معنی ھیت لک کہنے کے ہیں ھات ( اسم فعل ) لاؤ تثنیہ اور جمع کے لئے ھائتا وھا تو ا ۔ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ قُلْ هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة 111]( اے پیغمبر ) ان سے تم کہدو کہ ۔۔۔۔۔ دلیل پیش کرو ۔ افتراء کا کہنا ہے کہ کلام عرب میں ھاتیت مستعمل نہیں ہے یہ صرف اہل حیرہ کی لغت ہے اور اس سے لالھات ( فعل نہیں ) استعمال نہیں ہوتا ۔ خلیل نے کہا ہے کہ المھاتاہ والھتاء ( مفاعلہ سے ) سات صیغہ امر ہے ۔ ھیھات یہ کلمہ کسی چیز کے بعید ازقیاس ہو نیکو کو بتانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ھیھات ھیھات اور ھیھاتا تین لغت ہیں اور اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ هَيْهاتَ هَيْهاتَ لِما تُوعَدُونَ [ المؤمنون 36] جس بات کا تم وعدہ کیا جاتا ہے ( بہت ) لبیدا اور ( بہت ) بعید ہے ۔ زجاج نے ھیھات کے معنی البعد کئے ہیں دوسرے اہل لغت نے کہا ہے کہ زجاج کو ( لما ) کے لام کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ اس کی اصل بعد الامر وا الوعد لما توعدون ہے اور اس میں ایک لغت ھیھات بھی ہے ۔ الفسوی نے کہا ہے کہ ھیھات کسرہ تا کے ساتھ ھیھات ( بفتح تاء ) کی جمع ہے ۔- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- ثوی - الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم - ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) اور جس عورت کے گھر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) رہتے تھے وہ ان سے اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ان کو پھسلانے لگی اپنے اور یوسف (علیہ السلام) پر گھر کے تمام دروازے بند کردیے اور یوسف (علیہ السلام) سے کہنے لگی آجاؤ میں تمہارے ہی لیے ہوں یا یہ کہ چلے آؤ اور میں تم ہی سے کہتی ہوں، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں ایسے کام سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں اور دوسرا یہ کہ میرا محسن عزیز جو ہے اس نے کس قدر و منزلت کے ساتھ مجھے رکھا ہے تو کیا میں اسی کے ناموس میں خیانت کروں، ایسے حق فراموشوں کو عذاب الہی سے نجات حاصل نہیں ہوا کرتی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ )- یعنی عزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوگئی۔ قرآن میں اس کا نام مذکور نہیں البتہ تورات میں اس کا نام زلیخا بتایا گیا ہے۔- (قَالَ مَعَاذ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ )- یہاں پر ” ربّ “ کے دونوں معنی لیے جاسکتے ہیں اللہ بھی اور آقا بھی۔ چناچہ اس فقرے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ اللہ میرا رب ہے اور اس نے میرے لیے بہت اچھے ٹھکانے کا انتظام کیا ہے میں اس کی نافرمانی کا کیسے سوچ سکتا ہوں دوسرے معنی میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا خاوند میرا آقا ہے وہ میرا محسن اور مربی بھی ہے اس نے مجھے اپنے گھر میں بہت عزت و اکرام سے رکھا ہے اور میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاؤں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا یہ دوسرا مفہوم اس لیے بھی زیادہ مناسب ہے کہ ” رب “ کا لفظ اس سورت میں آقا اور بادشاہ کے لیے متعدد بار استعمال ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :21 عام طور پر مفسرین اور مترجمین نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں ”میرے رب“ کا لفظ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس شخص کے لیے استعمال کیا ہے جس کی ملازمت میں وہ اس وقت تھے اور ان کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میرے آقا نے تو مجھے ایسی اچھی طرح رکھا ہے ، پھر میں یہ نمک حرامی کیسے کرسکتا ہوں کہ اس کی بیوی سے زنا کروں ۔ لیکن مجھے اس ترجمہ و تفسیر سے سخت اختلاف ہے ۔ اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے ، کیونکہ عربی میں لفظ رب ”آقا“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، لیکن یہ بات ایک نبی کی شان سے بہت گری ہوئی ہے کہ وہ ایک گناہ سے باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی بندے کا لحاظ کرے ۔ اور قرآن میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے کہ کسی نبی نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہا ۔ آگے چل کر آیات ٤١ ، ٤۲ ، ۵۰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا یوسف علیہ السلام اپنے اور مصریوں کے مسلک کا یہ فرق بار بار واضح فرماتے ہیں کہ ان کا رب تو اللہ ہے اور مصریوں نے بندوں کو اپنا رب بنا رکھا ہے ۔ پھر جب آیت کے الفاظ میں یہ مطلب لینے کی بھی گنجائش موجود ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نےربی کہہ کر اللہ کی ذات مراد لی ہو ، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے معنی کو اختیار کریں جس میں صریحا قباحت کا پہلو نکلتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: یہ وہی عزیز مصر کی بیوی زلیخا تھی جس کا ذکر پچھلے حاشیہ میں گذرا ہے وہ حجرت یوسف (علیہ السلام) کے غیر معمولی مردانہ حسن پر اتنی فریفتہ ہوئی کہ انہیں گناہ کی دعوت دے بیٹیھی۔ قرآن کریم نے اس کا نام لینے کے بجائے یہ فرمایا ہے کہ جس کے گھر میں وہ رہتے تھے اس میں اشارہ یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لیے اس کی فرمائش سے انکار اور بھی زیادہ مشکل تھا، کیونکہ وہ اسی کے گھر میں قیام پذیر تھے، اور وہ ان پر ایک سے حاکمہ کا درجہ رکھتی تھی۔