Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یوسف علیہ السلام کے تقدس کا سبب سلف کی ایک جماعت سے تو اس آیت کے بارے میں وہ مروی ہے جو ابن جریر وغیرہ لائے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کا قصد اس عورت کے ساتھ صرف نفس کا کھٹکا تھا ۔ بغوی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کا فرمان ہے کہ جب میرا کوئی بندہ نیکی کا ارادہ کرے تو تم اس کی نیکی لکھ لو ۔ اور جب اس نیکی کو کر گزرے تو اس جیسی دس گنی نیکی لکھ لو ۔ اور اگر کسی برائی کا ارادہ کرے اور پھر اسے نہ کرے تو اس کے لیے نیکی لکھ لو ۔ کیونکہ اس نے میری وجہ سے اس برائی کو چھوڑا ہے ۔ اور اگر اس برائی کو ہی کر گزرے تو اس کے برابر اسے لکھ لو ۔ اس حدیث کے الفاظ اور بھی کئی ایک ہیں اصل بخاری ، مسلم میں بھی ہے ۔ ایک قول ہے کہ حضرت یوسف نے اسے مارنے کا قصد کیا تھا ۔ ایک قول ہے کہ اسے بیوی بنانے کی تمنا کی تھی ۔ ایک قول ہے کہ آپ قصد کرتے اگر اگر دلیل نہ دیکھتے لیکن چونکہ دلیل دیکھ لی قصد نہیں فرمایا ۔ لیکن اس قول میں عربی زبان کی حیثیت سے کلام ہے جسے امام ابن جریر وغیرہ نے بیان فرمایا ہے ۔ یہ تو تھے اقوال قصد یوسف کے متعلق ۔ وہ دلیل جو آپ نے دیکھی اس کے متعلق بھی اقوال ملاحظہ فرمائیے ۔ کہتے ہیں اپنے والد حضرت یعقوب کو دیکھا کہ گویا وہ اپنی انگلی منہ میں ڈالے کھڑے ہیں ۔ اور حضرت یوسف کے سینے پر آپ نے ہاتھ مارا ۔ کہتے ہیں اپنے سردار کی خیالی تصویر سامنے آگئی ۔ کہتے ہیں آپ کی نظر چھت کی طرف اٹھ گئی دیکھتے ہیں کہ اس پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے ( آیت لا تقربو الزنی انہ کان فاحشتہ و مقتا و ساء سبیلا ) خبردار زنا کے قریب بھی نہ بھٹکنا وہ بڑی بےحیائی کا اور اللہ کے غضب کا کام ہے اور وہ بڑا ہی برا راستہ ہے ۔ کہتے ہیں تین آیتیں لکھی ہوئی تھیں ایک تو ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10۝ۙ ) 82- الإنفطار:10 ) تم پر نگہبان مقرر ہیں ۔ دوسری ( وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْه 61؀ ) 10- یونس:61 ) تم جس حال میں ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔ تیسری ( اَفَمَنْ هُوَ قَاۗىِٕمٌ عَلٰي كُلِّ نَفْسٍۢ 33؁ ) 13- الرعد:33 ) اللہ ہر شخص کے ہر عمل پر حاضر ناظر ہے کہتے ہیں کہ چار آیتیں لکھی پائی تین وہی جو اوپر ہیں اور ایک حرمت زنا کی جو اس سے پہلے ہے ۔ کہتے ہیں کہ کوئی آیت دیوار پر ممانعت زنا کے بارے میں لکھی ہوئی پائی ۔ کہتے ہیں ایک نشان تھا جو آپ کے ارادے سے آپ کو روک رہا تھا ۔ ممکن ہے وہ صورت یعقوب ہو ۔ اور ممکن ہے اپنے خریدنے والے کی صورت ہو ۔ اور ممکن ہے آیت قرآنی ہو کوئی ایسی صاف دلیل نہیں کہ کسی خاص ایک چیز کے فیصلے پر ہم پہنچ سکیں ۔ پس بہت ٹھیک راہ ہمارے لیے یہی ہے کہ اسے یونہی مطلق چھوڑ دیا جائے جیسے کہ اللہ کے فرمان میں بھی اطلاق ہے ( اسی طرح قصد کو بھی ) پھر فرماتا ہے ہم نے جس طرح اس وقت اسے ایک دلیل دکھا کر برائی سے بچا لیا ، اسی طرح اس کے اور کاموں میں بھی ہم اس کی مدد کرتے رہے اور اسے برائیوں اور بےحیائیوں سے محفوظ رکھتے رہے ۔ وہ تھا بھی ہمارا برگزیدہ پسندیدہ بہترین اور مخلص بندہ ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر درود و سلام نازل ہوں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ( لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ) 12 ۔ یوسف :24) کا تعلق ماقبل یعنی وھم بھا سے نہیں بلکہ اس کا جواب محذوف ہے یعنی لولا ان راٰ برھان ربہ لفعل ماھم بہ اگر یوسف (علیہ السلام) اللہ کی دلیل نہ دیکھتے تو جس چیز کا قصد کیا تھا وہ کر گزرتے۔ یہ ترجمہ اکثر مفسرین کی تفسیر کے مطابق ہے اور جن لوگوں نے اسے لَوْ لَا کے ساتھ جوڑ کر یہ معنی بیان کئے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) نے قصد ہی نہیں کیا، ان مفسرین نے اسے عربی اسلوب کے خلاف قرار دیا ہے۔ اور یہ معنی بیان کئے ہیں کہ قصد تو یوسف (علیہ السلام) نے بھی کرلیا تھا لیکن ایک تو یہ اختیاری نہیں تھا بلکہ عزیز مصر کی بیوی کی ترغیب اور دباؤ اس میں شامل تھا۔ دوسرے یہ کہ گناہ کا قصد کرلینا عصمت کے خلاف نہیں ہے، اس پر عمل کرنا عصمت کے خلاف ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) مگر محققین اہل تفسیر نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) بھی اس کا قصد کرلیتے۔ اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھے ہوتے۔ یعنی انہوں نے اپنے رب کی برہان دیکھ رکھی تھی۔ اس لیے عزیز مصر کی بیوی کا قصد ہی نہیں کیا۔ بلکہ دعوت گناہ ملتے ہی پکار اٹھے معاذ اللہ۔ البتہ قصد نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ نفس میں ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہیں ہوئی۔ ہیجان اور تحریک پیدا ہوجانا الگ بات ہے۔ اور قصد کرلینا الگ بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر سرے سے ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہ ہو تو ایسے شخص کا گناہ سے بچ جانا کوئی کمال نہیں۔ کمال تو تب ہی ہے کہ نفس کے اندر داعیہ اور تحریک پیدا ہو اور پھر انسان اس پر کنٹرول کرے اور گناہ سے بچ جائے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسی کمال صبر و ضبط کا بےمثال نمونہ پیش فرمایا۔ 24۔ 2 یہاں پہلی تفسیر کے مطابق لولاء کا جواب محذوف ہے لفعل ماھم بہ یعنی اگر یوسف (علیہ السلام) رب کی برہان دیکھتے تو جو قصد کیا تھا کر گزرتے۔ یہ برہان کیا تھی ؟ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رب کی طرف سے کوئی ایسی چیز آپ کو دکھائی گئی کہ اسے دیکھ کر آپ نفس کے داعیئے کے دبانے اور رد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی اسی طرح حفاظت فرماتا ہے۔ 24۔ 3 یعنی جس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو برہان دکھا کر برائی یا اس کے ارادے سے بچا لیا، اسی طرح ہم نے اسے ہر معاملے میں برائی اور بےحیائی کی باتوں سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ کیونکہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] عصمت انبیاء کا مفہوم :۔ جب زلیخا نے اس دعوت میں اپنے آپ کو ناکام پایا اور اس میں اپنی مزید خفت محسوس کی تو اس نے اس بدکاری کے کام کو سرانجام دینے کا تہیہ کرلیا اور خود یوسف تک پہنچ کر دست درازی شروع کردی۔ اس آڑے وقت میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف کی خاص رہنمائی فرمائی اور ان کی نگہداشت فرمائی۔ اس وقت اللہ نے سیدنا یوسف کو کون سی دلیل یا برہان دکھائی تھی وہ وہی ہے جس کا سابقہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے۔ یعنی سیدنا یوسف اپنے سابقہ جواب اور عزم پر ہی ڈٹے رہے۔ اس طرح اللہ نے انھیں اس بدفعلی کے ارتکاب سے محفوظ رکھا۔ یہیں سے عصمت انبیاء کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے یعنی وہ بھی بشر ہی ہوتے ہیں اور بشری تقاضوں سے مجبور ہو کر گناہ کا ارتکاب ان سے بھی ہوسکتا ہے۔ مگر اللہ انھیں ایسے کاموں سے بچائے رکھتا ہے اور ان سے کوئی چھوٹی موٹی لغزش ہو بھی جائے تو بذریعہ وحی ان کی اصلاح کردی جاتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا : عزیز کی بیوی کا یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ ارادۂ بدی تو ” لام “ اور ” قَدْ “ سے (جو دونوں تحقیق کے لیے بمعنی قسم آتے ہیں) بلکہ سارے واقعہ ہی سے ظاہر ہے، البتہ یوسف (علیہ السلام) نے ارادہ کیا یا نہیں، اس میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ جس طرح روزہ دار کو ٹھنڈا پانی دیکھ کر اس کی رغبت ہوتی ہے مگر وہ روزے کی وجہ سے اس پر قابو پا لیتا ہے اور یہ ایک طبعی چیز ہے۔ اس قسم کا خیال یوسف (علیہ السلام) کے دل میں آگیا ہو تو کچھ بعید نہیں مگر ” بُرْهَانَ رَبِّهٖ “ دیکھنے کی برکت سے یوسف (علیہ السلام) نے اسے جھٹک دیا۔ مگر دوسری تفسیر جس پر زیادہ اطمینان ہوتا ہے، وہ یہی ہے جو ترجمے سے ظاہر ہے اور قرآن مجید میں ” لَوْلَا “ شرط کی جزا اس سے پہلے آنے کی مثال بھی موجود ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے متعلق فرمایا : ( ۭاِنْ كَادَتْ لَتُبْدِيْ بِهٖ لَوْلَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰي قَلْبِهَا) [ القصص : ١٠ ] ” بیشک وہ قریب تھی کہ اسے ظاہر کر ہی دیتی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ہم نے اس کے دل پر بند باندھ دیا تھا۔ “ اگر یوسف (علیہ السلام) ارادہ کرچکے ہوتے اور برہانِ رب کے ذریعے سے ان کو ہٹایا جاتا تو آیت کے الفاظ یہ نہ ہوتے : (كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ ) ” اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اس سے برائی اور بےحیائی کو ہٹا دیں “ بلکہ یہ ہوتے : ” کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَہُ عَنِ السُّوْٓءِ وَالْفَحْشَاءِ “ کہ اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اسے برائی اور بےحیائی سے ہٹا دیں۔ پھر اس واقعہ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص نے جس طرح یوسف (علیہ السلام) کی بےگناہی کی شہادت دی اس کا تقاضا بھی یہی ہے، مثلاً 1 خود اللہ تعالیٰ : (كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ ) 2 یوسف (علیہ السلام) : (ھِیَ رَاوَدَتْنِی) 3 شاہد ” قمیص کا معائنہ “ 4 عزیز مصر : (اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ ) 5 شاہ مصر : (اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖ ) 6 زنان مصر : (مَا عَلِمْنَا عَلَیْہ مِنْ سُوْءٍ ) 7 اور خود عزیز کی بیوی : (وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ ) 8 خود یوسف (علیہ السلام) نے بعد میں فرمایا : (وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ ) کہ اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا، یہ صریح دلیل ہے کہ وہ مائل نہیں ہوئے تھے۔ سب کی شہادتیں ہمارے سامنے ہیں۔ رہے وہ مفسرین جو یوسف (علیہ السلام) کو بلا دلیل گناہ کے عین کنارے پر پہنچا کر پیچھے ہٹاتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کو خود جواب دہ ہوں گے اور جو مفسرین ان بند دروازوں میں ہونے والی گفتگو بھی بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں وہ شاید وہاں چھپ کر سنتے رہے ہوں گے، یا ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی وحی آئی ہوگی، کیونکہ قرآن و حدیث اور عقل و فطرت میں سے تو کوئی چیز ان مکالموں کی تائید نہیں کرتی۔- لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ : وہ رب کی دلیل کیا تھی ؟ اس کی تعیین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحت کے ساتھ کوئی چیز ثابت نہیں ہے، البتہ مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں جو محض اقوال ہیں۔ ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ (رض) فرماتے ہیں : ” ہوسکتا ہے کہ ایک نبی کے اخلاق کی بلندی اس کی اجازت نہ دیتی ہو کہ زنا جیسے برے کام پر آمادہ ہوں اور اسی کو یہاں ” بُرْهَانَ رَبِّهٖ “ سے تعبیر فرمایا ہو۔ “ - اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ : ” اَلْمُخْلِصِیْنَ “ لام کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اخلاص والے، نیک بخت بندے مراد ہوں گے اور ” الْمُخْلَصِيْنَ “ لام کے فتحہ کے ساتھ ہو تو معنی ہوگا وہ جنھیں چن لیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خالص کرلیا ہے۔ یہاں لام کے فتحہ کے ساتھ ہے، یعنی وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے چنے جانے کا شرف حاصل ہوا۔ مخلص بندہ ہونا ان دونوں باتوں کی علت ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے برائی کا ارادہ بھی نہیں کیا اور یہ کہ ہم نے برائی و بےحیائی کو ان سے ہٹا کر رکھا، کیوں ؟ اس لیے کہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھے، جن کے متعلق شیطان نے خود اعتراف کیا تھا کہ میں انھیں گمراہ نہیں کرسکوں گا، اس نے کہا تھا : (ۙاِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ ) [ الحجر : ٤٠ ] ” مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو خالص کیے ہوئے ہیں۔ “ اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی طہارت چار بار بیان کی ہے : 1 ” لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ “ 2 ” وَالْفَحْشَاۗءَ “ 3 ” اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا “ 4 ” الْمُخْلَصِيْنَ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور اس عورت کے دل میں ان کا خیال (عزم کے درجہ میں) جم ہی رہا تھا اور ان کو بھی اس عورت کا کچھ کچھ خیال (امر طبعی کے درجہ میں) ہو چلا تھا (جو کہ اختیار سے باہر ہے جیسے گرمی کے روزہ میں پانی کی طرف میلان طبعی ہوتا ہے گو روزہ توڑنے کا وسوسہ تک بھی نہیں آتا، البتہ) اگر اپنے رب کی دلیل کو (یعنی اس فعل کے گناہ ہونے کی دلیل کو جو کہ حکم شرعی ہے) انہوں نے دیکھا ہوتا (یعنی ان کو شریعت کا علم مع قوت عملیہ کے حاصل نہ ہوتا) تو زیادہ خیال ہوجانا عجب نہ تھا (کیونکہ اس کے وداعی اور اسباب سب قوی جمع تھے مگر) ہم نے اسی طرح ان کو علم دیا تاکہ ہم ان سے صغیرہ اور کبیرہ گناہ کو دور رکھیں (یعنی ارادہ سے بھی بچا لیا اور فعل سے بھی کیونکہ) وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے،- معارف و مسائل :- پچھلی آیت میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عظیم ابتلاء و امتحان مذکور تھا کہ عزیز مصر کی عورت نے گھر کے دروازے بند کر کے ان کو گناہ کی طرف بلانے کی کوشش کی اور اپنی طرف راغب کرنے اور مبتلا کرنے کے سارے ہی اسباب جمع کر دئیے مگر رب العزت نے اس نوجوان صالح کو ایسے شدید ابتلاء میں ثابت قدم رکھا اس کی مزید تفصیل اس آیت میں ہے کہ زلیخا تو گناہ کے خیال میں لگی ہوئی تھی ہی یوسف (علیہ السلام) کے دل میں بھی انسانی فطرت کے تقاضے سے کچھ کچھ غیر اختیاری میلان پیدا ہونے لگا مگر اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت میں اپنی حجت وبرہان یوسف (علیہ السلام) کے سامنے کردی جس کی وجہ سے وہ غیر اختیاری میلان آگے بڑہنے کے بجائے بالکل ختم ہوگیا اور وہ پیچھا چھڑا کر بھاگے - اس آیت میں لفظ ہم بمعنی خیال زلیخا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) دونوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا اور یہ معلوم ہے کہ زلیخا کا ہم یعنی خیال گناہ کا تھا اس سے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق بھی ایسے ہی خیال کا وہم ہوسکتا تھا اور یہ باجماع امت شان نبوت و رسالت کے خلاف ہے کیونکہ جمہور امت اس پر متفق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) صغیرہ اور کبیرہ ہر طرح کے گناہ سے معصوم ہوتے ہیں کبیرہ گناہ تو نہ قصدا ہوسکتا ہے نہ سہوا وخطاء کی راہ سے ہوسکتا ہے البتہ صغیرہ گناہ و سہو وخطاء کے طور پر سرزد ہوجانے کا امکان ہے مگر اس پر بھی انبیاء (علیہم السلام) کو قائم نہیں رہنے دیا جاتا بلکہ متنبہ کر کے اس سے ہٹا دیا جاتا ہے (مسامرہ)- اور یہ مسئلہ عصمت قرآن وسنت سے ثابت سے ثابت ہونے کے علاوہ عقلا بھی اس لئے ضروری ہے کہ اگر انبیاء (علیہم السلام) سے گناہ سرزد ہوجانے کا امکان احتمال رہے تو ان کے لائے ہوئے دین اور وحی پر اعتماد کا کوئی راستہ نہیں رہتا اور ان کی بعثت اور ان پر کتاب نازل کرنے کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر پیغمبر کو ہر گناہ سے معصوم رکھا ہے - اس لئے اجمالی طور پر یہ تو متعین ہوگیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جو خیال پیدا ہوا وہ گناہ کے درجہ کا خیال نہ تھا تفصیل اس کی یہ ہے کہ عربی زبان میں لفظ ہم ّدو معنی کے لئے بولا جاتا ہے ایک کسی کام کا قصد و ارادہ اور عزم کرلینا دوسرے محض دل میں وسوسہ اور غیراختیاری خیال پیدا ہوجانا پہلی صورت گناہ میں داخل اور قابل مواخذہ ہے ہاں اگر قصد و ارادہ کے بعد خالص اللہ تعالیٰ کے خوف سے کوئی شخص اس گناہ کو باختیار خود چھوڑ دے تو حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کی جگہ اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی درج فرما دیتے ہیں اور دوسری صورت کہ محض وسوسہ اور غیراختیاری خیال آجائے اور فعل کا ارادہ بالکل نہ ہو جیسے گرمی کے روزہ میں ٹھنڈے پانی کی طرف طبعی میلان غیر اختیاری سب کو ہوجاتا ہے حالانکہ روزہ میں پینے کا ارادہ بالکل نہیں ہوتا اس قسم کا خیال نہ انسان کے اختیار میں ہے نہ اس پر کوئی مواخذہ اور گناہ ہے،- صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے گناہ کے وسوسہ اور خیال کو معاف کردیا ہے جبکہ وہ اس پر عمل نہ کرے (قرطبی)- اور صحیحیں میں بروایت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ میرا بندہ جب کسی نیکی کا ارادہ کرے تو صرف ارادہ کرنے سے اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دو اور جب وہ یہ نیک عمل کرلے تو دس نیکیاں لکھو اور اگر بندہ کسی گناہ کا ارادہ کرے مگر پھر خدا کے خوف سے چھوڑ دے تو گناہ کے بجائے اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دو اور اگر وہ گناہ کر گذرے تو صرف ایک ہی گناہ لکھو (ابن کثیر)- تفسیرقرطبی میں لفظ ہَمّ کا ان دونوں معنی کے لئے استعمال عرب کے محاورات اور اشعار کی شہادتوں سے ثابت کیا ہے،- اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ آیت میں لفظ ہم زلیخا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) دونوں کے لئے بولا گیا مگر ان دونوں کے ہم یعنی خیال میں بڑا فرق ہے پہلا گناہ میں داخل ہے اور دوسرا غیر اختیاری وسوسہ کی حیثیت رکھتا ہے جو گناہ میں داخل نہیں قرآن کریم کا اسلوب بیان بھی خود اس پر شاہد ہے کیونکہ دونوں کا ہم و خیال اگر ایک ہی طرح کا ہوتا تو اس جگہ بصیغہ تثنیہ وَلَقَدْ هَمَّا کہہ دیا جاتا جو مختصر بھی تھا اس کو چھوڑ کر دونوں کے ہم و خیال کا بیان الگ الگ فرمایا هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا اور زلیخا کے ہم و خیال کے ساتھ تاکید کے الفاظ لقد کا اضافہ کیا یوسف (علیہ السلام) کو یہ ابتلاء پیش آیا تو فرشتوں نے اللہ جل شانہ سے عرض کی کہ آپ کا یہ مخلص بندہ گناہ کے خیال میں ہے حالانکہ وہ اس کے وبال کو خوب جانتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انتظار کرو اگر وہ یہ گناہ کرلے تو جیسا کیا ہے وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھ دو اور اگر وہ اس کو چھوڑ دے تو گناہ کے بجائے اس کے نامہ اعمال میں نیکی درج کرو کیونکہ اس نے صرف میرے خوف سے اپنی خواہش کو چھوڑا ہے (جو بہت بڑی نیکی ہے) (قرطبی) فیصل - خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دل میں جو خیال یا میلان پیدا ہوا وہ محض غیر اختیاری وسوسہ کے درجہ میں تھا جو گناہ میں داخل نہیں پھر اس وسوسہ کے خلاف عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا درجہ اور زیادہ بلند ہوگیا،- اور بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ کلام میں تقدیم و تاخیر واقع ہوئی ہے لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ جو بعد میں مذکور ہے وہ اصل میں مقدم ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کو بھی خیال پیدا ہوجاتا اگر اللہ کی حجت وبرہان کو نہ دیکھ لیتے لیکن برہان رب کو دیکھنے کی وجہ سے وہ اس ہم اور خیال سے بھی بچ گئے مضمون یہ بھی درست ہے مگر بعض حضرات نے اس تقدیم و تاخیر کو قواعد زبان کے خلاف قرار دیا ہے اور اس لحاظ سے بھی پہلی ہی تفسیر راجح ہے کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شان تقویٰ و طہارت اور زیادہ بلند ہوجاتی ہے کہ طبعی اور بشری تقاضہ کے باوجود وہ گناہ سے محفوظ رہے۔- اس کے بعد جو یہ ارشاد فرمایا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ اس کی جزا محذوف ہے اور معنی یہ ہیں کہ اگر وہ اپنے رب کی برہان اور حجت کو نہ دیکھتے تو اس خیال میں مبتلا رہتے مگر برہان رب دیکھ لینے کی وجہ سے وہ غیر اختیاری خیال اور وسوسہ بھی قلب سے نکل گیا،- قرآن کریم نے یہ واضح نہیں فرمایا کہ وہ برہان ربی جو یوسف (علیہ السلام) کے سامنے آئی کیا چیز تھی اسی لئے اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ، مجاہد (رح)، سعید بن جبیر (رح) محمد بن سیرین (رح)، حسن بصری (رح)، وغیرہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس خلوت گاہ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت اس طرح ان کے سامنے کردی کہ وہ اپنی انگلی دانتوں دبائے ہوئے ان کو متنبہ کر رہے ہیں اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ عزیز مصر کی صورت ان کے سامنے دی گئی بعض نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کی نظر چھت کی طرف اٹھی تو اس میں یہ آیت قرآن لکھی ہوئی دیکھی (آیت) لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا یعنی زنا کے پاس نہ جاؤ کیونکہ وہ بڑی بےحیائی (اور قہر خداوندی کا سبب) اور (معاشرہ کے لئے) بہت برا راستہ ہے بعض مفسریں نے فرمایا کہ زلیخا کے مکان میں ایک بت تھا اس نے اس بت پر پردہ ڈالا تو یوسف (علیہ السلام) نے وجہ پوچھی اس نے کہا کہ یہ میرا معبود ہے اس کے سامنے گناہ کرنے کی جرأت نہیں یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا معبود اس سے زیادہ حیا کا مستحق ہے اس کی نظر کو کوئی پردہ نہیں روک سکتا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کی نبوت اور معرفت آلہیہ خود ہی برہان رب تھی،- امام تفسیر ابن جریر (رح) نے ان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد جو بات فرمائی ہے وہ سب اہل تحقیق کے نزدیک نہایت پسندیدہ اور بےغبار ہے وہ یہ ہے کہ جتنی بات قرآن کریم نے بتلا دی ہے صرف اسی پر اکتفاء کیا جائے یعنی یہ کہ یوسف (علیہ السلام) نے کوئی ایسی چیز دیکھی جس سے وسوسہ ان کے دل سے جاتا رہا اس چیز کی تعیین میں وہ سب احتمال ہو سکتے ہیں جو حضرات مفسرین نے ذکر کئے ہیں لیکن قطعی طور پر کسی کو متعین نہیں کیا جاسکتا (ابن کثیر)- (آیت) كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ ۭ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ یعنی ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو یہ برہان اس لئے دکھائی کہ ان سے برائی اور بےحیائی کو ہٹا دیں برائی سے مراد صغیرہ گناہ اور بےحیائی سے کبیرہ گناہ ہے (مظہری)- یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ برائی اور بےحیائی کو یوسف (علیہ السلام) سے ہٹا دینے کا ذکر فرمایا ہے یوسف (علیہ السلام) کو برائی اور بےحیائی سے ہٹانا نہیں فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) تو اپنی شان نبوت کی وجہ سے اس گناہ سے خود ہی ہٹے ہوئے تھے مگر برائی اور بےحیائی نے ان کو گھیر لیا تھا ہم نے اس کے جال کو توڑ دیا قرآن کریم کے یہ الفاظ بھی اس پر شاہد ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کسی ادنی گناہ میں بھی مبتلا نہیں ہوئے اور انکے دل میں جو خیال پیدا ہوا تھا وہ گناہ میں داخل نہ تھا ورنہ یہاں تعبیر اس طرح ہوتی کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو گناہ سے بچا دیا نہ یہ کہ گناہ کو ان سے ہٹا دیا،- کیونکہ یوسف (علیہ السلام) ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں لفظ مخلصین اس جگہ بفتح لام مخلص کی جمع ہے جس کے معنی منتخب کے ہیں مراد یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں سے ہیں جن کو خود حق تعالیٰ نے اپنے کار رسالت اور اصلاح خلق کے لئے انتخاب فرمایا ہے ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظتی پہرہ ہوتا ہے کہ وہ کسی برائی میں مبتلا نہ ہو سکیں خود شیطان نے بھی اپنے بیان میں اس کا اقرار کیا کہ اللہ کے منتخب بندوں پر اس کا بس نہیں چلتا اس نے کہا قال فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ یعنی قسم ہے تیری عزت وقوت کی کہ میں ان سب انسانوں کو گمراہ کروں گا بجز ان بندوں کے جن کو آپ نے منتخب فرما لیا ہے،- اور بعض قراءتوں میں یہ لفظ بکسر لام مُخْلَصِيْنَ بھی آیا ہے اور مخلص کے معنی یہ ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت و فرمانبرداری اخلاص کے ساتھ کرے اس میں کسی دنیاوی اور نفسانی غرض و شہرت وجاہ وغیرہ کا دخل نہ ہو اس صورت میں مراد اس آیت کی یہ ہوگی کہ جو شخص بھی اپنے عمل اور عبادت میں مخلص ہو اللہ تعالیٰ گناہوں سے بچنے میں اس کی امداد فرماتے ہیں ،- اس آیت میں حق تعالیٰ نے دو لفظ سوء اور فحشاء کے استعمال فرمائے ہیں سوء کے لفظی معنی برائی کے ہیں اور مراد اس سے صغیرہ گناہ ہے اور فحشاء کے معنی بےحیائی کے ہیں اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کبیرہ اور صغیرہ دونوں قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھا ،- اسی سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف قرآن میں جس ہمّ یعنی خیال کو منسوب کیا ہے وہ محض غیراختیاری وسوسہ کے درجہ کا ہمّ تھا جو یہ کبیرہ گناہ میں داخل ہے نہ صغیرہ میں بلکہ معاف ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ۝ ٠ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ۝ ٠ۭ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ۝ ٢٤- همم - الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24]- ( ھ م م ) الھم - کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - بره - البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل :- الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء .- والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب :- دلالة تقتضي الصدق أبدا .- ودلالة تقتضي الکذب أبدا .- ودلالة إلى الصدق أقرب .- ودلالة إلى الکذب أقرب .- ودلالة هي إليهما سواء .- قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء 174] .- ( ب ر ہ ) البرھان - کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ولقد ھمت بہ وھم بھا وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھا ۔ حسن سے مروی ہے کہ وہ یعنی عزیز مصر کی بیوی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف عزیمت یعنی پکے ارادے کے ساتھ بڑھی تھی اور حضرت یوسف اس کی طرف شہوت یعنی کشش کے تحت بڑھے تھے انہوں نے عزم نہیں کیا تھا۔ ایک قول کے مطابق طرفین ایک دوسرے کی طرف کشش کے تحت بڑھے تھے اس لیے کہ محاورے کے مطابق ہم بالشی کا مفہوم اس چیز کی قربت اختیار کرنا ہوتا ہے اس سے جا کر مل جانا نہیں ہوتا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اس کی طرف بڑھنا عزم اور پکے ارادے کے تحت نہیں تھا بلکہ صرف کشش کی بنا پر تھا اس کی دلیل یہ قول باری ہے۔ معاذ اللہ انہ ربی احسن مثوی ۔ خدا کی پناہ میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی اور میں یہ کام کروں نیز یہ قول باری کذلک لنصرف عنہ السوء والفحشاء انہ من عبادنا المخلصین ایسا ہوا تا کہ ہم اس سے بدی اور بےحیائی کو دور کردیں ۔ در حقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دامن ارتکاب معصیت کے پختہ عزم سے پاک تھا۔ ایک قول کے مطابق آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ مفہوم یہ ہے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا تو اسکی طرف بڑھتا لیکن اس تاویل میں یہ قباحت ہے کہ حرف لولا کے جواب کا اس پر مقدم ہوجانا جائز نہیں ہوتا اس لیے کہ نحوییین اس فقرے کو درست قرار نہیں دیتے۔ قد اتیتک لولازید اس میں لولا کا جواب اس پر مقدم ہے تا ہم یہ ہوسکتا ہے کہ حرف لو لا کی تقدیم مقدرما ن لی جائے۔- برھان ربہ سے مراد - قول باری ہے لولا ان را برھان ربہ اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری ، سعید بن جبیر اور مجاہد کے قول کے مطابق حضرت یوسف کو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا چہرہ نظر آیا، آپ نے دانتوں میں انگلیاں دبا رکھی تھیں ۔ قتادہ کے قول کے مطابق حضرت یوسف کے کانوں میں یہ آواز آئی ۔ یوسف تمہارا نام انبیاء کی فہرست میں درج ہے اور تم چلے ہو سفہاء و الاکام کرنے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فرشتے کی صورت نظر آ گئی تھی ۔ محمد بن کعب کے قول کے مطابق برہان سے مراد وہ تعلیم ہے جو زنا کی سزا کے متعلق انہیں ملی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) اور اس عورت کے دل میں ان کا خیال تو جم ہی رہا تھا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھی کچھ کچھ خیال امر طبعی کے درجہ ہوچلا تھا اگر ان کے سامنے اپنے پروردگار کے گناہ دینے کا مشاہدہ نہ ہوتا جو کہ اس فعل پر لازم ہے، اور کہا گیا ہے کہ اس وقت انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت کو دیکھا مگر ہم نے اسی طرح علم دیا تھا تاکہ ان سے صغیرہ اور کبیرہ گناہ کو دور رکھیں (کہ ارادہ سے بھی بچایا اور فعل سے بھی بچایا) کیوں کہ وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔- یعنی اس کام سے معصوم و محفوظ رہنے والوں میں سے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ )- حضرت یوسف جوان تھے اور ممکن تھا طبع بشری کی بنیاد پر آپ کے دل میں بھی کوئی ایسا خیال جنم لیتا مگر اللہ نے اس نازک موقع پر آپ کی خصوصی مدد فرمائی اور اپنی خصوصی نشانی دکھا کر آپ کو کسی منفی خیال سے محفوظ رکھا۔ یہ نشانی کیا تھی اس کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں البتہ تورات میں اس کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے کہ عین اس موقع پر حضرت یعقوب کی شکل دیوار پر ظاہر ہوئی اور آپ نے انگلی کا اشارہ کر کے حضرت یوسف کو باز رہنے کے لیے کہا۔- (كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ )- یعنی ہم نے اپنی نشانی دکھا کر حضرت یوسف سے برائی اور بےحیائی کا رخ پھیر دیا اور یوں آپ کی عصمت و عفت کی حفاظت کا خصوصی اہتمام کیا۔- (اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ )- واضح رہے کہ یہاں لفظ مُخْلَص (لام کی زبر کے ساتھ) آیا ہے۔ مُخلِص اور مخلص کے فرق کو سمجھ لیجیے۔ مُخلِص اسم الفاعل ہے یعنی خلوص و اخلاص سے کام کرنے والا اور مخلص وہ شخص ہے جس کو خالص کرلیا گیا ہو۔ اللہ کے مخلص وہ ہیں جن کو اللہ نے اپنے لیے خالص کرلیا ہو ‘ یعنی اللہ کے خاص برگزیدہ اور چہیتے بندے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :22 برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے ۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سجھائی ہوئی دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف علیہ السلام کی ضمیر نے ان کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اس عورت کی دعوت عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے ۔ اور وہ دلیل تھی کیا ؟ اسے پچھلے فقرے میں بیان کیا جاچکا ہے ، یعنی یہ کہ ”میرے رب نے تو مجھے یہ منزلت بخشی اور میں ایسا برا کام کروں ، ایسے ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہوا کرتی“ ۔ یہی وہ برہان حق تھی جس نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو اس نوخیز جوانی کے عالم میں ایسے نازک موقع پر معصیت سے باز رکھا ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ” یوسف علیہ السلام بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا “ تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت پر بھی پوری روشنی پڑجاتی ہے ۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت و استعداد سلب کر لی گئی ہے حتی کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے ۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود ، اور جملہ انسانی جذبات ، احساسات اور خواہشات رکھتے ہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا ۔ وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی ۔ اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی فورا وحی جلی کے ذریعہ سے اس کی اصلاح فرما دیتا ہے ، کیونکہ اس کی لغزش تنہا ایک شخص کی لغزش نہیں ہے ، ایک پوری امت کی لغزش ہے ۔ وہ راہ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دنیا گمراہی میں میلوں دور نکل جائے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :23 اس ارشاد کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا دلیل رب کو دیکھنا اور گناہ سے بچ جانا ہماری توفیق و ہدایت سے ہوا کیونکہ ہم اپنے اس منتخب بندے سے بدی اور بے حیائی کو دور کرنا چاہتے تھے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے ، اور یہ زیادہ گہرا مطلب ہے کہ یوسف علیہ السلام کو یہ معاملہ جو پیش آیا تو یہ بھی دراصل ان کی تربیت کے سلسلہ میں ایک ضروری مرحلہ تھا ۔ ان کو بدی اور بے حیائی سے اپک کرنے اور ان کی طہارت نفس کو درجہ کمال پر پہنچانے کے لیے مصلحت الہٰی میں یہ ناگزیر تھا کہ ان کے سامنے معصیت کا ایک ایسا نازک موقع پیش آئے اور اس آزمائش کے وقت وہ اپنے ارادے کی پوری طاقت پرہیزگاری و تقوی کے پلڑے میں ڈال کر اپنے نفس کے برے میلانات کو ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر شکست دے دیں ۔ خصوصیت کے ساتھ اس مخصوص طریقہ تربیت کے اختیار کرنے کی مصلحت اور اہمیت اس اخلاقی ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے جو اس وقت کی مصری سوسائٹی میں پایا جاتا تھا ۔ آگے رکوع ٤ میں اس ماحول کی جو ایک ذرا سی جھلک دکھائی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے ”مہذب مصر“ میں بالعموم اور اس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو ”فائز“ پا رہے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ایسے بگڑے ہوئے لوگوں میں رہ کر کام کرنا تھا ، اور کام بھی ایک معمولی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فرمانروائے ملک کی حیثیت سے کرنا تھا ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو خواتین کرام ایک حسین غلام کے آگے بچھی جا رہی تھیں ، وہ ایک جوان اور خوبصورت فرمانروا کو پھانسنے اور بگاڑنے کے لیے کیا نہ کر گزرتیں ۔ اسی کی پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ ایک طرف تو ابتدا ہی میں اس آزمائش سے گزار کر حضرت یوسف علیہ السلام کو پختہ کر دیا ، اور دوسری طرف خود خواتین مصر کو بھی ان سے مایوس کر کے ان کے سارے فتنوں کا دروازہ بند کر دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: یہاں ’’آقا‘‘ سے مراد اﷲ تعالیٰ بھی ہوسکتے ہیں، اور وہ عزیز مصر بھی ہوسکتا ہے جس نے اُنہیں اپنے گھر میں عزّت سے رکھا ہوا تھا، اور مطلب یہ ہوگا کہ تم میرے آقا کی بیوی ہو، اور میں تمہاری بات مان کر اُس کے ساتھ خیانت کیسے کرسکتا ہوں۔ 16: اس آیت کی تفسیر دو طریقے سے ممکن ہے۔ ایک یہ کہ اگر حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رَبّ کی طرف سے ایک دلیل نہ دیکھ لیتے تو اُن کے دل میں بھی اُس عورت کی طرف جھکاو پیدا ہوجاتا، لیکن چونکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُنہیں ایک دلیل نظر آگئی (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔) اس لئے ان کے دِل میں اُس عورت کے بارے میں کوئی بُرا خیال تک نہیں آیا۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شروع میں ان کے دِل میں بھی تھوڑا سا میلان پیدا ہوا تھا جو ایک بشری تقاضا ہے، مگر بقولِ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ اِس کی بہترین مثال ایسی ہے جیسے پیاس کی حالت میں روزہ دار کو ٹھنڈا پانی دیکھ کر طبعی طور پر اُس کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے، لیکن روزہ توڑنے کا بالکل ارادہ نہیں ہوتا، اسی طرح غیر اختیاری طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کے دل میں بھی میلان پیدا ہوا، اور اگر وہ اپنے رَبّ کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو یہ میلان آگے بھی بڑھ سکتا تھا، لیکن اپنے رَبّ کی دلیل دیکھنے کے بعد وہ غیر اختیاری جھکاؤ سے آگے نہیں بڑھا۔ زیادہ تر مفسرین نے اس دوسری تفسیر کو اس لئے اختیار کیا ہے کہ اوّل تو یہ عربی زبان کے قواعد کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہے، دوسرے اس سے حضرت یوسف علیہ السلام کے مقامِ بلند کا مزید اندازہ ہوتا ہے۔ اگر ان کے دل میں یہ غیر اختیاری خیال بھی پیدا نہ ہوتا تو گناہ سے بچنا اتنا مشکل نہیں تھا، لیکن اس جھکاو کے باوجود اپنے آپ کو بچانا زبردست اُولوالعزمی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دِل کے تقاضے کے باوجود اﷲ تعالیٰ کے خوف سے اپنے آپ پر قابو رکھنا اور گناہ سے بچنا بڑے اَجر و ثواب کا کام ہے۔ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ وہ دلیل کیا تھی جسے اﷲ تعالیٰ نے ’’اپنے رَبّ کی دلیل‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے؟ اس سوال کا واضح اور بے غبار جواب یہ ہے کہ اس سے مراد اس عمل کے گناہ ہونے کی دلیل ہے جس کی طرف انہوں نے دھیان رکھا، اور گناہ سے محفوظ رہے۔ بعض روایات میں اس کی یہ تفسیر بھی آئی ہے کہ اُس وقت اُن کو اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت دِکھا دی گئی تھی۔ واللہ سبحانہ اعلم۔