الزام کی مدافعت اور بچے کی گواہی حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہاں سے دروازے کی طرف دوڑے اور یہ عورت آپ کو پکڑنے کے ارادے سے آپ کے پیچھے بھاگی ۔ پیچھے سے کرتا اس کے ہاتھ میں آگیا ۔ زور سے اپنی طرف گھسیٹا ۔ جس سے حضرت یوسف پیچھے کی طرف گر جانے کی قریب ہوگئے لیکن آپ نے آگے کو زور لگا کر دوڑ جاری رکھی اس میں کرتا پیچھے سے بالکل بےطرح پھٹ گیا اور دونوں دروازے پر پہنچ گئے دیکھتے ہیں کہ عورت کا خاوند موجود ہے ۔ اسے دیکھتے ہی اس نے چال چلی اور فوراً ہی سارا الزام یوسف کے سر تھوپ دیا اور اپنی پاک دامنی بلکہ عصمت اور مظلومیت جتانے لگی ۔ سوکھا سامنہ بنا کر اپنے خاوند سے اپنی بپتا اور پھر پاکیزگی بیان کرتے ہوئے کہتی ہے فرمائیے حضور آپ کی بیوی سے جو بدکاری کا ارادہ رکھے اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ قید سخت یا بری مار سے کم تو ہرگز کوئی سزا اس جرم کی نہیں ہو سکتی ۔ اب جب کہ حضرت یوسف نے اپنی آبرو کو خطرے میں دیکھا اور خیانت کی بدترین تہمت لگتی دیکھی تو اپنے اوپر سے الزام ہٹانے اور صاف اور سچی حقیقت کے ظاہر کر دینے کے لیے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہی میرے پیچھے پڑی تھیں ، میرے بھاگنے پر مجھے پکڑ رہی تھی ، یہاں تک کہ میرا کرتا بھی پھاڑ دیا ۔ اس عورت کے قبیلے سے ایک گواہ نے گواہی دی ۔ اور مع ثبوت و دلیل ان سے کہا کہ پھٹے ہوئے پیرہن کو دکھ لو اگر وہ سامنے کے رخ سے پھٹا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا ہے اس نے اسے اپنی طرف لانا چاہا اس نے اسے دھکے دیئے ۔ روکا منع کیا ہٹایا اس میں سامنے سے کرتا پھٹ گیا تو واقع قصور وار مرد ہے اور عورت جو اپنی بےگناہی بیان کرتی ہے وہ سچی ہے فی الواقع اس صورت میں وہ سچی ہے ۔ اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا پاؤ تو عورت کے جھوٹ اور مرد کے سچ ہو نے میں شبہ نہیں ۔ ظاہر ہے کہ عورت اس پر مائل تھی یہ اس سے بھاگا وہ دوڑی ، پکڑا ، کرتا ہاتھ میں آگیا اس نے اپنی طرف گھسیٹا اس نے اپنی جانب کھینچا وہ پیچھے کی طرف سے پھٹ گیا ۔ کہتے ہیں یہ گواہ بڑا آدمی تھا جس کے منہ پر داڑھی تھی یہ عزیز مصر کا خاص آدمی تھا اور پوری عمر کا مرد تھا ۔ اور زلیخا کے چچا کا لڑکا تھا زلیخا بادشاہ وقت ریان بن ولید کی بھانجی تھی پس ایک قول تو اس گواہ کے متعلق یہ ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا دودھ پیتا گہوارے میں جھولتا بچہ تھا ۔ ابن جریر میں ہے کہ چار چھوٹے بچوں چھٹپن میں ہی کلام کیا ہے اس پوری حدیث میں ہے اس بچے کا بھی ذکر ہے اس نے حضرت یوسف صدیق کی پاک دامنی کی شہادت دی تھی ۔ ابن عباس فرماتے ہیں چار بچوں نے کلام کیا ہے ۔ فرعون کی لڑکی کی مشاطہ کے لڑکے نے ۔ حضرت یوسف کے گواہ نے ۔ جریج کے صاحب نے اور حضرت عیسٰی بن مریم علیہ السلام نے ۔ مجاہد نے تو ایک بالکل ہی غریب بات کہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں وہ صرف اللہ کا حکم تھا کوئی انسان تھا ہی نہیں ۔ اسی تجویز کے مطابق جب زلیخا کے شوہر نے دیکھا تو حضرت یوسف کے پیراہن کو پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا دیکھا ۔ اس کے نزدیک ثابت ہو گیا کہ یوسف سچا ہے اور اس کی بیوی جھوٹی ہے وہ یوسف صدیق پر تہمت لگا رہی ہے تو بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو تم عورتوں کا فریب ہے ۔ اس نوجوان پر تم تہمت باندھ رہی ہو اور جھوٹا الزام رکھ رہی ہو ۔ تمہارے چلتر تو ہیں ہی چکر میں ڈال دینے والے ۔ پھر حضرت یوسف سے کہتا ہے کہ آپ اس واقعہ کو بھول جائیے ، جانے دیجئے ۔ اس نامراد واقعہ کا پھر سے ذکر ہی نہ کیجئے ۔ پھر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو نرم آدمی تھا نرم اخلاق تھے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ جان رہا تھا کہ عورت معذور سمجھے جانے کے لائق ہے اس نے وہ دیکھا جس پر صبر کرنا بہت مشکل ہے ۔ اس لیے اسے ہدایت کر دی کہ اپنے برے ارادے سے توبہ کر ۔ سراسر تو ہی خطا وار ہے ۔ کیا خود اور الزام دوسروں کے سر رکھا ۔
25۔ 1 جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ عورت برائی کے ارتکاب پر مصر ہے، تو وہ باہر نکلنے کے لئے دروازے کی طرف دوڑے، یوسف (علیہ السلام) کے پیچھے انھیں پکڑنے کے لئے عورت بھی دوڑی۔ یوں دونوں دروازے کی طرف لپکے اور دوڑے۔ 25۔ 2 یعنی خاوند کو دیکھتے ہی خود معصوم بن گئی اور مجرم تمام تر یوسف (علیہ السلام) کو قرار دے کر ان کے لئے سزا بھی تجویز کردی۔ حالانکہ صورت حال اس کے برعکس تھی، مجرم خود تھی جب کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بالکل بےگناہ اور برائی سے بچنے کے خواہش مند اور اس کے لئے کوشاں تھے۔
[٢٥] جب زلیخا نے چھیڑ چھاڑ کے ذریعہ سیدنا یوسف کے جذبات کو برانگیختہ کرنا چاہا تو آپ دروازے کی طرف بڑھے تاکہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائیں اور زلیخا ان کے پیچھے دوڑی اور آپ کو پیچھے سے اپنے پاس کھینچنا چاہا۔ اس کشمکش میں زلیخا نے پیچھے سے سیدنا یوسف کی قمیص کو پکڑ کر کھینچا تو قمیص پیچھے سے پھٹ گئی۔ تاہم یوسف دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوگئے اور جب دروازہ کھلا تو دفعتاً عزیز مصر دروازے پر کھڑا موجود تھا۔ جس نے بچشم خود دیکھ لیا کہ دونوں ایک بند کمرے سے باہر آرہے ہیں۔ آگے یوسف ہیں اور پیچھے زلیخا، اور یہ کچھ بدکاری کے امکان کے لیے کافی ثبوت تھا یا کم از کم ایسا شبہ ضرور پڑ سکتا تھا۔- [٢٦] زلیخا کا چلتر :۔ جب زلیخا نے اپنے خاوند کو دروازے پر کھڑا دیکھا تو یک لخت اسے ایک ترکیب سوجھی اس نے اس کارروائی کا تمام تر الزام سیدنا یوسف کے سر تھوپ دیا۔ پھر صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ کہہ کر آپ کو سزا دلوانے کی بھی کوشش کی کہ اسی نے مجھ سے برائی کا ارارہ کیا تھا۔ اس طرح کے چلتر سے اس نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ ایک تو اپنے آپ کو پاکدامن ثابت کرنے کی کوشش کی، حالانکہ وہ خود ہی برائی کی اصل جڑ تھی اور دوسرے جو سیدنا یوسف نے اس کی خواہش کو ٹھکرا دیا تھا اور اس نے اسے اپنی توہین سمجھا تھا۔ اس کے عوض آپ کو اپنے خاوند سے سزا دلوانا چاہی اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو بےقصور ثابت کرنے کے لیے یوسف کے لیے شدید سزا یا قید کا مطالبہ کردیا۔
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ ۔۔ : علماء نے لکھا ہے کہ اس جملے کا تعلق ” وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۔۔ “ کے ساتھ ہے اور ” كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ ۔۔ “ درمیان میں جملہ معترضہ ہے جو یوسف (علیہ السلام) کی پاک بازی کو ثابت کرنے کے لیے لایا گیا ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورت نے زنا کا عزم کیا، مگر یوسف (علیہ السلام) نے انکار کیا، چناچہ اسی کشمکش میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے، آگے یوسف (علیہ السلام) اور پیچھے عزیز کی بیوی۔ یوسف (علیہ السلام) اس لیے کہ جلدی سے دروازہ کھول کر بھاگ جائیں اور عزیز کی بیوی دوڑی کہ پہلے پہنچ کر انھیں دروازہ کھول کر بھاگنے نہ دے۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ دروازے جو عزیز کی بیوی نے بہت اچھی طرح بند کیے جب یوسف (علیہ السلام) گناہ سے بچنے کے لیے بند دروازوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بھاگے تو اللہ تعالیٰ نے کھولنے میں بھی مدد فرما دی۔ اسی مقصد کے لیے اس نے پیچھے سے قمیص پکڑی کہ روک لے مگر قمیص پھاڑ کر بھی روکنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ یوسف دروازے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، ساتھ ہی وہ بھی نکلی تو اچانک دونوں نے اس کے خاوند کو سامنے پایا۔ اب وہ سارا ” عشق حقیقی “ جس کی داستان ہمارے قصہ گو مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں اور اسے ایک رسول خدا کا عشق صادق ہونے کی وجہ سے معرفتِ الٰہی کی ایک منزل قرار دیتے ہیں، ایک لمحہ میں بہتان کے سانچے میں ڈھل گیا۔ کہنے لگی، اس شخص کی کیا جزا ہے جس نے تیری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا، سوائے اس کے کہ قید کیا جائے یا دردناک سزا ہو ؟ سبحان اللہ خاوند کو بھڑکانے کے لیے، جو غلام کو ورغلانے والی تھی وہ خاوند کی عفت مآب گھر والی بن گئی، دعویٰ کرنے والی بھی خود ہی بن گئی اور دعویٰ یہ نہیں کہ اس نے کوئی چھیڑ چھاڑ کی یا دست درازی کی ہے، بلکہ صرف یہ کہ برائی کا ارادہ کیا ہے، اب کسی کے سینے کے اندر جا کر کون تحقیق کرے کہ ارادہ تھا بھی یا نہیں اور تھا تو کیا تھا ؟ پھر اس الزام کے ثبوت کے لیے کوئی گواہ یا قرینہ پیش نہیں کیا، اس کے باوجود خود ہی سزا سنانے والی جج بن گئی کہ اس کے لیے ان دو سزاؤں میں سے ایک کے سوا ہو ہی کیا سکتی ہے ؟
خلاصہ تفسیر :- ( اور جب اس عورت نے پھر وہی اصرار کیا تو یوسف (علیہ السلام) وہاں سے جان بچا کر بھاگے اور وہ ان کو پکڑنے کے لئے ان کے پیچھے چلی) اور وہ دونوں آگے پیچھے دروازہ کی طرف دوڑے اور (دوڑنے میں جو ان کو پکڑنا چاہا تو) اس عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے پھاڑ ڈالا (یعنی اس نے کرتہ پکڑ کر کھینچنا چاہا اور یوسف (علیہ السلام) آگے کی طرف دوڑے تو کرتہ پھٹ گیا مگر یوسف (علیہ السلام) دروازے سے باہر نکل گئے) اور (عورت بھی ساتھ تھی تو) دونوں نے (اتفاقا) اس عورت کے شوہر کو دروازے کے پاس (کھڑا) پایا عورت (خاوند کو دیکھ کر سٹ پٹائی اور فورا بات بنا کر) بولی کہ جو شخص تیری بی بی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے اس کی سزا بجز اس کے اور کیا (ہو سکتی) ہے کہ وہ جیل خانے بھیجا جائے یا اور کوئی دردناک سزا ہو (جیسے ضرب جسمانی) یوسف (علیہ السلام) نے کہا (کہ یہ جو میری طرف الزام کا اشارہ کرتی ہے بالکل جھوٹی ہے بلکہ معاملہ برعکس ہے) یہی مجھ سے اپنا مطلب نکالنے کے لئے مجھ کو پھسلاتی تھی اور (اس موقع پر) اس عورت کے خاندان میں سے ایک گواہ نے (جو کہ شیرخواربچہ تھا اور یوسف (علیہ السلام) کے معجزے سے بول پڑا اور آپ کی براءت پر) شہادت دی (اس بچہ کا بولنا ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ایک معجزہ تھا اس پر دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ اس شیر خوار بچہ نے ایک معقول علامت بتا کر عاقلانہ فیصلہ بھی کیا اور کہا) کہ ان کا کرتہ (دیکھو کہاں سے پھٹا ہے) اگر آگے سے پھٹا ہے تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹے اور اگر وہ کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں سو جب (عزیز نے) ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا (عورت سے) کہنے لگا کہ یہ تم عورتوں کی چالاکی ہے بیشک تمہاری چالاکیاں بھی غضب کی ہوتی ہیں (پھر یوسف (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا) اے یوسف اس بات کو جانے دو (یعنی اس کا چرچا یا خیال مت کرو) اور (عورت سے کہا کہ) اے عورت تو (یوسف سے) اپنے قصور کی معافی مانگ بیشک سرا سر تو ہی قصور وار ہے،- معارف و مسائل :- پچھلی آیات میں یہ بیان آیا ہے کہ جس وقت عزیز مصر کی بیوی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو گناہ میں مبتلا کرنے کی کوشش میں مشغول تھی اور یوسف (علیہ السلام) اس سے بچ رہے تھے مگر فطری اور غیر اختیاری خیال کی کشمکش میں مشغول بھی تھی تو حق تعالیٰ نے اپنے برگذیدہ پیغمبر کی اعانت کیلئے بطور معجزہ کے کوئی ایسی چیز سامنے کردی جس نے دل سے وہ غیراختیاری خیال بھی نکال ڈالا خواہ وہ چیز اپنے والد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت ہو یا وحی الہی کی کوئی آیت،- آیت مذکورہ میں یہ بتلایا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اس خلوت گاہ میں اس برہان ربی کا مشاہدہ کرتے ہی وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور باہر نکلنے کے لئے دروازہ کی طرف دوڑے عزیز کی بیوی ان کو پکڑنے کے لئے پیچھے دوڑی اور یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ پکڑ کر ان کو باہر جانے سے روکنا چاہا وہ عزم کے مطابق نہ رکے تو پیچھے سے پھٹ گیا مگر یوسف (علیہ السلام) دروازہ سے باہر نکل آئے اور ان کے پیچھے زلیخا بھی تاریخی روایتوں میں مذکور ہے کہ دروازہ پر قفل لگا دیا تھا جب یوسف (علیہ السلام) دوڑ کر دروازہ پر پہنچنے تو خود بخود یہ قفل کھل کر گرگیا ، جب یہ دونوں دروازے سے باہر آئے تو دیکھا کہ عزیز مصر سامنے کھڑے ہیں ان کی بیوی سہم گئی اور بات یوں بنائی کہ الزام اور تہمت یوسف (علیہ السلام) پر ڈالنے کے لئے کہا کہ جو شخص آپ کی بیوی کے ساتھ برے کام کا ارادہ کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ ان کو قید میں ڈالا جائے یا کوئی دوسری جسمانی سخت سزا دی جائے۔- احکام و مسائل :- آیات مذکورہ سے چند اہم مسائل اور احکام نکلتے ہیں۔- اول : آیت واسْتَبَقَا الْبَابَ سے یہ معلوم ہوا کہ جس جگہ گناہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اس جگہ ہی کو چھوڑ دینا چاہئے جیسا یوسف (علیہ السلام) نے وہاں سے بھاگ کر اس کا ثبوت دیا،- دوسرامسئلہ : یہ کہ احکام الہیہ کی اطاعت میں انسان پر لازم ہے کہ اپنی مقدور بھر کوشش میں کمی نہ کرے خواہ اس کا نتیجہ بظاہر کچھ برآمد ہوتا نظر نہ آئے نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں انسان کا کام اپنی محنت اور مقدور کو اللہ کی راہ میں صرف کر کے اپنی بندگی کا ثبوت دینا ہے جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دروازے سب بند ہونے اور تاریخی روایات کے مطابق مقفل ہونے کے باوجود دروازہ کی طرف دوڑنے میں اپنی پوری قوت خرچ فرما دی ایسی صورت میں اللہ جل شانہ کی طرف سے امداد واعانت کا بھی اکثر مشاہدہ ہوتا ہے کہ بندہ جب اپنی کوشش پوری کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کامیابی کے اسباب بھی مہیا فرما دیتے ہیں مولانارومی (رح) نے اسی مضمون پر ارشاد فرمایا ہے - گرچہ رخنہ نیست عالم را پدید۔ خیرہ یوسف وارمی بایدد دید - ایسی صورت میں اگر ظاہری کامیابی بھی حاصل نہ ہو تو بندہ کے لئے یہ ناکامی بھی کامیابی سے کم نہیں - گر مرادت را مذاق شکرست۔ نامرادی نے مراد دلبرست - ایک بزرگ عالم جیل میں تھے جمعہ کے روز اپنی قدرت کے مطابق غسل کرتے اور اپنے کپڑے دھو لیتے اور پھر جمعہ کے لئے تیار ہو کر جیل خانہ کے دروازے تک جاتے وہاں پہنچ کر عرض کرتے کہ یا اللہ میری قدرت میں اتنا ہی تھا آگے آپ کے اختیار میں ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ سے کچھ بعید نہ تھا کہ ان کی کرامت سے جیل کا دروازہ کھل جاتا اور یہ نماز جمعہ ادا کرلیتے لیکن اس نے اپنی حکمت سے اس بزرگ کو وہ مقام عالی عطا فرمایا جس سے ہزاروں کرامتیں قربان ہیں کہ ان کے اس عمل کی وجہ سے جیل کا دروازہ نہ کھلا مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے کام میں ہمت نہیں ہاری ہر جمعہ کو مسلسل یہی عمل جاری رکھا یہی وہ استقامت ہے جس کو اکابر صوفیاء نے کرامت سے بالاتر فرمایا ہے،- تیسرامسئلہ : اس سے یہ ثابت ہوا کہ کسی شخص پر کوئی غلط تہمت باندھی تو اپنی صفائی پیش کرنا سنت انبیاء (علیہم السلام) ہے یہ کوئی توکل یا بزرگی نہیں کہ اس وقت خاموش رہ کر اپنے آپ کو مجرم قرار دیدے،- چوتھامسئلہ : اس میں شاہد کا ہے یہ لفظ جب عام فقہی معاملات اور مقدمات میں بولا جاتا ہے تو اس سے وہ شخص مراد ہوتا ہے جو زیر نزاع معاملہ کے متعلق اپنا چشم دید کوئی واقعہ بیان کرے اس آیت میں جس کو شاہد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اس نے کوئی واقعہ یا اس کے متعلق اپنا کوئی مشاہدہ بیان نہیں کیا بلکہ فیصلہ کرنے کی ایک صورت کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو اصطلاحی طور پر شاہد نہیں کہا جاسکتا۔- مگر ظاہر ہے کہ یہ اصطلاحات سب بعد کے علماء وفقہاء نے افہام و تفہیم کے لئے اختیار کرلی ہیں قرآن حکیم کی نہ یہ اصطلاحیں ہیں نہ وہ ان کو پابند ہے قرآن کریم نے یہاں اس شخص کو شاہد اس معنی کے اعتبار سے فرمایا ہے کہ جس طرح شاہد کے بیان سے معاملہ کا تصفیہ آسان ہوجاتا ہے اور کسی ایک فریق کا حق پر ہونا ثابت ہوجاتا ہے اس بچہ کے بیان سے بھی یہی فائدہ حاصل ہوگیا کہ اصل تو اس کی معجزانہ گویائی ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی براءت کے لئے شاہد تھی اور پھر اس نے جو علامات بتلائیں ان کا حاصل بھی انجام کار یوسف (علیہ السلام) ہی کی براءت کا ثبوت ہے اس لئے یہ کہناصحیح ہوگیا کہ اس نے یوسف (علیہ السلام) کے حق میں گواہی دی حالانکہ اس نے یوسف (علیہ السلام) کو سچا نہیں کہا بلکہ دونوں احتمالوں کا ذکر کردیا تھا، اور ذلیخا کے سچے ہونے کا ایک ایسی صورت میں بھی فرضی طور پر تسلیم کرلیا تھا جس میں ان کا سچا ہونا یقینی نہ تھا بلکہ دوسرا بھی احتمال موجود تھا کیونکہ کرتے کا سامنے سے پھٹنا دونوں صورتوں میں ممکن ہے اور یوسف (علیہ السلام) کے سچے ہونے کو صرف ایسی صورت میں تسلیم کیا تھا جس میں اس کے سوا کوئی دوسرا احتمال ہی نہیں ہوسکتا لیکن انجام کار نتیجہ اس حکمت عملی کا یہی تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کا بری ہونا ثابت ہو،- پانچواں مسئلہ : اس میں یہ ہے کہ مقدمات اور خصومات کے فیصلوں میں قرائن اور علامات سے کام لیا جاسکتا ہے جیسا کہ اس شاہد نے کرتے کے پیچھے سے پھٹنے کو اس کی علامت قرار دیا کہ یوسف (علیہ السلام) بھاگ رہے تھے زلیخا پکڑ رہی تھی اس معاملہ میں اتنی بات پر تو سب فقہاء کا اتفاق ہے کہ معاملات کی حقیقت پہچاننے میں علامات اور قرائن سے ضرور کام لیا جائے جیسا کہ یہاں کیا گیا لیکن محض علامات و قرائن کو کافی ثبوت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا واقعہ یوسف (علیہ السلام) میں بھی در حقیقت براءت کا ثبوت تو اس بچہ کی معجزانہ انداز سے گویائی ہے علامات وقرائن جن کا ذکر کیا گیا ہے ان سے اس معاملہ کی تائید ہوگی،- بہرحال یہاں تک یہ ثابت ہوا کہ جب زلیخا نے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر تہمت و الزام لگایا تو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے بچہ کو خلاف عادت گویائی دے کر اس کی زبان سے یہ حکیمانہ فیصلہ صادر فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کے کرتے کو دیکھو اگر وہ پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ اس کی صاف علامت ہے کہ وہ بھاگ رہے تھے اور زلیخا پکڑ رہی تھی یوسف (علیہ السلام) بےقصور ہیں،
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ ٠ۭ قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَہْلِكَ سُوْۗءًا اِلَّآ اَنْ يُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ٢٥- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔- باب - البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب .- الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔- قدد - القَدُّ : قطع الشیء طولا . قال تعالی: إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ- [يوسف 26] ، وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] . والْقِدُّ : الْمَقْدُودُ ، ومنه قيل لقامة الإنسان : قَدٌّ ، کقولک : تقطیعه وقَدَّدْتُ اللّحم فهو قَدِيدٌ ، والقِدَدُ : الطّرائق . قال : طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ، الواحدة : قِدَّةٌ ، والْقِدَّةُ : الفِرقة من الناس، والْقِدَّةُ کالقطعة، واقْتَدَّ الأمر : دبّره، کقولک : فصله وصرمه . ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( ق د د ) القد - ( ق د د ) القد کے معنی کسی چیز کو طول میں قطع کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف 26] اگر ان کا کرتہ آگے سے پھٹا ہو۔ وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو ۔ القد بمعنی مقدود ہے اور اسی سے انسان کے قدوقامت کو قد کہاجاتا ہے جیسا کہ ۔ تقطیع الانسان ( انسان کا قدوقامت ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ قددت اللحم کے معنی گوشت کے پارچے بنانے کے ہیں اور کٹے ہوئے گوشت کو قدید کہاجاتا ہے ۔ القدد اس کا واحد قدۃ ہے اور اس کے معنی مختلف طرق اور مذاہب کے ہیں جیسے فرمایا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ہمارے کئی طرح کے مذاہب ہیں ۔ اور قدہ کے معنی لوگوں کی ٹولی اور گروہ کے بھی آتے ہیں جیسے قطعۃ اقتدالامر کسی کا م کی تدبیر کرنا جیسا کہ : فصل وحرم الامر کا محاورہ ہے ۔ ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- قمیص - الْقَمِيصُ معروف، وجمعه قُمُصٌ وأَقْمِصَةٌ وقُمْصَانٌ. قال تعالی: إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف 26] ، وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] وتَقَمَّصَهُ : لبسه، وقَمَصَ البعیر يَقْمُصُ ويَقْمِصُ : إذا نزا، والقُمْاصُ : داء يأخذه فلا يستقرّ به موضعه ومنه ( القَامِصَةُ ) في الحدیث .- ( ق م ص ) القمیص - قمیص ۔ کرتہ ۔ جمع قمص واقمصتہ وقمصان قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف 26] اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہو ۔ وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو ۔ تقمصتہ قمیص پہنا ۔ قمص ( ن ۔ ض ) البعیر اونٹ کا جست کرنا ۔ القماص اونٹ کا ایک مرض جو اسے چین سے کھڑا ہونے نہیں دیتا اور اسی سے لفظ قامصتہ ہے جس کو ذکر حدیث میں آیا ہے ( 85 )- دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - لفی - أَلْفَيْتُ : وجدت . قال اللہ : قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا - [ البقرة 170] ، وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل ف ی) - الفیت کے معنی وجدت یعنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛- قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا[ البقرة 170] بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ۔ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں نے دروازے کے پاس اس کے شوہر کو پایا ۔ - سَّيِّدُ :- المتولّي للسّواد، أي : الجماعة الكثيرة، وينسب إلى ذلک فيقال :- سيّد القوم، ولا يقال : سيّد الثّوب، وسيّد الفرس، ويقال : سَادَ القومَ يَسُودُهُمْ ، ولمّا کان من شرط المتولّي للجماعة أن يكون مهذّب النّفس قيل لكلّ من کان فاضلا في نفسه :- سَيِّدٌ. وعلی ذلک قوله : وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران 39] ، وقوله : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف 25] ، فسمّي الزّوج سَيِّداً لسیاسة زوجته، وقوله : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا - [ الأحزاب 67] ، أي : ولاتنا وسَائِسِينَا .- اور سید کے معنی - بڑی جماعت کا سردار کے ہیں چناچہ اضافت کے وقت سیدالقوم تو کہا جاتا ہے ۔ مگر سید الثوب یا سیدالفرس نہیں بالو جاتا اور اسی سے سادا القوم یسودھم کا محاورہ ہے چونکہ قوم کے رئیس کا مہذب ہونا شرط ہے اس اعتبار ہر فاضل النفس آدمی سید کہا جاتا چناچہ آیت وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران 39] اور سردار ہوں گے اور عورت سے رغبت نہ رکھنے والے ۔ میں بھی سید کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف 25] اور دونوں کو عورت کا خاوند مل گیا ۔ میں خاوند کو سید کہا گیا ہے کیونکہ وہ بیوی کا نگران اور منتظم ہوتا ہے اور آیت : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا[ الأحزاب 67] اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا ۔ میں سادتنا سے دلاۃ اور حکام مراد ہیں ۔- لدی - لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- سجن - السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33]- ( س ج ن ) السجن - ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
(٢٥) غرض کہ دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف دوڑے، اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) وہاں سے جان بچا کر نکلنے کے لیے بھاگے اور وہ دروازہ بند کرنے کے لیے دوڑی اور دوڑنے میں اس عورت نے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) سے دروازہ بند کرنے کے لیے سبقت کرنا چاہی تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پیچھے کی طرف پھاڑ ڈالی مگر یوسف (علیہ السلام) باہر نکل گئے تو دونوں نے اتفاقا اس عورت کے شوہر کو جو کہ اس کا چچا زاد بھائی تھا دروازہ پر کھڑا پایا تو وہ عورت فورا بات بنا کر اپنے خاوند سے کہنے لگی کہ جو شخص تیری بیوی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے، اس کی سزا سوائے اس کے کیا ہوسکتی ہے۔ کہ وہ جیل بھیج دیا جائے یا اسے اور کوئی درد ناک جسمانی سزا دی جائے۔
آیت ٢٥ (وَاسْتَبَقَا الْبَابَ )- یعنی حضرت یوسف نے جب دیکھا کہ اس عورت کی نیت خراب ہے اور اس پر شیطنت کا بھوت سوار ہے تو آپ اس سے بچنے کے لیے دروازے کی طرف لپکے اور آپ کے پیچھے وہ بھی بھاگی تاکہ آپ کو قابو کرسکے۔- (وَقَدَّتْ قَمِيْصَهٗ مِنْ دُبُرٍ )- آپ کو دوڑتے ہوئے دیکھ کر اس عورت نے آپ کی طرف تیزی سے لپک کر پیچھے سے آپ کو پکڑنے کی کوشش کی تو آپ کی قمیص اس کے ہاتھ میں آکر پھٹ گئی۔- (وَّاَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الْبَابِ )- اس عورت نے لازماً ایسے وقت کا انتخاب کیا ہوگا جب اس کا خاوند گھر سے باہر تھا اور اس کے جلد گھر آنے کا امکان نہیں تھا ‘ مگر جونہی وہ دونوں آگے پیچھے دروازے سے باہر نکلے تو غیر متوقع طور پر اس کا خاوند عین دروازے پر کھڑا تھا۔ - (قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَهْلِكَ سُوْۗءًا اِلَّآ اَنْ يُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ)- اپنے خاوند کو دیکھتے ہی اس عورت نے فوراً پینترا بدلا اور اس کی غیرت کو للکارتے ہوئے بولی کہ اس لڑکے نے مجھ پر دست درازی کی ہے اور میں نے بڑی مشکل سے خود کو بچایا ہے۔ اب اس سے آپ ہی سمجھیں اور اسے کوئی عبرت ناک سزا دیں۔
17: حضرت یوسف (علیہ السلام) اس عورت سے رخ موڑ کر دروازے کی طرف بھاگ رہے تھے، عورت نے پیچھے سے انہیں کھینچنا چالا، اس سے قمیص پیچھے سے پھٹ گئی۔