Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ وہ عورت تمام الزام ان پر ہی دھر رہی ہے صورت حال واضح کردی اور کہا کہ مجھے برائی پر مجبور کرنے والی یہی ہے۔ میں اس سے بچنے کے لئے باہر دروازے کی طرف بھاگتا ہوا آیا ہوں۔ 26۔ 2 یہ انہی کے خاندان کا کوئی سمجھدار آدمی تھا جس نے یہ فیصلہ کیا۔ فیصلے کو یہاں شہادت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا، کیونکہ معاملہ ابھی تحقیق طلب تھا۔ شیر خوار بچے کی شہادت والی بات مستند روایات سے ثابت نہیں۔ صحیحین میں تین شیر خوار بچوں کے بات کرنے کی حدیث ہے جن میں یہ چوتھا نہیں ہے جس کا ذکر اس مقام پر کیا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ هِىَ رَاوَدَتْنِيْ عَنْ نَّفْسِيْ : یوسف (علیہ السلام) اب تک خاموش تھے اور انھوں نے خاموش ہی رہنا تھا، کیونکہ اللہ کے بندوں کی صفت پردہ پوشی ہے، مگر تہمت کے بعد خاموش رہنے کا مطلب اس الزام کو قبول کرنا تھا، اس لیے یوسف (علیہ السلام) نے اپنی صفائی پیش کرنا ضروری سمجھا، فرمایا اسی نے مجھے میرے نفس سے پھسلایا ہے۔- وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا ۔۔ : عزیز مصر اور گھر کے خصوصی افراد دونوں کی بات سن کر پس و پیش میں پڑگئے کہ کسے سچا کہیں اور کسے جھوٹا ؟ کیونکہ وقوعہ کے وقت کوئی شخص پاس موجود ہی نہ تھا۔ ایسے وقت میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ موقع دیکھ کر قرائن سے فیصلہ کیا جائے، اسے قرینے کی شہادت بھی کہتے ہیں۔ دیکھا گیا تو عورت کے جسم یا لباس پر دست درازی کا کوئی نشان نہ تھا۔ ہاں، یہ بات سب کو معلوم ہوچکی تھی کہ یوسف کی قمیص پھٹی ہے۔ عزیز مصر کی بیوی کے گھر والوں میں سے ایک سمجھ دار آدمی نے فیصلہ کیا (یہاں شہادت کا لفظ قرینے پر فیصلہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے) کہ قمیص کو دیکھ کر فیصلہ کرلو۔ ظاہر ہے کہ اس آدمی نے ابھی تک قمیص دیکھی نہ تھی، ورنہ وہ یہ نہ کہتا کہ قمیص دیکھو کدھر سے پھٹی ہے، بلکہ اس نے ایک مسلمہ قاعدے کے طور پر یہ فیصلہ دیا۔ جب عزیز مصر نے قمیص دیکھی کہ پیچھے سے پھٹی ہے تو ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی اور پھر صرف اپنی بیوی ہی نہیں سب عورتوں کے متعلق کہہ دیا کہ یقیناً یہ تمہارے فریب میں سے ایک فریب ہے، یقیناً تم عورتوں کا فریب بہت بڑا ہے۔ یہ شاہد کون تھا ؟ مستدرک حاکم اور بعض دوسری کتب میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ وہ ان چار بچوں میں سے ایک تھا جنھوں نے گود میں کلام کیا۔ اس حدیث کو بہت سے اصحاب نے صحیح یا حسن کہا ہے، مگر بہت سے اصحاب نے ضعیف بھی کہا ہے۔ جن میں سے شیخ ناصر الدین البانی (رض) سرفہرست ہیں۔ دیکھیے : ” سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ (٢؍٢٧١، ح : ٨٨٠) “ پوری بحث وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ حافظ ابن قیم (رض) نے بھی ” الجواب الکافی “ میں اسے ضعیف کہا ہے۔ میری دانست میں یہی بات درست ہے کہ وہ ایک سمجھ دار آدمی تھا، کیونکہ 1 خود ابن عباس (رض) کا قول ثقہ راویوں کے ساتھ تفسیر طبری میں ہے کہ وہ شاہد داڑھی والا مرد تھا۔ اگر ابن عباس (رض) کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان موجود ہوتا تو وہ کبھی اس کے خلاف نہ فرماتے، جب کہ ان کا یہ قول صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔ 2 اگر دودھ پیتے بچے نے گواہی دی تھی تو یہ معجزہ خود اکیلا ہی یوسف (علیہ السلام) کی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے کافی تھا، اس بچے کو عزیز مصر کی بیوی کا رشتہ دار بتائے جانے کی اور قمیص آگے یا پیچھے سے پھٹی ہونے کی پڑتال کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ہمارے بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اگرچہ اس بچے کا بول اٹھنا ہی بہت بڑا تھا، جس نے کلام کرنا سیکھا ہی نہیں، مگر قرآن نے اس پر اکتفا نہیں کیا، کیونکہ قرآن بنیادی طور پر دلیل یا تحقیق اور جستجو کو معیار ماننا یا منوانا چاہتا ہے۔ وہ نری تقدیس پر نہیں، تحقیق پر بنیاد رکھتا ہے۔ چناچہ بچے نے دلیل اور مشاہدہ کو فیصلے کی بنیاد قرار دیا اور کہا : ”(قمیص) دیکھ لو۔۔ “ اگر یہ بات درست مانی جائے تو پھر مریم [ کی پاک بازی کے ثبوت کے لیے بچے کے معجزۂ کلام کے سوا تحقیق کی کیا بنیاد تھی ؟ اور صحیح بخاری میں مذکور جریج پر جس بچے کا باپ ہونے کا الزام لگا تھا، وہاں صرف اس بچے کے بولنے کے سوا تحقیق کی بنیاد کیا تھی ؟ دونوں جگہ بچے کا بولنا ہی کافی دلیل تھا۔ - 3 یہاں بعض لوگ عورتوں کی مذمت کے طور پر عجیب صغریٰ کبریٰ ملاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عورتوں کا مکر و فریب شیطان کے مکر و فریب سے بھی بڑا ہے، دلیل یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے کید (مکر) کو عظیم قرار دیا، جب کہ شیطان کے کید کے متعلق فرمایا : (اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا) [ النساء : ٧٦ ] ” بیشک شیطان کی چال (کید) ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔ “ حالانکہ یہاں سورة یوسف میں یہ عزیز مصر کا قول نقل ہوا ہے اور اس نے بھی اپنی بیوی کا جرم ہلکا کرنے کے لیے تمام عورتوں کو اس میں لپیٹ لیا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اسے نقل کرکے اس پر رد نہیں فرمایا، مگر یہ قرآن کا طریقہ نہیں کہ بات سننے والے کی سمجھ میں آرہی ہو کہ کون کہہ رہا ہے اور کیوں کہہ رہا ہے تو اس کا رد ضرور ہی کرے۔ پھر دیکھیے حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کا کید (مکر) مردوں کے مقابلے میں عظیم ہے، جب کہ شیطان کا (مکر) اللہ تعالیٰ اور اس کی راہ میں لڑنے والوں کے مقابلے میں ضعیف ہے۔ یہاں قوت و ضعف کے فریق ہی الگ الگ ہیں۔ البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عورتوں کے فتنے سے ہوشیار رہنے کی تاکید صحیح احادیث سے ثابت ہے، اسامہ بن زید (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا تَرَکْتُ بَعْدِيْ فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ) [ بخاری، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ۔۔ : ٥٠٩٦ ] ” میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ “ ابوسعید خدری (رض) کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَذْھَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاکُنَّ یَامَعْشَرَ النِّسَاءِ ) [ بخاری، الزکوٰۃ، باب الزکاۃ علی الأقارب : ١٤٦٢ ] ” میں نے عقل اور دین کی ناقص شخصیات میں سے کسی کو تمہاری کسی ایک سے زیادہ ہوشیار آدمی کی عقل کو لے جانے والا نہیں دیکھا، اے عورتوں کی جماعت “ ” اور ابوبکرہ (رض) نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایرانیوں کے اپنے بادشاہ کی بیٹی کو بادشاہ مقرر کرنے پر فرمایا : ( لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَھُمُ امْرَأَۃً ) ” وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جنھوں نے اپنا امر (سلطنت) کسی عورت کے حوالے کردیا۔ “ [ بخاری،

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی پیغمبرانہ شرافت کی بناء پر غالباً اس کا راز فاش نہ فرماتے مگر جب اس نے پیش قدمی کر کے یوسف (علیہ السلام) پر تہمت رکھنے کا اشارہ کیا تو مجبور ہو کر انہوں نے حقیقت کا اظہار کیا کہ هِىَ رَاوَدَتْنِيْ عَنْ نَّفْسِيْ یعنی مجھ سے اپنا مطلب نکالنے کے لئے مجھے پھسلا رہی تھی - معاملہ بڑا نازک اور عزیز مصر کے لئے اس کا فیصلہ سخت دشوار تھا کہ ان میں سے کسے سچا سمجھے شہادت اور ثبوت کا کوئی موقع نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ جس طرح اپنے برگزیدہ بندوں کو گناہ سے بچا لیتے ہیں اور ان کو معصوم و محفوظ رکھتے ہیں اسی طرح دنیا میں بھی ان کو رسوائی سے بچانے کا انتظام معجزانہ انداز سے فرما دیتے ہیں اور عموماً ایسے مواقع پر ایسے چھوٹے بچوں سے کام لیا گیا ہے جو عادۃ بولنے بات کرنے کے قابل نہیں ہوتے مگر بطور معجزہ ان کو گویائی عطا فرما کر اپنے مقبول بندوں کی براءت کا اظہار فرما دیتے ہیں جیسے حضرت مریم پر جب لوگ تہمت باندھنے لگے تو صرف ایک دن (اور راجح قول کے مطابق چالیس) کے بچے حضرت عیسیٰ ٰ (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے گویائی عطا فرما کر ان کی زبان سے والدہ کی پاکی ظاہر فرما دی اور قدرت خداوندی کا ایک خاص مظہر سامنے کردیا، بنی اسرائیل کے ایک بزرگ جُرَیج پر اسی طرح کی ایک تہمت ایک بڑی سازش کے ساتھ باندھی گئی تو نوزائیدہ بچہ نے ان کی براءت کے لئے شہادت دی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر فرعون کو شبہ پیدا ہوا تو فرعون کی بیوی کے بال سنوارنے والی عورت کی چھوٹی بچی کو گویائی عطا ہوئی اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں فرعون کے ہاتھ سے بچایا،- ٹھیک اسی طرح یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے مطابق ایک چھوٹے بچہ کو حق تعالیٰ نے گویائی عطا فرمادی اور وہ بھی نہایت عاقلانہ اور حکیمانہ انداز کی یہ چھوٹا بچہ اسی گھر میں گہوارہ کے اندر پڑا تھا یہ کس کو گمان ہوسکتا تھا کہ وہ ان حرکتوں کو دیکھے اور سمجھے گا اور پھر اس کو کسی انداز سے بیان بھی کر دے گا مگر قادر مطلق اپنی اطاعت میں مجاہدہ کرنے والوں کی شان ظاہر کرنے لئے دنیا کو دکھلا دیتا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی خفیہ پولیس (سی آئی ڈی) ہے جو مجرم کو خوب پہچانتی اور اس کے جرائم کا ریکاڑد رکھتی ہے اور ضرورت کے وقت اس کا اظہار کردیتی ہے،- میدان حشر میں حساب کتاب میں حساب کتاب کے وقت انسان اپنی دنیا کی قدیم عادت کی بناء پر جب اپنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کرے گا تو اسی کے ہاتھ پاؤں اور کھال اور در و دیوار کو اس کے خلاف گواہ بنا کر کھڑے کردیا جائے گا وہ اس کی ایک ایک حرکت کو محشر کے عظیم الشان مجمع کے سامنے کھول کر رکھ دے گا اس وقت انسان کو پتہ لگے گا کہ ہاتھ پاؤں اور گھر کے در و دیوار اور حفاظتی انتظامات میں سے کوئی بھی میرا نہ تھا بلکہ یہ سب رب العزت کے خفیہ کارندے تھے،- خلاصہ یہ ہے کہ چھوٹا بچہ جو گہوارہ میں بظاہر اس دنیا کی ہر چیز سے غافل وبے خبر پڑا تھا وہ یوسف (علیہ السلام) کے معجزہ کے طور پر عین اس وقت بول اٹھا جب کہ عزیز مصر اس واقعہ سے کشمکش میں مبتلا تھا،- پھر یہ بچہ اگر صرف اتنا ہی کہہ دیتا کہ یوسف (علیہ السلام) بری ہیں زلیخا کا قصور ہے تو وہ بھی ایک معجزہ کی حیثیت سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حق میں براءت کی بڑی شہادت ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے اس بچہ کی زبان پر ایک حکیمانہ بات کہلوائی کہ یوسف (علیہ السلام) کے کرتے کو دیکھو اگر وہ آگے سے پھٹا ہے تب تو زلیخا کا کہنا سچا اور یوسف (علیہ السلام) جھوٹے ہو سکتے ہیں اور اگر وہ پیچھے سے پھٹا ہے تو اس میں اس کے سوا کوئی دوسرا احتمال ہی نہیں کہ یوسف (علیہ السلام) بھاگ رہے تھے اور زلیخا ان کو روکنا چاہتی تھی - یہ ایک ایسی بات تھی کہ بچہ کی گویائی کے اعجاز کے علاوہ خود بھی ہر ایک کی سمجھ میں آسکتی تھی اور جب بتلائی ہوئی علامت کے مطابق کرتہ کا پیچھے سے شق ہونا مشاہدہ کیا گیا تو یوسف (علیہ السلام) کی براءت ظاہری علامات سے بھی ظاہر ہو گئی - شاہد یوسف کی جو تفسیر ہم نے بیان کی ہے کہ وہ ایک چھوٹا بچہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ گویائی عطا فرما دی یہ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے جس کو امام احمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مسند میں اور ابن حبان (رح) نے اپنی کتاب صحیح میں اور حاکم (رح) نے مستدرک میں نقل کر کے حدیث صحیح قرار دیا ہے اس حدیث میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار بچوں کو گہوارہ میں گویائی عطاء فرمائی ہے یہ چاروں وہی ہیں جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں (مظہری) اور بعض روایات میں شاہد کی دوسری تفسیریں بھی نقل کی گئی ہیں مگر ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ ائمہ تفسیر نے پہلی ہی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ ہِىَ رَاوَدَتْنِيْ عَنْ نَّفْسِيْ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَہْلِہَا۝ ٠ۚ اِنْ كَانَ قَمِيْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝ ٢٦- راود - والمُرَاوَدَةُ : أن تنازع غيرک في الإرادة، فترید غير ما يريد، أو ترود غير ما يرود، ورَاوَدْتُ فلانا عن کذا . قال : هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] ، وقال : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] ، أي : تصرفه عن رأيه، - ( ر و د ) الرود - المراودۃ ( مفاعلہ ) یہ راود یراود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں ۔ یعنی ایک کا ارداہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ اور راودت فلان عن کزا کے معنی کسی کو اس کے ارداہ سے پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] اس نے مجھے میرے ارداہ سے پھیرنا چاہا ۔ تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] وہ اپنے غلام سے ( ناجائز ) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے ۔ یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے ۔- شاهِدٌ- وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله :- فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔- صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شاہد کون تھا ؟- قول باری ہے وشھد شاھدمن اھلھا ان کان قمیصہ قد من قبل فصدقت وھو من الکاذبین ۔ اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے قرینے کی شہادت پیش کی کہ اگر یوسف کا قیمص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابوہریرہ (رض) ، سعید بن جبیر اور ہلال بن یسار سے مروی ہے کہ پن گھوڑے میں پڑا ہوا ایک بچہ تھا ۔ جس نے یہ گواہی پیش کی ۔ حضرت ابن عباس سے ایک اور روایت کے مطابق ، نیز حسن ، ابن ملیکہ اور عکرمہ سے مروی ہے کہ یہ ایک مرد تھا جس نے شہادت پیش کی تھی ۔ عکرمہ کا قول ہے کہ عزیز مصرنے جب حضرت یوسف کو دروازے پر پھٹی ہوئی قمیص کے ساتھ دیکھا تو اس نے اپنے ایک چچا زاد سے اس کا تذکرہ کیا۔ جسے سن کر اس نے اپنی رائے دی کہ اگر قمیص سامنے سے پھٹی ہے تو لازما ً یوسف کی طرف سے دست درازی کی کوشش ہوئی ہوگی اور تمہاری بیوی نے اپنا بچائو کیا ہوگا اور اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو یوسف بچ کر بھاگا ہوگا اور تمہاری بیوی نے پیچھے سے قمیص پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی ہوگی۔- لقط کا حکم - بعض لوگوں نے اس آیت سے لقطہ کے مسئلے میں استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص لقطہ کی ملکیت کا دعویٰ کرے اور لقطہ کی نشانیاں بتادے تو اس پر فیصلہ کردیا جائے گا ۔- اگر کوئی شخص لقط یعنی گری پڑی چیز جو کسی کے ہاتھ آ جائے ، کی نشانیاں بیان کر کے اس کی ملکیت کا دعویٰ کرے تو اس صورت میں فیصلہ اس کے حق میں کردیاجائے گا یا نہیں ۔ اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد زفر اور امام شافعی کا قول ہے کہ صرف نشانیاں بتا کر ایک شخص لقطہ کی ملکیت کا حق دار نہیں بنے گا ۔ اس کے لیے اسے بینہ یعنی ثبوت بھی پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ نیز مدعی کی طرف سے نشانیاں بیان کردینے کی بنا پر لقطہ اٹھانے والے شخص کو لقطہ اس کے حوالے کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا تا ہم اگر وہ لقطہ اسکے حوالے کردے تو اس کے لیے اس کی بھی گنجائش ہے اگرچہ اسے عدالت کی طرف سے مجبور نہ بھی کیا گیا ہو۔ ابن القاسم نے امام مالک کے قول پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ نشانیاں بیان کردینے کی بنا پر وہ لقطہ کا حق دار ہوجائے گا اور اٹھانے والے کو لقطہ اس کے حوالے کرنے پر مجبور کردیا جائے گا ۔ اگر اس کے بعد کوئی اور مدعی پیدا ہوجائے اور ثبوت دے کر لقطہ کا مستحق قرار پائے تو اس صورت میں لقطہ اٹھانے والا کسی تاوان کا ذمہ دار نہ ہوگا ۔ امام مالک کا قول ہے کہ چوروں کی چرائی ہوئی چیزوں کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ اگر ان سے مال برآمد ہوجائے اور کچھ لوگ آ کر اس مال کی ملکیت کا دعویٰ کریں لیکن ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہ ہو تو ایسی صورت میں حاکم فوری فیصلہ نہیں کرے گا ۔ بلکہ سوچ بچار میں کچھ عرصے لگائے گا ۔ اگر اس دوران دوسرے لوگ اس مال کے دعویدار بن کر پیش نہ ہوں تو یہ مال پہلے دعویداروں کے حوالے کر دے گا ، بھاگے ہوئے غلام کے بارے میں بھی یہی حکم ہے ۔ حسن بن حی کا قول ہے کہ نشانیاں بیان کردینے کی بنا پر لقطہ مدعی کے حوالے کردیا جائے گا ۔ لقیط یعنی کہیں سے ہاتھ آئے بچے کے متعلق ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر دو شخص اس کے دعوے دار ہوں اور ایک نے اس کے جسم پر موجود کی نشان کا پتہ دیا ہو تو وہ دوسرے کی بہ نسبت اس کا زیادہ حق دار قرار پائے گا ۔- گھرکے سامان کے متعلق اگر میاں بیوی میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اس صورت میں امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے گھر میں مردانہ استعمال کی جو چیزیں ہوں گی وہ مرد کو مل جائیں گی اور زنا نہ استعمال کی چیزیں عورت کو دے دی جائیں گی ۔ لیکن جو چیزیں مشترک استعمال کی ہوں گی وہ مرد کو مل جائیں گی ۔ اس مسئلہ میں ہمارے اصحاب نے گھریلو سامان کی ظاہری ہیئت کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔ اگر مکان کرایہ پر دینے والے اور کرایہ پر لینے والے کے درمیان گھر میں رکھے ہوئے دروازے کے ایک پٹ کی ملکیت کے بارے میں اختلاف پیدا ہوجائے تو ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر دروازے کا یہ پٹ عمارت میں لگے ہوئے دروازے کے پٹ کے مطابق ہے تو اس صورت میں گھرکے مالک کا قول قابل اعتبار ہوگا اور اگر اس کے مطابق نہ ہو تو پھر کرایہ پر لینے والے کا قول معتبر ہوگا ۔ اسی طرح اگر چھت کی کوئی کڑی کسی مکان کے احاطے پر پڑی ہو اور اس پر ایسے نقوش اور تصاویر ہوں جو اس مکان میں لگی ہوئی کڑیوں کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں نیز یہ کڑی ان کڑیوں کی طرح ہو تو اختلاف کی صورت میں گھرکے مالک کا قول قابل اعتبار ہوگا۔ بصورت دیگر کرایہ پر لینے والے کا قول معتبر ہوگا۔ ان مسائل میں ہمارے اصحاب نے بعض صورتوں میں نشانات کی بنا پر فیصلہ دیا ہے اور بعض میں نشانات کا اعتبار نہیں کیا ۔ ہمارے اصحاب کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر وہ شخص ایک مشک کی ملکیت کے ساتھ جھگڑ پڑیں اور دونوں نے اسے پکڑرکھا ہو لیکن ایک سقہ ہو اور دوسرا عطر فروش تو یہ مشک دونوں کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کردی جائے گی اور اس بارے میں سقہ کو عطر فروش پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔- لقطہ کے متعلق ہماریاصحاب کے قول کی توجیہ یہ ہے کہ لقطہ کو اٹھا لانے والے کا اس پر درست قبضہ ہوتا ہے اب دوسرا شخص جو اس لقطہ کا دعویدار ہے وہ اس کے قبضہ کو زائل کرنا چاہتا ہے ، جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعی علیہ ۔ ثبوت مہیا کرنا مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعا علیہ پر عائد ہوتی ہے۔ جس شخص کے قبضہ میں لقطہ ہے اس کا اس لقطہ و اٹھا لینے والا ہونا مدعی کو مدعی بننے کے دائرے سے خارج نہیں کرتا اس لیے کسی ثبوت کے بغیر اس کے دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ لقطہ پر اس کا کوئی قبضہ نہیں ہے۔ رہ گئے نشانات تو وہ ثبوت نہیں بن سکتے۔ اس لیے کہ اگر ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کے ہاتھ میں موجود کسی مال پر ملکیت کا دعویٰ کیا اور اس مال کی نشانیاں بھی بتادلے جب کہ وہ شخص جس کے ہاتھ میں مال ہے اس نے وہ مال کہیں سے پڑا ہوا اٹھایا نہ ہو یعنی وہ مال لقطہ نہ ہو تو اس صورت میں صرف نشانیوں کا بیان کردینا کوئی ایسا ثبوت قرار نہیں پائے گا جس کی بنا پر مدعی اس مال کا حق دار قراردیا جاسکتا ہے۔- اس لقیط کے متعلق جس کے دو دعویدار ہوں اور ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو کہ لقیط اس کا بیٹا ہے لیکن ایک نے اس کے جسم پر موجود کسی نشان پتہ دیا ہو، ہمارے اصحاب کا یہ قول کہ نشان بتانے والا اس کا دوسرے کے مقابلے میں بڑھ کر حق دار ہوگا ، استحسان پر مبنی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لقیط کا دعویدار اپنے دعویٰ کی بنیاد پر اس کا حق دار ہوجاتا ہے ۔ اسے کسی علامت یا نشان بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور محض دعویٰ کا بنیاد پر اس کا نسب بھی اس سے ثابت ہوجاتا ہے نیز جس شخص کے قبضہ میں وہ ہوتا ہے اس کا قبضہ بھی ختم ہوجاتا ہے، اب جب لقیط کے بارے میں دو شخصوں کے درمیان تنازعہ ہوجائے تو اس کی حیثیت یہ ہوجائے گی کہ گویا یہ دونوں کے قبضے میں ہے۔ اس لیے کہ اگر ان میں سے ایک لقیط کے جسم پر موجود علامت کو بیان نہ کردیتا ، تو اس صورت میں دونوں اس بات کے حق دار بن چکے تھے کہ عدالت دونوں سے لقیط کے جسم پر موجود علامت کو بیان نہ کردیتا، تو اس صور ت میں دونوں اس بات کے حق دار بن چکے تھے کہ عدالت دونوں سے لقیط کے نسب کے ثبوت کا فیصلہ د ے دے۔- اب جب لقیط سے ا س شخص کا قبضہ ختم ہوگیا جس کے ہاتھ میں وہ تھا تو اب اس کی یہ حاملت اس حالت جیسی ہوگئی جب وہ عدالتی فیصلے کی رو سے دونوں کے قبضے میں ہوتا یعنی لقیط سارے کا سارا اس شخص کے قبضے میں ہوتا اور سارے کا سارا اس دوسرے شخص کے قبضے میں بھی ہوتا ۔ ایسی صورت میں لقیط کے جسم پر موجود علامت کا اعتبار جائز ہے اور اسی کا نام استحسان ہے ۔ اس کی نظیر وہ صورت ہے جس میں میاں بیوی کے درمیان گھر کے ساز و سامان کی ملکیت کے بارے میں جھگڑا پیدا ہوجائے ۔ جب گھریلو سامان پر دونوں کا قبضہ موجود ہے تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ کس سامان پر کس کا تصرف دوسرے سے بڑھ کر اور قبضہ زیادہ مضبوط ہے، اسی طرح مکان کرایہ پر لینے والے انسان کا گھر میں موجود سامان پر قبضہ ہوتا ہے اور کرایہ پر دینے والے کا بھی پورے گھر پر قبضہ ہوتا ہے جب گھر کے تمام سامان پر قبضہ کے لحاظ سے دونوں کا درجہ یکساں ہوگیا تو اس صورت میں ملکیت کے لحاظ سے وہ شخص اولی ہوگا ۔ جس کے دعویٰ کی صحت کے موافقت میں نشانات گواہی دیں گے۔ اور یہ چیز اسکے قبضہ کے حق میں فیصلہ کے لیے ترجیح کا باعث بن جائے گی ، یہ بات نہیں کہ نشانات کی بنا پر وہ اس بات کا مستحق بن جائے گا کہ اس کی ملکیت کے حق میں فیصلہ دے دیا جائے ۔ جس طرح وہ ثبوت مہیا کرنے کی صورت میں اس فیصلہ کا مستحق بن سکتا تھا۔ یہ وہ صورتیں ہیں جن میں ہمارے اصحاب نے نشانات کا اعتبار کیا ہے۔ انہوں نے نشانات کا اس وقت اعتبار کیا ہے جب دونوں مدعیوں میں سے ہر ایک کا پوری متنازعہ فیر چیز پر قبضہ ہو اس صورت میں نشانات گویا قبضہ کے حق میں حجت اور دلیل کا کام کریں گے ، یہ بات نہیں ہے کہ نشانات کی بنا پر ملکیت کا استحقاق ہوجاتا ہے۔- اگر دو مدعیوں کے قبضے میں کوئی متاع یعنی سامان ہو اور ان میں سے ایک اس چیز کو اپنے استعمال میں لاتا ہو اور وہ چیز اس شخص کے فن اور صنعت کے نادر بطور آلہ استعمال ہوتی ہو تو اس سے یہ بات واضح ہے کہ ان دونوں مدعیوں میں سے ہر ایک کے قبضہ میں اس چیز کا نصف حصہ ہوگا نیز یہ کہ جو حصہ ایک کے قبضے میں ہے اسکا کوئی جز دوسرے کے قبضے میں نہیں ہوگا ۔ اب اگر ہم ان دونوں میں سے ایک کی ظاہری کاریگری اور صنعت یا کسی نشان کی بنا پر جو اس کے ساتھ ہو اس کے حق میں فیصلہ دے دیں تو گویا ہم دوسرے کے مقابلے میں اس شخص کو اس چیز پر قبضہ رکھنے کا اس طرح حق دار دیں گے کہ قبضہ صرف اس کا ہی تھا دوسرے کا کوئی قبضہ نہیں تھا حالانکہ اس پر قبضہ دونوں کا تھا۔ اس چیز پر قبضہ کے لحاظ سے ان دونوں کی حیثیت اس موچی جیسی ہے جس نے جراب بنانے کے کسی فرمے پر دعویٰ کردیا ہو جو کسی صراف کے قبضے میں ہو۔ اس صورت میں وہ موچی اسے فرقے سے صراف کے قبضے کو اس بنا پر ائل نہیں کرسکے گا کہ فرما اس کے فن جفت سازی میں بطورآلہ کام آتا ہے۔ لقطہ کا زیر بحث مسئلہ بھی بعینہٖ اسی طرح ہے اس لیے کہ مدعی کا اس لقطہ پر کوئی قبضہ نہیں ہے۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ نشان بنا کر ملتقط لقط اٹھانے والے کے قبضہ پر اپنا استحقاق ثابت کردے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ مدعی صرف دعویٰ کی بنا پر لقطہ کا حق دار نہیں بن سکتا اگر اس کے پاس نشان موجود نہ ہو۔ ٹھیک اسی طرح علامت اور نشان کی بنا پر وہ دوسرے کے قبضہ پر اپنا استحقاق ثابت نہیں کرسکتا۔- حضرت زید بن خالد (رض) کی روایت میں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لقطہ کے متعلق دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا : اس لقطہ کے منہ پر لگی ہوئی ڈاٹ ، اس کی تھیلی اور تھیلی کے سر بند کو اچھی طرح پہچان لو اور پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کرو۔ اگر اس دوران اس کا مالک آ جائے تو اس کے حوالے کر دو ورنہ اس مدت کے بعد اپنی مرضی چلائو ۔ اس روایت میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ لقطہ کا مدعی اس کی علامت بتا کہ اس کا حق دار بن جاتا ہے اس لیے کہ اس میں احتمال ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ڈاٹ ، تھیلی اور تھیلی کے سر بند کو پہچان لینے کا صر اس لیے حکم دیا ہے تا کہ وہ اس کے اپنے مال کے ساتھ مل نہ جائے اور اسے یہ معلوم رہے کہ یہ لقطہ ہے۔ بعض دفعہ ان ہی چیزوں کے ذریعے وہ مدعی کی سچائی پر استدلال کرکے لقطہ اس کے حوالے کرسکتا ہے۔ اگرچہ اس کے لیے ایسا کرنا عدالتی فیصلے کے طور پر لازم نہیں ہوتا ۔ بعض دفعہ لقطہ کے نشان اور اس کی ظاہری حالت کا ذکر سننے والے کے دل پر اثر کرتا ہے جسے کے نتیجے میں اس کا غالب گمان یہ ہوجاتا ہے کہ مدعی سچا ہے لیکن عدالتی فیصلے کے اندر اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔- لقطے کا عدالت میں حکم - حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے برادران یوسف کی کذب بیانی پر اس امر سے استدلال کیا تھا کہ اگر یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہوتا تو ان کی قمیض بھی ضرور پھٹ چکی ہوتی ۔ قاضی شریح اور قاضی ایاس سے بھی اسی قسم کے استدلا ل کے کئی واقعات منقول ہیں ۔ ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں ملی کے ایک بچے کی ملکیت کا جھگڑا لے کر قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوئیں ۔ ایک نے کہا یہ میری بھی کا بچہ ہے جبکہ دوسری نے کہا ۔ نہیں ، یہ میری بلی کا بچہ ہے۔ قاضی شریح نے حکم دیا کہ بچے کو اس پہلی عورت کی بلی کے پاس چھوڑ دو ، اگر اس نے اس کا دودھ پی لیا اور اس کی گود میں جا ٹھہرا اور دراز ہوگیا تو یہ اس کا بچہ ہے۔ اگر گھبراکر بھاگ کھڑا ہوا اور دور ہوگیا تو یہ اس کا بچہ نہیں ہے۔ حماد بن سلمہ نے روایت کی ہے کہ مجھے ایک بتانے والے نے ایا س بن معاویہ کا یہ واقعہ سنایا کہ دو عورتیں کا تے ہوئے سوت کے ایک گولے کا تنازعہ لے کر انکے سامنے پیش ہوئیں ۔ ایاس نے ایک عورت سے تنہائی میں پوچھا کہ تو نے سوت کا یہ گولہ کس چیز کے عوض کاتا ہے۔ اس نے جواب دیا : ” ایک اخروٹ کے عوض پھر ایاس نے دوسری عورت سے تنہائی میں یہی سوال کیا تو اس نے جواب دیا “ روٹی کے ایک ٹکڑے کے عوض پھر ایاس کے کارندوں نے اس کا تے ہوئے سوت کو کھول کر اس عورت کے حوالے کردیا جس نے درست جواب دیا تھا۔ قاضی شریح اور قاضی ایاس کا یہ طریق کا ر صرف غالب گمان کی بنیاد پر استدلال کے طور پر تھا۔ فیصلے کو نافذ کرنے اور فریق مخالف پر اس فیصلے کو لازم کرنے کے طور پر نہیں ہوتا تھا۔ اس استدلال کے بعد فریقین میں سے جو غلط کار ہوتا ہے وہ اپنی غلطی کا اقرار کرلیتا ۔ جب اس قسم کا استدلال ظاہرہوجاتا تو اس سے بعض دفعہ مدعی اپنے دعوے پر اڑے رہنے سے شرما جاتا اور پھر درست بات کا اقرار کرلیتا اور اس کے اقرار پر فیصلہ کر دیاجاتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٦) حضرت یوسف (علیہ السلام) کہنے لگے یہ بالکل جھوٹ بول رہی ہے، اسی نے مجھے دعوت دی اور یہی اپنا مطلب نکالنے کے لیے مجھ کو پھسلاتی تھی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (قَالَ هِىَ رَاوَدَتْنِيْ عَنْ نَّفْسِيْ )- صورت حال بہت نازک اور خطرناک رخ اختیار کرچکی تھی۔ حضرت یوسف کو بھی اپنے دفاع میں کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا۔ لہٰذا آپ نے صاف صاف بتادیا کہ خود اس عورت نے مجھے گناہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔- (وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا)- اس عورت کے اپنے رشتہ داروں میں سے بھی کوئی شخص موقع پر آپہنچا۔ اس نے موقع محل دیکھ کر وقوعہ کے بارے میں بڑی مدلل اور خوبصورت قرائنی شہادت ( ) دی کہ :- (اِنْ كَانَ قَمِيْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ )- اگر عورت سے دست درازی کی کوشش ہو رہی تھی اور وہ اپنا تحفظ کر رہی تھی تو ظاہر ہے کہ حملہ آور کی قمیص سامنے سے پھٹنی چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :24 اس معاملہ کی نوعیت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ صاحب خانہ کے ساتھ خود اس عورت کے بھائی بندوں میں سے بھی کوئی شخص آ رہا ہوگا اور اس نے یہ قضیہ سن کر کہا ہوگا کہ جب یہ دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور موقع کا گواہ کوئی نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت سے اس معاملہ کی یوں تحقیق کی جا سکتی ہے بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ موادت پیش کرنے والا ایک شیر خوار بچہ تھا جو وہاں پنگھوڑے میں لیٹا ہوا تھا اور خدا نے اسے گویائی عطا کر کے اس سے یہ شہادت دلوائی ۔ لیکن یہ روایت نہ تو کسی صحیح سند سے شہادت ہے اور نہ اس معاملے میں خواہ مخواہ معجزے سے مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی محسوس ہوتی ہے ۔ اس شاہد نے قرینے کی جس شہادت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ سراسر ایک معقول شہادت ہے اور اس کو دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ مخص ایک معاملہ فہم اور جہاندیدہ آدمی تھا جو صورت معاملہ سامنے آتے ہی اس کی تہہ کو پہنچ گیا ۔ بعید نہیں کہ وہ کوئی جج یا مجسٹریٹ ہو ۔ ( مفسرین کے ہاں شیر خوار بچے کی شہادت کا قصہ دراصل یہودی روایات سے آیا ہے ۔ ملاحظہ ہو اقتباسات تلمود ازپال اسحاق ہرشون ، لندن ، سن ١۸۸۰ ۔ صفحہ ۲۵٦

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani