Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

داستان عشق اور حسینان مصر اس داستان کی خبر شہر میں ہوئی ، چرچے ہو نے لگے ، چند شریف زادیوں نے نہایت تعجب و حقارت سے اس قصے کو دوہرایا کہ دیکھو عزیر کی بیوی ہے اور ایک غلام پر جان دے رہی ہے ، اس کی محبت کو اپنے دل میں جمائے ہوئے ہے ۔ شغف کہتے ہیں حد سے گذری ہوئی قاتل محبت کو اور شغف اس سے کم درجے کی ہوتی ہے ۔ دل کے پردوں کو عورتیں شغاف کہتی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ عزیز کی بیوی صریح غلطی میں پڑی ہوئی ہے ۔ ان غیبتوں کا پتہ عزیز کی بیوی کو بھی چل گیا ۔ یہاں لفظ مکر اس لیے بولا گیا ہے کہ بقول بعض خود ان عورتوں کا یہ فی الواقع ایک کھلا مکر تھا ۔ انہیں تو دراصل حسن یوسف کے دیدار کی تمنا تھی یہ تو صرف ایک حیلہ بنایا تھا ۔ عزیز کی بیوی بھی ان کی چال سمجھ گئی اور پھر اس میں اس نے اپنی معزوری کی مصلحت بھی دیکھی تو ان کے پاس اسی وقت بلاوا بھیج دیا کہ فلاں وقت آپ کی میرے ہاں دعوت ہے ۔ اور ایک مجلس ، محفل ، اور بیٹھک درست کر لی جس میں پھل اور میوہ بہت تھا ۔ اس نے تراش تراش کر چھیل چھیل کر کھانے کے لیے ایک ایک تیز چاقو سب کے ہاتھ میں دیدیا یہ تھا ان عورتوں کے دھوکہ کا جواب انہوں نے اعتراض کر کے جمال یوسف دیکھنا چاہا اس نے آپ کو معذور ظاہر کرنے اور ان کے مکر کو ظاہر کرنے کے لیے انہیں خود زخمی کر دیا اور خود ان ہی کے ہاتھ سے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ آپ آئے ۔ انہیں اپنی مالکہ کا حکم ماننے سے کیسے انکار ہو سکتا تھا ؟ اسی وقت جس کمرے میں تھے وہاں سے آگئے ۔ عورتوں کی نگاہ جو آپ کے چہرے پر پڑی تو سب کی سب دہشت زدہ رہ گئیں ۔ ہیبت و جلال اور رعب حسن سے بےخود ہوگئیں اور بجائے اس کے کہ ان تیز چلنے والی چھریوں سے پھل کٹتے ان کے ہاتھ اور انگلیاں کٹنے لگیں ۔ حضرت زیدبن اسلم کہتے ہیں کہ ضیافت باقاعدہ پہلے ہو چکی تھی اب تو صرف میوے سے تواضع ہو رہی تھی ۔ میٹھے ہاتھوں میں تھے ، چاقو چل رہے تھے جو اس نے کہا یوسف کو دیکھنا چاہتی ہو؟ سب یک زبان ہو کر بول اُٹھیں ہاں ہاں ضرور ۔ اسی وقت حضرت یوسف سے کہلوا بھیجا کہ تشریف لائیے ۔ آپ آئے پھر اس نے کہا جائیے آپ چلے گئے ۔ آتے جاتے سامنے سے پیچھے سے ان سب عورتوں نے پوری طرح آپ کو دیکھا دیکھتے ہی سب سکتے میں آگئیں ہوش حواس جاتے رہے بجائے لیموں کاٹنے کے اپنے ہاتھ کاٹ لیے ۔ اور کوئی احساس تک نہ ہوا ہاں جب حضرت یوسف چلے گئے تب ہوش آیا اور تکلیف محسوس ہوئی ۔ تب پتہ چلا کہ بجائے پھل کے ہاٹھ کاٹ لیا ہے ۔ اس پر عزیز کی بیوی نے کہا دیکھا ایک ہی مرتبہ کے جمال نے تو تمہیں ایسا از خود رفتہ کر دیا پھر بتاؤ میرا کیا حال ہو گا عورتوں نے کہا واللہ یہ انسان نہیں ۔ یہ تو فرشتہ ہے اور فرشتہ بھی بڑے مرتبے والا ۔ آج کے بعد ہم کبھی تمہیں ملامت نہ کریں گی ۔ ان عورتوں نے حضرت یوسف جیسا تو کہاں ان کے قریب ان کے مشابہ بھی کوئی شخص نہیں دیکھا تھا ۔ آپ کو آدھا حسن قدرت نے عطا فرما رکھا تھا ۔ چنانچہ معراج کی حدیث میں ہے کہ تیسرے آسمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی جنہیں آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت یوسف اور آپ کی والدہ صاحبہ کو آدھا حسن قدرت کی فیاضیوں نے عنایت فرمایا تھا ۔ اور روایت میں تہائی حسن یوسف کو اور آپ کی والدہ کو دیا گیا تھا ۔ آپ کا چہرہ بجلی کی طرح روشن تھا ۔ جب کبھی کوئی عورت آپ کے پاس کسی کام کے لیے آتی تو آپ اپنا منہ ڈھک کر اس سے بات کرتے کہ کہیں وہ فتنے میں نہ پڑ جائے اور روایت میں ہے کہ حسن کے تین حصے کئے گئے تمام لوگوں میں دو حصے تقسیم کئے گئے اور ایک حصہ صرف آپ کو اور آپ کی ماں کو دیا گیا ۔ یا جن کی دو تہائیاں ان ماں بیٹے کو ملیں اور ایک تہائی میں دنیا کے تمام لوگ اور روایت میں ہے کہ حسن کے دو حصے کئے گئے ایک حصے میں حضرت یوسف اور آپ کی والدہ حضرت سارہ اور ایک حصے میں دنیا کے اور سب لوگ ۔ سہیلی میں ہے کہ آپ کو حضرت آدم کا آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے کمال صورت کا نمونہ بنایا تھا اور بہت ہی حسین پیدا کیا تھا ۔ آپ کی اولاد میں آپ کا ہم پلہ کوئی نہ تھا اور حضرت یوسف کو ان کا آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ پس ان عورتوں نے آپ کو دیکھ کر ہی کہا کہ معاذ للہ یہ انسان نہیں ذی عزت فرشتہ ہے ۔ اب عزیز کی بیوی نے کہا بتلاؤ اب تو تم مجھے عذر والی سمجھو گی؟ اس کا جمال و کمال کیا ایسا نہیں کہ صبر و برداشت چھین لے؟ میں نے اسے ہر چند اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن یہ میرے قبضے میں نہیں آیا اب سمجھ لو کہ جہاں اس میں یہ بہترین ظاہری خوبی ہے وہاں عصمت و عفت کی یہ باطنی خوبی بھی بےنظیر ہے ۔ پھر دھمکانے لگی کہ اگر میری بات یہ نہ مانے گا تو اسے قید خانہ بھگتنا پڑے گا ۔ اور میں اس کو بہت ذلیل کروں گی ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے اس ڈھونگ سے اللہ کی پناہ طلب کی اور دعا کی کہ یا اللہ مجھے جیل خانے جانا پسند ہے مگر تو مجھے ان کے بد ارادوں سے محفوظ رکھ ایسا نہ ہو کہ میں کسی برائی میں پھنس جاؤ ۔ اے اللہ تو اگر مجھے بچا لے تب تو میں بچ سکتا ہوں ورنہ مجھ میں اتنی قوت نہیں ۔ مجھے اپنے کسی نفع نقصان کا کوئی اختیار نہیں ۔ تیری مدد اور تیرے رحم و کرم کے بغیر نہ میں کسی گناہ سے رک سکوں نہ کسی نیکی کو کر سکوں ۔ اے باری تعالیٰ میں تجھ سے مدد طلب کرتا ہوں ، تجھی پر بھروسہ رکھتا ہوں ۔ تو مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کردے کہ میں ان عورتوں کی طرف جھک جاؤں اور جاہلوں میں سے ہو جاؤں ۔ اللہ تعالیٰ کریم و قادر نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور آپ کو بال بال بچا لیا ، عصمت عفت عطا فرمائی ، اپنی حفاظت میں رکھا اور برائی سے آپ بچے ہی رہے ۔ باوجود بھرپور جوانی کے باوجود بے انداز حسن و خوبی کے ، باوجود ہر طرح کے کمال کے ، جو آپ میں تھا ، آپ اپنی خواہش نفس کی بےجا تکمیل سے بچتے رہے ۔ اور اس عورت کی طرف رخ بھی نہ کیا جو رئیس زادی ہے ۔ رئیس کی بیوی ہے ، ان کی مالک ہے ، پھر بہت ہی خوبصورت ہے ، جمال کے ساتھ ہی مال بھی ہے ، ریاست بھی ہے ، وہ اپنی بات کے ماننے پر انعام و اکرام کا اور نہ ماننے پر جیل کا اور سخت سزا کا حکم سنا رہی ہے ۔ لیکن آپ کے دل میں اللہ کے خوف سمندر موجزن ہے ، آپ اپنے اس دنیوی آرام کو اور اس عیش اور لذت کو نام رب پر قربان کرتے ہیں اور قید و بند کو اس پر ترجیح دیتے ہیں کہ اللہ کے عذابوں سے بچ جائیں اور آخرت میں ثواب کے مستحق بن جائیں ۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جہیں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے سائے تلے سایہ دے گا جس دن کوئی سایہ سوا اس کے سائے کے نہ ہوگا ۔ ( ١ ) مسلمان عادل بادشاہ ( ٢ ) وہ جوان مرد و عورت جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ( ٣ ) وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو جب مسجد سے نکلے مسجد کی دھن میں رہے یہاں تک کہ پھر وہاں جائے ( ٤ ) وہ دو شخص جو آپس میں محض اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر جدا ہوتے ہیں ( ٥ ) وہ شخص جو صدقہ دیتا ہے لیکن اس پوشیدگی سے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہات کو نہیں ہوتی ( ٦ ) وہ شخص جسے کوئی جاہ و منصب والی جمال و صورت والی عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ( ٧ ) وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا پھر اس کی دونوں آنکھیں بہ نکلی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 جس طرح خوشبو کو پردوں سے چھپا یا نہیں جاسکتا، عشق و محبت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ گو عزیز مصر نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اسے نظر انداز کرنے کی تلقین کی اور یقیناً آپ کی زبان مبارک پر اس کا کبھی ذکر بھی نہیں آیا ہوگا اس کے باوجود یہ واقعہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور زنان مصر میں اس کا چرچا عام ہوگیا، عورتیں تعجب کرنے لگیں کی عشق کرنا تھا تو کسی پیکر حسن و جمال سے کیا جاتا، یہ کیا اپنے ہی غلام پر زلیخا فریفتہ ہوگئی، یہ تو اس کی ہی نادانی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِيْنَةِ ۔۔ : ” نِسْوَۃٌ، نِسَاءٌ“ اور ” نِسْوَانٌ“ سب ” اِمْرَأَۃٌ“ کی جمع ہیں، مگر ” اِمْرَأَۃٌ“ لفظ سے نہیں۔ (قاموس) ” نِسْوَۃٌ“ کے ” اِمْرَأَۃٌ“ کی جمع حقیقی نہ ہونے کی وجہ ہی سے فعل ” قَالَتْ نِسْوَۃٌ“ کے بجائے : ” َقَالَ نِسْوَةٌ“ آیا ہے، کیونکہ غیر حقیقی جمع ہونے کی صورت میں ایسا ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہر جگہ ” نِسَاءٌ“ آیا ہے، صرف اس آیت یا اسی سورت کی آیت (٥٠) میں کل دو مرتبہ ” نِسْوَةٌ“ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ” نِسْوَۃٌ“ جمع قلت کا وزن ہے، جو تین سے دس تک استعمال ہوتا ہے، بخلاف ” نِسَاءٌ“ وغیرہ کے کہ وہ کثرت کے لیے بھی آتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ عزیز کی بیوی نے چند ایک خاص عورتوں ہی کو اس مجلس کی دعوت دی تھی۔ ” شَغَفَهَا “ شغاف دل کے پردے کو کہتے ہیں، یعنی دل کے پردے کے اندر داخل ہوگیا ہے۔ بعض نے شغاف کا معنی ” سویداء القلب “ (دل کا مرکز) بھی کیا ہے۔ ” تُرَاوِدُ فَتٰىهَا “ (اپنے غلام کو پھسلاتی ہے) ان عورتوں نے ماضی کا صیغہ ” رَاوَدَتْ “ (اس نے پھسلایا ہے) کے بجائے مضارع کا صیغہ استعمال کیا کہ وہ اب بھی اس سے باز نہیں آتی، بلکہ پھسلاتی رہتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور چند عورتوں نے جو کہ شہر میں رہتی تھیں یہ بات کہی کہ عزیز کی بی بی اپنے غلام کو اس سے اپنا (ناجائز) مطلب حاصل کرنے کے لئے پھُسلاتی ہے (کیسی کمینہ حرکت ہے کہ غلام پر گرتی ہے) اس غلام کا عشق اس کے دل میں جگہ پکڑ گیا ہے ہم تو اس کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں سو جب اس عورت نے ان عورتوں کی بدگوئی (کی خبر) سنی تو کسی کے ہاتھ ان کو بلا بھیجا (کہ تمہاری دعوت ہے) اور ان کے واسطے مسند تکیہ لگایا اور (جب وہ آئیں اور ان کے سامنے مختلف قسم کے کھانے اور پھل حاضر کئے جن میں بعض چیزیں چاقو سے تراش کر کھانے کی تھیں اس لئے) ہر ایک کو ان میں سے ایک ایک چاقو (بھی) دے دیا (جو ظاہر میں تو پھل تراشنے کا بہانہ تھا اور اصل مقصد وہ تھا جو آگے آتا ہے کہ یہ حواس باختہ ہو کر اپنے ہاتھوں کو زخمی کرلیں گی) اور (یہ سب سامان درست کر کے یوسف (علیہ السلام) کو جو کسی دوسرے مکان میں تھے) کہا کہ ذرا ان کے سامنے تو آجاؤ (یوسف (علیہ السلام) یہ سمجھ کر کہ کوئی صحیح غرض ہوگی باہر آگئے) سو عورتوں نے جب انکو دیکھا تو (ان کے جمال سے) حیران رہ گئیں اور (اس حیرت میں) اپنے ہاتھ کاٹ لئے (چاقو سے پھل تراش رہی تھیں یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر ایسی بدحواسی چھائی کہ چاقو ہاتھ پر چل گیا) اور کہنے لگیں حاش للہ یہ شخص آدمی ہرگز نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے وہ عورت بولی تو (دیکھ لو) وہ شخص یہی ہے جس کے بارے میں تم مجھ کو برابھلا کہتی تھیں (کہ اپنے غلام کو چاہتی ہے) اور واقعی میں نے اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خواہش کی تھی مگر یہ پاک صاف رہا اور (پھر یوسف (علیہ السلام) کے دھمکانے اور سنانے کو کہا کہ) اگر آئندہ میرا کہنا نہ مانے گا (جیسا کہ اب تک نہیں مانا) تو بیشک جیل خانہ بھیج دیاجاوے گا اور بےعزت بھی ہوگا ( وہ عورتیں بھی یوسف (علیہ السلام) سے کہنے لگیں کہ تم کو اپنی محسن عورت سے ایسی بےاعتنائی مناسب نہیں جو یہ کہے اس کو ماننا چاہئے یوسف (علیہ السلام) نے (یہ باتیں سنی کہ یہ تو سب کی سب اسی کی موافقت کرنے لگیں تو حق تعالیٰ سے) دعاء کی کہ اے میرے رب جس (ناجائز) کام کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو جیل خانہ میں جانا ہی مجھ کو زیادہ پسند ہے اور اگر آپ ان کے داؤ پیچ کو مجھ سے دفع نہ کریں گے تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور نادانی کا کام کر بیٹھوں گا سو ان کی دعاء ان کے رب نے قبول کی اور ان عورتوں کے داؤ پیچ کو ان سے دور رکھا بیشک وہ (دعاؤں کا) بڑا سننے والا (اور انکے احوال کا) خوب جاننے والا ہے (پھر یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کی) مختلف نشانیاں دیکھنے کے بعد (جن سے خود تو اس کا پورا یقین ہوگیا مگر عوام میں چرچاہو گیا تھا اس کو قطع کرنے کی غرض سے) ان لوگوں کو (یعنی عزیز اور اس کے متعلقین کو) یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ ان کو ایک وقت تک قید میں رکھیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ نِسْوَۃٌ فِي الْمَدِيْنَۃِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنْ نَّفْسِہٖ۝ ٠ ۚ قَدْ شَغَفَہَا حُبًّا۝ ٠ۭ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٣٠- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- مدن - المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] .- ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - راود - والمُرَاوَدَةُ : أن تنازع غيرک في الإرادة، فترید غير ما يريد، أو ترود غير ما يرود، ورَاوَدْتُ فلانا عن کذا . قال : هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] ، وقال : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] ، أي : تصرفه عن رأيه، - ( ر و د ) الرود - المراودۃ ( مفاعلہ ) یہ راود یراود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں ۔ یعنی ایک کا ارداہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ اور راودت فلان عن کزا کے معنی کسی کو اس کے ارداہ سے پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] اس نے مجھے میرے ارداہ سے پھیرنا چاہا ۔ تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] وہ اپنے غلام سے ( ناجائز ) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے ۔ یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے ۔- فتی - الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة .- قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30]- ( ف ت ی ) الفتیٰ- کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے :- تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے - شغف - قال تعالی: شَغَفَها حُبًّا[يوسف 30] ، أي : أصاب شَغَافَ قلبها، أي : باطنه، عن الحسن . وقیل : وسطه، عن أبي عليّ «3» ، وهما متقاربان .- ( ش غ ف ) الشغاف - ۔ دل کا اندورنی حصہ ۔ قرآن میں ہے ۔ شَغَفَها حُبًّا[يوسف 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ۔ حسن نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ یوسف کی محبت اس کہے شغاف یعنی باطن قلب تک پہنچ گئی ۔ اور ابوعلی ٰ نے وسط قلب کے معنی بیان کئے ہیں اور یہ دونوں معنی ( مآل کے لحاظ سے ) تقریبا ایک ہی ہیں ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - ضَلل - وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان .- جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٠) غرض کہ زلیخا کی اس بات کی شہر میں شہرت ہوگئی اور چار عورتوں نے یعنی بادشاہ کے ساقی کی بیوی اور قید خانہ کے داروغہ کی بیوی اور صاحب مطبخ کی بیوی اور نگران کی بیوی نے کہا کہ زلیخا اپنے غلام سے ناجائز مطلب حاصل کرنے لیے اس کو پھسلاتی ہے اس کے دل میں یوسف (علیہ السلام) کا عشق جگہ پکڑ کیا ہے ہم تو اس کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں کہ اپنے غلام یوسف (علیہ السلام) سے عشق کرتی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اِنَّا لَنَرٰىهَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ )- اس کا اپنے غلام کے ساتھ اس طرح کا معاملہ یہ تو بہت ہی گھٹیا بات ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani