29۔ 1 یعنی اس کا چرچا مت کرو۔ 29۔ 2 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیز مصر پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی واضح ہوگئی تھی۔
يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا۔۔ : عزیز مصر نے حقیقت حال جان لینے کے بعد یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ یوسف اس معاملے سے در گزر کرو (تاکہ بات نہ پھیلے، بلاشبہ تمہاری سچائی اور پاک بازی ثابت ہوگئی ہے) ۔ ادھر اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے گناہ کے لیے استغفار کر، معافی مانگ، یقیناً تو ہی خطاکاروں سے تھی۔ ” مُخْطِئٌ“ اور ” خَاطِئٌ“ کا یہی فرق ہے، پہلا وہ شخص ہے جس سے بھول کر خطا ہوجائے نہ کہ دانستہ طور پر اور ” خَاطِئٌ“ وہ ہے جو جان بوجھ کر غلط کام کرے، جیسے فرمایا : (اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـــــِٕيْنَ ) [ القصص : ٨ ] ” بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے۔ “- بظاہر یہ عزیز مصر کا حلم و تحمل ہے، مگر درحقیقت اس سے اس کا بےغیرت اور دیوث ہونا ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اسے معمول کی ایک بات قرار دے کر معاملہ نمٹا دیا۔ نہ بیوی کو کوئی سزا دی اور نہ انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کا کوئی اہتمام ضروری سمجھا۔ اس سے اس وقت کے مصر کے اونچے طبقے کی اخلاقی حالت معلوم ہوتی ہے جو اب مسلمانوں کے طبقۂ اشراف کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ (الا ما شاء اللہ)- وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کے لوگوں میں خواہ نیک ہوں یا بد، گناہ اور نیکی کی پہچان پائی جاتی ہے اور ایسی ہستی پر بھی کسی نہ کسی حد تک ایمان پایا جاتا ہے جس کی نافرمانی کے بعد اس سے بخشش مانگنی چاہیے۔
عزیز مصر نے زلیخا کو اس کی خطا بتلانے کے بعد یوسف (علیہ السلام) سے کہايُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا یعنی اے یوسف تم اس واقعہ کو نظرانداز کرو اور کسی سے نہ کہو تاکہ رسوائی نہ ہو، پھر زلیخا کو خطاب کر کہا۫وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ ښ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ یعنی خطا سراسر تمہاری ہے تم اپنی غلطی کی معافی مانگو اس سے بظاہر یہ مراد ہے کہ وہ اپنے شوہر سے معافی مانگے اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) سے معافی مانگے کہ خود خطاء کی اور تہمت ان کے سر ڈالی،- فائدہ : یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ شوہر کے سامنے اپنی بیوی کی ایسی خیانت اور بےحیائی ثابت ہوجانے پر اس کا مشتعل نہ ہونا اور پورے سکون و اطمینان سے باتیں کرنا انسانی فطرت سے بہت قابل تعجب ہے امام قرطبی (رح) نے فرمایا کہ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ عزیز مصر کوئی بےغیرت آدمی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ حق تعالیٰ نے جس طرح یوسف (علیہ السلام) کو گناہ سے پھر رسوائی سے بچانے کو فوق العادت انتظام فرمایا اسی انتظام کا ایک جزو یہ بھی تھا کہ عزیز مصر کو غصہ سے مشتعل نہیں ہونے دیا ورنہ عام عادت کے مطابق ایسے موقع پر انسان تحقیق وتفتیش کے بغیر ہی ہاتھ چھوڑ بیٹھتا ہے اور زبان سے گالی گلوچ تو معمولی بات ہے اگر عام انسانی عادت کے مطابق عزیز مصر کو اشتعال ہوجاتا تو ممکن ہے کہ اس کے ہاتھ سے یا زبان سے یوسف (علیہ السلام) کی شان کے خلاف کوئی بات سرزد ہوجاتی یہ قدرت حق کے کرشمے ہیں کہ اطاعت حق پر قائم رہنے والے کی قدم قدم پر کس طرح حفاظت کی جاتی ہے فتبارک اللہ احسن الخالقین۔- بعد کی آیتوں میں اور واقعہ ذکر کیا گیا ہے جو پچھلے قصہ سے ہی وابستہ ہے، وہ یہ کہ واقعہ چھپانے کے باوجود درباری لوگوں کی عورتوں میں پھیل گیا ان عورتوں نے عزیز کی بیوی کو لعن طعن کرنا شروع کیا بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ پانچ عورتیں عزیز مصر کے قریبی افسروں کی بیویاں تھیں (قرطبی مظہری)- یہ عورتیں آپس میں کہنے لگیں کہ دیکھو کیسی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ عزیز مصر کی بیوی اتنے بڑے مرتبہ پر ہوتے ہوئے اپنے نوجوان غلام پر فریفتہ ہو کر اس سے اپنی مطلب برآری چاہتی ہے ہم تو اس کو بڑی گمراہی پر سمجھتے ہیں آیت میں لفظ فَتَاھا فرمایا ہے فتا کے معنی نوجوان کے ہیں، عرف میں مملوک غلام جب چھوٹا ہو تو اس کو غلام کہتے ہیں، جوان ہو تو لڑکے کو فتا اور لڑکی کو فتاۃ کہا جاتا ہے اس میں یوسف (علیہ السلام) کو زلیخا کا غلام یا تو اس وجہ سے کہا گیا کہ شوہر کی چیز کو بھی عادۃ بیوی کی چیز کہا جاتا ہے، اور یا اس لئے کہ زلیخا نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے شوہر سے بطور ہبہ اور تحفہ لے لیا تھا (قرطبی)
يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا ٠۫ وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ ٠ۚۖ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ ٢٩ۧ- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے
(٢٩) پھر اس کے بھائی نے کہا اے یوسف اس بات کو جانے دو اور اس کا سرعام چرچا نہ کرتا پھر اس کے بھائی نے عورت کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ اور اپنے خاوند سے اپنے برے ارادہ کی معذارت کرواقعی تو اپنے خاوند کی خائن ہے۔
آیت ٢٩ (يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا)- اس کے بعد وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا اور بولا :
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :25 بائیبل میں اس قصے کو جس بھونڈے طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ، وہ ملاحظہ ہو ، تب اس عورت نے اس کا پیراہن پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ ہم بستر ہو ، وہ اپنا پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا ۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ اپنا پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگ گیا تو اس نے اپنے گھر کے آدمیوں کو بلا کر ان سے کہا کہ دیکھو وہ ایک عبری کو ہم سے مذاق کرنے کے لیے ہمارے پاس لے آیا ہے ۔ یہ مجھ سے ہم بستر ہونے کو اندر گھس آیا اور میں بلند آواز سے چلانے لگی ۔ جب اس نے دیکھا کہ میں زور زور سے چلا رہی ہوں تو اپنا پیراہن میرے پاس چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا ۔ اور وہ اس کا پیراہن اس کے آقا کے گھر لوٹنے تک اپنے پاس رکھے رہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس کے آقا نے اپنی بیوی کی وہ باتیں جو اس نے اس سے کہیں سن لیں کہ تیرے غلام نے مجھ سے ایسا ایسا کیا تو اس کا غضب بھڑکا اور یوسف کے آقا نے اس کو لے کر قید خانے میں جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے ڈال دیا ( پیدائش39: 12 -20 ) خلاصہ اس عجیب وغریب روایت کا یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے جسم پر لباس کچھ اس قسم کا تھا کہ ادھر زلیخا نے اس پر ہاتھ ڈالا اور ادھر وہ پورا لباس خود بخود اتر کر اس کے ہاتھ میں آگیا پھر لطف یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام وہ لباس اس کے پاس چھوڑ کر یونہی برہنہ بھاگ نکلے اور ان کا لباس یعنی ان کے قصور کا ناقابل انکار ثبوت اس عورت کے پاس ہی رہ گیا ۔ اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کے مجرم ہونے میں آخر کون شک کر سکتا تھا یہ تو ہے بائیبل کی روایت ۔ رہی تلمود تو اس کا بیان ہے کہ فوطیفار نے جب اپنی بیوی سے یہ شکایت سنی تو اس نے یوسف علیہ السلام کو خوب پٹوایا ، پھر ان کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کیا اور حکام عدالت نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ قصور عورت کا ہے ، کیونکہ قمیص پیچھے سے پھٹا ہے نہ کہ آگے سے ۔ لیکن یہ بات ہر صاحب عقل آدمی تھوڑے سے غور و تامل سے بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی روایت تلمود کی روایت سے زیادہ قرین قیاس ہے ۔ آخر کس طرح یہ باور کر لیا جائے کہ ایسا بڑا ایک ذی وجاہت آدمی اپنی بیوی پر اپنے غلام کی دست درازی کا معاملہ خود عدالت میں لے گیا ہوگا ۔ یہ ایک نمایاں ترین مثال ہے قرآن اور اسرائیلی روایات کے فرق کی جس سے مغربی مستشرقین کے اس الزام کی لغویت صاف واضح ہو جاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ قرآن نے تو ان کی اصلاح کی اور اصل واقعات دنیا کو بتائے ہیں ۔
19: عزیز مصر کو یقین ہوگیا تھا کہ شرارت اس کی بیوی ہی کی تھی۔ لیکن شاید بدنامی کے خوف سے اس نے بات کو پوشیدہ رکھا۔