32۔ 1 جب زلیخا نے دیکھا اس کی چال کامیاب رہی ہے اور عورتیں یوسف (علیہ السلام) کے جلوہ حسن آراء سے مد ہوش ہوگئیں تو کہنے لگی، کہ اس کی ایک جھلک سے تمہارا یہ حال ہوگیا ہے تو کیا تم اب بھی مجھے اس کی محبت میں گرفتار ہونے پر طعنہ زنی کروگی ؟ یہی وہ غلام ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی ہو۔ 32۔ 2 عورتوں کی مد ہوشی دیکھ کر اس کو مزید حوصلہ ہوگیا اور شرم و حیا کے سارے حجاب دور کر کے اس نے اپنے برے ارادے کا ایک مرتبہ پھر اظہار کیا۔
[٣١] زلیخا کی دھمکی :۔ عورتوں کے یہ الفاظ دراصل زلیخا کے اس معاملہ میں سچا ہونے کا اعلان تھا۔ اب وہ ان عورتوں میں سر اٹھا کر کہنے لگی کہ بتلاؤ میں اس معاملہ میں کس قدر قصوروار تھی اور اب میں برملا کہتی ہوں کہ میں اس کے سامنے اپنا نقد دل ہار چکی ہوں اور اب میں اسے اپنی طرف مائل کرنے پر مجبور بھی کروں گی اور اگر اس نے پھر بھی میری بات کی طرف توجہ نہ دی تو میں اسے کسی دوسرے حیلے بہانے جیل بھجوا دوں گی یا اسے میری بات ماننا ہوگی یا پھر وہ ذلیل قید و بند کی مصیبت جھیلے گا۔
قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ ۔۔ : ” ذٰلِکُنَّ “ میں اسم اشارہ ” ذَا “ ہی ہے، جس کے ساتھ مخاطب کی ضمیر یہ دیکھ کر لگائی جاتی ہے کہ مخاطب مرد ہے یا عورت، ایک ہے یا دو یا زیادہ، مثلاً آپ ایک شخص سے مخاطب ہیں اور اسے کسی آدمی کی طرف اشارہ کر کے کچھ بتانا چاہتے ہیں تو کہیں گے : ” ذٰلِکَ الرَّجُلُ الْمَذْکُوْرُ “ یہ وہ مذکور آدمی ہے۔ اگر کسی عورت سے بات کر رہے ہوں گے تو کہیں گے : ” ذٰلِکِ الرَّجُلُ الْمَذْکُوْرُ “ یہ وہ مذکور آدمی ہے۔ اگر آپ یہی بات کہنا چاہتے ہوں اور آپ کے مخاطب دو ہوں تو کہیں گے : ” ذٰلِکُمَا الرَّجُلُ الْمَذْکُوْرُ “ یہ وہ مذکور آدمی ہے۔ جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) نے قید کے دو ساتھیوں سے فرمایا : (ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ ) [ یوسف : ٣٧ ] ” یہ وہ چیز ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی۔ “ یہ معنی نہیں کہ یہ دو چیزیں۔ زیر تفسیر آیت میں عزیز کی بیوی کی مخاطب کئی عورتیں تھیں، اس لیے اس نے کہا : (فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ ) اب ” ذٰلِکُنَّ “ کا معنی یہ سب عورتیں نہیں بلکہ اس کا معنی ہے یہ ہے وہ شخص۔ صرف مخاطب جمع مؤنث ہونے کی وجہ سے ” ذٰلِکُنَّ “ آیا ہے۔ اگر مخاطب بہت سے آدمی ہوتے تو اسی مفہوم کے لیے ” ذٰلِکُمْ “ آتا، جیسے فرمایا : ( ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ [ البقرۃ : ٥٤ ] ” یہ چیز تمہارے لیے بہتر ہے۔ “- ” فَاسْتَعْصَمَ “ سین اور تاء کے اضافے سے طلب کا معنی بھی حاصل ہوتا ہے اور مبالغے کا بھی۔ یہاں دوسرا معنی مراد ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ” وہ صاف بچ گیا “ یا کہہ لیں ” بالکل بچ گیا۔ “ ” لَيُسْجَنَنَّ “ میں نون تاکید ثقیلہ ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ” اسے ضرور ہی قید کیا جائے گا۔ “ ” وَلَيَكُوْنًا “ یہ نون تاکید خفیفہ ہے، جسے عام طور پر لکھا جاتا ہے ” وَلَیَکُوْنَنْ “ مگر عربی رسم الخط وقف کے مطابق ہوتا ہے، چونکہ نون خفیفہ وقف میں الف ہوجاتا ہے، مثلاً یہی لفظ اگر اس پر وقف کریں تو اسے ” لَیَکُوْنَنْ “ نہیں پڑھا جائے گا بلکہ ” لَیَکُوْنَا “ الف کے ساتھ پڑھا جائے، اس لیے اس نون کو الف کی شکل میں لکھا جاتا ہے، جیسا کہ ” خَبِیْرًا “ اور ” بَصِیْرًا “ وغیرہ میں نون تنوین ” خَبِیْرَنْ ، بَصِیْرَنْ “ کے بجائے الف کی شکل میں ہے کہ وقف نہ ہو تو نون پڑھو، وقف ہو تو الف پڑھو۔ سورة علق میں ” لَنَسْفَعاً “ میں بھی نون تاکید خفیفہ ہے جو الف کی شکل میں لکھا گیا ہے۔ - بعض مفسرین نے ” لَيُسْجَنَنَّ “ میں نون تاکید ثقیلہ یعنی تشدید کے ساتھ اور ” وَلَيَكُوْنًا “ میں خفیفہ یعنی جزم کے ساتھ ہونے کی توجیہ فرمائی ہے کہ ثقیلہ میں تاکید زیادہ ہوتی ہے، تو عزیز کی بیوی کے خیال میں اس کے لیے یوسف (علیہ السلام) کو قید کروانا تو یقینی تھا، مگر ان کے ذلیل ہونے کا پورا یقین اسے بھی نہ تھا، بھلا ایسے کریم بن کریم بن کریم بن کریم کو ذلیل کیا جاسکتا ہے ؟ اس لیے اس نے لفظ نرم کردیا۔
(آیت) قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ ۭ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ ۭ وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ- وہ عورت بولی کہ دیکھ لو وہ شخص یہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے برا بھلا کہتی تھیں اور واقعی میں نے اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خواہش کی تھی مگر یہ پاک صاف رہا اور آئندہ یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو بیشک جیل خانے بھیجا جائے اور بےعزت بھی ہوگا،- اس عورت نے جب یہ دیکھا کہ میرا راز ان عورتوں پر فاش تو ہو ہی چکا ہے اس لئے ان کے سامنے ہی یوسف (علیہ السلام) کو ڈرانے دھمکانے لگی بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اس وقت یہ سب عورتیں بھی یوسف (علیہ السلام) کو کہنے لگیں کہ یہ عورت تمہاری محسن ہے اس کی مخالفت نہیں کرنا چاہئے،
قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْہِ ٠ۭ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ فَاسْتَعْصَمَ ٠ۭ وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُہٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ ٣٢- ( لمتنّ ) ، فيه إعلال بالحذف لمناسبة البناء علی السکون فهو فعل معتل أجوف حذفت عينه لذلک، وزنه فلتنّ.- لوم - اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] ، وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة 54] فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون 6] ، فإنه ذکر اللّوم تنبيها علی أنه إذا لم يُلَامُوا لم يفعل بهم ما فوق اللّوم . - ( ل و م )- لمتہ ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں ۔ وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة 54] اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ اور ملوم ( ملامت کیا ہوا ) صفت مفعولی ۔ ہے اور آیت کریمہ : فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون 6] ان سے مباشرت کرنے میں انہیں ملامت نہیں ہے ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ جب ان پر ملامت ہی نہیں ہے ۔ تو اس سے زیادہ سرزنش کے وہ بالاولےٰ مستحق نہیں ہیں ۔ - عصم - العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] - ( ع ص م ) العصم - کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103]- سجن - السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33]- ( س ج ن ) السجن - ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔- صغر - والصَّاغِرُ : الرّاضي بالمنزلة الدّنيّة، قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة 29] .- ( ص غ ر ) الصغریہ - صغر صغر وصغار ا کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں اور ذلیل اور کم مر تبہ آدمی کو جو اپنی ذلت پر قائع ہو صاغر کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جز یہ دیں ۔
(٣٢) تب زلیخا نے ان عورتوں سے کہا کہ یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے لعن طعن کرتی ہو اور واقعی میں نے ان کو اپنی طرف دعوت دی تھی اور اپنا مطلب حاصل کرنے کی خواہش کی تھی، مگر یہ عفت وپاک دامنی کے ساتھ علیحدہ رہے اور اگر آئندہ کو میرا کہنا نہ مانے گا تو جیل بھیجا جائے گا اور بےعزت بھی ہوگا، وہ سب عورتیں بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہنے لگیں کہ تمہیں اپنی محسنہ سے ایسی بےاعتنائی مناسب نہیں۔
(وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ )- اس عورت کا دھڑلے سے خصوصی دعوت کا اہتمام کرنا اور اس میں سب کو فخر سے بتانا کہ دیکھ لو یہ ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں اور پھر پوری بےحیائی سے اعلان کرنا کہ ایک دفعہ تو یہ مجھ سے بچ گیا ہے مگر کب تک ؟ آخر کار اسے میری بات ماننا ہوگی اس سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان کی اس انتہائی اونچی سطح کی سوسائٹی کی مجموعی طور پر اخلاقی حالت کیا تھی
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :27 اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت مصر کے اونچے طبقوں کی اخلاقی حالت کیا تھی ۔ ظاہر ہے کہ عزیز کی بیوی نے جن عورتوں کو بلایا ہوگا وہ امراء و رؤسا اور بڑے عہدہ داروں کے گھر کی بیگمات ہی ہوں گی ۔ ان عالی مرتبہ خواتین کے سامنے وہ اپنے محبوب نوجوان کو پیش کرتی ہے اور اس کی خوبصورت جوانی دکھا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسے جوان رعنا پر میں مر نہ مٹتی تو آخر اور کیا کرتی ۔ پھر یہ بڑے گھروں کی بہو بیٹیاں خود بھی اپنے عمل سے گویا اس امر کی تصدیق فرماتی ہیں کہ واقعی ان میں سے ہر ایک ایسے حالات میں وہی کچھ کرتی جو بیگم عزیز نے کیا ۔ پھر شریف خواتین کی اس بھری مجلس میں معزز میزبان کو علانیہ اپنے اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کا خوبصورت غلام اس کی خواہش نفس کا کھلونا بننے پر راضی نہ ہو ا تو وہ اسے جیل بھجوا دے گی ۔ یہ سب کچھ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ان کے مشرقی مقلدین آج عورتوں کی جس آزادی و بے باکی کو بیسویں صدی کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ، بہت پرانی چیز ہے ۔ دقیانوس سے سیکڑوں برس پہلے مصر میں یہ اسی شان کے ساتھ پائی جاتی تھی جیسی آج اس ”روشن زمانے“ میں پائی جا رہی ہے ۔