خواب اور اس کی تعبیر اب اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ان کے خواب کی تعبیر بتلا رہے ہیں لیکن یہ نہیں فرماتے کہ تیری خواب کی یہ تعبیر ہے اور تیرے خواب کی یہ تعبیر ہے تاکہ ایک رنجیدہ نہ ہو جائے اور موت سے پہلے اس پر موت کا بوجھ نہ پڑ جائے ۔ بلکہ مبہم کر کے فرماتے ہیں تم دو میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کا ساقی بن جائے گا یہ دراصل یہ اس کے خواب کی تعبیر ہے جس نے شیرہ انگور تیار کرتے اپنے تئیں دیکھا تھا ۔ اور دوسرے جس نے اپنے سر پر روٹیاں دیکھی تھیں ۔ اس کے خواب کی تعبیر یہ دی کہ اسے سولی دی جائے گی اور پرندے اس کا مغز کھائیں گے ۔ پھر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ اب ہو کر ہی رہے گا ۔ اس لیے کہ جب تک خواب کی تعبیر بیان نہ کی جائے وہ معلق رہتا ہے اور جب تعبیر ہو چکی وہ ظاہر ہو جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ تعبیر سننے کے بعد ان دونوں نے کہا کہ ہم نے تو دراصل کوئی خواب دیکھا ہی نہیں ۔ آپ نے فرمایا اب تو تمہارے سوال کے مطابق ظاہر ہو کر ہی رہے گا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو شخص خواہ مخواہ کا خواب گھڑ لے اور پھر اس کی تعبیر بھی دی دے دی جائے تو وہ لازم ہو جاتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خواب گویا پرندے کے پاؤں پر ہے جب تک اس کی تعبیر نہ دے دی جائے جب تعبیر دے دی گئی پھر وہ واقع ہو جاتا ہے مسند ابو یعلی میں مرفوعا مروی ہے کہ خواب کی تعبیر سب سے پہلے جس نے دی اس کے لیے ہے ۔
41۔ 1 توحید کا وعظ کرنے کے بعد اب حضرت یوسف (علیہ السلام) ان کے بیان کردہ خوابوں کی تعبیر بیان فرما رہے ہیں۔ 41۔ 2 یہ وہی شخص ہے جس نے خواب میں اپنے آپ کو انگور کا شیرہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تاہم آپ نے دونوں میں سے کسی ایک کی تعبین نہیں کی تاکہ مرنے والا پہلے ہی غم و حزن میں مبتلا نہ ہوجائے۔ 41۔ 3 یہ وہ شخص ہے جس نے اپنے سر پر خواب میں روٹیاں اٹھائے دیکھا تھا۔ 41۔ 4 یعنی تقدیر الٰہی میں پہلے سے یہ بات ثبت ہے اور جو تعبیر میں نے بتلائی ہے۔ لا محالہ واقع ہو کر رہے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ خواب، جب تک اس کی تعبیر نہ کی جائے، پرندے کے پاؤں پر ہے۔ جب اس کی تعبیر کردی جائے تو واقع ہوجاتا ہے (مسند احم بحوالہ ابن کثیر)
[٤٠] خوابوں کی تعبیر :۔ اس طرح موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیدنا یوسف نے ان دونوں سوال کرنے والوں کو دل نشین پیرایہ میں اصول دین سمجھا دیئے پھر ان کے خوابوں کی تعبیر بتانا شروع کی اور ساقی سے کہا کہ تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم اپنی سابقہ ملازمت پر بحال کردیئے جاؤ گے اور نانبائی سے کہا کہ تمہیں سولی پر چڑھا دیا جائے گا اور تمہاری موت کے بعد پرندے نوچ نوچ کر تمہارا گوشت کھائیں گے۔ یعنی ساقی پر الزام غلط ثابت ہوا اور نانبائی حقیقتاً مجرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ تعبیر سن کر نانبائی کہنے لگا کہ مجھے ایسی خواب نہیں آئی تھی میں تو ویسے ہی اس طرح کے خواب کی تعبیر پوچھنا چاہتا تھا سیدنا یوسف نے فرمایا : تمہیں خواب آئی تھی یا نہیں۔ بہرحال تقدیر میں یہ فیصلہ ہوچکا اور اب یہ واقعہ ہو کے رہے گا۔
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ۔۔ : تعبیر بیان کرتے وقت یوسف (علیہ السلام) کے حسن ادا کو ملاحظہ فرمائیں، ایک تو دونوں میں سے ایک کو متعین کرکے نہیں فرمایا کہ تیرے خواب کا یہ نتیجہ ہے اور تیرے خواب کا یہ، حالانکہ جواب سے ظاہر تھا کہ ساقی نے عہدے پر بحال ہونا ہے اور دوسرے نے سولی چڑھنا ہے، بلکہ فرمایا تم میں سے ایک کی تعبیر یہ ہے اور ایک کی یہ۔ پھر اس بات کو بھی سامنے رکھیے کہ پہلے وہ تعبیر بتائی جو خوش خبری والی تھی، دوسری بعد میں بتائی۔ مقصد یہ تھا کہ دل شکنی میں جتنی بھی دیر ہو سکے کی جائے اور خوشی کی خبر جتنی جلد ہو سکے پہنچائی جائے۔ - قُضِيَ الْاَمْرُ الَّذِيْ فِيْهِ تَسْتَفْتِيٰنِ : یعنی یہ فیصلہ ہوچکا جو اب ٹل نہیں سکتا ہے۔ یہاں لفظ ” قُضِيَ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلی آیت میں جو لفظ ” ظَنَّ “ آ رہا ہے وہ یہاں یقین کے معنی میں ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ خواب کی تعبیر اجتہادی ظن تھا، لہٰذا یہ ظن اصلی معنی میں ہے۔ (ابن کثیر، روح المعانی) موضح میں ہے : ” ظَنَّ “ فرمایا، معلوم ہوا کہ تعبیر خواب یقین نہیں اٹکل ہے، مگر پیغمبر اٹکل کرے تو بیشک ہے، یعنی اٹکل نہیں ہے۔ “
یوسف (علیہ السلام) اپنی تبلیغ و دعوت کے بعد ان لوگوں کے خوابوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم میں سے ایک تو رہا ہوجائے گا اور پھر اپنی ملازمت پر بھی برقرار رہ کر بادشاہ کو شراب پلائے گا اور دوسرے پر جرم ثابت ہو کر اس کو سولی دی جائے گی اور جانور اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے - پیغمبرانہ شفقت کی عجیب مثال :- ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ اگرچہ ان دونوں کے خواب الگ الگ تھے اور ہر ایک کی تعبیر متعین تھی اور یہ بھی متعین تھا کہ شاہی ساقی بری ہو کر اپنی ملازمت پر پھر فائز ہوگا اور باورچی کو سولی دی جائے گی مگر پیغمبرانہ شفقت و شرافت کی وجہ سے متعین کر کے نہیں بتلایا کہ تم میں سے فلاں کو سولی دی جائے گی تاکہ وہ ابھی سے غم میں نہ گھلے بلکہ اجمالی طور پر یوں فرمایا کہ تم میں سے ایک رہا ہوجائے گا اور دوسرے کو سولی دی جائے گی - آخر میں فرمایا کہ میں نے تمہارے خوابوں کی تعبیر جو دی ہے محض اٹکل اور تخمینہ سے نہیں بلکہ یہ خدائی فیصلہ ہے جو ٹل نہیں سکتا جن حضرات مفسرین نے ان لوگوں کے خوابوں کو غلط اور بناوٹی کہا ہے انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے خوابوں کی تعبیر بتلائی تو یہ دونوں بول اٹھے کہ ہم نے تو کوئی خواب دیکھا نہیں محض بات بنائی تھی اس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا قُضِيَ الْاَمْرُ الَّذِيْ فِيْهِ تَسْتَفْتِيٰنِ چاہے تم نے یہ خواب دیکھا یا نہیں دیکھا اب واقعہ یوں ہی ہوگا جو بیان کیا گیا ہے مقصد یہ ہے کہ جھوٹاخواب بنانے کے گناہ کا جو ارتکاب تم نے کیا تھا اب اس کی سزا یہی ہے جو تعبیر خواب میں بیان ہوئی
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّہٗ خَمْرًا ٠ۚ وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَّاْسِہٖ ٠ۭ قُضِيَ الْاَمْرُ الَّذِيْ فِيْہِ تَسْتَفْتِيٰنِ ٤١ۭ- سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- خمر - أصل الخمر : ستر الشیء، ويقال لما يستر به : خِمَار، لکن الخمار صار في التعارف اسما لما تغطّي به المرأة رأسها، وجمعه خُمُر، قال تعالی:- وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور 31] والخَمْر سمّيت لکونها خامرة لمقرّ العقل، وهو عند بعض الناس اسم لكلّ مسكر . وعند بعضهم اسم للمتخذ من العنب والتمر، لما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «الخمر من هاتین الشّجرتین : النّخلة والعنبة» - ( خ م ر ) الخمر - ( ن ) اصل میں خمر کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اسی طرح خمار اصل میں ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے کوئی چیز چھپائی جائے مگر عرف میں خمار کا لفظ صرف عورت کی اوڑھنی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سر کو چھپاتی ہے ۔ اس کی جمع خمر آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔- وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور 31] اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں ۔ کہاجاتا ہے ۔ الخمر - ۔ شراب ۔ نشہ ۔ کیونکہ وہ عقل کو ڈہانپ لیتی ہے بعض لوگوں کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پر خمر کا لفظ بولا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک صرف اسی چیز کو خمر کہا جاتا ہے ۔ جو انگور یا کھجور سے بنائی گئ ہو ۔ کیونکہ ایک روایت میں ہے (122) الخمر من ھاتین الشجرتین التخلۃ و العنبۃ ( کہ خمر ( شراب حرام صرف وہی ہے جو ان دو درختوں یعنی انگور یا کھجور سے بنائی گئی ہو ۔ - صلب - والصَّلَبُ والاصْطِلَابُ : استخراج الودک من العظم، والصَّلْبُ الذي هو تعلیق الإنسان للقتل، قيل : هو شدّ صُلْبِهِ علی خشب، وقیل : إنما هو من صَلْبِ الوَدَكِ. قال تعالی: وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] ، وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] والصَّلِيبُ : أصله الخشب الذي يُصْلَبُ عليه، والصَّلِيبُ : الذي يتقرّب به النّصاری، هو لکونه علی هيئة الخشب الّذي زعموا أنه صُلِبَ عليه عيسى عليه السلام، - ( ص ل ب ) الصلب - الصلب والاصطلاب کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا کے ہیں اور صلب جس کے معنی قتل کرنے کے لئے لٹکا دینا کے ہیں ۔ بقول بعض اسے صلب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اس شخص کی پیٹھ لکڑی کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صلب الودک سے ہے جس کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا گے ہیں قرآن میں ہے : وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] اور انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ سول پر چڑ ھایا ۔ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] اور کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوادوں گا ۔- ۔ الصلیب - اصل میں سوئی کی لکڑی کو کہتے ہیں نیز صلیب اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جو عیسائی بطور عبادت کے گلے میں اس خیال پر باندھ لیتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر سولی لٹکایا گیا تھا ۔ اور جس کپڑے پر صلیب کے نشانات بنے ہوئے ہوں اسے مصلب کہاجاتا ہے ۔ صالب سخت بخار جو پیٹھ کو چور کردے یا پسینہ کے ذریعہ انسان کی چربی نکال لائے ۔ - استفتا - الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] ، - استفتا - اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔- استفتاہ - کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] تو ان سے پوچھو۔
(٤١) اب حضرت یوسف (علیہ السلام) ان غلاموں کو خواب کی تعبیر بتاتے ہیں کہ تم میں سے ساقی تو جرم سے بری ہو کر اپنی اصلی جگہ اور اصلی کام پر چلا جائے گا اور اپنے آقا کو پہلے کی طرح شراب پلایا کرے گا اور نانبائی جیل سے نکال کر سولی پر لٹکایا جائے گا، نانبائی کے بارے میں یہ خواب کی تعبیر سن کر دونوں غلام گھبرائے اور کہنے لگے ہمیں تو ایسی چیز نظر نہیں آئی، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا جس کے بارے تم پوچھتے ہو اور جو کچھ تم نے بیان کیا اور جو میں نے اس کا جواب دیا ہے وہ اسی طرح ہو کر رہے گا خواہ تمہیں یہ حقیقت نظرآئی ہو یا نہ۔
آیت ٤١ (يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا)- یہاں پر رب کا لفظ بادشاہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یہ اس شخص کے خواب کی تعبیر ہے جس نے خود کو شراب کشید کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ شخص پہلے بھی بادشاہ کا ساقی تھا مگر اس پر کوئی الزام لگا اور اسے جیل بھیج دیا گیا۔ حضرت یوسف نے خبر دے دی کہ اس کے خواب کے مطابق وہ اس الزام سے بری ہو کر اپنے پرانے عہدے پر بحال ہوجائے گا۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :34 یہ تقریر جو اس پورے قصے کی جان ہے اور خود قرآن میں بھی توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے ، بائیبل اور تلمود میں کہیں اس کی طرف ادنی اشارہ تک نہیں ہے ۔ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو محض ایک دانشمند اور پرہیزگار آدمی کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں ۔ مگر قرآن صرف یہی نہیں کہ ان کی سیرت کے ان پہلوؤں کو بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت بہت زیادہ روشن کر کے پیش کرتا ہے ، بلکہ اس کے علاوہ وہ ہم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنا ایک پیغمبرانہ مشن رکھتے تھے اور اس کی دعوت و تبلیغ کا کام انہوں نے قید خانہ ہی میں شروع کر دی تھی ۔ یہ تقریر ایسی نہیں ہے کہ اس پر سے یونہی سرسری طور پر گزر جائے ۔ اس کے متعدد پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے: ( ١ ) یہ پہلا موقع ہے جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام ہم کو دین حق کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس سے پہلے ان کی داستان حیات کے جوابات قرآن نے پیش کیے ہیں ان میں صرف اخلاق فاضلہ کی مختلف خصوصیات مختلف مرحلوں پر ابھرتی رہی ہیں مگر تبلیغ کا کوئی نشان وہاں نہیں پایا جاتا ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے مراحل محض تیاری اور تربیت کے تھے ۔ نبوت کا کام عملا اس قید خانے کے مرحلے میں ان کے سپرد کیا گیا ہے اور نبی کی حیثیت سے یہ ان کی پہلی تقریر دعوت ہے ۔ ( ۲ ) یہ بھی پہلا موقع ہے کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی اصلیت ظاہر کی ۔ اس سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہایت صبر و شکر کے ساتھ ہر اس حالت کو قبول کرتے رہے جو ان کو پیش آئی ۔ جب قافلے والوں نے ان کو پکڑ کر غلام بنایا ، جب وہ مصر گئے ، جب انہیں عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کیا گیا ، جب انہیں جیل بھیجا گیا ، ان میں سے کسی موقع پر بھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ میں ابراہیم و اسحاق علیہما السلام کا پوتا ہوں اور یعقوب علیہما السلام کا بیٹا ہوں ۔ ان کے باپ دادا کوئی غیر معروف لوگ نہ تھے ۔ قافلے والے خواہ اہل مدین ہوں یا اسماعیلی ، دونوں ان کے خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے ہی تھے ۔ اہل مصر بھی کم از کم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تو ناواقف نہ تھے ۔ ( بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام جس انداز سے ان کا اور حضرت یعقوب اور اسحاق علیہما السلام کا ذکر کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں بزرگوں کی شہرت مصر میں پہنچی ہوئی تھی ۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے کبھی باپ دادا کا نام لے کر اپنے آپ کو ان حالات سے نکالنے کی کوشش نہ کی کہ جن میں وہ پچھلے چار پانچ سال کے دوران میں مبتلا ہوتے رہے ۔ غالبا وہ خود بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ اللہ تعالی جو کچھ انہیں بنانا چاہتا ہے اس کے لیے ان کا ان حالات سے گزرنا ہی ضروری ہے ۔ مگر اب انہوں نے محض اپنی دعوت و تبلیغ کی خاطر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ میں کوئی نیا اور نرالا دین پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ میرا تعلق دعوت توحید کی اس عالمگیر تحریک سے ہے جس کے آئمہ ابراہیم و اسحاق و یعقوب علیہم السلام ہیں ۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کہ داعی حق کبھی اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھا کرتا کہ وہ ایک نئی بات پیش کر رہا ہے جو اس سے پہلے کسی کو نہ سوجھی تھی ، بلکہ پہلے قدم ہی پر یہ بات کھول دیتا ہے کہ میں اس ازلی و ابدی حقیقت کی طرف بلا رہا ہوں جو ہمیشہ سے تمام اہل حق پیش کرتے رہے ہیں ۔ ( ۳ ) پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا اس میں ہم کو حکمت تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے ۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں ۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمہیں ضرور بتاؤں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمہیں تعبیر دیتا ہوں ۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ ان کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغ حق کی دھن سمائی ہوئی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوبصورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے ۔ جسے دعوت کی دھن لگی ہوئی نہیں ہوتی اس کے سامنے تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا ۔ مگر وہ جسے دھن لگی ہوئی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا ہے ۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑپن اور جھگڑالو پن سے انہیں الٹا متنفر کر کے چھوڑتا ہے ۔ ( ٤ ) اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام چھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کر دیتے بلکہ ان کے سامنے دین کے اس نقطہ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہل حق کا راستہ اہل باطل کے راستوں سے جدا ہوتا ہے ، یعنی توحید اور شرک کا فرق ۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقل عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیر کی طرح یہ بات اتر گئی ہوگی ، کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کر سکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقاؤں کا ، اور سارے جہان کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی ۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجاؤ ، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو ، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں ۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں ، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر ۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں سے کسی کو تم ان داتا ، کسی کو خداوند نعمت ، کسی کو مالک زمین اور کسی کو رب دولت یا مختار صحت و مرض وغیرہ کہتے ہو ، یہ سب خالی خولی نام ہی ہیں ، ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی ان داتائی و خداوندی اور مالکیت و ربوبیت موجود نہیں ہے ۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق و رب تسلیم کرتے ہو ، اور اس نے ان میں سے کسی کے لیے بھی خداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے ۔ اس نے تو فرمانروائی کے سارے حقوق اور اختیارات اپنے ہی لیے مخصوص رکھے ہیں اور اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ۔ ( ۵ ) اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے قید خانے کی زندگی کے یہ آٹھ دس سال کس طرح گزارے ہوں گے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں چونکہ ان کے ایک ہی وعظ کا ذکر ہے اس لیے انہوں نے صرف ایک ہی دفعہ دعوت دین کے لیے زبان کھولی تھی ۔ مگر اول تو ایک پیغمبر کے متعلق یہ گمان کرنا ہی سخت بدگمانی ہے کہ وہ اپنے اصل کام سے غافل ہوگا ۔ پھر جس شخص کی تبلیغی دھن کا یہ حال تھا کہ دو آدمی تعبیر خواب پوچھتے ہیں اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دین کی تبلیغ شروع کر دیتا ہے اس کے متعلق یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ اس نے قید خانے کے یہ چند سال خاموش ہی گزار دیے ہوں گے ۔