Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تعبیر بتا کر بادشاہ وقت کو اپنی یاد دہانی کی تاکید جسے حضرت یوسف نے اس کے خواب کی تعبیر کے مطابق اپنے خیال میں جیل خانہ سے آزاد ہونے والا سمجھا تھا اس سے در پردہ علیحدگی میں کہ وہ دوسرا یعنی باورچی نہ سنے فرمایا کہ بادشاہ کے سامنے ذرا میرا ذکر بھی کر دینا ۔ لیکن یہ اس بات کو بالکل ہی بھول گیا ۔ یہ بھی ایک شیطانی چال ہی تھی جس سے نبی اللہ علیہ السلام کئی سال تک قید خانے میں ہی رہے ۔ پس ٹھیک قول یہی ہے کہ فانساہ میں ہ کی ضمیر کا مرجع نجات پانے والا شخص ہی ہے ۔ گویا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ضمیر حضرت یوسف کی طرف پھرتی ہے ۔ ابن عباس سے مرفوعاً مروی ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یوسف یہ کلمہ نہ کہتے تو جیل خانے میں اتنی لمبی مدت نہ گزارتے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور سے کشادگی چاہی ۔ یہ روایت بہت ہی ضعیف ہے ۔ اس لیے کہ سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید دونوں راوی ضعیف ہیں ۔ حسن اور قتادہ سے مرسلاً مروی ہے ۔ گو مرسل حدیثیں کسی موقع پر قابل قبول بھی ہوں لیکن ایسے اہم مقامات پر ایسی مرسل روایتیں ہرگز احتجاج کے قابل نہیں ہو سکتیں واللہ اعلم ۔ بضع لفظ تین سے نو تک کے لیے آتا ہے ۔ حضرت وہب بن منبہ کا بیان ہے کہ حضرت ایوب بیماری میں سات سال تک مبتلا رہے اور حضرت یوسف قید خانے میں سات سال تک رہے اور بخت نصر کا عذاب بھی سات سال تک رہا ابن عباس کہتے ہیں مدت قید بارہ سال تھی ۔ ضحاک کہتے ہیں چودہ برس آپ نے قید خانے میں گزارے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 بضع کا لفظ تین سے لے کر نو تک عدد کے لیے بولا جاتا ہے، وہب بن منبہ کا قول ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) آزمائش میں اور یوسف (علیہ السلام) قید خانے میں سات سال رہے اور بخت نصر کا عذاب بھی سات سال رہا اور بعض کے نزدیک بارہ سال اور بعض کے نزدیک چودہ سال قید خانے میں رہے۔ واللہ اعلم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] لفظ ظن کے بعد جب ان کا لفظ آئے تو یہ یقین کا معنی دیتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے مفردات القرآن از امام راغب اصفہانی) اور قرآن میں اس کی مثالیں اور بھی بہت ہیں۔ جیسے (الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ 46؀ ) 2 ۔ البقرة :46) یعنی جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں) اور یوسف کو ساقی کے متعلق یہ یقین تھا کہ وہ قید سے رہا ہو کر اپنی سابقہ ملازمت پر بحال کردیا جائے۔ جب وہ قید خانہ سے جانے لگا تو یوسف نے اسے کہا کہ بادشاہ سے میرے متعلق بھی تذکرہ کرنا کہ ایک بےقصور آدمی مدت سے قید خانہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کی طرف آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔- [٤٢] سیدنا یوسف کی قید کی مدت :۔ لیکن وہ رہا ہونے والا ساقی اپنی رہائی کی اور پھر ملازمت کی بحالی کی خوشخبری میں کچھ اس طرح مگن اور بےخود ہوا کہ اسے بادشاہ کے سامنے اپنے محسن سیدنا یوسف کا ذکر کرنا یاد ہی نہ رہا اور نسیان کی نسبت شیطان کی طرف اس لیے کہ گئی ہے کہ شیطان کسی بھی اچھے کام میں ممدو معاون نہیں ہوا کرتا۔ اس کے وساوس ایسے ہی ہوتے ہیں کہ یا تو کوئی کارخیر سرانجام ہی نہ پائے یا اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر جتنی بھی اس کار خیر میں زیادہ سے زیادہ تاخیر ہو وہی اس کا مقصود ہوتا ہے جیسے اللہ کے ذکر سے غفلت کی نسبت قرآن نے عموماً شیطان ہی کی طرف ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی سال مزید آپ کو قید میں ہی گزر گئے اور آپ کے معاملہ کی طرف توجہ کا کسی کو خیال تک نہ آیا۔ قرآن نے (بِضْعَ سِنِيْنَ 42؀ ) 12 ۔ یوسف :42) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا اطلاق دس سے کم طاق اعداد پر ہوتا ہے اور مفسرین کے اقوال کے مطابق آپ کی قید کی مدت ٧ سال یا ٩ سال تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ قید خانے میں رہنا جو بقول بعض زندوں کا قبرستان ہے، کس قدر تکلیف دہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) جیسے صابر شخص نے اس آدمی سے کہا جس کے متعلق انھوں نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہونے والا ہے کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا کہ کس طرح ایک شخص بلاجرم قید میں بند ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت سے نکلنے کے لیے دنیا کے جو اسباب اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں انھیں اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں، جیسا کہ : (ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ ) [ المائدۃ : ٢ ] (نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو) سے ظاہر ہے اور جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (3 مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ [ آل عمران : ٥٢ ] ” اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں ؟ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف سے واپسی پر مطعم بن عدی کی طرف پیغام بھیجا، پھر اس کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے، بلکہ مسلمان کو دنیا کا ہر جائز سبب اختیار کرنا چاہیے، فرمایا : (وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ) [ الأنفال : ٦٠ ] یعنی ان کفار کے لیے جس قدر تمہاری استطاعت ہے تیاری رکھو، البتہ بھروسا اس کے بعد بھی اللہ ہی پر ہوگا۔ - 3 شیطان نے اس ساقی کو اپنے مالک یعنی بادشاہ کے پاس یہ ذکر کرنا بھلا دیا، سو یوسف (علیہ السلام) کئی سال قید میں رہے۔ شیطان کی آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد سے دشمنی کا تو قرآن شاہد ہے : (اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ) [ البقرۃ : ١٦٨ ] ” بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “ اور قرآن نے صراحت کی ہے کہ ساقی کو بھلانا شیطان کا کام تھا، اس کے باوجود بعض اہل علم نے ساقی کو بادشاہ کے پاس اپنا ذکر کرنے کے لیے کہنا یوسف (علیہ السلام) کی عزیمت اور شان پیغمبری کے خلاف قرار دیا ہے اور اتنے سال جیل میں رہنے کا باعث یہ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کا دل اسباب پر نہ ٹھہرے۔ اس سلسلے میں یہ حضرات وہ روایت بھی پیش کرتے ہیں جو ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ بیان کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر یوسف (علیہ السلام) وہ بات نہ کہتے جو انھوں نے کہی تو اتنی لمبی مدت قید میں نہ رہتے، کیونکہ انھوں نے غیر اللہ کے ہاں سے مصیبت دور کروانا چاہی۔ “ حافط ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” یہ روایت نہایت ضعیف ہے، کیونکہ اس کا راوی سفیان بن وکیع ضعیف ہے اور (اس کا شیخ) ابراہیم بن یزید (الجوزی) اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ “- لَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ : ” بِضْعَ “ کا لفظ تین سے لے کر نو تک کے لیے آتا ہے۔ قرآن و سنت میں اس مدت کی تعیین کہیں نہیں آئی۔ تابعین میں سے کسی نے سات سال کہا، کسی نے کم و بیش، مگر اب ان سے کون پوچھے کہ آپ کو کس نے یہ مدت بتائی، اگر بنی اسرائیل سے آئی ہے تو اس پر تو اعتبار ممکن نہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ہم نہ اسے سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔ سو اصل یہی ہے کہ وہ مدت دس سال سے کم تھی اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی تھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پھر جس شخص کے متعلق یوسف (علیہ السلام) تعبیر خواب کے ذریعہ یہ سمجھے تھے کہ وہ رہا ہوگا اس سے کہا کہ جب تم آزاد ہو کر جیل سے باہر جاؤ اور شاہی دربار میں رسائی ہو تو اپنے بادشاہ سے میرا بھی ذکر کردینا کہ وہ بےگناہ قید میں پڑا ہوا ہے مگر اس شخص کو آزاد ہونے کے بعد یوسف (علیہ السلام) کی یہ بات یاد نہ رہی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کی آزادی کو اور دیر لگی اور اس واقعہ کے بعد چند سال مزید قید میں رہے یہاں قرآن میں لفظ بِضْعَ سِنِيْنَ آیا ہے یہ لفظ تین سے لے کر نو تک صادق آتا ہے بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد سات سال مزید قید میں رہنے کا اتفاق ہوا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنْہُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ۝ ٠ۡفَاَنْسٰىہُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ۝ ٤٢ۧ- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- بِضع - بالکسر : المنقطع من العشرة، ويقال ذلک لما بين الثلاث إلى العشرة، وقیل : بل هو فوق الخمس ودون العشرة، قال تعالی: بِضْعَ سِنِينَ [ الروم 4] . - بِضع - البضع ( بکسرالبا ) عدد جو دس الگ کئے گئے ہیں یہ لفظ تین سے لے کر نو نک بولا جاتا ہے نعیض کہتے ہیں کہ پانچ سے اوپر اور دس سے کم پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ بِضْعَ سِنِينَ ( سورة يوسف 42) چند سال ۔- سِّنِينَ ( قحط سالي)- وَلَقَدْ أَخَذْنا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ [ الأعراف 130] ، فعبارة عن الجدب، وأكثر ما تستعمل السَّنَةُ في الحول الذي فيه الجدب، يقال : أَسْنَتَ القوم : أصابتهم السَّنَةُ ،- وَلَقَدْ أَخَذْنا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ [ الأعراف 130] اور ہم نے فرعونیوں کو کئی سال تک قحط میں مبتلارکھا ۔ سنین کے مراد قحط سالی اور زیادہ تر سنۃ کا لفظ قحط سالی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ اسنت القوم لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوگئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

فانساہ الشیطن کے دو مفہوم - قول باری ہے وقال للذین ظن انہ تاج منھما اذکرنی عند ربک فانساہ الشیطن ذکر ربہ فلبث فی السجن بضع سنین ۔ پھر ان میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہوجائے گا اس سے یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ اپنے رب شاہ مصر سے میرا ذکر کرنا۔ مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب شاہ مصر سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسف کئی سال قید میں پڑا رہا ۔ یہاں ظن یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اس لیے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خواب کی اس تعبیر کے وقوع پذیرہونے کا یقین تھا جو آپ نے اسے بتائی تھی ۔ یہاں ظن بمعنی یقین کے استعمال کی مثال یہ آیت ہے۔ انی ظنت انی ملاق حسابیہ مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنے اعمال کے حساب و کتاب کا سامنا کرنا ہے۔ یہاں طننت بمعنیالقینت ہے یعنی مجھے یقین تھا۔ قول باری فانساہ الشیطان میں ضمیر مفعول حضرت ابن عباس (رض) سے مروی تفسیر کے مطابق حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ حسن بصری اور ابن اسحاق کا قول ہے کہ اس قیدی کی طرف راجع ہے جو رہا ہو کر اپنے آقا شاہ مصر کو شراب پلانے والا تھا۔- آیت میں یہ بیان ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا کئی سالوں تک قید میں پڑے رہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے رہا ہونے والے قیدی سے یہ کہا تھا کہ بادشا ہ کے پاس میرا تذکرہ کردینا ۔ آپ نے یہ بات ایک قسم کی غفلت کی بنا پر کہی تھی۔ اگر حضرت ابن عباس (رض) کی تاویل اختیار کی جائے کہ شیطان نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کیذہن سے اللہ کی یاد بھلا دی تھی جب کہ اس حالت قید میں اللہ کو یاد کرنا بہتر تھا، نیز اللہ کی یاد کو چھوڑ کر رہا ہونے والے قیدی سے یہ کہنا نہیں چاہیے تھا کہ اپنے آقا کے پاس میرا تذکرہ کرنا ۔ تو اس تاویل کی بنا پر ایسے وقت میں اللہ کی یاد سے غفلت اور بےتوجہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کئی سالوں تک قید میں پڑے رہنے کا سبب بن گئی ۔ اگر دوسری تاویل اختیار کی جائے جس کے مطابق شیطان نے رہا جانے والے قیدی کو جو اپنے آقا کا ساقی بننے والا تھا غفلت میں ڈال دیا تھا تو اسے اس پر محمول کیا جائے گا کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ساقی سے یہ کہا تھا تو ساقی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے شیطانی وس اس و خیالات کے ساتھ تنہا چوڑ دیا جس کے نتیجے میں شیطان نے اس کے ذہن سے اپنے آقا کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کے تذکرے کی بات نکال دی ۔ لفظ بضع کے متعق حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ تین سے لے کر دس تک ہوتا ہے۔ مجاہد اور قتادہ کے قول کے مطابق نو تک ہوتا ہے۔ وہب کا قو ل ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) قید میں سات برس تک رہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٢) اور ساقی جس کے بارے میں قید اور قتل سے رہائی کا گمان تھا اس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا بھی ذکر کرنا کہ میں مظلوم ہوں مجھ پر میرے بھائیوں نے زیادتی کرکے مجھے بیچ ڈالا اور حقیقت میں آزاد ہوں اور ناحق قید میں ہوں، چناچہ رہائی کے بعد شیطان نے اس ساقی آقا سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ کرنا بھلا دیا، یا یہ کہ شیطان نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے پروردگار سے اس چیز کی دعا کرنا بھلا دیا۔- چناچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ مخلوق کے سامنے اس چیز کا ذکر کیا۔- جس کی پاداش میں حضرت یوسف (علیہ السلام) سات سال تک اور قید خانہ میں قید رہے حالانکہ اس سے پہلے پانچ سال سے قید میں تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ )- یعنی تمہیں کبھی موقع ملے تو بادشاہ کو بتانا کہ جیل میں ایک ایسا قیدی بھی ہے جس کا کوئی قصور نہیں اور اسے خواہ مخواہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔- (فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ )- بِضْع کا لفظ عربی زبان میں دو سے لے کر نو تک (دس سے کم) کی تعداد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :35 اس مقام کی تفسیر بعض مفسرین نے یہ کی ہے کہ ” شیطان نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے رب ( یعنی اللہ تعالی ) کی یاد سے غافل کر دیا اور انہوں نے ایک بندے سے چاہا کہ وہ اپنے رب ( یعنی شاہ مصر ) سے ان کا تذکرہ کر کے ان کی رہائی کی کوشش کرے ، اس لیے اللہ تعالی نے ان کو یہ سزا دی کہ وہ کئی سال تک جیل میں پڑے رہے“ ۔ درحقیقت یہ تفسیر بالکل غلط ہے ۔ صحیح یہی ہے ، جیسا کہ علامہ ابن کثیر ، اور متقدمین میں سے مجاہد اور محمد بن اسحاق وغیرہ نے کہا ہے کہ فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ کی ضمیر اس شخص کی طرف پھرتی ہے جس کے متعلق حضرت یوسف علیہ السلام کا گمان تھا کہ وہ رہائی پانے والا ہے ، اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ” شیطان نے اسے اپنے آقا سے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا بھلا دیا “ ۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اگر یوسف علیہ السلام نے وہ بات نہ کہی ہوتی جو انہوں نے کہی تو وہ قید میں کئی سال نہ پڑے رہتے“ ۔ لیکن علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ” یہ حدیث جتنے طریقوں سے روایت کی گئی ہے وہ سب ضعیف ہیں ۔ بعض طریقوں سے یہ مرفوعا روایت کی گئی ہے اور ان میں سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید راوی ہیں جو دونوں ناقابل اعتماد ہیں ۔ اور بعض طریقوں سے یہ مرسلا روایت ہوئی ہے اور ایسے معاملات میں مرسلات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا“ ۔ علاوہ بریں روایت کے اعتبار سے بھی یہ بات باور کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ایک مظلوم شخص کا اپنی رہائی کے لیے دنیوی تدبیر کرنا خدا سے غفلت اور توکل کے فقدان کی دلیل قرار دیا گیا ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

27: آقا سے مراد بادشاہ ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جس قیدی کے بارے میں یہ فرمایا تھا کہ وہ چھوٹ جائے گا اور واپس جا کر حسب معمول اپنے آقا کو شراب پلائے گا اس سے آپ نے یہ بات فرمائی کہ تم اپنے آقا یعنی بادشاہ سے میرا تذکلرہ کرنا کہ ایک شخص بے گناہ جیل میں پڑا ہوا ہے۔ اس کے معاملے پر آپ کوتوجہ کرنی چاہیے مگر جیسا کہ آگے بیان فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ شخص بادشاہ سے یہ بات کہنا بھول گیا جس کی وجہ سے انہٰں کئی سال اور جیل میں رہنا پڑا۔