Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شاہ مصر کا خواب اور تلاش تعبیر میں یوسف علیہ السلام تک رسائی قدرت الٰہی نے یہ مقرر رکھا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے سے بعزت و اکرام پاکیزگی برات اور عصمت کے ساتھ نکلیں ۔ اس کے لیے قدرت نے یہ سبب بنایا کہ شاہ مصر نے ایک خواب دیکھا جس سے بھونچکا سا ہو گیا ۔ دربار منعقد کیا اور تمام امراء ، رؤسا ، کاہن ، منجم اور علماء کو خواب کی تعبیر بیان کرنے والوں کو جمع کیا ۔ اور اپنا خواب بیان کر کے ان سب سے تعبیر دریافت کی ۔ لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔ اور سب نے لاچار ہو کر یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ کوئی باقاعدہ لائق تعبیر سچا خواب نہیں جس کی تعبیر ہو سکے ۔ یہ تو یونہی پریشان خواب مخلوط خیالات اور فضول توہمات کا خاکہ ہے ۔ اس کی تعبیر ہم نہیں جانتے ۔ اس وقت شاہی ساقی کو حضرت یوسف علیہ السلام یاد آگئے کہ وہ تعبیر خواب کے پورے ماہر ہیں ۔ اس علم میں ان کو کافی مہارت ہے ۔ یہ وہی شخص ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ جیل خانہ بھگت رہا تھا یہ بھی اور اس کا ایک اور ساتھی بھی ۔ اسی سے حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ بادشاہ کے پاس میرا ذکر بھی کرنا ۔ لیکن اسے شیطان نے بھلا دیا تھا ۔ آج مدت مدید کے بعد اسے یاد آگیا اور اس نے سب کے سامنے کہا کہ اگر آپ کو اس کی تعبیر سننے کا شوق ہے اور وہ بھی صحیح تعبیر تو مجھے اجازت دو ۔ یوسف صدیق علیہ السلام جو قید خانے میں ہیں ان کے پاس جاؤں اور ان سے دریافت کر آؤں ۔ آپ نے اسے منظور کیا اور اسے اللہ کے محترم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ امتہ کی دوسری قرأت امتہ بھی ہے ۔ اس کے معنی بھول کے ہیں ۔ یعنی بھول جانے کے بعد اسے حضرت یوسف علیہ السلام کا فرمان یاد آیا ۔ دربار سے اجازت لے کر یہ چلا ۔ قید خانے پہنچ کر اللہ کے نبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی علیہ السلام سے کہا کہ اے نرے سچے یوسف علیہ السلام بادشاہ نے اس طرح کا ایک خواب دیکھا ہے ۔ اسے تعبیر کا اشتیاق ہے ۔ تمام دربار بھرا ہوا ہے ۔ سب کی نگاہیں لگیں ہوئی ہیں ۔ آپ مجھے تعبیر بتلا دیں تو میں جا کر انہیں سناؤں اور سب معلوم کرلیں ۔ آپ نے نہ تو اسے کوئی ملامت کی کہ تو اب تک مجھے بھولے رہا ۔ باوجود میرے کہنے کے تونے آج تک بادشاہ سے میرا ذکر بھی نہ کیا ۔ نہ اس امر کی درخواست کی کہ مجھے جیل خانے سے آزاد کیا جائے بلکہ بغیر کسی تمنا کے اظہار کے بغیر کسی الزام دینے کے خواب کی پوری تعبیر سنا دی اور ساتھ ہی تدبیر بھی بتا دی ۔ فرمایا کہ سات فربہ گایوں سے مراد یہ ہے کہ سات سال تک برابر حاجت کے مطابق بارش برستی رہے گی ۔ خوب ترسالی ہوگی ۔ غلہ کھیت باغات خوب پھلیں گے ۔ یہی مراد سات ہری بالیوں سے ہے ۔ گائیں بیل ہی ہلوں میں جتتے ہیں ان سے زمین پر کھیتی کی جاتی ہے ۔ اب ترکیب بھی بتلا دی کہ ان سات برسوں میں جو اناج غلہ نکلے ۔ اسے بطور ذخیرے کے جمع کر لینا اور رکھنا بھی بالوں اور خوشوں سمیت تاکہ سڑے گلے نہیں خراب نہ ہو ۔ ہاں اپنی کھانے کی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لینا ۔ لیکن خیال رہے کہ ذرا سا بھی زیادہ نہ لیا جائے صرف حاجت کے مطابق ہی نکالا جائے ۔ ان سات برسوں کے گزرتے ہی اب جو قحط سالیاں شروع ہوں گی وہ برابر سات سال تک متواتر رہیں گی ۔ نہ بارش برسے گی نہ پیداوار ہوگی ۔ یہی مراد ہے سات دبلی گایوں اور سات خشک خوشوں سے ہے کہ ان سات برسوں میں وہ جمع شدہ ذخیرہ تم کھاتے پیتے رہو گے ۔ یاد رکھنا ان میں کوئی غلہ کھیتی نہ ہوگی ۔ وہ جمع کردہ ذخیرہ ہی کام آئے گا ۔ تم دانے بوؤ گے لیکن پیداوار کچھ بھی نہ ہوگی ۔ آپ نے خواب کی پوری تعبیر دے کر ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ ان سات خشک سالیوں کے بعد جو سال آئے گا وہ بڑی برکتوں والا ہوگا ۔ خوب بارشیں برسیں گی خوب غلے اور کھیتیاں ہوں گی ۔ ریل پیل ہو جائے گی اور تنگی دور ہو جائے گی اور لوگ حسب عادت زیتون وغیرہ کا تیل نکالیں گے اور حسب عادت انگور کا شیرہ نچوڑیں گے ۔ اور جانوروں کے تھن دودھ سے لبریز ہو جائیں گے کہ خوب دودھ نکالیں پئیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] شاہ مصر کا خواب :۔ طویل مدت کے بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس رہا ہونے والے ساقی کو سیدنا یوسف کا پیغام یاد دلایا۔ واقعہ یہ ہوا کہ شاہ مصر کو ایک عجیب اور ڈراؤنا سا خواب آیا۔ خواب میں اس نے دیکھا کہ سات دبلی گائیں ہیں جو اپنے سے بہت بھاری سات موٹی تازی گائیوں کا گوشت کھا رہی ہیں اور گوشت کھا کر انھیں ختم ہی کردیا ہے اور یہ سارا گوشت چٹ کر جانے کے بعد بھی وہ دبلی کی دبلی ہی ہیں۔ جیسے پہلے تھیں اور دوسرا منظر یہ دیکھا ہے کہ سات سوکھی بالیاں ہیں جو سات ہری بھری اور سرسبز بالیوں کے اوپر لپٹ گئی ہیں اور انھیں بھی سوکھا بنادیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ ۔۔ : مصر کے بادشاہ کا یہ خواب اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں یوسف (علیہ السلام) کی قید سے عزت و تکریم کے ساتھ رہائی کا سبب تھا، اس خواب نے شاہ مصر کو نہایت خوف زدہ اور پریشان کردیا، چناچہ اس نے اپنے علم تعبیر کے تمام ماہروں اور سب سرداروں کو جمع کرکے خواب سنایا اور تعبیر کی فرمائش کی۔ - يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِيْ فِيْ رُءْيَايَ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ خواب کی تعبیر بھی فتویٰ کا حکم رکھتی ہے، جس طرح فتویٰ علم کے بغیر جائز نہیں، خواب کی تعبیر کا بھی اگر فی الواقع علم ہو تو بتانی چاہیے، ورنہ علم کے بغیر تعبیر کرنے والے اس حدیث کے مصداق ہوں گے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَرِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقَ عَالِمَا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوْسًا جُھَّالاً ، فَسُءِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَ أَضَلُّوْا ([ بخاری، العلم، باب کیف یقبض العلم : ١٠٠ ] ” اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ اسے علماء کے سینے سے نکال لے، بلکہ علم کو علماء کے فوت کرلینے کے ساتھ قبض کرے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہل سردار بنالیں گے، پھر ان سے سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے، سو خود گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو گمراہ کریں گے۔ “ اس حدیث سے تک بندی اور اٹکل پچو سے تعبیر بتانے والے اپنا انجام سوچ لیں۔ - معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کو اپنے درباریوں سے امید نہ تھی کہ وہ اس خواب کی تعبیر کرسکیں گے، اسی لیے کہا : ” اگر تم خواب کی تعبیر کیا کرتے ہو۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور بادشاہ مصر نے (بھی ایک خواب دیکھا اور ارکان دولت کو جمع کر کے ان سے) کہا کہ میں (خواب میں کیا) دیکھتا ہوں کہ سات گائیں فربہ ہیں جن کو سات لاغر گائیں کھا گئیں اور سات بالیں سبز ہیں اور ان کے علاوہ سات اور ہیں جو کہ خشک ہیں (اور خشک بالوں نے اسی طرح ان سات سبز پر لپٹ کر ان کو خشک کردیا) اے دربار والو اگر تم (خواب کی) تعبیر دے سکتے ہو تو میرے اس خواب کے بارے میں مجھ کو جواب دو وہ لوگ کہنے لگے کہ (اول تو یہ کوئی خواب ہی نہیں جس سے آپ فکر میں پڑیں) یونہی پریشان خیالات ہیں اور (دوسرے) ہم لوگ (کہ امور سلطنت میں ماہر ہیں) خوابوں کی تعبیر کا علم بھی نہیں رکھتے (دو جواب اس لئے دیئے کہ اول جواب سے بادشاہ کے قلب سے پریشانی اور وسو اس دور کرنا ہے اور دوسرے جواب سے اپنا عذر ظاہر کرنا ہے خلاصہ یہ کہ اول تو ایسی خواب قابل تعبیر نہیں دوسرے ہم اس فن سے واقف نہیں) اور ان (مذکورہ) دو قیدیوں میں سے جو رہا ہوگیا تھا (وہ مجلس میں حاضر تھا) اس نے کہا اور مدت کے بعد اس کو (یوسف (علیہ السلام) کی وصیت کا) خیال آیا میں اس کی تعبیر کی خبر لائے دیتا ہوں، آپ لوگ مجھ کو ذرا جانے کی اجازت دیجئے (چنانچہ دربار سے اجازت ہوئی اور وہ قیدخانہ میں یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور جا کر کہا) اے یوسف اے صدق مجسم آپ ہم لوگوں کو اس (خواب) جواب (یعنی تعبیر) دیجئے کہ سات گائیں موٹی ہیں ان کو سات دبلی گائیں کھاگئیں اور سات بالیں ہری ہیں اور اس کے علاوہ (سات) خشک بھی ہیں (کہ ان خشک کے لپٹنے سے وہ ہری بھی خشک ہوگئیں آپ تعبیر بتلائیے) تاکہ میں (جنہوں نے مجھ کو بھیجا ہے) ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤں (اور بیان کروں) تاکہ (اس کی تعبیر اور اس سے آپ کا حال) ان کو بھی معلوم ہوجائے (تعبیر کے موافق عملدرآمد کریں اور آپ کی خلاصی کی کوئی صورت نکلے) آپ نے فرمایا کہ (ان سات فربہ گایوں اور سات سبز بالوں سے مراد پیداوار اور بارش کے سال ہیں پس) تم سات سال متواتر (خوب) غلہ بونا پھر جو فصل کاٹو اس کو بالوں ہی میں رہنے دینا (تاکہ گھن نہ لگ جاوے) ہاں مگر تھوڑا سا جو تمہارے کھانے میں آوے (وہ بالوں میں سے نکالا ہی جاوے گا) پھر اس (سات برس) کے بعد سات برس ایسے سخت (اور قحط کے) آویں گے جو کہ اس (تمام تر) ذخیرہ کو کھا جاویں گے جس کو تم نے ان برسوں واسطے جمع کر کے رکھا ہوگا ہاں مگر تھوڑا سا جو (بیج کے واسطے) رکھ چھوڑو گے (وہ البتہ بچ جاوے گا اور ان خشک بالوں اور دبلی گایوں سے اشارہ ان سات سال کی طرف ہے) پھر اس (سات برس) کے بعد ایک برس ایسا آوے گا جس میں لوگوں کے لئے خوب بارش ہوگی اور اس میں (بوجہ اس کے کہ انگور کثرت سے پھلیں گے) شیرہ بھی نچوڑیں گے (اور شرابیں پئیں گے غرض وہ شخص تعبیر لے کر دربار میں پہنچا) اور (جا کر بیان کیا) بادشاہ نے (جو سنا تو آپ کے علم وفضل کا معتقدہوا اور) حکم دیا کہ ان کو میرے پاس لاؤ (چنانچہ یہاں سے قاصد چلا) پھر جب ان کے پاس قاصد پہنچا (اور پیغام دیا تو) آپ نے فرمایا کہ (جب تک میرا اس تہمت سے بری ہونا ثابت نہ ہوجائے گا میں نہ آؤں گا) تو اپنی سرکار کے پاس لوٹ جا پھر اس سے دریافت کر کہ (کچھ تم کو خبر ہے) ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے (مطلب یہ تھا کہ ان کو بلا کر اس واقعہ کی جس میں مجھ کو قید کی گئی تفتیش و تحقیق کی جاوے اور عورتوں کے حال سے مراد ان کا واقف یا ناواقف ہونا ہے حال یوسف (علیہ السلام) سے اور ان عورتوں کی تخصیص شاید اس لئے کی ہو کہ ان کے سامنے زلیخا نے اقرار کیا تھا وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ میرا رب ان عورتوں کے فرقہ کے فریب کو خوب جانتا ہے (یعنی اللہ کو تو معلوم ہی ہے کہ زلیخا کا مجھ پر تہمت لگانا کید تھا مگر عند الناس بھی اس کی تنقیح ہوجانا مناسب ہے چناچہ بادشاہ نے ان عورتوں کو حاضر کیا)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ۝ ٠ۭ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِيْ فِيْ رُءْيَايَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُوْنَ۝ ٤٣- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - بقر - البَقَر واحدته بَقَرَة . قال اللہ تعالی: إِنَّ الْبَقَرَ تَشابَهَ عَلَيْنا [ البقرة 70] ويقال في جمعه :- بَاقِر - ( ب ق ر ) البقر - ۔ ( اسم جنس ) کے معنی ( بیل یا ) گائے کے ہیں اس کا واحد بقرۃ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ - إِنَّ الْبَقَرَ تَشابَهَ عَلَيْنا [ البقرة 70] کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں ۔ - عجف - قال تعالی: سَبْعٌ عِجافٌ [يوسف 43] ، جمعُ أَعْجَفَ ، وعَجْفَاءَ ، أي : الدّقيق من الهُزال، - ( ع ج ف ) عجف - ( صفت ) کے معنی انتہائی لاغر اور دبلا کے ہیں اس کی مؤنث عجفاء ہے اور جمع عجاف قرآن میں ہے : ۔ سَبْعٌ عِجافٌ [يوسف 43] سات دبلی - سُّنْبُلَةُ- والسُّنْبُلَةُ جمعها سَنَابِلُ ، وهي ما علی الزّرع، قال : سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة 261] ، وقال : سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف 46] ، وأَسْبَلَ الزّرعُ : صار ذا سنبلة، نحو : أحصد وأجنی، والْمُسْبِلُ اسم القدح الخامس - السنبلۃ : بال ۔ اس کی جمع سنابل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة 261] سات بالیں ہر بال میں ۔ سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف 46] سات سبز بالیں ۔ اسبل الزرع کھیتی میں بالیں پڑگئیں ( ماخذہ کے ساتھ متصف ہونا کے معنی پائے جاتے ہیں ) جیسے احصد الزرع واجنی النخل کا محاورہ ہے : ۔ المسبل جوئے کے تیروں میں سے پانچواں تیر ۔- خضر - قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ- [ الكهف 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر :- قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة :- المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر .- ( خ ض ر )- قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں - يبس - يَبِسَ الشیءُ يَيْبَسُ ، واليَبْسُ : يَابِسُ النّباتِ ، وهو ما کان فيه رطوبة فذهبت، واليَبَسُ : المکانُ يكون فيه ماء فيذهب . قال تعالی: فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً- [ طه 77] والأَيْبَسَانِ «1» : ما لا لحم عليه من الساقین إلى الکعبین .- ( ی ب س ) یبس - ( س ) الشئی کے معنی کسی چیز کا خشک ہوجانا کے ہیں ۔ اور ترگھاس جب خشک ہوجائے تو اسے یبس ( بسکون الباء ) کہاجاتا ہے اور جس جگہ پر پانی ہو اور پھر خشک ہوجائے اسے یبس ( بفتح الباء ) کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه 77] تو انکے لیے دریا میں لائٹس مارکر خشک راستہ بنادو ۔- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] - ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ - فَتْوَى- والفُتْيَا والفَتْوَى: الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] ، أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل 32] .- اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔ استفتاہ کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] تو ان سے پوچھو ۔۔۔ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل 32] . میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔- تَّعْبِيرُ :- مختصّ بِتَعْبِيرِ الرّؤيا، وهو العَابِرُ من ظاهرها إلى باطنها، نحو : إِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيا تَعْبُرُونَ- [يوسف 43] ، وهو أخصّ من التّأوي - اور تعبیر کے - معنی ہیں خواب کا انجام بتانا گویا تاویل بتانے والا اس کے ظاہر سے باطن تک پہنچ جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيا تَعْبُرُونَ [يوسف 43] اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہو ۔ اور تعبیر کا لفظ تاویل سے خاص ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٣) بادشاہ مصر نے بھی ایک خواب دیکھا اور وزراء وامراء کو جمع کرکے ان سے کہا کہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ سات تنومند گائیں نہر سے نکلیں اور ان کے بعد سات لاغر اور کمزور گائیں آئیں اور ان تنومند کو کھاگئیں اور ان پر کسی چیز کا ظہور نہیں ہوا اور اسی طرح سات بالیں سبز ہیں اور دوسری سات خشک ہیں جو ان کو کھاگئیں اور اس کا کچھ ظہور نہ ہوا - جادوگرو اور نجومیو اور کاہنو میرے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم اس کی تعبیر جانتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ (- اب یہاں سے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے۔ اس وقت مصر پر فراعنہ کی حکومت نہیں تھی ‘ بلکہ وہاں چرواہے بادشاہ ( ) حکمران تھے۔ تاریخ میں اکثر ایسے واقعات ملتے ہیں کہ کچھ صحرائی قبیلوں نے قوت حاصل کر کے متمدن علاقوں پر چڑھائی کی پھر یا تو وہ لوٹ مار کر کے واپس چلے گئے یا ان علاقوں پر اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ ایسی ہی ایک مثال مصر کے چرواہے بادشاہوں کی ہے جو صحرائی قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کسی زمانے میں مصر پر حملہ کیا اور مقامی لوگوں (قبطی قوم) کو غلام بنا کر وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ یہاں جس بادشاہ کا ذکر ہے وہ اسی خاندان سے تھا۔ اس بادشاہ کے کردار اور رویے کی جو جھلک اس قصے میں دکھائی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ توحید و رسالت سے نا بلد تھا مگر ایک نیک سرشت انسان تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :36 بیچ میں کئی سال کے زمانہ قید کا حال چھوڑ کر اب سر رشتہ بیان اس مقام سے جوڑا جاتا ہے جہاں سے حضرت یوسف علیہ السلام کے دنیوی عروج شروع ہوا ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :37 بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ ان خوابوں سے بادشاہ بہت پریشان ہو گیا تھا اور اس نے اعلان عام کے ذریعہ سے اپنے ملک کے تمام دانشمندوں ، کاہنوں ، مذہبی پیشواؤں اور جادوگروں کو جمع کر کے ان سب کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani