Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٥] یہ جواب جب اس ساقی نے سنا جو قید سے رہا ہوا تھا تو اسے فوراً سیدنا یوسف (علیہ السلام) ، ان کا خوابوں کی تعبیر بتانا اس تعبیر کا حرف بحرف سچا ثابت ہونا۔ نیز سیدنا یوسف کا آخری پیغام یاد آگیا۔ اب مدت مدید کے بعد اس نے ساری باتوں کا ذکر بادشاہ سے کیا، اور یہ بھی بتادیا کہ ایک نہایت پاکباز اور شریف النفس انسان بڑی مدت سے بےگناہ قید میں پڑا ہے۔ اب اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کے پاس قید خانہ میں جاتا ہوں اور اس خواب کی تعبیر اس سے پوچھ کر آپ کو بتائے دیتا ہوں۔- [٤٦] ساقی کا سیدنا یوسف سے خواب کی تعبیر پوچھنا :۔ بادشاہ پہلے ہی متوحش تھا اور اسے تعبیر بتانے والوں کے جواب سے قطعاً اطمینان حاصل نہ ہوا تھا۔ اس کا دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ کوئی خطرناک آفت نازل ہونے والی ہے۔ چناچہ اس نے فوراً ساقی کو قید خانہ جانے کی اجازت دے دی۔ اس نے قید خانہ پہنچ کر ایسے الفاظ سے سیدنا یوسف کو مخاطب کیا جن سے قید میں ہمراہی کے زمانہ کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے بلند کردار اور علم و اخلاق کے جو نقوش اس ساقی کے ذہن پر اس دوران ثبت ہوئے تھے۔ وہ ابھی تک اسے بھولے نہیں تھے اور وہ یہ تھے اے میرے راست باز ساتھی۔ اس خطاب کے بعد اس نے سیدنا یوسف کو بادشاہ کا خواب حرف بحرف سنایا۔ تعبیر بتانے والوں کا جواب بھی بتایا۔ پھر اس کے بعد خواب کی تعبیر پوچھی اور اس کی غرض یہ بتائی کہ ایک تو بادشاہ کو تعبیر بتانے والوں کو اور عام لوگوں کو اس خواب کی تعبیر کا علم ہوجائے۔ دوسرے ان سب کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کس طرح ایک صاحب علم و اخلاق اور لائق ترین شخص مدتوں سے بےگناہ قید میں پڑا ہوا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ ۔۔ : ” يُوْسُفُ “ سے پہلے حرف ندا ” یَا “ وغیرہ محذوف ہے، جس کی وجہ سے یہ مبنی علی الضم ہے۔ ” الصِّدِّيْقُ “ ” صَدَقَ “ کے اسم فاعل میں مبالغہ ہے جو ہر حال میں اپنے قول، فعل اور حال کا سچا ہو، جس کی عادت ہی ہر حال میں سچ ہو، اس کا قول سچ ہو اور اس کا فعل اور حال بھی اس کے مطابق ہو۔ صدیقیت کے کئی درجے ہیں، مومن بھی صدیق ہے بمقابلہ کافر (دیکھیے حدید : ١٩) اور ابوبکر بھی صدیق ہیں اور امت میں اس درجے کا کوئی صدیق نہیں۔ ابراہیم اور ادریس ( علیہ السلام) کے بارے میں سورة مریم (٤١، ٥٦) میں ” صِدِّیْقاً نَّبِیَّا “ آتا ہے، یوسف (علیہ السلام) بھی صدیق ہیں۔ ساقی کو ان کا صدیق ہونا تعبیر سے پہلے بھی مشاہدے سے ثابت ہوچکا تھا، اسی لیے انھوں نے کہا : ( اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ) [ یوسف : ٣٦ ] پھر تعبیر کے بعد عین اسی طرح واقع ہونے سے ان کے صدیق ہونے کی مزید تصدیق ہوگئی۔ - یہاں ساقی کا رویہ دیکھیں کہ اس کی طرف سے بھول جانے کی معذرت کا کوئی ذکر نہیں اور یوسف (علیہ السلام) کے سینے کی وسعت دیکھیں، پوچھا ہی نہیں کہ تمہیں اتنی دیر یوسف صدیق یاد نہ آیا، اب کیا لینے آئے ہو۔ غرض کے بندوں اور محسنین کا یہی فرق ہے ۔- ساقی نے خواب دیکھنے والے کا ذکر نہیں کیا، البتہ خواب عین انھی الفاظ میں بیان کیا جو بادشاہ کے تھے، کیونکہ ایک لفظ کے فرق سے بھی مطلب کچھ اور بن جاتا ہے۔ قرآن میں دونوں جگہ خشک گائیوں کے موٹی گایوں کو کھانے کا ذکر تو ہے مگر خشک خوشوں کے سبز خوشوں پر لپٹنے کا ذکر مفسرین نے کہاں سے لیا ہے، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ساقی نے درخواست کی کہ آپ ہمیں اس خواب کے بارے میں فتویٰ دیں (تعبیر بتائیں) لوگ منتظر ہیں، تاکہ میں جا کر انھیں بتاؤں اور وہ بھی جان لیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ یعنی اس شخص نے جیل خانہ پہنچ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) سے واقعہ کا اظہار اس طرح شروع کیا کہ پہلے یوسف (علیہ السلام) کے صدیق یعنی قول و فعل میں سچا ہونے کا اقرار کیا پھر درخواست کی کہ مجھے ایک خواب کی تعبیر بتلائیے خواب یہ ہے کہ بادشاہ نے یہ دیکھا ہے کہ سات بیل فربہ تندرست ہیں جن کو دوسرے سات بیل کھا رہے ہیں اور یہ کھانے والے لاغر و کمزور ہیں نیز یہ دیکھا کہ سات خوشے گندم کے سرسبز ہرے بھرے ہیں اور سات خشک ہیں - اس شخص نے خواب بیان کرنے کے بعد کہا لَّعَلِّيْٓ اَرْجِعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُوْنَ یعنی آپ بتلا دیں گے تو ممکن ہے کہ میں ان لوگوں کے پاس جاؤں اور ان کو تعبیر بتلاؤں اور ممکن ہے کہ وہ اس طرح آپ کے فضل و کمال سے واقف ہوجائیں - تفسیر مظہری میں ہے کہ واقعات کی جو صورتیں عالم مثال میں ہوتی ہیں وہی انسان کو خواب میں نظر آتی ہیں اس عالم میں ان صورتوں کے خاص معنی ہوتے ہیں فن تعبیر خواب کا سارا مدار اس کے جاننے پر ہے کہ فلاں صورت مثالی سے اس عالم میں کیا مراد ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ فن مکمل عطا فرمایا تھا آپ نے خواب سنکر سمجھ لیا کہ سات بیل فربہ اور سات خوشے ہرے بھرے سے مراد سات سال ہیں جن میں پیداوار حسب دستور خوب ہوگی کیونکہ بیل کو زمین کے ہموار کرنے اور غلہ اگھانے میں خاص دخل ہے اسی طرح سات بیل لاغر کمزور اور سات خشک خوشوں سے مراد یہ ہے کہ پہلے سال کے بعد سات سال سخت قحط کے آئیں گے اور کمزور سات بیلوں فربہ بیلوں کے کھا لینے سے یہ مراد ہے کہ پچھلے سات سال میں جو ذخیرہ غلہ وغیرہ کا جمع ہوگا وہ سب ان قحط کے سالوں میں خرچ ہوجائے گا صرف بیج کے لئے کچھ غلہ بچے گا،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يُوْسُفُ اَيُّہَا الصِّدِّيْقُ اَفْتِنَا فِيْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ۝ ٠ۙ لَّعَلِّيْٓ اَرْجِـــعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ٤٦- صِّدِّيقُ- : من کثر منه الصّدق، وقیل : بل يقال لمن لا يكذب قطّ ، وقیل : بل لمن لا يتأتّى منه الکذب لتعوّده الصّدق، وقیل : بل لمن صدق بقوله واعتقاده وحقّق صدقه بفعله، قال :- وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم 41] ، وقال : وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم 56] ، وقال : وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة 75] ، وقال :- فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء 69] ، فَالصِّدِّيقُونَ هم قوم دُوَيْنَ الأنبیاء في الفضیلة علی ما بيّنت في «الذّريعة إلى مکارم الشّريعة»- صدیق وہ ہے جو قول و اعتقاد میں سچا ہو اور پھر اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کر دکھائے ۔ قرآن میں ہے ؛وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم 41] اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے ۔ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة 75] اور ان کی والدہ ( مریم ) خدا کی ولی تھی ۔ اور آیت ؛مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء 69] یعنی انبیاء اور صدیق اور شہداء میں صدیقین سے وہ لوگ مراد ہیں جو فضیلت میں انبیاء سے کچھ کم درجہ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اپنی کتاب الذریعۃ الی پکارم الشریعۃ میں بیان کرچکے ہیں ۔- فَتْوَى- والفُتْيَا والفَتْوَى: الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] ، أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل 32] .- اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔ استفتاہ کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] تو ان سے پوچھو ۔۔۔ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل 32] . میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔- سبع - أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ 16] - ( س ب ع ) السبع اصل میں " سبع " سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ - سمن - السِّمَنُ : ضدّ الهزال، يقال : سَمِينٌ وسِمَانٌ ، قال : أَفْتِنا فِي سَبْعِ بَقَراتٍ سِمانٍ [يوسف 46] ، وأَسْمَنْتُهُ وسَمَّنْتُهُ : جعلته سمینا، قال :- ( س م ن ) السمن - کے معنی موٹا پہ کے ہیں اور یہ ھزال کی ضد ہے اور سمین ( صیغہ صفت کے معنی ہیں فریہ ج سمان قرآن میں ہے : ۔ أَفْتِنا فِي سَبْعِ بَقَراتٍ سِمانٍ [يوسف 46] ہمیں ( اس خواب گی تعبیر) بتایئے کہ سات موٹی گایوں کو۔- عجف - قال تعالی: سَبْعٌ عِجافٌ [يوسف 43] ، جمعُ أَعْجَفَ ، وعَجْفَاءَ ، أي : الدّقيق من الهُزال، - ( ع ج ف ) عجف - ( صفت ) کے معنی انتہائی لاغر اور دبلا کے ہیں اس کی مؤنث عجفاء ہے اور جمع عجاف قرآن میں ہے : ۔ سَبْعٌ عِجافٌ [يوسف 43] سات دبلی - سُّنْبُلَةُ- والسُّنْبُلَةُ جمعها سَنَابِلُ ، وهي ما علی الزّرع، قال : سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة 261] ، وقال : سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف 46] ، وأَسْبَلَ الزّرعُ : صار ذا سنبلة، نحو : أحصد وأجنی، والْمُسْبِلُ اسم القدح الخامس - السنبلۃ : بال ۔ اس کی جمع سنابل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة 261] سات بالیں ہر بال میں ۔ سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف 46] سات سبز بالیں ۔ اسبل الزرع کھیتی میں بالیں پڑگئیں ( ماخذہ کے ساتھ متصف ہونا کے معنی پائے جاتے ہیں ) جیسے احصد الزرع واجنی النخل کا محاورہ ہے : ۔ المسبل جوئے کے تیروں میں سے پانچواں تیر ۔- يبس - يَبِسَ الشیءُ يَيْبَسُ ، واليَبْسُ : يَابِسُ النّباتِ ، وهو ما کان فيه رطوبة فذهبت، واليَبَسُ : المکانُ يكون فيه ماء فيذهب . قال تعالی: فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً- [ طه 77] والأَيْبَسَانِ «1» : ما لا لحم عليه من الساقین إلى الکعبین .- ( ی ب س ) یبس - ( س ) الشئی کے معنی کسی چیز کا خشک ہوجانا کے ہیں ۔ اور ترگھاس جب خشک ہوجائے تو اسے یبس ( بسکون الباء ) کہاجاتا ہے اور جس جگہ پر پانی ہو اور پھر خشک ہوجائے اسے یبس ( بفتح الباء ) کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه 77] تو انکے لیے دریا میں لائٹس مارکر خشک راستہ بنادو ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٦) چناچہ وزراء سلطنت نے اس کو جیل خانہ جانے کی اجازت دی، چناچہ وہ کہنے لگا اے یوسف اس خواب کی تعبیر دیجیے کہ سات موٹی گائیں نہر سے نکلیں اور اس کو سات کمزور گائیں کھاگئیں اور اس کے علاوہ سات ہری بالوں کو سات خشک بالیں کھاگئیں تاکہ میں بادشاہ کے پاس جاؤں اور ان لوگوں کو بھی بادشاہ کے خواب کی تعبیر معلوم ہوجائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :39 متن میں لفظ ”صدیق “ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں سچائی اور راستبازی کے انتہائی مرتبے کہ لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قید خانے کے زمانہ قیام میں اس شخص نےیوسف علیہ السلام کی سیرت پاک سے کیسا گہرا اثر لیا تھا اور یہ اثر ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی کتنا راسخ تھا ۔ صدیق کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، جلد اول سورہ نساء ، حاشیہ نمبر ۹۹ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :40 یعنی آپ کی قدر و منزلت جان لیں اور ان کو احساس ہو کہ کس پایہ کے آدمی کو انہوں نے کہاں بند کر رکھا ہے ، اور اس طرح مجھے اپنے اس وعدے کے ایفاء کا موقع مل جائے جو میں نے آپ سے قید کے زمانہ میں کیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: حقیقت جان لینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خواب کی صحیح تعبیر سمجھ لیں۔ اور یہ بھی کہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں حقیقت حال سے واقف ہوجائیں کہ ایک ایسا نیک اور راست باز انسان بے گناہ قید میں پڑا ہوا ہے۔