45۔ 1 یہ قید کے دو ساتھیوں میں سے ایک نجات پانے والا تھا، جسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا، تاکہ میری رہائی کی صورت بن سکے۔ اسے اچانک یاد آیا اور اس نے کہا کہ مجھے مہلت دو میں تمہیں آ کر اس کی تعبیر بتلاتا ہوں، چناچہ وہ نکل کر سیدھا یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور خواب کی تفصیل بتا کر اس کی تعبیر کی بابت پوچھا۔
وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ ۔۔ : ” وَادَّكَرَ “ ” ذَکَرَ یَذْکُرُ “ (ن) سے باب افتعال ہے، اصل میں ” اِذْتَکَرَ “ تھا، پھر افتعال کی تاء کو دال اور اس کے ساتھ ہی ذال کو بھی دال میں بدل کر ” ِادَّكَرَ “ کردیا، بمعنی یاد کیا۔ ” اُمَّةٍ “ کے کئی معانی ہیں جن میں سے ایک معنی مدت بھی ہے، تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی اس وقت ساقی کو جس نے یوسف (علیہ السلام) کی تعبیر کے بعد قید سے رہائی پائی تھی اور یوسف (علیہ السلام) کے کہنے کے باوجود سرے سے ان کی بات بھول چکا تھا، اتنی لمبی مدت کے بعد یوسف (علیہ السلام) اور ان کی علم تعبیر میں مہارت یاد آئی اور اس نے کہا میں تمہیں اس کی تعبیر بتاتا ہوں، آپ مجھے بھیجیں، چناچہ اسے اجازت مل گئی اور وہ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا۔ - اس ساقی کے رویے سے سرکاری و درباری کارندوں کے کردار پر بھی بڑی روشنی پڑتی ہے کہ وہ ہمیشہ کریڈٹ کے چکر میں رہتے ہیں۔ (الا ماشاء اللہ) اس کا یہ کہنا حقیقت سے کس قدر دور تھا کہ میں تمہیں تعبیر بتاتا ہوں، اس کا حق تھا کہ اپنے محسن کا ذکر کرتا، انھیں عزت سے بلواتا اور بادشاہ سے درخواست کرتا کہ ان سے تعبیر پوچھیں، مگر وہ اس چکر ہی سے نہیں نکلا کہ ” میں تمہیں بتاتا ہوں۔ “ کتنے ہی سرکاری افسر اور سرمایہ دار ہیں جو دوسروں کی علمی محنت کو اپنے نام لگا کر ڈگریاں حاصل کرتے یا اپنی علمی شان کا سکہ جماتے ہیں، مگر یہ سب بےچارے اسی مرض کے مریض ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بعض اہل کتاب کا بتایا ہے : (وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ) [ آل عمران : ١٨٨ ] ” اور وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے، پس تو انھیں عذاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہرگز خیال نہ کر اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ “
اس واقعہ کو دیکھ کر مدت مدید کے بعد اس رہا شدہ قیدی کو یوسف (علیہ السلام) کی بات یاد آئی اور اس نے آگے بڑھ کر کہا کہ میں آپ کو اس خواب کی تعبیر بتلا سکوں گا اس وقت اس نے یوسف (علیہ السلام) کے کمالات اور تعبیر خواب میں مہارت اور پھر مظلوم ہو کر قید میں گرفتار ہونے کا ذکر کر کے یہ چاہا کہ مجھے جیل خانہ میں ان سے ملنے کی اجازت دی جائے بادشاہ نے اس کا انتظام کیا وہ یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوا قرآن کریم نے اس تمام واقعہ کو صرف ایک لفظ فَاَرْسِلُوْنِ فرما کر بیان کیا ہے جس کے معنی ہیں مجھے بھیج دو یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ پھر سرکاری منظوری اور پھر جیل خانہ تک پہنچنا یہ واقعات خود ضمنی طور پر سمجھ میں آجاتے ہیں اس لئے ان کی تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ یہ بیان شروع کیا۔
وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْہُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِہٖ فَاَرْسِلُوْنِ ٤٥- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- اد کاد - ( افتعال) سے جس کے معنی یاد کرنے کے ہیں اصل میں اذتکر تھا۔ ت کو دال میں بدلا۔ اور ذال کو دال میں مدغم کردیا۔- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے
(٤٥) اور وہ شراب پلانے والا جو قتل کی سزا سے رہا ہوگیا تھا وہ مجلس میں موجود تھا اور تقریبا سات سال کے بعد یوسف (علیہ السلام) کی بات کا خیال آیا، تب اس نے بادشاہ سے کہا کہ آپ کے خواب کی تعبیر میں لا دیتا ہوں اور وزراء وامراء سے کہنے لگا کہ مجھے جیل خانہ جانے کی اجازت دو کیوں کہ وہاں ایسے شخص ہیں جو کہ علم اور حلم میں کامل ہیں اور قیدیوں کے حال پر بہت ہی شفیق ومہربان ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خوابوں کی تعبیر بہت ہی صحیح دیتے ہیں۔
آیت ٤٥ (وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ )- وہ شخص جیل سے رہا ہو کر پھر سے ساقی گری کر رہا تھا۔ اسے بادشاہ کے خواب کے ذکر سے اچانک حضرت یوسف یاد آگئے کہ ہاں جیل میں ایک شخص ہے جو خوابوں کی تعبیر بتانے میں بڑا ماہر ہے۔- (اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ )- اس طرح وہ شخص جیل میں حضرت یوسف کے پاس پہنچ کر آپ سے مخاطب ہوا :
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :38 قرآن نے یہاں اختصار سے کام لیا ہے ۔ بائیبل اور تلمود سے اس کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے ( اور قیاس بھی کہتا ہے کہ ضرور ایسا ہوا ہوگا ) کہ سردار ساقی نے یوسف علیہ السلام کے حالات بادشاہ سے بیان کیے ، اور جیل میں اس کے خواب اور اس کے ساتھی کے خواب کی جیسی صحیح تعبیر انہوں نے دی تھی اس کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ میں ان سے اس کی تاویل پوچھ کر آتا ہوں ، مجھے قید خانہ میں ان سے ملنے کی اجازت عطا کی جائے ۔
29: یہ وہی قیدی تھا جس کو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کے خواب کی یہ تعبیر دی تھی کہ اسے جیل سے رہائی مل جائے گی اور جب وہ رہا ہوا تھا تو اس سے کہا تھا کہ اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کردینا مگر وہ ان کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔ اب جو بادشاہ نے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو اسے یاد آیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے خوبوں کی تعبیر کا خاص علم عطا فرمایا ہے اور وہ اس خواب کی صحیح تعبیر بتا سکتے ہیں۔ اس لیے اس نے بادشاہ کو بتایا کہ قید خانے میں ایک شخص ہے جو خواب کی بہترین تعبیر بتاتا ہے آپ مجھے اس کے پاس بھیج دیجئے۔ قرآن کریم چونکہ قصہ گوئی کی کتاب نہیں ہے، بلکہ ہر قصے سے اس کا کوئی مقصد وابستہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا یہ خاص اسلوب ہے کہ جو باتیں سننے والا خود اپنی سمجھ سے نکال سکتا ہے ان کی تفصیل بیان نہیں کرتا۔ چنانچہ یہاں بھی صریح لفظوں میں یہ فرمانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس کے بعد بادشاہ نے اس کو قید خانے میں بھیجا اور وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) سے اس کی ملاقات ہوئی اور اس نے ان سے کہا بلکہ براہ راست بات یہاں شروع فرما دی کہ یوسف اے وہ شخص جس کی ہر بات سچی ہوتی۔