Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم تعبیر سے بھی نوازی تھا، اس لئے وہ اس خواب کی تہ تک فورا پہنچ گئے انہوں نے موٹی تازہ سات گایوں سے سات سال مراد لئے جن میں خوب پیداوار ہوگی، اور سات دبلی پتلی گایوں سے اس کے برعکس سات سال خشک سالی کے۔ اسی طرح سات سبز خوشوں سے مراد لیا کہ زمین خوب پیداوار دے گی اور سات خشک خوشوں کا مطلب یہ ہے کہ ان سات سالوں میں زمین کی پیداوار نہیں ہوگی۔ اور پھر اس کے لئے تدبیر بھی بتلائی کہ سات سال تم متواتر کاشتکاری کرو اور جو غلہ تیار ہو، اسے کاٹ کر بالیوں سمیت ہی سنبھال کر رکھو تاکہ ان میں غلہ زیادہ محفوظ رہے، پھر جب سات سال قحط کے آئیں گے تو یہ غلہ تمہارے کام آئے گا جس کا ذخیرہ تم اب کرو گے۔ 48۔ 2 مِمَّا تُحصنُوْنَ سے مراد وہ دانے ہیں جو دوبارہ کاشت کے لئے محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ ۔۔ :” تُحْصِنُوْنَ “ ” حِصْنٌ“ قلعے کو کہتے ہیں، مراد حفاظت سے رکھنا ہے، یعنی خوش حالی کے سات سالوں کا ذخیرہ تم لوگ قحط کے سات سالوں میں چٹ کر جاؤ گے، مگر وہ تھوڑا سا جو تم آئندہ سال کے بیج کے لیے بڑی محنت سے بچا کر محفوظ رکھو گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ یعنی پہلے سات سال کے بعد پھر سات سال سخت خشک سالی اور قحط کے آئیں گے جو پچھلے جمع کئے ہوئے ذخیرہ کو کھا جائیں گے خواب میں اس کے مناسب یہی فرمایا کہ قحط کے سال پچھلے سالوں کے جمع کردہ ذخیرہ کو کھاجائیں گے اگرچہ سال تو کوئی کھانے والی چیز نہیں مراد یہی ہے کہ انسان اور جانور قحط کے سالوں میں پچھلے ذخیرہ کو کھا لیں گے - قصہ کے سیاق سے ظاہر ہے کہ یہ شخص تعبیر خواب یوسف (علیہ السلام) سے معلوم کر کے لوٹا اور بادشاہ کو خبر دی وہ اس سے مطمئن اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے فضل و کمال کا معتقد ہوگیا مگر قرآن کریم نے ان سب چیزوں کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ یہ خود بخود مفہوم ہو سکتی ہیں اس کے بعد کا واقعہ اس طرح بیان فرمایا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَہُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ۝ ٤٨- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - حصن - وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز،- وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن - ( ح ص ن ) الحصن - تحصن کے اصل معنی تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٨۔ ٤٩) پھر ان خوشحالی کے ساتھ سالوں کے بعدقحط کے سخت ترین سات سال آئیں گے جو اس خوشحالی کے تمام جمع کردہ ذخیرہ کو کھاجائیں گے جس کو تم نے ان قحط کے سالوں کے لیے جمع کر رکھا تھا، البتہ تھوڑا سا جو محفوظ کرلو گے۔- اور پھر ان سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں مصر والوں کے لیے خوب بارش اور پیداوار ہوگی اور انگوروں کا رسل بھی نچوڑیں گے اور زیتون وغیرہ کا تیل بھی نکالیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ)- خوشحالی کے سات سالوں کے بعد سات سال تک خشک سالی کا سماں ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں شدید قحط پڑجائے گا۔- (يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ )- حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تک ملک میں بہت خوشحالی ہوگی فصلیں بہت اچھی ہوں گی مگر ان سات سالوں کے بعد سات سال ایسے آئیں گے جن میں خشک سالی کے سبب شدید قحط پڑجائے گا۔ اس مسئلے کی تدبیر آپ نے یہ بتائی کہ پہلے سات سال کے دوران صرف ضرورت کا اناج استعمال کرنا اور باقی سٹوں کے اندر ہی محفوظ کرتے جانا اور جب قحط کا زمانہ آئے تو ان سٹوں سے نکال کر بقدر ضرورت اناج استعمال کرنا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani