49۔ 1 یعنی قحط کے سال گزرنے کے بعد پھر خوب بارش ہوگی، جس کے نتیجے میں کثرت پیداوار ہوگی اور تم انگوروں سے شیرہ نچوڑو گے، زیتوں سے تیل نکالو گے اور جانوروں سے دودھ دوہو گے۔ خواب کی اس تعبیر کو خواب سے کیسی لطیف مناسبت حاصل ہے، جسے صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ ایسا صحیح وجدان، ذوق سلیم اور ملکہ راسخ عطا فرما دے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عطا فرمایا۔
[٤٨] اس آیت کے مطابق سیدنا یوسف نے جو خوشخبری سنائی یہ بادشاہ کے خواب یا اس کی تعبیر کا حصہ نہیں تاہم اللہ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا تھا۔ اس کے مطابق آپ نے لوگوں کو یہ بشارت بھی دے دی کہ ان چودہ سالوں کے بعد پندرہواں سال ایسا آئے گا جس میں خوب باران رحمت ہوگی اور جن جن چیزوں کو نچوڑ کر ان سے روغن یا رس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے سب غلوں اور پھلوں کی افراط سے پیداوار ہوگی۔ کھیتی باڑی بکثرت ہوگی۔ جانوروں کے تھن دودھ سے بھر جائیں گے اور بالخصوص انگور وغیرہ کو نچوڑ کر لوگ شراب کشید کریں گے۔ یہ آخری بات سائل کے حسب حال بیان فرمائی کیونکہ وہ یہی کام کرتا تھا۔
ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ ۔۔ :” يُغَاثُ “ ” غَیْثٌ“ سے بھی ہوسکتا ہے اور ” غَوْثٌ“ سے بھی۔ ” غَیْثٌ“ سے ہو تو بارش برسائے جائیں گے اور ” غَوْثٌ“ سے ہو تو مدد کیے جائیں گے۔ ” يَعْصِرُوْنَ “ ” نچوڑیں گے “ یعنی اس سال وہ پھل جن سے رس نکلتا ہے، مثلاً انگور، لیموں وغیرہ اور وہ بیج جن سے تیل نکلتا ہے، مثلاً زیتون، سرسوں وغیرہ کثرت سے پیدا ہوں گے اور جانور بھی اچھا چارا ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دیں گے۔ اس بنا پر بعض نے ” يَعْصِرُوْنَ “ کے معنی ” یَحْلِبُوْنَ “ (دودھ دو ہیں گے) کیے ہیں۔ یہ بات کہ قحط کے سات سالوں کے بعد ایک خوش حالی کا سال آئے گا، خواب سے زائد بتائی، یا تو وحی الٰہی کے ذریعے سے، یا خشک سالوں کی گنتی سات ہونے سے استدلال فرمایا کہ وہ سات تبھی رہتے ہیں جب ان کے بعد کم از کم ایک خوش حالی کا سال ہو اور اس سے بھی کہ اللہ کی رحمت کا تقاضا بھی شدت کے بعد آسانی کا ہے۔ - اس سے معلوم ہوا کہ کبھی کافر کا خواب بھی سچا ہوتا ہے، اگر بادشاہ کا کافر ہونا ثابت ہو۔ اس سے پہلے دونوں قیدی جو مشرک تھے، ان کے خواب بھی سچے نکلے۔ امام بخاری (رض) نے بھی ” کِتَاب التَّعْبِیْرِ “ میں اس سے یہ استدلال فرمایا ہے : ” بَابُ رُؤْیَا أَہْلِ السُّجُوْنِ وَالْفَسَادِ وَالشِّرْکِ “ ” قیدیوں اور اہل شرک و فساد کے خواب کا بیان۔ “
ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيْہِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيْہِ يَعْصِرُوْنَ ٤٩ ۧ- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- عام - العَامُ کالسّنة، لکن كثيرا ما تستعمل السّنة في الحول الذي يكون فيه الشّدّة أو الجدب . ولهذا يعبّر عن الجدب بالسّنة، والْعَامُ بما فيه الرّخاء والخصب، قال : عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] ، وقوله : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً- [ العنکبوت 14] ، ففي كون المستثنی منه بالسّنة والمستثنی بِالْعَامِ لطیفة موضعها فيما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، - ( ع و م ) العام ( سال ) اور السنۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن السنۃ کا لفظ عموما اس سال پر بولا جاتا ہے جس میں تکلیف یا خشک سالی ہو اس بنا پر قحط سالی کو سنۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اور عامہ اس سال کو کہا جاتا ہے جس میں وسعت اور فروانی ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] اس کے بعد ایک ایسا سال آئیگا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ اس میں نچوڑیں گے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ میں لفظ سنۃ کو مستثنی منہ اور لفظ عام کو مستثنی لانے میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد کسی دوسرے موقع پر بیان کریں گے انشا اللہ - غوث ( بارش)- الغَوْثُ يقال في النّصرة، والغَيْثُ في المطر، واسْتَغَثْتُهُ : طلبت الغوث أو الغیث،- والغيْثُ : المطر في قوله : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20]- ( غ و ث ( غ ی ث ) الغوث - کے معنی مدد اور الغیث کے معنی بارش کے ہیں اور غیث ( پانی مانگنا ) سے بھی اسی طرح یغاثوا ( فعل مجہول ) کے بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں آیت کریمہ : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20] جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ۔ میں غیث کے معنی بارش ہیں۔- عصر - العَصْرُ : مصدرُ عَصَرْتُ ، والمَعْصُورُ : الشیءُ العَصِيرُ ، والعُصَارَةُ : نفاية ما يُعْصَرُ. قال تعالی:إِنِّي أَرانِي أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف 36] ، وقال : وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] ، أي : يستنبطون منه الخیر، وقرئ : (يُعْصَرُونَ ) أي : يمطرون، واعْتَصَرْتُ من کذا : أخذت ما يجري مجری العُصَارَةِ ، قال الشاعر : وإنّما العیش بربّانه ... وأنت من أفنانه مُعْتَصِرٌ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم 14] ، أي : السحائب التي تَعْتَصِرُ بالمطر . أي : تصبّ ، وقیل : التي تأتي بالإِعْصَارِ ، والإِعْصَارُ : ريحٌ تثیر الغبار . قال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة 266] . والاعْتِصَارُ : أن يغصّ فَيُعْتَصَرَ بالماء، ومنه : العَصْرُ ، والعَصَرُ : الملجأُ ، والعَصْرُ والعِصْرُ : الدّهرُ ، والجمیع العُصُورُ. قال : وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر 1- 2] ، والعَصْرُ : العشيُّ ، ومنه : صلاة العَصْرِ وإذا قيل : العَصْرَانِ ، فقیل : الغداة والعشيّ وقیل : اللّيل والنهار، وذلک کالقمرین للشمس والقمر والمعْصِرُ : المرأةُ التي حاضت، ودخلت في عَصْرِ شبابِهَا - ( ع ص ر ) العصر - ( ع ص ر ) العصر یہ عصرت الشئی کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں نچوڑ نا المعصور : أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف 36] انی اعصر خمرا ( دیکھتا کیو ہوں ) کہ شراب ( کے لئے انگور ) نچوڑ رہا ہوں ۔ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] اور لوگ اسی میں رس نچوڑیں گے ۔ یعنی اس میں خیرو برکت حاصل ہوگی ایک قرات میں یعصرون ہے یعنی اسی سال خوب بارش ہوگی اعتصرت من کزا کے معنی کسی چیز سے خیرو برکت حاصل کرنا کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 312 ) وانما العیش بربانہ وانت من افنانہ معتصر زندگی کا لطف تو اٹھتی جوانی کے ساتھ ہے جب کی تم اس کی شاخوں سے رس نچوڑتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم 14] اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ بر سایا ۔ میں معصرات سے مراد بادلوں ہیں جو پانی نچوڑتے یعنی گراتے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ معصرات ان بادلوں کو کہا جاتا ہے جو اعصار کے ساتھ آتے ہیں اور اعصار کے معنی ہیں گردو غبار والی تند ہوا قرآن میں ہے : ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر ۔۔۔۔۔۔۔ بگولہ چلے ۔ الاعتصار کے معنی کیس چیز کو دبا کر اس سے دس نچوڑنے کے ہیں اسی سے عصروعصر ہے جس کے معنی جائے پناہ کے ہیں العصر والعصروقت اور زمانہ اس کی جمع عصور ہے قرآن میں : ۔ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر 1- 2] زمانہ کی قسم کہ انسان نقصان میں ہے ۔ العصر کے معنی العشی بھی آتے ہیں یعنی زوال آفتاب سے غروب شمس تک کا زمانہ اسی سے صلاۃ العصر ( نماز عصر ) ہے العصران صبح شام رات دن اور یہ القمران کی طرح ہے جس کے معنی ہیں چاند اور سورج المعصر وہ عورت جسے حیض آجائے اور جوانی کی عمر کو پہنچ گئی ہو ۔
(ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيْهِ يُغَاث النَّاسُ وَفِيْهِ يَعْصِرُوْنَ )- جب خوب بارشیں ہوں گی تو انگور کی بیلیں خوب پھلیں پھولیں گی ‘ انگور کی پیداوار بھی خوب ہوگی ‘ لوگ خوب انگور نچوڑیں گے اور شراب کشید کریں گے۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :41 متن میں لفظ ”یعصرون“ استعمال ہوا ہے جس کے لفظی معنی ”نچوڑنے“ کے ہیں ۔ اس سے مقصود یہاں سر سبزی و شادابی کی وہ کیفیت بیان کرنا ہے جو قحط کے بعد باران رحمت اور دریائے نیل کے چڑھاؤ سے رونما ہونے والی تھی ۔ جب زمین سیراب ہوتی ہے تو تیل دینے والے بیج اور رس دینے والے پھل اور میوے خوب پیدا ہوتے ہیں ، اور مویشی بھی چاہ اچھا ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دینے لگتے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس تعبیر میں صرف بادشاہ کے خواب کا مطلب بتانے ہی پر اکتفا نہ کیا ، بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ خوشحالی کے ابتدائی سات برسوں میں آنے والے قحط کے لیے کیا پیش بندی کی جائے اور غلہ کو محفوظ رکھنے کا کیا بندوبست کیا جائے ۔ پھر مزید براں آپ نے قحط کے بعد اچھے دن آنے کی خوشخبری بھی دے دی جس کا ذکر بادشاہ کے خواب میں نہ تھا ۔
31: حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی جو تعبیر دی، اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ آئندہ سات سال تک تو موسم ٹھیک رہے گا جس کے نتیجے میں لوگ خوب غلّہ اُگائیں گے، لیکن اس کے بعد سات سال تک زبردست قحط پڑے گا۔ ساتھ موٹی تازی گائیں جو خواب میں نظر آئی ہیں، اُن سے مراد سات خوشحالی کے سال ہیں، اور جو سات دُبلی پتلی گائیں دیکھی گئی ہیں، اُن سے قحط کے سات سالوں کی طرف اشارہ ہے۔ اب ان سات قحط کے سالوں کا پہلے سے انتظام کرنے کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ تدبیر بتائی کہ خوشحالی کے سات سالوں میں جتنا غلہ اُگے، اُس میں سے تھوڑا تھوڑا تو اپنے روز مرہ کے کھانے کے لئے نکال لیا جائے، اور باقی غلے کو اُس کی بالیوں ہی میں پڑا رہنے دیا جائے، تاکہ وہ سڑ کر خراب نہ ہو۔ جب قحط کے سات سال آئیں گے تو یہ ذخیرہ اُس وقت کام آئے گا، اور قحط کے یہ سات سال اس سارے ذخیرے کو کھاجائیں گے۔ اور خواب میں دُبلی پتلی گائیں جو موٹی گائیوں کو کھاتی ہوئی نظر آئی ہیں، اُن کا مطلب یہی ہے کہ قحط کے سال خوشحالی کے سالوں میں جمع کئے ہوئے ذخیرے کو کھا جائیں گے۔ البتہ تھوڑا سا غلہ آئندہ بیج ڈالنے کے لئے بچا رہے گا جو آئندہ سال کی کاشت کے کام آئے گا۔ چنانچہ اگلے سال خوب بارشیں ہوں گی، اور لوگ انگور کا خوب رس نکالیں گے۔