Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تعبیر کی صداقت اور شاہ مصر کا یوسف علیہ السلام کو وزارت سونپنا خواب کی تعبیر معلوم کر کے جب قاصد پلٹا اور اس نے بادشاہ کو تمام حقیقت سے مطلع کیا ۔ تو بادشاہ کو اپنے خواب کی تعبیر پر یقین آ گیا ۔ ساتھ ہی اسے بھی معلوم ہو گیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام بڑے ہی عالم فاضل شخص ہیں ۔ خواب کی تعبیر میں تو آپ کو کمال حاصل ہے ۔ ساتھ ہی اعلیٰ اخلاق والے حسن تدبیر والے اور خلق اللہ کا نفع چاہنے والے اور محض بےطمع شخص ہیں ۔ اب اسے شوق ہوا کہ خود آپ سے ملاقات کرے ۔ اسی وقت حکم دیا کہ جاؤ حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے سے آزاد کر کے میرے پاس لے آؤ ۔ دوبارہ قاصد آپ کے پاس آیا اور بادشاہ کا پیغام پہنچایا تو آپ نے فرمایا میں یہاں سے نہ نکلوں گا جب تک کہ شاہ مصر اور اسکے درباری اور اہل مصر یہ نہ معلوم کرلیں کہ میرا قصور کیا تھا ؟ عزیز کی بیوی کی نسبت جو بات مجھ سے منسوب کی گئی ہے اس میں سچ کہاں تک ہے اب تک میرا قید خانہ بھگتنا واقعہ کسی حقیقت کی بنا پر تھا ؟ یا صرف ظلم و زیادتی کی بناء پر؟ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا کر میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ وہ اس واقعہ کی پوری تحقیق کریں ۔ حدیث شریف میں بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے اس صبر کی اور آپ کی اس شرافت و فضیلت کی تعریف آئی ہے ۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شک کے حقدار ہم بہ نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بابت زیادہ ہیں جب کہ انہوں نے فرمایا تھا میرے رب مجھے اپنا مردوں کا زندہ کرنا مع کیفیت دکھا ( یعنی جب ہم اللہ کی اس قدرت میں شک نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر کیسے شک کر سکتے تھے؟ پس آپ کی یہ طلب از روئے مزید اطمینان کے تھی نہ کہ ازرو ئے شک ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ میرے اطمینان دل کے لیے ہے ۔ اللہ حضرت لوط علیہ السلام پر رحم کرے وہ کسی زور آور جماعت یا مضبوط قلعہ کی پناہ میں آنا چاہنے لگے ۔ اور سنو اگر میں یوسف علیہ السلام کے برابر جیل خانہ بھگتے ہوئے ہوتا اور پھر قاصد میری رہائی کا پیغام لاتا تو میں تو اسی وقت جیل خانے سے آزادی منظور کر لیتا ۔ مسند احمد میں اسی آیت فاضلہ کی تفسیر میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہوتا تو اسی وقت قاصد کی بات مان لیتا اور کوئی عذر تلاش نہ کرتا ۔ مسند عبدالرزاق میں ہے آپ فرماتے ہیں واللہ مجھے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر و کرم پر رہ رہ کر تعجب آتا ہے اللہ اسے بخشے دیکھو تو سہی بادشاہ نے خواب دیکھا ہے وہ تعبیر کے لیے مضطرب ہے قاصد آکر آپ سے تعبیر پوچھتا ہے آپ فوراً بغیر کسی شرط کے بتا دیتے ہیں ۔ اگر میں ہوتا تو جب تک جیل خانے سے اپنی رہائی نہ کرا لیتا ہرگز نہ بتلاتا ۔ مجھے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر و کرم پر تعجب معلوم ہو رہا ہے ۔ اللہ انہیں بخشے کہ جب ان کے پاس قاصد ان کی رہائی کا پیغام لے کر پہنچتا ہے تو آپ فرماتے ہیں ابھی نہیں جب تک کہ میری پاکیزگی ، پاک دامنی اور بےقصوری سب پر تحقیق سے کھل نہ جائے ۔ اگر میں انکی جگہ ہوتا تو میں تو دوڑ کر دروازے پر پہنچتا یہ روایت مرسل ہے ۔ اب بادشاہ نے تحقیق کرنی شروع کی ان عورتیں کو جنہیں عزیز کی بیوی نے اپنے ہاں دعوت پر جمع کیا تھا اور خود اسے بھی دربار میں بلوایا ۔ پھر ان تمام عورتوں سے پوچھا کہ ضیافت والے دن کیا گزری تھی؟ سب بیان کرو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ماشا اللہ یوسف پر کوئی الزام نہیں اس پر بےسروپا تہمت ہے ۔ واللہ ہم خوب جانتی ہیں کہ یوسف میں کوئی بدی نہیں اس وقت عزیز کی بیوی خود بھی بول اُٹھی کہ اب حق ظاہر ہو گیا واقعہ کھل گیا ۔ حقیقت نکھر آئی مجھے خود اس امر کا اقرار ہے ۔ کہ واقعی میں نے ہی اسے پھنسانا چاہا تھا ۔ اس نے جو بروقت کہا تھا کہ یہ عورت مجھے پھسلا رہی تھی اس میں وہ بالکل سچا ہے ۔ میں اس کا اقرار کرتی ہوں اور اپنا قصور آپ بیان کرتی ہوں تاکہ میرے خاوند یہ بات بھی جان لیں کہ میں نے اس کی کوئی خیانت دراصل نہیں کی ۔ یوسف کی پاکدامنی کی وجہ سے کوئی شر اور برائی مجھ سے ظہور میں نہیں آئی ۔ بدکاری سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بچائے رکھا ۔ میری اس اقرار سے اور واقعہ کے کھل جانے سے صاف ظاہر ہے اور میرے خاوند جان سکتے ہیں کہ میں برائی میں مبتلا نہیں ہوئی ۔ یہ بالکل سچ ہے کہ خیانت کرنے والوں کی مکاریوں کو اللہ تعالیٰ فروغ نہیں دیا ۔ ان کی دغا بازی کوئی پھل نہیں لاتی ۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارہویں پارے کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔ آمین ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 مطلب یہ ہے کہ جب وہ شخص تعبیر دریافت کر کے بادشاہ کے پاس گیا اور اسے تعبیر بتائی تو وہ اس تعبیر سے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بتلائی ہوئی تدبیر سے بڑا متاثر ہوا اور اس نے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص، جسے ایک عرصے سے حوالہ زنداں کیا ہوا ہے، غیر معمولی علم و فضل اور اعلٰی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ چناچہ بادشاہ نے انھیں دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ 50۔ 2 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے، تو انہوں نے اس طرح محض عنایت خسوانہ سے جیل سے نکلنے کو پسند نہیں فرمایا، بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپ کا کردار اور اس کی بلندی واضح ہوجائے۔ کیونکہ داعی الی اللہ کے لئے یہ عفت و پاک بازی اور رفعت کردار بہت ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٩] الزام کی بریت سے پہلے سیدنا یوسف کا قید سے باہر آنے سے انکار :۔ بادشاہ کو جب ساقی نے قید خانہ سے واپس جاکر یہ تعبیر، یہ تدبیر اور یہ بشارت سنائی تو وہ عش عش کر اٹھا۔ اس کے دل سے وحشت دور ہوگئی اور اطمینان حاصل ہوگیا۔ وہ سیدنا یوسف کے علم و فضل سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ ایسے شخص کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اس کی زیارت سے فیض یاب ہوسکوں اور اس کے مرتبہ اور اس کی قابلیت کے مطابق اس کی عزت و تکریم کروں۔ جب بادشاہ کا پیغامبر یہ پیغام لے کر قید خانہ میں سیدنا یوسف کے پاس پہنچا اور آپ کو بادشاہ کا پیغام اور قید سے رہائی کی خوشخبری سنائی تو بجائے اس کے کہ آپ اس پیغامبر پر خوش ہوتے آپ نے قید سے باہر آنے سے انکار کردیا اور پیغامبر سے کہا کہ واپس جاکر پہلے بادشاہ سے اس قضیہ کا فیصلہ کراؤ جس کی وجہ سے مجھے قید میں ڈالا گیا تھا۔ یعنی اس عورتوں والے قصے کی کیا صورت حال ہے جبکہ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔ بالفاظ دیگر آپ کا جواب یہ تھا کہ جب تک میرے اس جرم بےگناہی کی تحقیق نہ ہوجائے اور میری پوری طرح بریت نہ ہوجائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ پھر آپ نے اپنے مطالبہ میں اصل مجرم زلیخا کا نام عمداً نہ لیا کیونکہ اس کا خاوند آپ کا محسن اور انصاف پسند آدمی تھا آپ اسے بدنام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ اجمالاً ان سب ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا ذکر کردیا۔ کیونکہ وہ سب ہی اس جرم میں زلیخا کی ہمنوا بن گئی تھیں اور ان سب نے مل کر ہی آپ کو قید خانے میں ڈلوایا تھا۔ آپ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ میرا پروردگار تو میری بےگناہی اور عفت کو جانتا ہے۔ مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ کسی ناواقف حال کے دل میں بھی یہ شائبہ نہ رہے کہ شاید اس معاملہ میں یوسف کا بھی کچھ قصور ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ : یعنی جب ساقی نے جا کر تعبیر بتائی تو بادشاہ نے کہا : ” اسے میرے پاس لاؤ۔ “ اس سے علم کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ حسن بےمثال قید اور مصیبت کا باعث بنا اور علم رہائی کا۔ دنیا میں جب یہ حال ہے تو آخرت میں علم نافع کی برکتوں کا آپ خود اندازہ فرما لیں۔ - قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) نے قید سے نکل کر قاصد کے ساتھ جانے کے بجائے مطالبہ کیا کہ واپس جاؤ اور بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، یقیناً میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کا خیال تھا کہ شاید بادشاہ کو میرے قید میں بھیجے جانے یا عورتوں کے فریب کے معاملے کا علم ہی نہ ہو، دوسرے وزیروں نے ازخود ہی یہ سب کچھ کیا ہو، یا اگر علم ہو تو جس طرح بدنام کرکے قید کیا گیا اسی کے مطابق علم ہو۔ اسی طرح عام لوگوں میں بھی ممکن ہے کچھ لوگ ان کا قصور سمجھتے ہوں، اس لیے انھوں نے جب تک تحقیق کے ساتھ تہمت سے ہر طرح صفائی نہ ہو، قید سے نکلنے سے انکار کردیا۔ ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوسف (علیہ السلام) کے صبر کی تعریف فرمائی، چناچہ ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ ثُمَّ أَتَانِي الدَّاعِيْ لَأَجَبْتُہٗ ) [ بخاری، التعبیر، باب رؤیا أہل السجون والفساد والشرک : ٦٩٩٢ ] ” اگر میں اتنی مدت قید خانے میں رہتا جتنی مدت یوسف (علیہ السلام) رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں ضرور اس کی دعوت قبول کرتا۔ “ - 3 یوسف (علیہ السلام) نے جو مطالبہ کیا کہ ” بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے “ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا یہ فعل (عزیز کی بیوی ہاتھ کاٹنے والیوں میں شامل نہیں تھی) یوسف (علیہ السلام) کے حسن سے بےخود ہو کر بےاختیاری میں نہیں ہوا، بلکہ یہ باقاعدہ ان کی سازش اور فریب تھا، جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی ذکر کیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ یعنی بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو جیل خانہ سے نکالا جائے اور دربار میں لایا جائے چناچہ بادشاہ کا کوئی قاصد بادشاہ کا یہ پیغام لے کر جیل خانہ پہونچا،- موقع بظاہر اس کا تھا کہ یوسف (علیہ السلام) جیل خانہ کی طویل مدت سے عاجز آ رہے تھے، اور خلاصی چاہتے تھے جب بادشاہ کا پیغام بلانے کے لئے پہنچا تو فورا تیار ہو کر ساتھ چل دیتے مگر اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جو مقام بلند عطا فرماتے ہیں اس کو دوسرے لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں اس قاصد کو جواب یہ دیا - (آیت) قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ فَسْـــَٔـلْهُ مَا بَال النِّسْوَةِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ ۭ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ یعنی یوسف (علیہ السلام) نے قاصد سے کہا کہ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا کر پہلے یہ دریافت کرو کہ آپ کے نزدیک ان عورتوں کا معاملہ کس طرح ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے کیا اس واقعہ میں وہ مجھے مشتبہ سمجھتے ہیں اور میرا کوئی قصور قرار دیتی ہیں - یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس وقت یوسف (علیہ السلام) نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا جنہوں نے ہاتھ کاٹ لئے تھے عزیز کی بیوی کا نام نہیں لیا جو اصل سبب تھی اس میں اس حق کی رعایت تھی جو عزیز کے گھر میں پرورش پانے سے فطرۃ شریف انسان کے لئے قابل لحاظ ہوتا ہے (قرطبی)- اور ایک بات یہ بھی ہے کہ اصل مقصود اپنی براءت کا ثبوت تھا وہ ان عورتوں سے بھی ہوسکتا تھا اور اس میں عورتوں کی بھی کوئی زیادہ رسوائی نہ تھی اگر وہ سچی بات کا اقرار بھی کرلیتیں تو صرف مشورہ ہی کی مجرم ٹھیراتیں بخلاف عزیز کی بیوی کے کہ اس کو تحقیقات کا ہدف بنایا جاتا تو اس کی رسوائی زیادہ تھی اور اس کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ یعنی میرا پروردگار تو ان کے جھوٹ اور مکر و فریب کو جانتا ہی ہے میں چاہتا ہوں کہ بادشاہ بھی حقیقت واقعہ سے واقف ہوجائیں جس میں ایک لطیف انداز سے اپنی براءت کا اظہار بھی ہے - اس موقع پر صحیح بخاری اور جامع ترمذی میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اگر میں اتنی مدت جیل میں رہتا جتنا یوسف (علیہ السلام) رہے ہیں اور پھر مجھے رہائی کے لئے بلایا جاتا تو فوراً قبول کرلیتا،- اور امام طبری (رح) کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کا صبر و تحمل اور مکارم اخلاق قابل تعجب ہیں جب ان سے جیل میں بادشاہ کے خواب کی تعبیر دریافت کی گئی اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو تعبیر بتلانے میں یہ شرط لگاتا کہ پہلے جیل کے دروازے کی طرف چل دیتا ( قرطبی)- اس حدیث میں یہ بات قابل غور ہے کہ منشاء حدیث کا یوسف (علیہ السلام) کے صبر و تحمل اور مکارم اخلاق کی تعریف و مدح کرنا ہے مگر اس کے بالمقابل جس صورت حال کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا کہ میں ہوتا تو دیر نہ کرتا اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت یوسف کے اس طرز عمل کو افضل فرما رہے ہیں اور اپنی شان میں فرماتے ہیں کہ میں ہوتا تو اس افضل پر عمل نہ کر پاتا بلکہ اس میں مفضول کو اختیار کرلیتا جو بظاہر افضل الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شایان شان نہیں تو اس کے جواب میں کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلاشبہ تمام انبیاء (علیہم السلام) میں افضل ہیں مگر کسی جزوی عمل میں کسی دوسرے پیغمبر کی افضلیت اس کے منافی نہیں ،- اس کے علاوہ جیسا تفسیر قرطبی میں فرمایا گیا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے طریق کار میں ان کے صبر و تحمل اور مکارم اخلاق کا عظیم الشان ثبوت ہے اور وہ اپنی جگہ قابل تعریف ہے لیکن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس طریق کار کو اپنی طرف منسوب فرمایا تعلیم امت اور خیر خواہی عوام کے لئے مناسب اور افضل ہے کیونکہ بادشاہوں کے مزاج کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ایسے موقع پر شرطیں لگانا یا دیر کرنا عام لوگوں کے لئے مناسب نہیں ہوتا، احتمال ہے کہ بادشاہ کی رائے بدل جائے اور پھر یہ جیل کی مصبیت بدستور قائم رہے، یوسف (علیہ السلام) کو تو بوجہ رسول خدا ہونے کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ علم بھی ہوسکتا ہے کہ اس تاخیر سے کچھ نقصان نہیں ہوگا، لیکن دوسروں کو تو یہ درجہ حاصل نہیں رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزاج و مذاق میں عامہ خلائق کی بہبود کی اہمیت زیادہ تھی اس لئے فرمایا کہ مجھے یہ موقع ملتا تو دیر نہ کرتا، واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِہٖ۝ ٠ۚ فَلَمَّا جَاۗءَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِـــعْ اِلٰي رَبِّكَ فَسْـــَٔـلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَہُنَّ۝ ٠ۭ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِہِنَّ عَلِيْمٌ۝ ٥٠- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - بال - البَال : الحال التي يکترث بها، ولذلک يقال :- قال : كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] [ طه 51] ، أي : فما حالهم وخبرهم .- ويعبّر بالبال عن الحال الذي ينطوي عليه الإنسان، فيقال : خطر کذا ببالي .- ( ب ی ل ) البال - اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنواردی ۔ - فَما بالُ الْقُرُونِ الْأُولی[ طه 51] تو پہلی جماعتوں کا کیا حال اور انسان کے دل میں گذرنے والے خیال کو بھی بال کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ میرے دل میں یہ بات کھٹکی ۔- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے وقال الملک ائتونی بہ فلما جاء ہ الرسول قال ارجع الی ربک فاسئلہ ما بال النسوۃ الاتی قطعن ایدیھن ان ربی بکیلہ ھن علیہ۔ بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لائو ، مگر جب شاہی فرستادہ یوسف کے پاس پہنچا تو اس نے کہا : اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کر ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے۔- ایک قول کے مطابق حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فوری طور پر بادشاہ کے پاس جانے کو تسلیم نہیں کیا بلکہ شاہی قاصد کو یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ پہلے ان عورتوں سے ماملہ کی اصل حقیقت معلوم کرلی جائے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے تا کہ اس معاملہ میں آپ کی پاک دامنی واضح ہوجائے اور اس کے بعد جب آپ بادشاہ کے پاس جائیں تو اس کی نظروں میں آپ کی قدر و منزلت بڑھ جائے اور پھر آپ اسے توحید باری کی جو دعوت دیں نیز امور سلطنت میں اسے جو مشورے دے وہ انہیں آسانی سے قبول کرلے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٠) غرض کہ وہ شخص تعبیر لے کر دربار میں پہنچا اور بادشاہ کو مطلع کیا بادشاہ نے حک دیا یوسف (علیہ السلام) کو میرے پاس لاؤ چناچہ وہ ساق حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس آیا اور آکر اطلاع دی کہ بادشاہ آپ کو بلارہا ہے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کہ تو اپنے بادشاہ سے جاکر کہہ وہ ان عورتوں کو بلا کر جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے پوچھے کہ میرا رب ان عورتوں کے مکرو فریب کو خوب جانتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ )- بادشاہ اپنے خواب کی تعبیر اور پھر اس کی ایسی اعلیٰ تدبیر سن کر یقیناً بہت متاثر ہوا ہوگا اور اس نے سوچا ہوگا کہ ایسے ذہین فطین شخص کو جیل میں نہیں بلکہ بادشاہ کا مشیر ہونا چاہیے۔ چناچہ اس نے حکم دیا کہ اس قیدی کو فوراً میرے پاس لے کر آؤ۔- (فَلَمَّا جَاۗءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ )- بادشاہ کا پیغام لے کر جب قاصد آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا کہ میں اس طرح ابھی جیل سے باہر نہیں آنا چاہتا۔ پہلے پورے معاملے کی چھان بین کی جائے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ اگر مجھ پر کوئی الزام ہے تو اس کی مکمل تفتیش ہو اور اگر میرا کوئی قصور نہیں ہے تو مجھے علی الاعلان بےگناہ اور بری قرار دیا جائے۔ چناچہ آپ نے اس قاصد سے فرمایا کہ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ :- (اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ)- بادشاہ تک یہ بات پہنچی تو اس نے سب بیگمات کو طلب کرلیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :42 یہاں سے لے کر بادشاہ کی ملاقات تک جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اس قصے کا ایک بڑا ہی اہم باب ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا کوئی ذکر بائیبل اور تلمود میں نہیں ہے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ بادشاہ کی طلبی پر حضرت یوسف علیہ السلام فورا چلنے کے لیے تیار ہوگئے ، حجامت بنوائی ، کپڑے بدلے اور دربار میں جا حاضر ہوئے ۔ تلمود اس سے بھی زیادہ گھٹیا صورت میں اس واقعے کو پیش کرتی ہے ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ ” بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یوسف علیہ السلام کو میرے حضور پیش کرو ، اور یہ بھی ہدایت کر دی کہ دیکھو ایسا کوئی کام نہ کرنا کہ لڑکا گھبرا جائے اور صحیح تعبیر نہ دے سکے ۔ چنانچہ شاہی ملازموں نے یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے نکالا ، حجامت بنوائی ، کپڑے بدلوائے اور دربار میں لا کر پیش کر دیا ۔ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا تھا ۔ وہاں زر و جواہر کی چمک دمک اور دربار کی شان دیکھ کر یوسف علیہ السلام ہکا بکا رہ گیا اور اس کی آنکھیں خیرہ ہونےلگیں ۔ شاہی تخت کی سات سیڑھیاں تھیں ۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز آدمی بادشاہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تو وہ چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا اور بادشاہ سے ہم کلام ہوتا تھا ۔ اور جب ادنی طبقہ کا کوئی آدمی شاہی مخاطبہ کے لیے بلایا جاتا تو وہ نیچے کھڑا رہتا اور بادشاہ تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے بات کرتا ۔ یوسف علیہ السلام اس قاعدے کے مطابق نیچے کھڑا ہوا اور زمین بوس ہو کر اس نے بادشاہ کو سلامی دی ۔ اور بادشاہ نے تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے گفتگو کی“ ۔ اس تصویر میں بنی اسرائیل نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کو جتنا گرا کر پیش کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھیے اور پھر دیکھیے کہ قرآن ان کے قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان اور کس آن بان کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر صاحب نظر کا اپنا کام ہے کہ ان دونوں تصویروں میں سے کونسی تصویر پیغمبری کے مرتبے سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ علاوہ بریں یہ بات بھی عقل عام کو کھٹکتی ہے کہ اگر بادشاہ کی ملاقات کے وقت تک حضرت یوسف علیہ السلام کی حیثیت اتنی گری ہوئی تھی جتنی تلمود کے بیان سے معلوم ہوتی ہے ، تو خواب کی تعبیر سنتے ہی یکایک ان کو تمام سلطنت کا مختار کل کیسے بنا دیا گیا ۔ ایک مہذب و متمدن ملک میں اتنا بڑا مرتبہ تو آدمی کو اسی وقت ملا کرتا ہے جب کہ وہ اپنی اخلاقی و ذہنی برتری کا سکہ لوگوں پر بٹھا چکا ہو ۔ پس عقل کی رو سے بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت قرآن کا بیان زیادہ مطابق حقیقت معلوم ہوتا ہے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :43 یعنی جہاں تک میرے رب کا معاملہ ہے ، اس کو تو پہلے ہی میری بے گناہی کا حال معلوم ہے ۔ مگر تمہارے رب کو بھی میری رہائی سے پہلے اس معاملہ کو پوری طرح تحقیق کر لینی چاہیے جس کی بنا پر مجھے جیل میں ڈالا گیا تھا ۔ کیونکہ میں کسی شبہہ اور کسی بدگمانی کا داغ لیے ہوئے خلق کے سامنے نہیں آنا چاہتا ۔ مجھے رہا کرنا ہے تو پہلے بر سر عام یہ ثابت ہونا چاہیے کہ میں بے قصور تھا ۔ اصل قصور وار تمہاری سلطنت کے کار فرما اور کار پرواز تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کی بداطواری کا خمیازہ میری پاک دامنی پر ڈالا ۔ اس مطالبے کو حضرت یوسف علیہ السلام جن الفاظ میں پیش کرتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھا جو بیگم عزیز کی دعوت کے موقع پر پیش آیا تھا ۔ بلکہ وہ ایسا مشہور واقعہ تھا کہ اس کی طرف صرف ایک اشارہ ہی کافی تھا ۔ پھر اس مطالبہ میں حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کی بیوی کو چھوڑ کر صرف ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کے ذکر پر اکتفا فرماتے ہیں ۔ یہ ان کی انتہائی شرافت نفس کا ایک اور ثبوت ہے ۔ اس عورت نے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی برائی کی ہو ، مگر پھر بھی اس کا شوہر ان کا محسن تھا اس لیے انہوں نے نہ چاہا کہ اس کے ناموس پر خود کوئی حرف لائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

32: یہاں پھر قرآنِ کریم نے واقعے کے وہ حصے حذف فرما دئیے ہیں جو خود سمجھ میں آسکتے ہیں۔ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی جو تعبیر دی تھی وہ بادشاہ کو بتائی گئی، بادشاہ نے تعبیر سن کر ان کو قدر دانی کے طور پر اپنے پاس بلوانا چاہا، اور اس مقصد کے لئے اپنا ایک ایلچی بھیجا ۔اس موقع پر حضرت یوسف علیہ السلام نے چاہا کہ اپنی رہائی سے پہلے اُس جھوٹے الزام کی واضح طور پر صفائی کروائیں جو اُن پر لگایا گیا تھا۔ اِس لئے اس مرحلے پر انہوں نے ایلچی کے ساتھ جانے کے بجائے بادشاہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ آپ پہلے اُن عورتوں کے معاملات کی تحقیق کریں جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، چونکہ ان عورتوں کو ساری بات معلوم تھی، اور اُن کے ذریعے حقیقت کا معلوم کرنا زیادہ آسان تھا، اس لئے زلیخا کے بجائے ان کا حوالہ دیا۔ اور اگرچہ یہ تحقیق جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی کی جاسکتی تھی، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے شاید اس لئے یہ طریقہ اختیار فرمایا تاکہ بادشاہ اور عزیز مصر وغیرہ پر یہ بات واضح ہوجائے کہ اِن کو اپنی بے گناہی پر اتنا یقین ہے کہ وہ بے گناہی ثابت ہوئے بغیر جیل سے رہا ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے انداز سے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ اِنہیں کوئی اعزاز دیں گے۔ اس اعزاز کے ملنے کے بعد تحقیقات کے غیر جانب دارانہ ہونے میں لوگوں کو شکوک اور شبہات ہوسکتے تھے۔ اس لئے آپ نے مناسب یہی سمجھا کہ جیل سے اُس وقت نکلیں جب غیر جانب دارانہ تحقیق کے نتیجے میں الزام کا ہر داغ دُھل چکا ہو۔ اﷲ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ بادشاہ کو حضرت یوسف علیہ السلام کی سچائی کا یقین ہوگیا، اور اُس نے جب ان عورتوں کو بلا کر اِن سے اس انداز میں سوال کیا جیسے اُسے ساری حقیقت معلوم ہے تو وہ حقیقت سے انکار نہ کرسکیں، بلکہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کی صاف لفظوں میں گواہی دی۔ اس مرحلے پر عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا کو بھی یہ اقرار کرنا پڑا کہ اصل غلطی اُسی کی تھی۔ شاید اﷲ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے جرم کے اقرار اور توبہ کے ذریعے وہ بھی پاک صاف ہوسکے،