51۔ 1 بادشاہ کے استفسار پر تمام عورتوں نے یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کا اعتراف کیا۔ 51۔ 2 اب زلیخا کے لئے بھی یہ اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں رہا کہ یوسف (علیہ السلام) بےقصور ہے اور یہ پیش دستی میری ہی طرف سے ہوئی تھی، اس فرشتہ صفت انسان کا اس لغزش سے کوئی تعلق نہیں۔
[٥٠] عورتوں کا اعتراف جرم :۔ اب صورت حال یہ بن گئی تھی کہ بادشاہ خود سیدنا یوسف کے معاملہ میں ذاتی دلچسپی لینے لگا تھا۔ اس نے فوراً اس تکیہ دار دعوت میں شریک ہونے والی سب عورتوں کو بلا کر گواہی طلب کی اور گواہی سے پہلے بادشاہ کا یہ کہنا کہ جب تم نے یوسف کو ورغلانا چاہا تھا سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کو اس واقعہ کی خبر ضرور تھی۔ البتہ اس نے اعیان سلطنت کی رائے کے علی الرغم اس واقعہ کی تحقیق کو کچھ اہمیت نہ دی تھی۔ ان عورتوں کو بھی اب موقعہ کی نزاکت خوب معلوم تھی کہ اب سچ کہے بغیر چارہ نہیں۔ چناچہ انہوں نے صاف صاف اعتراف کرلیا کہ یوسف بالکل بےقصور ہے اس نے ہم میں سے کسی کو بھی میلی آنکھ سے دیکھا تک نہیں۔ عورتوں کی اس گواہی کے بعد زلیخا کے لیے بھی کسی مکر و فریب یا جھوٹ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی اور اس نے سب کے سامنے برملا اعتراف کرلیا کہ اصل مجرم میں ہوں۔ میں نے ہی اس پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی تھی اور یوسف بالکل بےقصور اور سچا ہے۔
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ ۔۔ : بادشاہ نے ان تمام خواتین کو طلب کرلیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران میں وہ معاملے کی پوری تحقیق کرچکا تھا اور یوسف کی بےگناہی اور عورتوں کے فریب سے آگاہ ہوچکا تھا، اس لیے اس نے یہ نہیں کہا کہ تمہارا قصور تھا یا یوسف کا، بلکہ ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ جب تم نے یوسف (علیہ السلام) کو اس کے نفس سے پھسلایا تھا، تمہارے اس معاملے کی حقیقت کیا تھی ؟ یعنی آخر اس کا کیا جرم تھا جس کی وجہ سے اسے اتنی دیر قید خانے میں رکھا گیا ؟ وہ سب بیک زبان بولیں : ” اللہ کی پناہ ہم نے اس پر کوئی برائی معلوم نہیں کی۔ “ ہاتھ کاٹنے والیوں نے جب یوسف (علیہ السلام) کو کسی بھی قسم کی برائی سے پاک قرار دیا تو ہاتھ نہ کاٹنے والی عزیز مصر کی بیوی کو بھی بولنا پڑا، اس نے کہا، اب تو حق بالکل ظاہر ہوگیا، میں نے ہی اسے اس کے نفس سے پھسلایا تھا اور یقیناً وہ سچوں سے ہے۔
خلاصہ تفسیر - کہا کہ تمہارا کیا واقعہ ہے جب تم نے یوسف (علیہ السلام) سے اپنے مطلب کی خواہش کی (یعنی ایک نے خواہش کی اور بقیہ نے اس کی مدد کی کہ اعانت فعل میں مثل فعل کے ہے اس وقت تم کو کیا تحقیق ہوا شاید بادشاہ نے اس طور پر اس لئے پوچھا ہو کہ مجرم سن لے کہ بادشاہ کو اتنی بات معلوم ہے کہ کسی عورت نے ان سے اپنا مطلب پورا کرنے کی بات کی تھی شاید اس کا نام بھی معلوم ہو اس حالت میں انکار نہ چل سکے گا پس اس طرح شاید خود اقرار کرلے) عورتوں نے جواب دیا کہ حاش للہ ہم کو ان میں ذرا بھی تو برائی کی بات نہیں معلوم ہوئی (وہ بالکل پاک صاف ہیں شاید عورتوں نے زلیخا کا وہ اقرار اس لئے ظاہر نہ کیا ہو کہ مقصود یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کا ثبوت تھا اور وہ حاصل ہوگیا یا زلیخا کے روبرو ہونے سے حیاء مانع ہوئی کہ اس کا نام لیں) عزیز کی بی بی (جو کہ حاضر تھی) کہنے لگی کہ اب تو حق بات (سب پر) ظاہر ہو ہی گئی (اب اخفاء بیکار ہے سچ یہی ہے کہ) میں نے ان سے اپنے مطلب کی خواہش کی تھی (نہ کہ انہوں نے جیسا میں نے الزام لگا دیا تھا ما جزاء من الخ) اور بیشک وہی سچے ہیں (اور غالباً ایسے امر کا اقرار کرلینا مجبوری کی حالت میں زلیخا کو پیش آیا غرض تمام صورت مقدمہ اور اظہارات اور یوسف (علیہ السلام) کی براءت کا ثبوت ان کے پاس کہلا کر بھیجا اس وقت) یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تمام اہتمام (جو میں نے کیا) محض اس وجہ سے تھا تاکہ عزیز کو (زائد) یقین کے ساتھ معلوم ہوجاوے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کی آبرو میں دست اندازی نہیں کی اور یہ (بھی معلوم ہوجائے) کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے فریب کو چلنے نہیں دیتا (چنانچہ زلیخا نے عزیز کی حرمت میں خیانت کی تھی کہ دوسرے پر نگاہ کی خدا نے اس کی قلعی کھول دی پس میری غرض یہ تھی)- معارف و مسائل :- حضرت یوسف (علیہ السلام) کو شاہی قاصد رہائی کا پیغام دے کر ہلانے کے لئے آیا اور انہوں نے قاصد کو یہ جواب دیا کہ پہلے ان عورتوں سے میرے معاملہ کی تحقیق کرلو جنہوں نے ہاتھ کاٹ لئے تھے اس میں بہت سی حکمتیں مضمر تھیں اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو جیسے دین کامل عطا فرماتے ہیں ایسے ہی عقل کامل اور معاملات و حالات کی پوری بصیرت بھی عطا فرماتے ہیں یوسف (علیہ السلام) نے شاہی پیغام سے یہ اندازہ کرلیا کہ اب جیل سے رہائی کے بعد بادشاہ مصر مجھے کوئی اعزاز دیں گے، اس وقت دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ جس عیب کی تہمت ان پر لگائی گئی تھی اور جس کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا تھا اس کی حقیقت بادشاہ اور سب لوگوں پر پوری طرح واضح ہو اور ان کی براءت میں کسی کو شبہ نہ رہے ورنہ اس کا انجام یہ ہوگا کہ شاہی اعزاز سے لوگوں کی زبانیں تو بند ہوجائیں گی مگر ان کے دلوں میں یہ خیالات کھٹکتے رہیں گے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے اپنے آقا کی بیوی پر دست درازی کی تھی اور ایسے حالات کا پیدا ہوجانا بھی شاہی درباروں میں کچھ بعید نہیں کہ کسی وقت بادشاہ بھی لوگوں کے ایسے خیالات سے متاثر ہوجائے اس لئے رہائی سے پہلے اس معاملہ کی صفائی اور تحقیق کو ضروری سمجھا اور مذکور الصدر دوآیتوں میں سے دوسری آیت میں خود یوسف (علیہ السلام) نے اپنے اس عمل اور رہائی میں تاخیر کرنے کی دو حکمتیں بیان فرمائی ہیں - مذکورالصدر پہلی آیت میں اس تحقیقات کا خلاصہ مذکور ہے قال مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖ یعنی بادشاہ نے ان عورتوں کو جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے حاضر کر کے سوال کیا کہ کیا واقعہ ہے جب تم نے یوسف سے اپنے مطلب کی خواہش کی بادشاہ کے اس سوال سے معلوم ہوا کہ اس کو اپنی جگہ یہ یقین ہوگیا تھا کہ قصور یوسف (علیہ السلام) کا نہیں ان عورتوں ہی کا ہے اسی لئے یہ کہا تم نے ان سے اپنے مطلب کی خواہش کی اس کے بعد عورتوں کا جواب یہ مذکور ہے،- قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوْۗءٍ ۭ قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ۡ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ یعنی سب عورتوں نے کہا کہ حاش للہ ہمیں ان میں ذرا بھی کوئی برائی کی بات نہیں معلوم ہوئی عزیز کی بیوی کہنے لگی کہ اب تو حق بات ظاہر ہو ہی گئی میں نے ان سے اپنے مطلب کی خواہش کی تھی اور بیشک وہی سچے ہیں،- حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تحقیقات میں عزیز مصر کی بیوی کا نام نہ لیا تھا مگر اللہ جل شانہ جب کسی کو عزت عطا فرماتے ہیں تو خود بخودلوگوں کی زبانیں ان کے صدق و صفائی کے لئے کھل جاتی ہیں اس موقع پر عزیز کی بیوی نے ہمت کر کے اظہار حق کا اعلان خود کردیا یہاں تک جو حالات و واقعات یوسف (علیہ السلام) کے آپ نے سنے ہیں ان میں بہت سے فوائد اور مسائل اور انسانی زندگی کے لئے اہم ہدایتیں پائی جاتی ہیں ،- ان میں آٹھ مسائل پہلے بیان ہوچکے ہیں مذکور الصدر آیات سے متعلق مزید مسائل اور ہدایات یہ ہیں - نواں مسئلہ : یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخصوص اور مقبول بندوں کے مقاصد پورا کرنے کے لئے خود ہی غیبی تدابیر سے انتظام فرماتے ہیں ان کو کسی مخلوق کا ممنون احسان کرنا پسند نہیں فرماتے یہی وجہ ہوئی کہ یوسف (علیہ السلام) نے جو رہا ہونے والے قیدی سے کہا تھا کہ بادشاہ سے میرا ذکر کرنا اس کو تو بھلا دیا گیا اور پھر پردہ غیب سے ایک تدبیر ایسی کی گئی جس میں یوسف (علیہ السلام) کسی کے ممنون بھی نہ ہوں اور پوری عزت وشان کے ساتھ جیل کی رہائی کا مقصد بھی پورا ہوجائے،- اس کا یہ سامان کیا کہ بادشاہ مصر کو ایک پریشان کن خواب دکھلایا جس کی تعبیر سے اس کے درباری اہل علم و فن عاجز ہوئے اس طرح ضرورت مند ہو کر یوسف (علیہ السلام) کی طرف رجوع کرنا پڑا (ابن کثیر)- دسواں مسئلہ : اس میں اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے کہ رہا ہونے والے قیدی نے یوسف (علیہ السلام) کا اتنا کام نہ کیا کہ بادشاہ سے ذکر کردیتا اور ان کو مزید سات سال قید کی مصیبت میں گذارنے پڑے اب سات سال کے بعد جب وہ اپنا مطلب تعبیر خواب کا لے کر حاضر ہوا تو عام انسانی عادت کا تقاضا تھا کہ اس کو ملامت کرتے اس پر خفا ہوتے کہ تجھ سے اتنا کام نہ ہوسکا مگر یوسف (علیہ السلام) نے اپنے پیغمبرانہ اخلاق کا اظہار فرمایا کہ اس کو ملامت تو کیا اس قصہ کا ذکر تک بھی نہیں کیا (ابن کثیر و قرطبی )- گیارہواں مسئلہ : اس میں یہ ہے کہ جس طرح انبیاء (علیہم السلام) اور علماء امت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کی آخرت درست کرنے کی فکر کریں ان کو ایسے کاموں سے بچائیں جو آخرت میں عذاب بنیں گے اسی طرح ان کو مسلمانوں کے معاشی حالات پر بھی نظر رکھنا چاہئے کہ وہ پریشان نہ ہوں جیسے یوسف (علیہ السلام) نے اس موقع پر صرف تعبیر خواب بتادینے کو کافی نہیں سمجھا بلکہ یہ حکیمانہ اور خیر خواہانہ مشورہ بھی دیا کہ پیداوار کے تمام گیہوں کو خوشوں کے اندر رہنے دیں اور بقدر ضرورت صاف کر کے غلہ نکالیں تاکہ آخر سالوں تک خراب نہ ہوجائے،- بارہواں مسئلہ : یہ ہے کہ عالم مقتدا کو اس کی بھی فکر رہنی چاہئے کہ اس کی طرف سے لوگوں میں بدگمانی پیدا نہ ہو اگرچہ وہ بدگمانی سراسر غلط ہی کیوں نہ ہو اس سے بھی بچنے کی تدبیر کرنا چاہئے کیونکہ بدگمانی خواہ کسی جہالت یا کم فہمی ہی کے سبب سے ہو بہرحال ان کی دعوت و ارشاد کے کام میں خلل انداز ہوتی ہے لوگوں میں اس بات کا وزن نہیں رہتا، (قرطبی) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ تہمت کے مواقع سے بھی بچو یعنی ایسے حالات اور مواقع سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ جن میں کسی کو آپ پر تہمت لگانے کا موقع ہاتھ آئے یہ حکم تو عام مسلمانوں کے لئے ہے خواص اور علماء کو اس میں دوہری احتیاط لازم ہے خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تمام عیوب اور گناہوں سے معصوم ہیں آپ نے بھی اس کا اہتمام فرمایا ایک مرتبہ ازواج مطہرات (رض) میں سے ایک بی بی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ کی ایک گلی سے گذر رہی تھیں کوئی صحابی (رض) سامنے آگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دور ہی سے بتلا دیا کہ میرے ساتھ فلاں بی بی ہیں یہ اس لئے کیا کہ کہیں دیکھنے والے کو کسی اجنبی عورت کا شبہ نہ ہوجائے اس موقع پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جیل سے رہائی اور شاہی دعوت کا پیغام ملنے کے باوجود رہائی سے پہلے اس کی کوشش فرمائی کہ لوگوں کے شبہات دور ہوجائیں - تیرہواں مسئلہ : اس میں یہ ہے کہ جس شخص کے حقوق کسی کے ذمہ ہوں اور اس حیثیت سے وہ واجب الاحترام ہو اگر ناگزیر حالات میں اس کے خلاف کوئی کاروائی کرنی بھی پڑے تو اس میں بھی مقدور بھر حقوق و احترام کی رعایت کرنا شرافت کا مقتضی ہے جیسے یوسف (علیہ السلام) نے اپنی براءت کے لئے معاملہ کی تحقیقات کے واسطے عزیز یا اس کی بیوی کا نام لینے کے بجائے ان عورتوں کا ذکر کیا جنہوں نے ہاتھ کاٹ لئے تھے (قرطبی) کیونکہ مقصد اس سے بھی حاصل ہوسکتا تھا ،- چودہواں مسئلہ : مکارم اخلاق کی تعلیم ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں سات سال یا بارہ سال جیل خانہ کی تکلیف برداشت کرنی پڑی تھی رہائی کے وقت ان سے کوئی انتقام لینا تو کیا اس کو بھی برداشت نہ کیا کہ ان کو کوئی ادنیٰ تکلیف ان سے پہونچے جیسے آیت لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ بالْغَيْبِ میں اس کا اہتمام کیا گیا ہے،
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِہٖ ٠ۭ قُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْہِ مِنْ سُوْۗءٍ ٠ۭ قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ٠ۡاَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ ٥١- خطب ( حال)- الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] - ( خ ط ب ) الخطب - والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔- راود - والمُرَاوَدَةُ : أن تنازع غيرک في الإرادة، فترید غير ما يريد، أو ترود غير ما يرود، ورَاوَدْتُ فلانا عن کذا . قال : هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] ، وقال : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] ، أي : تصرفه عن رأيه، - ( ر و د ) الرود - المراودۃ ( مفاعلہ ) یہ راود یراود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں ۔ یعنی ایک کا ارداہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ اور راودت فلان عن کزا کے معنی کسی کو اس کے ارداہ سے پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] اس نے مجھے میرے ارداہ سے پھیرنا چاہا ۔ تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] وہ اپنے غلام سے ( ناجائز ) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے ۔ یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے ۔- حاش للہ - ۔ کلمہ تعجب۔ اصل میں حاشا للہ تھا۔ الف کو تخفیف کے لئے گرا دیا گیا - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - حصَحص - حَصْحَصَ الْحَقُ [يوسف 51] ، أي : وضح، وذلک بانکشاف ما يغمره،- ( ح ص ص )- حَصْحَصَ الْحَقُ [يوسف 51] کے معنی ہیں کہ حق بات جو کسی دباؤ کی وجہ سے چھپی ہوئی اب اس دباؤ کے دور ہونے کی وجہ واضح ہوکر سامنے آگئی اور حص وحصحص ( ثلاثی ورباعی ) دونوں طرح آتا ہے ۔ - صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔
(٥١) چناچہ اس قاصد نے آکر بادشاہ کو یہ پیغام پہنچایا تو بادشاہ نے ان عورتوں کو جمع کیا اور یہ چار عورتوں تھیں، شراب پلانے والے کی بیوی، باورچی کی بیوی، دربان کی بیوی، اور جیل خانہ کے داروغہ کی بیوی اور زلیخا اور بادشاہ کے علاوہ مصر میں ان عورتوں پر کسی کا زور نہیں تھا۔- بادشاہ نے ان سے کہا کہ تمہارا کیا واقعہ ہے جب تم نے یوسف (علیہ السلام) سے اپنے مطلب کی خواہش کی۔- عورتوں نے جواب دیا نعوذ باللہ ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔- عزیز کی بیوی کہنے لگی اب تو یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں سچی بات ظاہر ہو ہی گئی سچ یہی ہے کہ میں نے ہی خود ان سے اپنے مطلب کی خواہش کی تھی اور بیشک یوسف (علیہ السلام) ہی اپنے اس قول میں کہ میں نے اس سے خواہش نہیں کی سچے ہیں۔
(قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوْۗءٍ )- اس وقت جو کچھ بھی ہوا تھا وہ سب ہماری طرف سے تھا ‘ یوسف ( علیہ السلام) کی طرف سے کوئی غلط بات ہم نے محسوس نہیں کی۔- (قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ۡ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ )- اس طرح عزیز کی بیوی کو اس حقیقت کا برملا اظہار کرنا پڑا کہ یوسف ( علیہ السلام) نے نہ تو زبان سے کوئی غلط بیانی کی ہے اور نہ ہی اس کے کردار میں کوئی کھوٹ ہے۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :44 ممکن ہے کہ شاہی محل میں ان تمام خواتین کو جمع کر کے یہ شہادت لی گئی ہو ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بادشاہ نے کسی معتمد خاص کو بھیج کر فردا فردا ان سے دریافت کرایا ہو ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :45 اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان شہادتوں نے کس طرح آٹھ نو سال پہلے کے واقعات کو تازہ کر دیا ہوگا ، کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کی شخصیت زمانہ قید کی طویل گمنامی سے نکل کر یکایک پھر سطح پر آگئی ہوگی ، اور کس طرح مصر کے تمام اشراف معززین ، متوسطین اور عوام تک میں آپ کا اخلاقی وقار قائم ہوگیا ہوگا ۔ اوپر بائیبل اور تلمود کے حوالہ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ بادشاہ نے اعلان عام کر کے تمام مملکت کے دانشمندوں اور علماء اور پیروں کو جمع کیا تھا اور وہ سب اس کے خواب کا مطلب بیان کرنے سے عاجز ہو چکے تھے ۔ اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کا مطلب یہ بتایا ۔ اس واقعہ کی بنا پر پہلے ہی سے سارے ملک کی نگائیں آپ کی ذات پر مرتکز ہو چکی ہونگی ۔ پھر جب بادشاہ کی طلبی پر آپ نے باہر نکلنے سے انکار کیا ہوگا تو سارے لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ عجیب قسم کا بلند حوصلہ انسان ہے جس کو آٹھ نو برس کی قید کے بعد بادشاہ وقت مہربان ہو کر بلا رہا ہے اور پھر بھی وہ بیتاب ہو کر دوڑ نہیں پڑتا ۔ پھر جب لوگوں کو معلوم ہوا ہوگا کہ یوسف علیہ السلام نے اپنی رہائی قبول کرنے اور بادشاہ وقت کی ملاقات کو آنے کے لیے کیا شرط پیش کی ہے تو سب کی نگاہیں اس تحقیقات کے نتیجے پر لگ گئی ہوں گی ۔ اور جب لوگوں نے اس کا نتیجہ سنا ہوگا تو ملک کا بچہ بچہ عش عش کرتا رہ گیا ہوگا کہ کس قدر پاکیزہ سیرت کا ہے یہ انسان جس کی طہارت نفس پر آج وہی لوگ گواہی دے رہے ہیں جنہوں نے مل جل کر کل اسے جیل میں ڈالا تھا ۔ اس صورت حال پر اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے کہ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے ملاقات کے موقع پر خزائن ارض کی سپردگی کا مطالبہ کیسے بے دھڑک پیش کر دیا اور بادشاہ نے اسے کیوں بے تامل قبول کر لیا ۔ اگر بات صرف اسی قدر ہوتی کہ جیل کے ایک قیدی نے بادشاہ کے ایک خواب کی تعبیر بتا دی تھی تو ظاہر ہے کہ اس پر وہ زیادہ سے زیادہ کسی انعام کا اور خلاصی پا جانے کا مستحق ہو سکتا تھا ۔ اتنی سی بات اس کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ بادشاہ سے کہے” خزائن ارض میرے حوالہ کرو “ اور بادشاہ کہہ دے” لیجیے ، سب کچھ حاضر ہے“ ۔