Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 جب جیل میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ساری تفصیل بتلائی گئی تو اسے سن کر یوسف (علیہ السلام) نے کہا اور بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ کے پاس جا کر انہوں نے یہ کہا اور بعض مفسرین کے نزدیک زلیخا کا قول ہے اور مطلب یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی غیر موجودگی میں بھی اس غلط طور پر خیانت کا ارتکاب نہیں کرتی بلکہ امانت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہوں۔ یا یہ مطلب ہے کہ میں نے اپنے خاوند کی خیانت نہیں کی اور کسی بڑے گناہ میں واقعہ نہیں ہوئی۔ امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ 52۔ 2 کہ وہ اپنے مکر و فریب میں ہمیشہ کامیاب ہی رہیں، بلکہ ان کا اثر محدود اور عارضی ہوتا ہے۔ بالآخر جیت حق اور اہل حق ہی کی ہوتی ہے، گو عارضی طور پر اہل حق کو آزمائشوں سے گزرنا پڑے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥١] سیدنا یوسف کا صبر وتحمل :۔ جرم کا سب سے بہتر اور اول درجہ کا ثبوت مجرم کا اپنا اعتراف ہوتا ہے اس اعتراف کے بعد جب حق نتھر کر سامنے آگیا تو اس وقت سیدنا یوسف نے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں نے یہ مطالبہ کیا ہی اس لیے تھا کہ میری پوزیشن عام لوگوں کی نظروں میں بالکل واضح ہوجائے اور اس لیے بھی کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ دغابازوں اور خائن قسم کے لوگوں کا فریب چلنے نہیں دیتا۔ اس مقام پر خائن سے مراد وہ ہاتھ کاٹنے والی عورتیں ہیں۔ جنہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یوسف بالکل پاکیزہ سیرت انسان ہے اور اصل مجرم زلیخا ہے۔ سیدنا یوسف پر ہی یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ اسے زلیخا کی بات مان لینا چاہیے۔- سیدنا یوسف نے مقدمہ کی تحقیق تک اپنی قید سے رہائی کے معاملہ کو جس پیغمبرانہ صبرو تحمل سے تاخیر میں ڈالا اس کی داد رسول اللہ نے ان الفاظ میں دی ہے۔ ( لَوْلَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ کَمَا لَبِثَ یُوْسُفُ لاَ جَبْتُ الدَّاعِیَ ) (بخاری، کتاب التفسیر، باب لقد کان فی یوسف۔۔ ) (یعنی اگر میں اتنی مدت قید میں رہتا جتنی مدت یوسف رہے تھے تو میں فوراً ۔۔ بلانے والے کے ساتھ ہولیتا) اس جملہ میں ایک تو آپ نے سیدنا یوسف کے صبر و تحمل کی تعریف فرمائی اور دوسرے نہایت لطیف پیرایہ میں اپنی عبودیت کاملہ اور انکساری کا اظہار فرمایا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ بالْغَيْبِ ۔۔ : عزیز مصر کی بیوی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں یہ اعتراف اس لیے کر رہی ہوں کہ اس کو (میرے خاوند کو) معلوم ہوجائے کہ اس کی عدم موجودگی میں میں نے فی الواقع اس کی خیانت نہیں کی اور نہ بڑی برائی واقع ہوئی ہے، ہاں، میں نے اس جو ان کو پھسلایا تھا، مگر اس نے سختی سے انکار کردیا۔ اس لیے میں اعتراف کر رہی ہوں، تاکہ اس کو معلوم ہوجائے کہ میں نے بڑی خیانت کا ارتکاب نہیں کیا اور اللہ خیانت کرنے والوں کی چال کو کامیاب نہیں کرتا۔ ہاں، میں اپنے آپ کو بالکل بری بھی نہیں کہتی، کیونکہ نفس برائی کی خواہش کرتا اور اس پر ابھارتا ہے، سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم کرے اور اسے بچا لے، بیشک میرا رب غفور و رحیم ہے۔ جس پر میرا رب رحم کرے، مراد یوسف (علیہ السلام) ہیں۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” یہی قول زیادہ مشہور اور قصے کے سیاق اور کلام کے معنی و مفہوم کے زیادہ لائق اور مناسب ہے۔ “ ماوردی نے اپنی تفسیر میں یہی بیان کیا ہے اور علامہ ابن تیمیہ (رض) نے اسی کی تائید کی ہے اور اس پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ - بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہ قول عزیز کی بیوی ہی کا ہے مگر ” لِيَعْلَمَ “ سے مراد یہ ہے کہ یوسف کو معلوم ہوجائے، جب کہ وہ قید خانے میں ہے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیانت نہیں کی، نہ اسے کسی طرح مجرم بنایا ہے، بلکہ اپنی کوتاہی کا ہی اعتراف کیا ہے۔ یہ معنی ایک لحاظ سے زیادہ قریب ہے کہ عزیز کا اس سارے سلسلۂ کلام میں ذکر ہی نہیں۔ البتہ قریب ترین شخص جس کا ذکر اس نے کیا وہ یوسف (علیہ السلام) ہیں : (اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ ) دوسرا قول یہ ہے کہ یہ کلام (ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ ) یوسف (علیہ السلام) کا کلام ہے۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے صرف یہی قول بیان کیا ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ جب ان عورتوں نے یوسف (علیہ السلام) کے ہر برائی سے پاک ہونے کی شہادت دی اور عزیز کی بیوی نے بھی اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اس معاملے کی تحقیق تک قید خانے سے اس لیے نہیں نکلا تاکہ عزیز مصر کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیانت نہیں کی، ساتھ ہی تواضع کے طور پر فرمایا کہ میں اپنے آپ کو بالکل گناہ سے پاک نہیں کہتا، کیونکہ نفس تو یقیناً برائی پر ابھارتا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” پہلا قول (یعنی ” الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ “ سے ” غَفُوْرْ رَّحِیْم “ تک یہ سارا کلام عزیز کی بیوی کا ہے) ہی زیادہ قوی اور ظاہر ہے، کیونکہ (ان خواتین اور) عزیز کی بیوی کی ساری گفتگو بادشاہ کی مجلس میں ہوئی ہے اور اس وقت یوسف (علیہ السلام) وہاں موجود نہیں تھے، بلکہ بادشاہ نے اس کے بعد انھیں بلوایا ہے۔ “- بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب عزیز مصر کی بیوی نے اعتراف کیا تو ایک شخص نے قید خانے میں جا کر یوسف (علیہ السلام) کو یہ بات بتائی تو انھوں نے فرمایا : (ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ ۔۔ ) مگر یہ بات ہمارے پاس نہ قرآن مجید میں ہے، نہ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اور اگر ان دونوں کے علاوہ اس خبر کا کوئی اور ذریعہ ہے تو اس کے سچ جھوٹ معلوم ہونے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ - رہی یہ بات کہ عزیز کی بیوی رب تعالیٰ اور اس کی صفات غفور و رحیم ہونے کا ذکر کیسے کرسکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے زمانے کا بادشاہ مصر کے فرعونوں سے پہلے کا ہے اور ساری سورت میں بادشاہ یا اس کے وزراء میں سے کسی کے کفر کی تصریح کہیں نہیں، ہاں عوام میں شرک موجود تھا، جیسا کہ جیل کے خواب دیکھنے والے تھے۔ عزیز مصر نے بھی اپنی بیوی کو گناہ سے استغفار کرنے کی تلقین کی تھی اور ایک مشرک جبار بادشاہ یوسف (علیہ السلام) جیسے شخص کا کبھی اتنا اکرام و اعزاز نہیں کرسکتا، جس کا کھلم کھلا کہنا ہو کہ میں نے اس قوم کی ملت کو ترک کر رکھا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتی۔ ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) میں حسن ظاہر کے استثنا کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) کے کمالات سے کچھ زیادہ ہی کمالات ہوں گے، مگر اسی مصر کے ایک بادشاہ (فرعون) نے انھیں اور ان کی قوم کو مسلسل عذاب میں رکھا، حتیٰ کہ فرعون کو سمندر میں غرق کردیا گیا۔ [ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ وَ عِلْمُہُ أَتَّمُ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اول یہ کہ ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ بالْغَيْبِ یعنی یہ تاخیر میں نے اس لئے کی کہ عزیز مصر کو یقین ہوجائے کہ میں نے اس کی غیر موجودگی میں اس کے حق میں کوئی خیانت نہیں کی ،- عزیز مصر کی یقین دہانی کی زیادہ فکر اس لئے ہوئی کہ یہ بہت بری صورت ہوگی کہ عزیز مصر کے دل میں میری طرف سے شبہات رہیں اور پھر شاہی اعزاز کی وجہ سے وہ کچھ نہ کہہ سکیں، تو ان کو میرا اعزاز بھی سخت ناگوار ہوگا اور اس پر سکوت ان کے لئے اور زیادہ تکلیف دہ ہوگا وہ چونکہ ایک زمانہ تک آقا کی حیثیت میں رہ چکا تھا اس لئے یوسف (علیہ السلام) کی شرافت نفس نے اس کی اذیت کو گوارا نہ کیا اور یہ بھی ظاہر تھا کہ جب عزیز مصر کو براءت کا یقین ہوجائے گا تو دوسرے لوگوں کی زبانیں خودبند ہوجائیں گی ،- دوسری حکمت یہ ارشاد فرمائی وَاَنَّ اللّٰهَ لَايَهْدِيْ كَيْدَ الْخَاۗىِٕنِيْنَ یعنی یہ تحقیقات اس لئے کرائی کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے قریب کو چلنے نہیں دیتا - اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ تحقیقات کے ذریعہ خیانت کرنے والوں کی خیانت ظاہر ہو کہ سب لوگ متنبہ ہوجائیں کہ خیانت کرنے والوں کا انجام آخر کار رسوائی ہوتا ہے تاکہ آئندہ سب لوگ ایسے کاموں سے بچنے کا اہتمام کریں دوسرے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر اسی اشتباہ کی حالت میں یوسف (علیہ السلام) کو شاہی اعزاز مل جاتا تو دیکھنے والوں کو یہ خیال ہوسکتا تھا کہ ایسی خیانت کرنے والوں کو بڑے بڑے رتبے مل سکتے ہیں اس سے ان کے اعتقاد میں فرق آتا اور خیانت کی برائی دلوں سے نکل جاتی بہرحال مذکورہ بالاحکمتوں کے پیش نظر یوسف (علیہ السلام) نے رہائی کا پیغام پاتے ہی فورا نکل جانا پسند نہیں کیا بلکہ شاہی انداز سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَيْبِ وَاَنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ كَيْدَ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۝ ٥٢- خون - الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة :- الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ- [ الأنفال 27] ،- ( خ و ن ) الخیانۃ - خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ذلک لیعلم انی لم اخنہ بالغیب ( یوسف نے کہا) اس سے میری غرض یہ تھی کہ ( عزیز مصر) یہ جان لے کہ میں نے در پردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی ۔ حسن ، مجاہد ، قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ یہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قول تھا۔ آپ نے یہ فرمایا کہ ” میں نے قاصد کو بادشاہ کے پاس اس لیے بھیج دیا اور اس سے عورتوں کے معاملہ کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے کہا کہ بادشاہ یعنی عزیز مصر کو یہ معلوم ہوجائے کہ میں نے در پردہ اس کی خیانت نہیں کی ہے “ اگر سلسلہ کلام کی ابتداء عورت یعنی عزیز مصر کی بیوی کے متعلق حکایت سے کی جائے تو اس صورت میں کلام کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قول کی حکایت کی طرف لوٹا جائے گا اس لیے کہ اس مفہوم پر کلام کی دلالت واضح ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے وکذلک یفعلون اور یہ ایسا ہی کرتے ہیں جبکہ اس فقرے سے پہلے عورت یعنی ملکہ سبا کے قول کی حکایت ہے یعنی وجعلوا عزۃ اھلھا اذلۃ اور یہ لوگ بیرونی حملہ آور بادشاہ ملک میں بسنے وال عزت دار اور اونچے مرتبے والوں کو ذلیل کردیتے ہیں ۔ اسی طرح یہ قول باری بھی ہے فما ذا تامرون پھر تمہارا کیا مشورہ ہے ؟ حالانکہ اس فقرے سے پہلے فرعون کے دباریوں اور سرداروں کے قول کی حکایت ہے یعنی یرید ان یخرجکم من ارضکم بسحرہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سر زمین سے نکال باہر کردینا چاہتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٢) چناچہ ان تصدیقات کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں نے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے تاکہ عزیز کو قطعی طور پر معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی کے ساتھ خیانت کی اور اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے فریب کو چلنے نہیں دیتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ بالْغَيْبِ )- یہ فقرہ سیاق عبارت میں کس کی زبان سے ادا ہوا ہے اس کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ اس لیے کہ اس فقرے کے موقع محل اور الفاظ میں متعدد امکانات کی گنجائش ہے۔ ان اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ فقرہ عزیز کی بیوی کی زبان ہی سے ادا ہوا ہے کہ میں نے ساری بات اس لیے سچ سچ بیان کردی ہے تاکہ یوسف کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس سے کوئی غلط بات منسوب کر کے اس کی خیانت نہیں کی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :46 یہ بات غالبا یوسف علیہ السلام نے اس وقت کہی ہوگی جب قید خانہ میں آپ کو تحقیقات کے نتیجے کی خبر دی گئی ہوگی ۔ بعض مفسرین ، جن میں ابن تیمیہ اور ابن کثیر جیسے فضلا بھی شامل ہیں ، اس فقرے کو حضرت یوسف کا نہیں بلکہ عزیز کی بیوی کے قول کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ فقرہ امرأة العزیز کے قول سے متصل آیا ہے اور بیچ میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ ” اِنَّہ لَمِنَ الصَّادِقِینَ“ پر امرأة العزیز کی بات ختم ہوگئی اور بعد کا کلام حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوا ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں کے قول ایک دوسرے سے متصل واقع ہوں اور اس امر کی صراحت نہ ہو کہ یہ قول فلاں کا ہے اور یہ فلاں کا ، تو اس صورت میں لازما کوئی قرینہ ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں کے کلام میں فرق کیا جا سکے ، اور یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔ اس لیے یہی ماننا پڑے گا کہ الئن حصحص الحق سے لے کر ان ربی غفور رحیم تک پورا کلام امرأة العزیز کا ہی ہے ۔ لیکن مجھے تعجب ہے کہ ابن تیمیہ جیسے دقیقہ رس آدمی تک کی نگاہ سے یہ بات کیسے چوک گئی کہ شان کلام بجائے خود ایک بہت بڑا قرینہ ہے جس کے ہوتے کسی اور قرینہ کی ضرورت نہیں رہتی ۔ پہلا فقرہ تو بلا شبہہ امرأة العزیز کے منہ پر پھبتا ہے ، مگر کیا دوسرا فقرہ بھی اس کی حیثیت کے مطابق نطر آتا ہے؟ یہاں تو شان کلام صاف کہہ رہی ہے کہ اس کے قائل حضرت یوسف علیہ السلام ہیں نہ کہ عزیز مصر کی بیوی ۔ اس کلام میں جو نیک نفسی ، جو عالی ظرفی ، جو فروتنی اور جو خدا ترسی بول رہی ہے وہ خود گواہ ہے کہ یہ فقرہ اس زبان سے نکلا ہوا نہیں ہوسکتا جس سے ھَیتَ لَکَ نکلا تھا ۔ جس سے مَا جَزَآءُ مَن اَرَادَ بِاَھلِکَ سُوا نکلا تھا ، اور جس سے بھری محفل کے سامنے یہ تک نکل سکتا تھا کہ لَئِن لَّم یَفعَل مَآ اٰمُرُہُ لَیُسجَنَنَّ ۔ ایسا پاکیزہ فقرہ تو وہی زبان بول سکتی تھی جو اس سے پہلے مَعَا ذَاللہِ اِنَّہُ رَبِّیٓ اَحسَنَ مَثوَایَ ط کہہ چکی تھی ، جو رَبِّ السِّجنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَد عُو نَنِی اِلَیہِ کہہ چکی تھی ، جو اِلَّا تَصرِف عَنِّی کَیدَ ھُنَّ اَصبُ اِلَیھِنَّ کہہ چکی تھی ۔ ایسے پاکیزہ کلام کو یوسف صدیق کے بجائے امرأ العزیز کا کلام ماننا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کوئی قرینہ اس امر پر دلالت نہ کرے کہ اس مرحلے پر پہنچ کر اسے توبہ اور ایمان اور اصلاح نفس کی توفیق نصیب ہوگئی تھی ، اور افسوس ہے کہ ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani