عزیز مصر کی بیوی کہہ رہی ہے کہ میں اپنی پاکیزگی بیان نہیں کر رہی اپنے آپ کو نہیں سراہتی ۔ نفس انسانی تمناؤں اور بری باتوں کا مخزن ہے ۔ اس میں ایسے جذبات اور شوق اچھلتے رہتے ہیں ۔ وہ برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے ۔ اسی کے پھندے میں پھنس کر میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا ۔ مگر جسے اللہ چاہے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ لیتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔ بخشش کرنا معافی دینا اس کی ابدی اور لازمی صفت ہے ۔ یہ قول عزیز مصر کی عورت کا ہی ہے ۔ یہی بات مشہور ہے اور زیادہ لائق ہے اور واقعہ کے بیان سے بھی زیادہ مناسب ہے ۔ اور کلام کے معنی کے ساتھ بھی زیادہ موافق ہے ۔ اما ماوردی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اسے وارد کیا ہے ۔ اور علامہ ابو العباس حضرت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے تو اسے ایک مستقل تصنیف میں بیان فرمایا ہے اور اس کی پوری تائید کی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ لیعلم سے اس دوسری آیت کے ختم تک انہی کا فرمان ہے ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے تو صرف یہی ایک قول نقل کیا ہے ۔ چنانچہ ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بادشاہ نے عورتوں کو جمع کر کے جب ان سے پوچھا کہ کیا تم نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بہلایا پھسلایا تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حاشاللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی ۔ اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے اقرار کیا کہ واقعی حق تو یہی ہے ۔ تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا یہ سب اس لئے تھا کہ میری امانت درای کا یقین ہو جائے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے فرمایا وہ دن بھی یاد ہے ؟ کہ آپ نے کچھ ارادہ کر لیا تھا ؟ تب آپ نے فرمایا میں اپنے نفس کی برات تو نہیں کر رہا ؟ بیشک نفس برائیوں کا حکم دیتا ہے ۔ الغرض ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ کلام حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ لیکن پہلا قول یعنی اس کلام کا عزیز کی موت کا کلام ہونا ہی زیادہ قوی اور زیادہ ظاہر ہے ۔ اس لئے کہ اوپر سے انہی کا کلام چلا آ رہا ہے جو بادشاہ کے سامنے سب کی موجودگی میں ہو رہا تھا ۔ اس وقت تو حضرت یوسف علی السلام وہاں موجود ہی نہ تھے ۔ اس تمام قصے کے کھل جانے کے بعد بادشاہ نے آپ کو بلوایا ۔
53۔ 1 اسے اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہوچکی تھی۔ اور اگر یہ عزیز مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف (علیہ السلام) کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کرلیا۔ 53۔ 2 یہ اس نے اپنی غلطی کی یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔ 53۔ 3 یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔
[٥٢] سیدنا یوسف کی کسر نفسی :۔ بھری مجلس میں مجرم کے اعتراف اور اس قضیہ میں آپ کی شاندار جیت کے بعد یہ عین ممکن تھا کہ بشری تقاضوں کے تحت آپ کے نفس میں کچھ پندار اور غرور سر اٹھانے لگتا۔ اسی لیے ساتھ ہی آپ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی نفس کا تو کام ہی یہ ہے کہ برائی کے کاموں پر انسان کو آمادہ کرتا رہتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت ہے کہ انسان اس برائی پر عمل کرنے سے بچا رہتا ہے اور جو میں بچا رہا تو اسی لیے کہ میرا اللہ تعالیٰ اپنے رحم و فضل سے مجھے بچاتا رہا۔
وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِيْ ۔۔ : یہ عزیز مصر کی بیوی کے کلام کا آخری حصہ ہے۔ گویا عزیز مصر کی بیوی یہ کہنا چاہتی ہے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اپنے خاوند کی کوئی بڑی خیانت نہیں کی، بیشک میں نے یوسف کو پھسلانا چاہا تھا مگر کامیاب نہ ہوسکی، ہاں میں اپنے آپ کو پاک باز قرار نہیں دیتی، مجھ سے جتنی غلطی ہوئی اس کا اقرار و اعتراف کرتی ہوں، نفس کی شرارتوں سے تو وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو (مراد یوسف (علیہ السلام) ہیں) ۔- 3 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیز مصر کی بیوی اللہ تعالیٰ کو اور اس کی صفات غفور و رحیم کو مانتی تھی اور نیکی اور گناہ کو بھی سمجھتی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کا قول نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ تو کافرہ تھی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اول تو اس کے کفر کی کوئی دلیل ہمارے سامنے نہیں اور اگر ہو بھی تو مکہ کے کافر اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے، زنا اور دوسرے قبائح کو گناہ سمجھتے تھے، پھر بھی مشرک تھے۔ آج کل بیشمار کلمہ گو آپ کو ایسے مل جائیں گے جو اللہ کو مانتے، اس سے استغفار کرتے اور گناہ کو گناہ سمجھتے ہیں، مگر پھر بھی سرتاپا شرک میں مبتلا ہیں۔
خلاصہ تفسیر :- اور میں اپنے نفس کو (بھی بالذات) بری (اور پاک) نہیں بتلاتا (کیونکہ) نفس تو (ہر ایک کا) بری ہی بات بتلاتا ہے بجز اس (نفس) کے جس پر میرا رب رحم کرے (اور اس میں برائی کا مادہ نہ رکھے جیسا انبیاء (علیہم السلام) کے نفوس ہوتے ہیں مطمئنہ جن میں یوسف (علیہ السلام) کا نفس بھی داخل ہے خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ میری نزہت و عصمت میرے نفس کا ذاتی کمال نہیں، بلکہ رحمت و عنایت الہیہ کا اثر ہے، اس لئے میرا نفس برائی کا حکم نہیں کرتا ورنہ جیسے اوروں کے نفوس ہیں ویسا ہی میرا ہوتا) بلکہ میرا رب بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے (یعنی اوپر جو نفس کی دو قسمیں معلوم ہوئیں امارہ اور مطمئنہ، سو امارہ اگر توبہ کرلے تو اس کی مغفرت فرمائی جاتی ہے اور مرتبہ توبہ میں وہ لوّامہ کہلاتا ہے اور جو مطمئنہ ہے کمال اس کا لازم ذات نہیں بلکہ عنایت و رحمت کا اثر ہے، پس اماّرہ کے لوّامہ ہونے پر صفت غفور کا ظہور ہوتا ہے اور مطمئنہ میں صفت رحیم کا،- یہ تمام تر مضمون ہوا یوسف (علیہ السلام) کی تقریر کا باقی یہ امر کہ یہ صورت اثبات نزاہت کی بعد رہائی کے بھی تو ممکن تھی پھر رہائی پر اس کو مقدم کیوں رکھا اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جتنا یقین اس ترتیب میں ہوسکتا ہے اس کے خلاف میں نہیں ہوسکتا کیونکہ دلائل کی دلالت تو مشترک ہے لیکن اس صورت مجوزہ میں یہ امر زائد ہے کہ بادشاہ اور عزیز سمجھ سکتے ہیں کہ جب بدون تبریہ کے یہ رہا ہونا نہیں چاہتے، حالانکہ ایسی حالت میں رہائی قیدی کی انتہائی تمنا ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اپنی نزاہت و براءت کا کامل یقین ہے اس لئے اس کے ثابت ہوجانے کا پورا اطمینان ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا کامل یقین بری ہی ہوسکتا ہے نہ کہ ملوّث کو یہ ساری باتیں بادشاہ نے سنیں) اور ( یہ سن کر اس) بادشاہ نے کہا کہ ان کو میرے پاس لاؤ میں ان کو خاص اپنے (کام کے) لئے رکھوں گا (اور عزیز سے ان کو لے لوں گا کہ اس کے ماتحت نہ رہیں گے، چناچہ لوگ ان کو بادشاہ کے پاس لائے) پس جب بادشاہ نے ان سے باتیں کیں (اور باتوں سے زیادہ فضل و کمال آپ کا ظاہر ہوا) تو بادشاہ نے (ان سے) کہا کہ تم ہمارے نزدیک آج (سے) بڑے معزز اور معتبر ہو (بعد اس کے اس خواب کی تعبیر کا ذکر آیا اور بادشاہ نے کہا کہ اتنے بڑے قحط کا اہتمام بڑا بھاری کام ہے یہ انتظام کس کے سپرد کیا جاوے) یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ملکی خزانوں پر مجھ کو مامور کردو میں (ان کی) حفاظت (بھی) رکھوں گا اور (آمد و خرچ) کے انتظام اور اس کے حساب کتاب کے طریقہ سے بھی) خوب واقف ہوں (چنانچہ بجائے اس کے کہ ان کو کوئی خاص منصب دیتا مثل اپنے پورے اختیارات ہر قسم کے دے دئیے، گویا حقیقت میں بادشاہ یہی ہوگئے گو برائے نام وہ بادشاہ رہا اور یہ عزیز کے عہدہ سے مشہور ہوگئے چناچہ ارشاد ہے) اور ہم نے ایسے (عجیب) طور پر یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں با اختیار بنادیا کہ اس میں جہاں چاہیں رہیں سہیں (جیسا کہ بادشاہوں کو آزادی ہوتی یعنی یا تو وہ وقت تھا کہ کنویں میں محبوس تھے پھر عزیز کی ماتحتی میں مقید رہے اور یا آج یہ خود مختاری اور آزادی عنایت ہوئی بات یہ ہے کہ) ہم جس پر چاہیں اپنی عنایت متوجہ کردیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے (یعنی دنیا میں بھی نیکی کا اجر ملتا ہے کہ حیات طیبہ عطا فرماتے ہیں خواہ مالدار بنا کر جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے لئے تھا اور خواہ بغیر مالداری کے قناعت ورضا عطا کر کے جس سے عیش لذیذ میسر ہوتا ہے یہ تو آج دنیا میں ہوا) اور آخرت کا اجر کہیں زیادہ بڑھ کر ہے ایمان اور تقویٰ والوں کے لئے - معارف ومسائل - اپنی پاکبازی بیان کرنا درست نہیں مگر خاص حالات میں - اس سے پہلی آیت میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ قول مذکور تھا کہ جو الزام مجھ پر عائد کیا تھا اس کی صفائی اور معاملہ کی مکمل تحقیق سے پہلے میں قید سے رہائی کو اس لئے پسند نہیں کرتا کہ عزیز اور بادشاہ مصر کو پورا یقین ہوجائے کی میں نے خیانت نہیں کی تھی بلکہ الزام سراسر جھوٹا تھا اس میں چونکہ اپنی براءت اور پاکبازی کا ذکر ایک ناگزیر ضرورت سے ہو رہا تھا جو بظاہر اپنے نفس کے تزکیہ اور پاکی کا اظہار ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسند نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے (آیت) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ ۭ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ یعنی کیا آپ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو پاکیزہ کہتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے کہ وہ جس کو چاہیں پاک قرار دیں اور سورة نجم میں بھی اسی مضمون کی ایک آیت ہے فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى یعنی تم اپنے نفس کی پاکی کے مدعی نہ بنوا للہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ کون واقعی پرہیزگار و متقی ہے - اس لئے آیت مذکورہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی براءت کے اظہار کے ساتھ ہی اس حقیقت کا بھی اظہار کردیا کہ میرا یہ کہنا کچھ اپنے تقویٰ اور پاکبازی کا جتلانا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کا نفس جس کا خمیر چار عنصر آگ، پانی، مٹی، اور ہوا سے بنا ہے وہ تو اپنی فطرت سے ہر شخص کو برے ہی کاموں کی طرف مائل کرتا رہتا ہے بجز اس کے جس پر میرا اپنی رحمت فرما کر اس کے نفس کو برے تقاضوں سے پاک کر دے جیسے انبیاء (علیہم السلام) کے نفوس ہوتے ہیں اور ایسے ہی نفوس کو قرآن میں نفس مطمئنہ کا لقب دیا گیا ہے حاصل یہ ہے کہ ایسے ابتلاء عظیم کے وقت میرا گناہ سے بچ جانا یہ کوئی میرا ذاتی کمال نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت اور دستگیری کا نتیجہ تھا اگر وہ میرے نفس سے رذیل خواہشات کو نہ نکال دیتے تو میں بھی ایسا ہی ہوجاتا جیسے عام انسان ہوتے ہیں کہ خواہشات نفسانی سے مغلوب ہوجاتے ہیں،- بعض روایات میں ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ جملہ اس لئے فرمایا کہ ایک قسم کا خیال تو بہرحال ان کے دل میں بھی پیدا ہو ہی گیا تھا گو وہ غیر اختیاری وسوسے کی حد تک تھا مگر شان نبوت کے سامنے وہ بھی ایک لغزش اور برائی ہی تھی اس لئے اس کا اظہار فرمایا کہ میں اپنے نفس کو بھی بالکل ہی بری اور پاک نہیں سمجھتا،- نفس انسانی کی تین حالتیں - اس آیت میں یہ مسئلہ غورطلب ہی کے اس میں ہر نفس انسانی کواَمَّارَۃ ٌبا لسُّوء یعنی برے کاموں کا حکم کرنے والا فرمایا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) سے ایک سوال فرمایا کہ ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس کا حال یہ ہو کہ اگر تم اس کا اعزازو اکرام کرو کھانا کھلاؤ، کپڑے پہناؤ تو وہ تمہیں بلاء اور مصیبت میں ڈال دے اور اگر تم اس کی توہین کرو، بھوکا ننگا رکھو تو تمہارے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے زیادہ برا تو دنیا میں کوئی ساتھی ہو ہی نہیں سکتا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تمہارا نفس جو تمہارا نفس جو تمہارے پہلو میں ہے وہ ایسا ہی ساتھی ہے (قرطبی) اور ایک حدیث میں ہے کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن خود تمہارا نفس ہے جو تمہیں برے کاموں میں مبتلاکر کے ذلیل و خوار بھی کرتا ہے اور طرح طرح کی مصیبتوں میں بھی گرفتار کردیتا ہے،- بہرحال آیت مذکورہ اور ان روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی برے ہی کاموں کا تقاضا کرتا ہے لیکن سورة قیامہ میں اسی نفس انسانی کو لوّامہ کا لقب دے کر اس کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ رب العزت نے اس کی قسم کھائی ہے (آیت) لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَلَآ اُقْسِمُ بالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ اور سورة والفجر میں اسی نفس انسانی کو نفس مطمئنہ کا لقب دے کر جنت کی بشارت دی ہے يٰٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ اس طرح نفس انسانی کو ایک جگہ اَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۗءِ کہا گیا دوسری جگہ لوّامہ تیسری جگہ مطمئنہ - توضیح اس کی یہ ہے کہ ہر نفس انسانی اپنی ذات میں تو اَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۗءِ یعنی برے کاموں کا تقاضا کرنے والا ہے لیکن جب انسان خدا وآخرت کے خوف سے اس کے تقاضے کو پورا نہ کرے تو اس کا نفس لوّامہ بن جاتا ہے یعنی برے کاموں پر ملامت کرنے والا اور ان سے توبہ کرنے والا جیسے عام صلحاء امت کے نفوس ہیں اور جب کوئی انسان نفس کے خلاف مجاہدہ کرتے کرتے اپنے نفس کو اس حالت میں پہونچادے کہ برے کاموں اس میں نہ رہے تو وہ نفس مطمئنہ ہوجاتا ہے صلحاء امت کو یہ حال مجاہدہ و ریاضت سے حاصل ہوسکتا ہے اور پھر بھی اس حالت کا ہمیشہ قائم رہنا یقینی نہیں ہوتا اور انبیاء (علیہم السلام) کو خود بخود عطاء خداوندی سے ایسا ہی نفس مطمئنہ بغیر کسی سابقہ مجاہدہ کے نصیب ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اسی حالت پر رہتا ہے،- اس طرح نفس کی تین حالتوں کے ا عتبار سے تین طرح کے افعال اس کی طرف منسوب کئے گئے ہیں - اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ آخر آیت میں فرمایا کہ میرا رب بڑا مغفرت کرنے والا اور رحمت کرنے والا ہے لفظ غفور میں اس طرف اشارہ ہے کہ نفس اَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۗءِ جب اپنی خطاء پر نادم ہو کر توبہ کرے اور نفس لوامہ بن جائے تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت بڑی ہے وہ معاف فرما دیں گے،- اور لفظ رحیم میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جس شخص کو نفس مطمئنہ نصیب ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کا نتیجہ ہے۔
وَمَآاُبَرِّئُ نَفْسِيْ ٠ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْۗءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ ٠ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ٥٣- برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] - ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- (أمّارة)- ، صيغة مبالغة من فعل أمر الثلاثيّ ، وزنه فعّالة، والتاء إمّا للتأنيث فمذکّره أمّار، وإمّا للمبالغة مثل فهّامة- ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
نفس امارہ کی حقیقت - قول باری ہے ان النفس لا مارۃ بالسوء ۔ نفس کا کام تو بس بدی پر اکسانا ہے۔ یعنی نفس برائی کی طرف بہت زیادہ کھینچتا ہے ۔ اس لیے میں اپنے نفس کی برأت کرنا نہیں چاہتا اگرچہ میں اس کے چکر میں نہیں پھنستا۔ اس فقرے کے قائل کے متعلق اختلاف رائے ہے ، کچھ حضرات کا قول ہے کہ اس کے قائل حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں جبکہ بعض دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ یہ عورت یعنی عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے۔- امارہ سے کہتے ہیں جو کسی کام کے کرنے کا بہت زیادہ ام کرے اور حکم دے۔ نفس کو اس صفت سے اس لیے موصوف کیا گیا ہے کہ اس کی خواہشات کی کثرت اور اس کے جذبات کی شدت کی بنا پر اکثر افعال وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ابتداء میں نفس کی طرف برائی کا حکم دینے کی نسبت مجازا ً ہوتی تھی لیکن پھر اس کا استعمال اس کثرت سے ہوا کہ مجاز کا اسم ساقط ہوگیا اور اب یہ استعمال بطور حقیقت ہوتا ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے نفسی تامرنی بکذواتدعنی الی کذا من جھۃ شھوتی لہ ( میرا نفس مجھے فلاں کام کی طرف راغب کر کے اسے کرلینے کا حکم دیتا نیز فلاں کام کی دعوت دیتا ہے) حقیقت کے لحاظ سے یہ بات درست نہیں ہوتی کہ انسان اپنی ذات کو کوئی کام کرنے کا حکم دے اس لیے کہ امر کے اندر مامور کو ایسی چیز کا مالک بناکر جس کا وہ مالک نہیں ہوتا۔ حکم بجا لانے کی ترغیب دی جاتی ہے اور یہ بات محال ہے کہ ایک شخص اپنی ذات کو کسی ایسی چیز کا مالک بنادے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو اس لیے کہ ہر شخص صرف اسی چیز کو کسی دوسرے کی ملکیت میں دے سکتا ہے جس کا وہ خود مالک ہوتا ہے۔
(٥٣) اس پر جبریل امین (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ جب زلیخا نے آپ سے اصرار کیا تھا، تب کیا ہوا تھا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا میں اپنے نفس کو بالذات وساوس سے بری اور پاک نہیں کہتا کیوں کہ دل تو ہر ایک کا پورے جسم کو بری ہی بات سمجھاتا ہے ماسوا اس نفس کے یا جس کو میرا رب ان وساوس سے معصوم اور پاک رکھے اور میرا رب بڑی مغفرت والا ہے اور رحمتوں والا ہے کہ مجھ پر اس نے رحمت فرمائی۔
(اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّيْ ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ)- اگر گزشتہ آیت میں نقل ہونے والے بیان کو عزیز مصر کی بیوی کا بیان مانا جائے تو اس صورت میں آیت زیر نظر بھی اسی کے کلام کا تسلسل قرار پائے گی اور اس کا ترجمہ وہی ہوگا جو اوپر کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ دراصل اس نظریے کے مطابق ہے جس کے تحت ہمارے بہت سے مفسرین اور قصہ گو حضرات نے مائی زُلیخا کو ولی اللہ کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ اور کچھ بعید بھی نہیں کہ اس کا عشق مجازی وقت کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی میں تبدیل ہوگیا ہو اور وہ حقیقتاً ہدایت پر آگئی ہو۔ بہر حال جو لوگ اس بات کو درست تسلیم کرتے ہیں وہ ان آیات کا ترجمہ اسی طرح کرتے ہیں ‘ کیونکہ اس نے اعتراف جرم کر کے توبہ کرلی تھی اور اس لحاظ سے مذکورہ مفسرین کا موقف یہ ہے کہ اعتراف گناہ سے لے کر آیت ٥٣ کے اختتام تک اسی کا بیان ہے ۔- اس سلسلے میں دوسرا موقف (جو دور حاضر کے زیادہ تر مفسرین نے اختیار کیا ہے) یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی کا بیان اس آیت پر ختم ہوگیا ہے : (اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) اور اس کے بعد حضرت یوسف کا بیان نقل ہوا ہے۔ اس صورت میں آیت ٥٢ اور ٥٣ کا مفہوم یوں ہوگا کہ جب بادشاہ کی تفتیشی کارروائی اور عزیز مصر کی بیوی کے برملا اعتراف جرم کے بارے میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سب کچھ سے میرا یہ مقصود نہیں تھا کہ کسی کی عزت و ناموس کا پردہ چاک ہو ‘ بلکہ میں تو چاہتا تھا کہ عزیز مصر یہ جان لے کہ اگر اس نے مجھے اپنے گھر میں عزت و اکرام سے رکھا تھا اور مجھ پر اعتماد کیا تھا تو میں نے بھی اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی ‘ اور میرا ایمان ہے کہ اللہ خیانت کرنے والوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔ باقی میں خود کو بہت پارسا نہیں سمجھتا بلکہ سمجھتا ہوں کہ نفس انسانی تو انسان کو برائی پر ابھارتا ہی ہے اور اس کے حملے سے صرف وہی بچ سکتا ہے جس پر میرا رب اپنی خصوصی نظر رحمت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری حفاظت کا بھی اگر خصوصی انتظام نہ فرمایا جاتا تو مجھ سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی تھی۔ مگر چونکہ میرا رب بخشنے والا بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے اس لیے اس نے مجھ پر اپنی خصوصی رحمت فرمائی۔
33: حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تواضع اور عبدیت کا کمال دیکھئے کہ اس موقع پر جب ان کی بے گناہی خود ان عورتوں کے اعتراف سے ثابت ہوگئی، تب بھی اس پر اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے یہ فرمارہے ہیں کہ میں اس انتہائی خطرناک جال سے جو بچا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں نفس تو میرے پاس بھی ہے جو انسان کو برائی کی تلقین کرتا رہتا ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اس کے فریب سے بچا لیتا ہے، البتہ دوسرے دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ رحم وکرم اسی پر ہوتا ہے جو گناہ سے بچنے کے لئے اپنی سی کوشش کر گزرے، جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دروازے تک بھاگ کر کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے پناہ مانگے۔