Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جب بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس اس عاجزی اور بےبسی کی حالت میں پہنچے اپنے تمام دکھ رونے لگے اپنے والد کی اور اپنے گھر والوں کی مصیبتیں بیان کیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا نہ رہا گیا ۔ اپنے سر سے تاج اتار دیا اور بھائیوں سے کہا کچھ اپنے کرتوت یاد بھی ہیں کہ تم نے یوسف کے ساتھ کیا کیا ؟ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟ وہ نری جہالت کا کرشمہ تھا اسی لئے بعض سلف فرماتے ہیں کہ اللہ کا ہر گنہگار جاہل ہے ۔ قرآن فرماتا ہے آیت ( ثم ان ربک للذین عملو السوء بجھالتہ ) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دو دفعہ کی ملاقات میں حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا حکم اللہ نہ تھا ۔ اب کی مرتبہ حکم ہو گیا ۔ آپ نے معاملہ صاف کر دیا ۔ جب تکلیف بڑھ گئی سختی زیادہ ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے راحت دے دی اور کشادگی عطا فرما دی ۔ جیسے ارشاد ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی ہے یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے ۔ اب بھائی چونک پڑے کچھ اس وجہ سے کہ تاج اتار نے کے بعد پیشانی کی نشانی دیکھ لی اور کچھ اس قسم کے سوالات کچھ حالات کچھ اگلے واقعات سب سامنے آ گئے تاہم اپنا شک دور کرنے کے لئے پوچھا کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں ؟ آپ نے اس سوال کے جواب میں صاف کہہ دیا کہ ہاں میں خود یوسف ہوں اور یہ میرا سگا بھائی ہے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و کرم کیا بچھڑنے کے بعد ملا دیا تفرقہ کے بعد اجتماع کر دیا تقوی اور صبر رائگاں نہیں جاتے ۔ نیک کاری بےپھل لائے نہیں رہتی ۔ اب تو بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی فضیلت اور بزرگی کا اقرار کر لیا کہ واقعی صورت سیرت دونوں اعتبار سے آپ ہم پر فوقیت رکھتے ہیں ۔ ملک و مال کے اعتبار سے بھی اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دے رکھی ہے ۔ اسی طرح بعض کے نزدیک نبوت کے اعتبار سے بھی کیونکہ حضرت یوسف نبی تھے اور یہ بھائی نبی نہ تھے ۔ اس اقرار کے بعد اپنی خطا کاری کا بھی اقرار کیا ۔ اسی وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا میں آج کے دن کے بعد سے تمہیں تمہاری یہ خطا یاد بھی نہ دلاؤں گا میں تمہیں کوئی ڈانٹ ڈپٹ کرنا نہیں چاہتا نہ تم پر الزام رکھتا ہوں نہ تم پر اظہار خفگی کرتا ہوں بلکہ میری دعاہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرمائے وہ ارحم الراحمین ہے ۔ بھائیوں نے عذر پیش کیا آپنے قبول فرما لیا اللہ تمہاری پردہ پوشی کرے اور تم نے جو کیا ہے اسے بخش دے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 جب انہوں نے نہایت عاجزی کے انداز میں صدقہ و خیرات یا بھائی کی رہائی کی اپیل کی تو ساتھ ہی باپ کے بڑھاپے، ضعف اور بیٹے کی جدائی کے صدمے کا بھی ذکر کیا، جس سے یوسف (علیہ السلام) کا دل بھر آیا، آنکھیں نمناک ہوگئیں اور انکشاف حال پر مجبور ہوگئے۔ تاہم بھائیوں کی زیادتیوں کا ذکر کر کے ساتھ ہی اخلاق کریمانہ کا بھی اظہار فرما دیا کہ یہ کام تم نے ایسی حالت میں کیا جب تم جاہل اور نادان تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٦] سیدنا یوسف کا اپنا آپ جتلا دینا :۔ اپنے بھائیوں اور گھر والوں کی یہ داستان غم ان الفاظ میں سن کر سیدنا یوسف (علیہ السلام) اب زیادہ دیر حالات پر پردہ ڈالے رکھنا برداشت نہ کرسکے۔ دل بھر آیا اور ان کی اسی التجا کے جواب میں ان سے یہ پوچھا : کچھ وہ واقعہ بھی یاد ہے جو سلوک تم نے اپنے بھائی یوسف سے کیا تھا۔ پھر اس کے بعد اپنے اس چھوٹے بھائی بن یمین سے کرتے رہے ہو ؟ اس سوال میں سیدنا یوسف نے پیرایہ بھی ایسا اختیار کیا جس سے انھیں مزید ندامت نہ ہو یعنی جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ ناسمجھی یا بےوقوفی کی بنا پر کرتے رہے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْهِ : بھائیوں کی بےبسی و درماندگی دیکھ کر اور صدقے کے سوال پر یوسف (علیہ السلام) کا دل بھر آیا اور معاملے کو مزید طول دینے کی تاب نہ رہی اور وہ وقت آگیا جس کے متعلق کنویں میں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی تھی کہ یہ لوگ جو کچھ اب کر رہے ہیں ایک وقت ضرور آئے گا جب تم انھیں اس کی خبر دو گے اور یہ سوچتے بھی نہ ہوں گے۔ چناچہ کچھ ناراضگی کا اظہار اور زیادہ تر ان کی غلطی کا عذر خود ہی کرتے ہوئے فرمایا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا، جب تم نادان تھے ؟- اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ : یعنی جو کچھ تم نے کیا اس کی وجہ تمہاری نادانی اور بےوقوفی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) بھائیوں کو ان کی حرکت یاد دلاتے ہوئے کہہ سکتے تھے : ” وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ “ کہ جب تم ظلم کر رہے تھے، مگر اس خیال سے کہ وہ شرمندہ نہ ہوں خود ہی ان کے لیے معذرت کا پہلو نکال دیا۔ یہ انتہائی مروت کا مقام ہے جس کی توقع ایک نبی ہی سے ہوسکتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْهِ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ 89؀- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔- قَالُوْٓا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ ۭ قَالَ اَنَا يُوْسُفُ وَهٰذَآ اَخِيْ ۡ قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا ۭ اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٩) یہ سن کر حضرت یوسف (علیہ السلام) ان سے فرمانے لگے وہ بھی تمہیں یاد ہے جو کچھ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا تھا جب کہ تمہاری جہالت اور شباب کا زمانہ تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْهِ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ )- آپ کا اپنے بھائیوں سے یہ سوال کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا حرف بہ حرف ایفا تھا جس کا ذکر سورت کے آغاز میں ان الفاظ میں ہوا تھا : (وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّءَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ) ۔ یہ تب کی بات ہے جب وہ سب بھائی مل کر آپ کو باؤلی میں پھینکنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان الفاظ میں آپ کے دل پر الہام کیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب آپ اپنے بھائیوں کو یہ بات ضرور جتلائیں گے اور یہ ایسے وقت اور ایسی صورت حال میں ہوگا جب یہ بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani