88۔ 1 یہ تیسری مرتبہ ان کا مصر جانا ہے۔ 88۔ 2 یعنی غلہ لینے کے لئے ہم جو ثمن (قیمت) لے کر آئے ہیں، وہ نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ 88۔ 3 یعنی ہماری حقیر پونجی کو نہ دیکھیں، ہمیں اس کے بدلے میں پورا ناپ دیں۔ 88۔ 4 یعنی ہماری حقیر پونجی قبول کر کے ہم پر احسان اور خیرات کریں۔ اور بعض مفسرین نے اس کے معنی کیے ہیں کہ ہمارے بھائی بنیامین کو آزاد کر کے ہم پر احسان فرمائیں۔
[٨٥] تیسری بار برادران یوسف یوسف (علیہ السلام) کے دربار میں :۔ اب ان بھائیوں کو یوسف کے متعلق تو کچھ علم نہ تھا کہ وہ کہاں ہوسکتا ہے اور کس سمت کو جاکر اسے تلاش کیا جائے۔ کیونکہ ظن ضرور تھا کہ جس قافلہ نے اسے کنویں سے نکالا تھا وہ مصر کو جارہا تھا۔ لہذا یہ امکان تھا کہ شاید وہ مصر میں ہی ہو۔ البتہ بن یمین کے متعلق یقین تھا کہ اسے شاہ مصر نے اپنے پاس رکھ لیا ہے اور تیسرا بھائی بھی ادھر ہی تھا۔ لہذا انہوں نے تیسری بار پھر مصر کا رخ کیا کچھ تھوڑی بہت پونجی بھی مہیا کرلی کہ اس قحط سالی کے زمانہ میں کچھ غلہ ہی لے آئیں گے اور اسی دوران اپنے بھائیوں کی بازیافت کے لیے بھی کوشش کریں گے چناچہ مصر پہنچ کر انہوں نے سب سے پہلے شاہ مصر کا ہی رخ کیا اور اس سے التجا کی کہ ہم لوگوں پر سخت مشکل وقت آن پڑا ہے۔ کھانے کو غلہ نہیں اور غلہ کے لیے رقم بھی نہیں تھوڑی سی رقم ہم لائے ہیں۔ اگر آپ غلہ پورا دے دیں تو آپ کی انتہائی مہربانی ہوگی۔ آپ کے ہم پر پہلے بھی بہت احسانات ہیں جن کا ہم شکریہ ادا نہیں کرسکتے۔ اب بھی ہم پر احسان فرمائیے اور اللہ ہی اس کی آپ کو جزا دے گا۔ اور انشاء اللہ وہ ضرور آپ کو جزا دے گا۔
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ ۔۔ : ” مُّزْجٰىةٍ “ ” أَزْجٰی یُزْجِیْ إِزْجَاءً “ (ناقص واوی) دفع کرنا، ہٹانا، دھکیلنا، یعنی (غلے کے لیے) ایسی قیمت جسے کوئی خوشی سے قبول نہیں کرتا۔ باپ کے حکم پر تیاری کرکے بیٹے تیسری مرتبہ مصر کے لیے روانہ ہوگئے اور عزیز مصر سے ملے، جس نے ان کے بھائی کو روک رکھا تھا۔ اسے ادب کے ساتھ لقب سے مخاطب کرکے اپنی اور اپنے گھر والوں کی خستہ حالی اور بےچارگی بیان کی کہ ہم پر اور ہمارے گھر والوں پر قحط، خشک سالی، بیٹوں کی جدائی سے والد کی حالت اور کئی مصیبتوں کی وجہ سے سخت تکلیف آ پڑی ہے اور غلے کے لیے ہم صحیح قیمت کا بندوبست نہیں کرسکے، محض اتنی سی پونجی لے کر آئے ہیں جو خوشی سے کوئی قبول نہیں کرتا اور وہ نہ اس قابل ہے کہ آپ اس کے بدلے ہمیں غلہ دیں، اس لیے آپ ہم پر احسان کریں کہ اس قیمت کا جتنا غلہ بنتا ہے وہ پورا دے کر اس سے زیادہ دے دیں، یا قیمت سے چشم پوشی کرکے ایک ایک اونٹ غلہ پورا ہی دے دیں، تو یہ آپ کا ہم پر صدقہ ہوگا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” قحط میں اسباب گھر کا بک گیا، اب کی بار اون اور پنیر اور ایسی چیزیں لائے تھے اناج خریدنے کو، یہ حال سن کر یوسف (علیہ السلام) کو رحم آیا، اپنے تئیں (اپنے آپ کو) ظاہر کیا اور سارے گھر کو بلوا لیا۔ “ (موضح)
خلاصہ تفسیر :- پھر (حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حکم کے موافق کہ انہوں نے فرمایا تھا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ مصر کو چلے کیونکہ بنیامین کو مصر ہی میں چھوڑا تھا یہ خیال ہواہو گا کہ جس کا نشان معلوم ہے پہلے اس کے لانے کی تدبیر کرنا چاہئے کہ بادشاہ سے مانگیں پھر یوسف (علیہ السلام) کے نشان کو ڈھونڈیں گے غرض مصر پہنچ کر) جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس (جس کو عزیز سمجھ رہے تھے) پہنچے (اور غلہ کی بھی حاجت تھی پس یہ خیال ہوا کہ غلہ کے بہانے سے عزیز کے پاس چلیں اور اس کی خرید کے ضمن میں خوشامد کی باتیں کریں جب اس کی طبیعت میں نرمی دیکھیں اور مزاج خوش پائیں تو بنیامین کی درخواست کریں اس لئے اول غلہ لینے کے متعلق گفتگو شروع کی اور) کہنے لگے اے عزیز ہم کو اور ہمارے گھر والوں کو (قحط کی وجہ سے) بڑی تکلیف پہنچ رہی ہے اور (چونکہ ہم کو ناداری نے گھیر رکھا ہے اس لئے خرید غلہ کے واسطے کھرے دام بھی میسر نہیں ہوئے) ہم کچھ یہ نکمی چیز لائے ہیں سو آپ (اس کے نکمے ہونے سے قطع نظر کر کے) پورا غلہ دیدیجئے (اور اس نکمے ہونے سے غلہ کی مقدار میں کمی نہ کیجئے) اور (ہمارا کچھ استحقاق نہیں) ہم کو خیرات (سمجھ کر) دیدیجئے بیشک اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو (خواہ حقیقۃ خیرات دیں خواہ سہولت و رعایت کریں کہ وہ بھی مثل خیرات کے ہیں) جزائے خیر) دیتا ہے (اگر مومن ہے تو آخرت میں بھی ورنہ دنیا ہی میں) یوسف (علیہ السلام) نے (جو ان کے یہ مسکنت آمیز الفاظ سنے تو رہا نہ گیا اور بےاختیار چاہا کہ اب ان سے کھل جاؤں اور عجب نہیں کہ نور قلب سے معلوم ہوگیا ہو کہ اب کی باران کی تجسس بھی مقصود ہے اور یہ بھی منکشف ہوگیا ہو کہ اب زمانہ مفارقت کا ختم ہوچکا پس تمہید تعارف کے طور پر) فرمایا (کہو) وہ بھی تم کو یاد ہے جو کچھ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ (برتاؤ) کیا تھا جب کہ تمہاری جہالت کا زمانہ تھا (اور برے بھلے کی سوچ نہ تھی یہ سن کر پہلے تو چکرائے کہ عزیز مصر کو یوسف (علیہ السلام) کے قصہ سے کیا واسطہ ادھر اس شروع زمانہ کے خواب سے غالب احتمال تھا ہی کہ شاید یوسف (علیہ السلام) کسی بڑے رتبہ کو پہنچیں کہ ہم سب کو ان کے سامنے گردن جھکانا پڑے اس لئے اس کلام سے شبہ ہوا اور غور کیا تو کچھ کچھ پہچانا اور مزید تحقیق کیلئے کہنے لگے کیا سچ مچ تم ہی یوسف ہوا انہوں نے فرمایا (ہاں) میں یوسف ہوں اور یہ (بنیامین) میرا (حقیقی) بھائی ہے (یہ اس لئے بڑھا دیا کہ اپنے یوسف (علیہ السلام) ہونے کی اور تاکید ہوجاوے یا انکے تجسس کی کامیابی کی بشارت ہے کی جن کو تم ڈھونڈنے نکلے ہو ہم دونوں ایک جگہ جمع ہیں) ہم پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا (کہ ہم دونوں کو اول توفیق صبر وتقویٰ کی عطا فرمائی پھر اس کی برکت سے ہماری تکلیف کو راحت سے اور افتراق کو اجتماع سے اور قلت مال وجاہ کو کثرت مال وجاہ سے مبدل فرما دیا) واقعی جو شخص گناہوں سے بچتا ہے اور (مصائب پر) صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتا وہ (تمام گذشتہ قصہ کو یاد کر کے نادم ہوئے اور معذرت کے طور پر) کہنے لگے کہ بخدا کچھ شک نہیں تم کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضیلت عطا فرمائی ( اور تم اسی لائق تھے) اور (ہم نے جو کچھ کیا) بیشک ہم (اس میں) خطا وار تھے (للہ معاف کردو) یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نہیں تم پر آج (میری طرف سے) کوئی الزام نہیں (بےفکر رہو میرا دل صاف ہوگیا) اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے (تائب کا قصور معاف کر ہی دیتا ہے اسی دعاء سے یہ بھی مفہوم ہوگیا کہ میں نے بھی میں معاف کردیا)- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ میں یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کا باقی قصہ مذکور ہے کہ ان کے والد حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو یہ حکم دیا کہ جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو تو انہوں نے تیسری مرتبہ مصر کا سفر کیا کیونکہ بنیامین کا تو وہاں ہونا معلوم تھا پہلی کوشش اس کی خلاصی کے لئے کرنا تھی اور یوسف (علیہ السلام) کا وجود اگرچہ مصر میں معلوم نہ تھا مگر جب کسی کام کا وقت آجاتا ہے تو انسان کی تدبیریں غیر شعوری طور پر بھی درست ہوتی چلی جاتی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اس کے اسباب خود بخود جمع کردیتے ہیں اس لئے تلاش یوسف کے لئے بھی غیر شعوری طور پر مصر ہی کا سفر مناسب تھا اور غلہ کی ضرورت بھی تھی اور یہ بات بھی تھی کہ غلہ طلب کرنے کے بہانے سے عزیز مصر سے ملاقات ہوگی اور ان سے اپنے بھائی بنیامین کی خلاصی کے متعلق عرض معروض کرسکیں گے،- فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ قَالُوْا یعنی جب برادران یوسف والد کے حکم کے مطابق مصر سے ملاقات ہوگی اور عزیز مصر سے ملے تو خوشامد کی گفتگو شروع کی اپنی محتاجی اور بیکسی کا اظہار کیا کہ اے عزیز ہم کو اور ہمارے گھر والوں کو قحط کی وجہ سے سخت تکلیف پہنچ رہی ہے یہاں تک کہ اب ہمارے پاس غلہ خریدنے کے لئے بھی کوئی مناسب قیمت موجود نہیں ہم مجبور ہو کر کچھ نکمی چیزیں غلہ خریدنے کے لئے لے آئے ہیں آپ اپنے کریمانہ اخلاق سے انہی نکمی چیزوں کو قبول کرلیں اور ان کے بدلے میں غلہ پورا اتنا ہی دیدیں جتنا اچھی قیمتی چیزوں کے بالمقابل دیا جاتا ہے یہ ظاہر ہے کہ ہمارا کوئی استحقاق نہیں آپ ہم کو خیرات سمجھ کر دیدیجئے بیشک اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے،- یہ نکمی چیزیں کیا تھیں ؟ قرآن و حدیث میں انکی کوئی تصریح نہیں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں بعض نے کہا کہ کھوٹے دراہم تھے جو بازار میں نہ چل سکتے تھے بعض نے کہا کہ کچھ گھریلو سامان تھا یہ لفظ مزاجۃ کا ترجمہ ہے اس کے اصل معنی ایسی چیز کے ہیں جو خود نہ چلے بلکہ اس کو زبردستی چلایا جائے،- یوسف (علیہ السلام) نے جب بھائیوں کے یہ مسکنت آمیز الفاظ سنے اور شکستہ حالت دیکھی تو طبعی طور پر اب حقیقت حال ظاہر کردینے پر مجبور ہو رہے تھے اور واقعات کی رفتار کا انداز یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) پر جو اظہارحال کی پابندی منجانب اللہ تھی اب اس کے خاتمہ کا وقت بھی آ چکا تھا اور تفسیر قرطبی ومظہری میں بروایت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ اس موقع پر یعقوب (علیہ السلام) نے عزیز مصر کے نام ایک خط لکھ کردیا تھا جس کا مضمون یہ تھا،- من جانب یعقوب صفی اللہ، ابن اسحاق ذبیح اللہ ابن ابراہیم خلیل اللہ، بخدمت عزیز مصر،- اما بعد، ہمارا پورا خاندان بلاؤں اور آزمائشوں میں معروف ہے میرے دادا ابراہیم خلیل اللہ کا نمرود کی آگ سے امتحان لیا گیا پھر میرے ایک لڑکے کے ذریعے میرا امتحان لیا گیا جو مجھ کو سب سے زیادہ محبوب تھا یہاں تک کہ اس کی مفارقت میں میری بینائی جاتی رہی اس کے بعد اس کا ایک چھوٹا بھائی مجھ غم زدہ کی تسلی کا سامان تھا جس کو آپ نے چوری کے الزام میں گرفتار کرلیا اور میں بتلاتا ہوں کی ہم اولاد انبیاء ہیں نہ ہم نے کبھی چوری کی ہے نہ ہماری اولاد میں کوئی چور پیدا ہوا والسلام - یوسف (علیہ السلام) نے جب یہ خط پڑھا تو کانپ گئے اور بےاختیار رونے لگے اور اپنے راز کو ظاہر کردیا اور تعارف کی تمہید کے طور پر بھائیوں سے یہ سوال کیا کہ تم کو کچھ یہ بھی یاد ہے کہ تم نے یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا برتاؤ کیا تھا جبکہ تمہاری جہالت کا زمانہ تھا کہ بھلے برے کی سوچ اور انجام بینی کی فکر سے غافل تھے - برادران یوسف نے جب یہ سوال سنا تو چکرا گئے کہ عزیز مصر کو یوسف کے قصہ سے کیا واسطہ پھر ادھر بھی دھیان گیا کہ یوسف (علیہ السلام) نے جو بچپن میں خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر یہی تھی کہ ان کو کوئی بلند مرتبہ حاصل ہوگا کہ ہم سب کو اس کے سامنے جھکنا پڑے گا کہیں یہ عزیز مصر خود یوسف ہی نہ ہوں پھر جب اور غور و تأمل کیا تو کچھ علامات سے پہچان لیا اور مزید تحقیق کیلئے ان سے کہا
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجٰىةٍ فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ 88- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - بضع - البِضَاعَة : قطعة وافرة من المال تقتنی للتجارة، يقال : أَبْضَعَ بِضَاعَة وابْتَضَعَهَا . قال تعالی: هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف 65] وقال تعالی: بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف 88]- ( ب ض ع ) البضاعۃ - ۔ مال کا وافر حصہ جو تجارت کے لئے الگ کرلیا گیا ہو ابضع وبتضع بضاعۃ سرمایہ یاپونچی جمع کرنا ۔ الگ قرآن میں ہے ۔ هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف 65] یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کردی گئی ہے ۔ بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف 88] اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں ۔- زجا - التَّزْجِيَةُ : دَفْعُ الشّيء لينساق، كَتَزْجِيَةِ ردیء البعیر، وتَزْجِيَةِ الرّيح السّحاب، قال : يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] ، وقال : رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [ الإسراء 66] - ( ز ج و ) التزجیۃ - کے معنی کسی چیز کو دفع کرنے کے ہیں تاکہ چل پڑے مثلا پچھلے سوار کا اونٹ کو چلانا یا ہوا ۔ کا بادلوں کو چلانا ۔ قرآن میں ہے : يُزْجِي سَحاباً [ النور 43]( اللہ ہی ) بادلوں کو ہنکاتا ہے رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [ الإسراء 66] جو تمہارے لئے ( سمندروں میں ) جہازوں کو چلاتا ہے ۔ - وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- كَيْلُ :- كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3]- ( ک ی ل ) الکیل - ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے معیّ ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے معیہ ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے معید ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔- صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر .- يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔
اشیاء کا ناپ تول کر، لینا دینا - قول باری (فاوف لنا الکیل۔ آپ ہمیں بھرپور غلہ عنایت فرمائیں) اس پر دلالت کرتا ہے کہ غلہ ناپنے والے کی اجرت فروخت کنندہ کے ذمہ عائد ہوگی اس لئے کہ فروخت کنندہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خریدار کیلئے فروخت شدہ چیز کی تعیین کرے اور ناپ یعنی کیل کے بغیر اس کا تعین نہیں ہوسکتا۔ برادران یوسف (علیہ السلام) نے عرض کیا تھا کہ (فاوف لنا الکیل) یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ غلہ ناپنے کی ذمہ داری حضرت یوسف (علیہ السلام) پر تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طعام یعنی خوردنی شے کو فروخت کرنے سے اس وقت تک کے لئے منع کردیا ہے جب تک یہ شے دو پیمانوں سے گزر نہ جائے یعنی فروخت کنندہ کے پیمانے سے اور پھر خریدار کے پیمانے سے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ کیل یعنی ناپنے کی ذمہ داری خریدار پر عائد ہوتی ہے اس لئے کہ آپ کی مراد وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے فروخت کنندہ نے اپنے فروخت کنندہ سے فروخت شدہ چیز ناپ کرلی تھی اور خریدار کے پیمانے سے وہ پیمانہ مراد ہے جس کے ذریعے دوسرا خریدار اپنے فروخت کنندہ سے فروخت شدہ چیز لیتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول (صاع البائع) کی اس پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ فروخت کنندہ ہی ناپ کرلینے والا ہو۔ یہ جائز ہے کہ آپ نے اس سے وہ پیمانہ مراد لیا ہو جس کے ذریعے فروخت کنندہ نے اپنے فروخت کنندہ کو ناپ کردیا ہو اور آپ نے خریدار کے پیمانے سے وہ پیمانہ مراد لیا ہو جس کے ذریعے اس کی فروخت کنندہ نے فروخت شدہ چیز اسے ناپ کردی ہو۔ اس لئے حدیث میں اس امر پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ ناپ کرلینا خریدار کے ذمہ ہوتا ہے جب کیل یعنی ناپ کے سلسلے میں ہماری یہ بات درست ہوگئی تو اس سے یہ بات بھی واجب ہوگئی کہ ثمن یعنی قیمت میں حاصل شدہ شے کو وزن کرنے والے کی اجرت خریدار کے ذمہ ہوگی۔ اس لئے کہ خریدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ فروخت کنندہ کے لئے ثمن کی تعیین کر دے اور ثمن کا تعین وزن کے بغیر نہیں ہوسکتا اس لئے وزن کرنے کی اجرت اس پر عائد ہوگی جو شخص کھوٹے کھرے سکوں کی پرکھ کرتا ہے اس کی اجرت کے متعلق محمد بن سماع نے امام محمد سے روایت کی ہے کہ فروخت کنندہ کی طرف سے ثمن کی وصولی سے قبل پرکھ کی اجرت خریدار پر ہوگی اس لئے کہ خریدار پر ثمن کو درست حالت میں فروخت کنندہ کے حوالے کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن اگر ثمن پر فروخت کنندہ نے قبضہ کرلیا اور پھر اسے سکوں کی پرکھ کا خیال آیا تو اس صورت میں پرکھ کی اجرت فروخت کنندہ پر ہوگی اس لئے کہ اس نے ثمن پر قبضہ کر کے اس کی ملکیت حاصل کرلی اس لئے اب یہ معلوم کرنا اس کی ذمہ داری ہے کہ آیا اس میں کوئی کھوٹا سکہ تو نہیں جسے واپس کردینا ضروری ہو۔- قول باری (وتصدق علینا) کی تفسیر میں سعید بن جبیر کا قول ہے کہ برادران یوسف (علیہ السلام) نے ان سے یہ درخواست کی تھی کہ غلہ کے بھائو میں کمی کر کے انہیں اتنی رقم کے بدلے زیادہ غلہ فروخت کردیں۔ انہوں نے حضرت یوسف سے خیرات کا سوال نہیں کیا تھا۔ سفیان بن عینیہ کا قول ہے کہ انہوں نے خیرات کا سوال کیا تھا اور وہ سب چونکہ انبیاء تھے اس لئے خیرات ان کے لئے حلال تھا۔ خیرات اور صدقہ کی حرمت صرف ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تھی۔ مجاہد نے اسے مکروہ سمجھا ہے کہ کوئی شخص اپنی دعا میں یہالفاظ کہے ” اللھم تصدق علی (اے اللہ مجھے خیرات دے) اس لئے کہ خیرات اس شخص کی طرف سے دی جاتی ہے جو ثواب کا طلبگار ہوتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے ماورا ہے۔ قول باری ہے (قال ھل علمتم ما فعلتم بیوسف واخیہ اذانتم جاھلون۔ اس نے کہا : تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جبکہ تم نادان تھے) اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ برادران یوسف نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ جب زیادتی کی تھی اس وقت وہ جاہل اور نادان تھے لیکن اب جبکہ وہ حضرت یوسف سے ہم کلام تھے نادان نہ تھے، بعض لوگوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ انہوں نے بالغ ہونے سے پہلے حضرت یوسف کے ساتھ زیادتی کی تھی اس لئے کہ اگر بانع ہونے کے بعد وہ ایسا کرتے اور پھر ان سے توبہ کا ظہور نہ ہوتا تو پھر وہ اس وقت بھی جبکہ حضرت یوسف سے ہم کلام تھے جاہل قرار پاتے۔ اللہ تعالیٰ نے جہالت سے بچپن کی جہالت مراد لی ہے معصیت کی جہالت مراد نہیں ہے۔- معانی کی شان - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ قول الا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم۔ آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ اللہ تمہیں معاف کرے) اس پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے بالغ ہونے کے بعد حضرت یوسف پر ظلم کیا تھا۔ نیز یہ کہ ان کا یہ فعل ایک گناہ تھا جس سے استغفار کرنا ان پر واجب تھا۔ ظاہر کلام اس پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کے الفاظ میں انہوں نے یہ کہہ کر توبہ کرلی تھی، لقد اثرک اللہ علینا وان کنا لخاطئین بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطاکار تھے) اس پر قرآن کے الفاظ میں ان کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے (یا ابانا استغفر لنا ذنوبنا انا کنا خاطئین۔ ابا جان آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا کریں، واقعی ہم خطاکار تھے) اس جیسی بات وہ شخص نہیں کہہ سکتا جس سے بالغ ہونے سے قبل نابالغی کی حالت میں کسی جرم کا ارتکاب ہوا ہو۔
(٨٨) چناچہ جب دوسری مرتبہ بھی یہ سب مصر پہنچے تو کہنے لگے اے عزیز ہم اور ہمارے گھر والے قحط سے پریشان ہیں اور ہم کچھ کھوٹے سکے لائے ہیں جن کے عوض نہ اناج مل سکتا ہے اور نہ وہ لوگوں کے درمیان چلتے ہیں اور کچھ پہاڑی چیزیں صنوبر، جستہ الخضراء وغیرہ لائے ہیں اور عرب کے استعمال کی چیزیں مثلا اون، گھی وغیرہ لائے ہیں تو ہمیں اب بھی پورا اناج دے دیجیے جیسا کہ آپ نئے سکوں پر پورا اناج دیتے ہیں، اور ان قیمتوں کے فرق اور ماپوں کے فرق کو ملحوظ نہ رکھیے بلکہ ہمیں خیرات سمجھ کر دے دیجیے بیشک اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو دنیا و آخرت میں جزائے خیر دیتا ہے۔
آیت ٨٨ (فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ )- اگلے سال جب وہ لوگ اپنے والد کے حکم کے مطابق مصر پہنچے اور پھر حضرت یوسف کے سامنے پیش ہوئے۔- (قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّرُّ )- کئی سال سے لگاتار قحط کا سماں تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے اثرات زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر ہو رہے ہوں گے۔ بھیڑبکریاں بھی ختم ہوچکی ہوں گی۔ اب تو ان کی اون بھی نہیں ہوگی جو اناج کی قیمت کے عوض دے سکیں۔- (وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجٰىةٍ فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ )- اس دفعہ ہم جو چیزیں غلے کی قیمت ادا کرنے کے لیے لے کر آئے ہیں وہ بہت کم اور ناقص ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان سے غلے کی قیمت پوری نہیں ہوسکتی۔- (وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا )- اپنے انتہائی خراب حالات کی وجہ سے ہم چونکہ خیرات کے مستحق ہوچکے ہیں ‘ اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ اس دفعہ کچھ غلہ آپ ہمیں خیرات میں بھی دیں۔ - (اِنَّ اللّٰهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ )- چونکہ حضرت یوسف کے لیے یہ ساری صورت حال بہت رقت انگیز تھی اس لیے آپ مزید ضبط نہیں کرسکے اور آپ نے انہیں اپنے بارے میں بتانے کا فیصلہ کرلیا ۔
٦۵ ۔ یعنی ہماری اس گزارش پر جو کچھ آپ دیں گے وہ گویا آپ کا صدقہ ہوگا ۔ اس غلے کی قیمت میں جو پونجی ہم پیش کر رہے ہیں وہ تو بیشک اس لائق نہیں ہے کہ ہم کو اس قدر غلہ دیا جائے جو ہماری ضرورت کو کافی ہو ۔
55: مطلب یہ ہے کہ قحط کی وجہ سے ہم سخت بدحالی کا شکار ہیں، اس لئے اُس مرتبہ ہم اتنی قیمت بھی نہیں لا سکے جو اپنے حصے کا غلہ خریدنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا اب جو کچھ آپ دیں گے وہ محض اِحسان ہی ہوگا۔ قرآنِ کریم میں لفظ ’’صدقہ‘‘ استعمال ہوا ہے، صدقہ ایسے عطیہ کو کہتے ہیں جو کسی کے ذمے واجب نہ ہو، بلکہ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اِحسان کے طور پر دیا جائے۔