حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو حکم فرما رہے ہیں کہ تم ادھر ادھر جاؤ اور حضرت یوسف اور بنیامین کی تلاش کرو ۔ عربی میں تحسس کا لفظ بھلائی کی جستجو کے لئے بولا جاتا ہے اور برائی کی ٹٹول کے لئے تجسس کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ ساتھ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہونا چاہیے اس کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ہوتا ہے ۔ تم تلاش بند نہ کرو ، اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنی کوشش جاری رکھو ۔ چنانچہ یہ لوگ چلے ، پھر مصر پہنچے ، حضرت یوسف کے دربار میں حاضر ہوئے ، وہاں اپنی خستہ حالی ظاہر کی کہ قحط سالی نے ہمارے خاندان کو ستا رکھا ہے ، ہمارے پاس کچھ نہیں رہا ، جس سے غلہ خریدتے اب ردی ، واہی ، ناقص ، بیکار ، کھوٹی اور قیمت نہ بننے والی کچھ یونہی سی رکھی رکھائی چیزیں لے کر آپ کے پاس آئے ہیں گویہ بدلہ نہیں کہا جا سکتا نہ قیمت بنتی ہے لیکن تاہم ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں وہی دیجئے جو سچی صحیح اور پوری قیمت پر دیا کرتے ہیں ۔ ہمارے بوجھ بھر دیجئے ، ہماری خورجیاں پر کر دیجئے ، ابن مسعود کی قرأت میں ( فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ 88 ) 12- یوسف:88 ) کے بدلے فاوقرر کا بنا ہے یعنی ہمارے اونٹ غلے سے لاد دیجئے ۔ اور ہم پر صدقہ کیجئے ہمارے بھائی کو رہائی دیجئے ، یا یہ مطلب ہے کہ یہ غلہ ہمیں ہمارے اس مال کے بدلے نہیں بلکہ بطور خیرات دیجئے ۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر صدقہ حرام ہوا ہے ؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر استدلال کیا کہ نہیں ہوا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ کیا کسی شخص کا اپنی دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے کہ یا اللہ مجھ پر صدقہ کر ۔ فرمایا ہاں اس لئے کہ صدقہ وہ کرتا ہے جو طالب ثواب ہو ۔
87۔ 1 چناچہ اس یقین سے سرشار ہو کر انہوں نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم دیا۔ 87۔ 2 جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (قَالَ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ ) 15 ۔ الحجر :56) گمراہ لوگ ہی اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو سخت حالات میں بھی صبر و رضا کا اور اللہ کی رحمت واسعہ کی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔
[٨٤] اسی یقین کی بنا پر آپ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ جاؤ یوسف اور اس کے بھائی دونوں کے لیے کوشش کرو کہ وہ ہمیں مل جائیں اور تیسرے بیٹے کا جو مصر میں رہ گیا تھا آپ نے اس لیے نام نہ لیا کہ وہ خود اسی غرض سے وہاں اٹکا ہوا تھا کہ بن یمین کے حالات پر نگہداشت رکھے اور جب بھی کوئی رہائی کی صورت ممکن ہو اسے بروئے کار لائے اور انھیں تاکید کی کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ کیونکہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔
يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا ۔۔ : ” بَنِیْنَ “ ” اِبْنٌ“ کی جمع ہے، یاء کی طرف مضاف ہوا تو نون گرگیا، یاء کو یائے متکلم میں ادغام کرکے آخر میں نصب دے دی۔ ” تَحَسَّسَ “ کا معنی ہے کسی چیز کو باریکی، حکمت اور صبر کے ساتھ بذریعۂ حواس تلاش کرنا۔ (الوسیط) ” من روح اللہ “ ” رَوْحٌ“ کا اصل معنی سانس لینا ہے، کہا جاتا ہے ” أَرَاحَ الإِْنْسَانُ “ ” انسان نے سانس لیا۔ “ (مفردات) مراد اللہ کی طرف سے کشادگی و رحمت ہے، گلا گھٹ جانے اور سانس بند ہونے کے بعد سانس آنے میں جو راحت ولذت ہے وہ اللہ کی رحمت کا ایک نمونہ ہے، یعنی جاؤ اور اس بھائی کے ساتھ مل کر جو وہاں رہ گیا ہے، یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کی پوری کوشش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو۔ - اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ : جو اس کی قدرت کا صحیح علم نہیں رکھتے، اس کے برعکس مومن کو خواہ کیسے ہی حوصلہ شکن اور مایوس کن حالات پیش آئیں وہ کبھی اپنے مالک کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کافر کی صفت ہے، مومن کی نہیں۔ یہ نہیں کہ مایوس ہوجانے والا کافر اور مرتد ہوجاتا ہے، بلکہ جس طرح جھوٹ منافق کی ایک صفت ہے، مومن کی نہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) [ النحل : ١٠٥ ] ” جھوٹ تو وہی لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے۔ “ مگر جھوٹ سے انسان کا کفر اس کفر سے کم تر ہے جو اسے ایمان سے خارج کرکے مرتد بنا دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی رحمت سے مایوسی کافر کی ایک صفت ہے۔
يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ یعنی اے میرے بیٹو جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوتا،- حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اتنے عرصہ کے بعد صاحبزادوں کو یہ حکم دیا کہ جاؤ یوسف اور ان کے بھائی کو تلاش کرو اور ان کے ملنے سے مایوس نہ ہو اس سے پہلے کبھی اس طرح کا حکم نہ دیا یہ سب چیزیں تقدیر الہی کے تابع تھیں اس سے پہلے ملنا مقدر نہ تھا اس لئے ایسا کوئی کام بھی نہیں کیا گیا اور اب ملاقات کا وقت آ چکا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے مناسب تدبیر دل میں ڈالی،- اور دونوں کی تلاش کا رخ مصر ہی کی طرف قرار دیا جو بنیامین کے حق میں تو معلوم اور متعین تھا مگر یوسف (علیہ السلام) کو مصر میں تلاش کرنے کی ظاہر حال کے اعتبار سے کوئی وجہ نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے مناسب اسباب جمع فرما دیتے ہیں اس لئے اس مرتبہ تلاش وتفتیش کے لئے پھر صاحبزادوں کو مصر جانے کی ہدایت فرمائی، بعض حضرات نے فرمایا کہ یعقوب (علیہ السلام) کو پہلی مرتبہ عزیز مصر کے اس معاملہ سے کہ انکی پونجی بھی ان کے سامان میں واپس کردی اس طرف خیال ہوگیا تھا کہ یہ عزیز کوئی بہت ہی شریف و کریم ہے شاید یوسف (علیہ السلام) ہی ہوں،- احکام و مسائل :- امام قرطبی (رح) نے فرمایا کہ واقعہ یعقوب (علیہ السلام) سے ثابت ہوا کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جب اس کو کوئی مصیبت اور تکلیف اپنی جان یا اولاد یا مال کے بارے میں پیش آئے تو اس کا علاج صبر جمیل اور اللہ تعالیٰ کی قضاء پر راضی ہونے سے کرے اور یعقوب (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی اقتداء کرے،- حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان جس قدر گھونٹ پیتا ہے ان سب میں دو گھونٹ زیادہ محبوب ہیں ایک مصیبت پر صبر اور دوسرے غصہ کو پی جانا، اور حدیث میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے من بَثَّ لم یصبر یعنی جو شخص اپنی مصیبت سب کے سامنے بیان کرتا پھرے اس نے صبر نہیں کیا،- اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اس صبر پر شہیدوں کا ثواب عطا فرمایا اور اس امت میں بھی جو شخص مصیبت پر صبر کرے گا اس کو ایسا ہی اجر ملے گا، امام قرطبی نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے اس شدید ابتلاء و امتحان کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے جو بعض روایات میں آئی ہے کہ ایک روز حضرت یعقوب (علیہ السلام) نماز تہجد پڑھ رہے تھے اور یوسف (علیہ السلام) ان کے سامنے سو رہے تھے اچانک یوسف (علیہ السلام) سے خراٹے کی آواز نکلی تو ان کی توجہ یوسف (علیہ السلام) کی طرف چلی گئی پھر دوسری اور تیسری مرتبہ ایسا ہی ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے فرمایا دیکھو یہ میرا دوست اور مقبول بندہ مجھ سے خطاب اور عرض معروض کرنے کے درمیان میرے غیر کی طرف توجہ کرتا ہے قسم ہے میری عزت و جلال کی میں ان کی یہ دونوں آنکھیں نکال لوں گا جن سے میرے غیر کی طرف توجہ کی ہے اور جس کی طرف توجہ کی ہے اس کو ان سے مدت دراز کے لئے جدا کر دوں گا،- اسی لئے بخاری کی حدیث میں بروایت عائشہ (رض) وارد ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ نماز میں کسی دوسری طرف دیکھنا کیسا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس کے ذریعہ شیطان بندہ کی نماز کو اچک لیتا ہے والعیاذ باللہ سبحانہ وتعالیٰ ۔
يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ 87- حسس - فحقیقته : أدركته بحاستي، وأحست مثله، لکن حذفت إحدی السینین تخفیفا نحو : ظلت، وقوله تعالی: فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران 52]- ( ح س س )- احسستہ کے اصل معنی بھی کسی چیز کو محسوس کرنے کے ہیں اور احسنت بھی احسست ہی ہے مگر اس میں ایک سین کو تحقیقا حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ ظلت ( میں ایک لام مخذوف ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران 52] جب عیسٰی ( (علیہ السلام) ) نے ان کی طرف سے نافرمانی ( اور نیت قتل ) دیکھی ۔- يأس - اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] ،- ( ی ء س ) یأس - ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔- رَاحَ- يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله :- لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- روح - وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(٨٧) اسی لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرے بیٹو جاؤ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین کو تلاش کرو اور ان کی خبر لاؤ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ سے اور اس کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں، جو کافر ہیں۔
(اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ )- صاحب ایمان لوگ کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔
54: چونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو یقین تھا کہ یوسف علیہ السلام بھی کہیں نہ کہیں زندہ ہیں، اور بنیامین گرفتار ہیں، اس لئے انہوں نے کچھ عرصے بعد پورے وثوق کے ساتھ حکم دیا کہ جا کر ان دونوں کو تلاش کرو۔ اتنے میں جو غلہ اب تک آیا تھا، وہ ختم ہوچکا تھا، اور قحط کی حالت جاری تھی۔ اس لئے ان بھائیوں نے یہ سوچا کہ پھر مصر جائیں، کیونکہ بنیامین تو وہاں یقینی طور پر موجود ہیں، پہلے ان کی واپسی کی کوشش کرنی چاہئے، پھر یوسف علیہ السلام کا بھی کچھ سراغ لگانے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے مصر جا کر پہلے تو یوسف علیہ السلام سے غلے کی بات کی تاکہ ان کا دِل کچھ نرم پڑے تو بنیامین کی واپسی کی بھی درخواست کریں۔ اگلی آیتوں میں حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی گفتگو بیان فرمائی گئی ہے۔