86۔ 1 اس سے مراد یا تو خواب ہے جس کی بابت انھیں یقین تھا کہ اس کی تعبیر ضرور سامنے آئے گی اور وہ یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کریں گے یا ان کا یقین تھا کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ موجود ہیں، اور اس سے زندگی میں ضرور ملاقات ہوگی۔
[٨٣] اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے :۔ باپ کے منہ سے آہ سن کر بھی حاسد بیٹوں کو ان پر رحم نہ آیا بلکہ الٹا باپ کو ملامت کرنے لگے کہ اب اس کے قصہ کو چھوڑتے بھی ہو یا نہیں ؟ یا اسی کے غم میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے ؟ مغموم باپ نے انھیں جواب دیا کہ میں تمہیں تو کچھ نہیں کہتا۔ تم نے جو کچھ چاہا کرلیا۔ میں تو اپنی پریشان حالی کو اللہ کے سامنے پیش کرتا اور اسی سے صبر کی توفیق چاہتا ہوں۔ کیونکہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یوسف ابھی زندہ ہے جسے اللہ نے مجھ سے دور کردیا ہے۔ کیونکہ سیدنا یوسف کو جو خواب آیا تھا اس وجہ سے آپ کو یقین تھا کہ یقیناً یوسف زندہ ہے اور کسی نہ کسی دن ضرور اس سے ملاقات ہوگی اور وہ خواب پورا ہو کے رہے گا اور یہی وہ بات تھی جسے یعقوب تو جانتے تھے لیکن ان کے بیٹے نہیں جانتے تھے اور آپ اپنے بیٹوں کو یہ بات بتانا بھی نہیں چاہتے تھے کہ کہیں حسد کے مارے جل بھن نہ جائیں۔
اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ ۔۔ :” بَثَّ یَبُثُّ “ کا لفظی معنی پھیلانا ہے، فرمایا : (وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ) [ النساء : ١ ] ” اور ان دونوں میں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ “ ” بَثَّ الرِّیْحُ التُّرَابَ “ ” ہوا نے مٹی اڑائی۔ “ آدمی پر جب مصائب آئیں تو ان سے پیدا ہونے والے جس غم کو وہ چھپا سکے وہ حزن کہلاتا ہے اور جو چھپا نہ سکے ” بَثٌّ“ کہلاتا ہے۔ اس آیت پر شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی تم کیا مجھے صبر سکھاؤ گے، بےصبر وہ ہے جو خلق کے آگے شکایت کرے خالق کی، میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھ پر آزمائش ہے، دیکھوں کس حد کو پہنچ کر بس ہو۔ “ (موضح)- حقیقت یہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کے غم کا جو حال اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے وہ پڑھ اور سن کر ہی دل سخت غم زدہ ہوجاتا ہے، پھر خود ان کا کیا حال ہوگا۔ عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کے روتے ہوئے دھاڑیں مارنے کی آواز سنی، حالانکہ میں صفوں کے آخر میں تھا، وہ یہ پڑھ رہے تھے : (اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ) [ بخاري، الأذان، باب إذا بکی - الإمام فی الصلاۃ، قبل ح : ٧١٦ ]- وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : یعنی یوسف زندہ ہیں اور ایک دن ایسا آئے گا کہ میرے اور تمہارے سجدہ کرنے کا خواب جو انھوں نے دیکھا تھا، سچا ہوگا، مجھے اس کا پورا یقین ہے اور اللہ تعالیٰ میری یہ امید بر لائے گا۔ اتنی مدت گزرنے اور اتنے غم کے باوجود جس میں یوسف (علیہ السلام) کی زندگی کی امید باقی رہنا بھی ممکن نظر نہیں آتا، ان کی ملاقات کی امید رکھنا یعقوب (علیہ السلام) کے کمال ایمان کا نتیجہ ہے۔
حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے صاحبزادوں کی بات سن کر فرمایا (آیت) اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ یعنی میں تو اپنی فریاد اور رنج وغم کا اظہار تم سے یا کسی دوسرے سے نہیں کرتا بلکہ اللہ جل شانہ کی ذات سے کرتا ہوں اس لئے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور ساتھ ہی یہ بھی ظاہر فرمایا کہ میرا یہ یاد کرنا خالی نہ جائے گا میں اپنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ چیز جانتا ہوں جس کی تم کو خبر نہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہوا ہے کہ وہ پھر مجھے ان سب سے ملائیں گے
قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 86 - شكا - الشَّكْوُ والشِّكَايَةُ والشَّكَاةُ والشَّكْوَى: إظهار البثّ ، يقال : شَكَوْتُ واشْتَكَيْتُ «3» ، قال تعالی:َّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّه[يوسف 86] - ( ش ک و ) الشکو - واشکایتہ والشاۃ والشکولی کے معنی اظہار غم کے ہیں اور شکوت فاشکیت دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ [يوسف 86] کہ میں تو اپنے غم اور انددہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں ۔ - بث - أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] - وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل .- ( ب ث ث) البث - ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ اِ نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو
(٨٦) حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا میں تو اپنے رنج وغم کی صرف اللہ سے شکایت کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو بچپن میں خواب دیکھا تھا وہ سچا ہے اور ہم ان کو سجدہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم اور اس کے لطف کو جتنا میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور میں خوب جانتا ہوں کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ ہیں کیوں کہ عزرائیل (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آئے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے دریافت کیا کہ جن لوگوں کی تم نے روحیں قبض کی ہیں کہ ان میں یوسف (علیہ السلام) کی بھی روح قبض کی ہے عزرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں۔
آیت ٨٦ (قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ )- میں نے تم لوگوں سے تو کچھ نہیں کہا میں نے تمہیں تو کوئی لعن طعن نہیں کی تم سے تو میں نے کوئی باز پرس نہیں کی۔ یہی الفاظ تھے جو نبی اکرم نے طائف کے دن اپنی دعا میں استعمال فرمائے تھے : (اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ ؟ ) (١) ” اے اللہ میں تیری جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں اپنی قوت کی کمزوری اور اپنے وسائل کی کمی کی اور لوگوں کے سامنے میری جو توہین ہو رہی ہے اس کی۔ اے اللہ تو نے مجھے کس کے حوالے کردیا ہے ؟- (وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ )- یعنی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم سے میں جانتا ہوں کہ یوسف زندہ ہیں فوت نہیں ہوئے۔