98۔ 1 فی الفور مغفرت کی دعا کرنے کی بجائے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا، مقصد یہ تھا کہ رات کے پچھلے پہر میں، جو اللہ کے خاص بندوں کا اللہ کی عبادت کرنے کا خاص وقت ہوتا ہے، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا کروں گا، دوسری بات یہ کہ بھائیوں کی زیادتی یوسف (علیہ السلام) پر تھی، ان سے مشورہ لینا ضروری تھا اس لئے انہوں نے تاخیر کی اور فوراً مغفرت کی دعا نہیں کی۔
قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ ۔۔ : یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کی طرح درخواست کے بغیر فوراً استغفار کے بجائے صرف وعدہ کیا کہ میں تمہارے لیے استغفار کروں گا جو یقیناً انھوں نے پورا کیا ہوگا۔ اہل علم نے اس کی کئی وجہیں بیان فرمائی ہیں، ایک تو یہ کہ بھائی کا حق بھائی پر اتنا نہیں ہوتا جتنا باپ کا بیٹے پر ہوتا ہے، اس لیے والد کو ناراضگی زیادہ تھی۔ دوسری یہ کہ بیشک یوسف (علیہ السلام) پر بےپناہ آزمائشیں آئیں مگر غم اور صدمے کا اثر والد پر زیادہ تھا۔ تیسری یہ کہ والد معلوم کرنا چاہتے تھے کہ یوسف نے انھیں معاف کیا ہے یا نہیں، کیونکہ مظلوم کے معاف کرنے کے بعد ہی ظالم کے لیے استغفار ہوسکتا ہے۔ بعض مفسرین نے بعض تابعین و صحابہ کے اقوال نقل فرمائے ہیں کہ یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے پچھلی رات دعا کرنے کا وعدہ کیا تھا، کیونکہ وہ قبولیت کا وقت ہے، مگر انھوں نے یہ بات قرآن مجید یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان نہیں کی جب کہ ہزاروں سال پہلے کی بات کا کوئی پختہ ذریعہ ان دونوں کے علاوہ ہے ہی نہیں۔ مفسر ابن جریر اور ابن کثیر ; نے ایک روایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے جمعہ کی رات کو استغفار کا وعدہ کیا تھا، مگر اس کی سند میں تین خرابیاں ہیں، ایک ابن جریج کا اسے لفظ ” عَنْ “ سے روایت کرنا، جب کہ وہ مدلس ہیں، دوسری ولید بن مسلم قرشی حدیث مرفوع بیان کرنے کی غلطی کر جاتے ہیں اور تدلیس تسویہ کرتے ہیں، تیسری سلیمان بن عبد الرحمان میں حافظے کی بنا پر کلام ہے۔ قرآن مجید بھولنے والی حدیث بھی اسی سند کے ساتھ ہے۔ (سامی بن محمد بن عبد الرحمان محقق و محشی تفسیر ابن کثیر)
(آیت) قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ یعنی یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں عنقریب تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی کی دعاء کروں گا - یہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فوراً ہی دعاء کرنے کے بجائے وعدہ کیا کہ عن قریب دعاء کروں گا اس کی وجہ عام مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ مقصود اس سے یہ تھا کہ اہتمام کے ساتھ آخر شب کے وقت میں دعاء کریں کیونکہ اس وقت کی دعاء خصوصیت سے قبول کی جاتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں زمین سے قریب تر آسمان پر نزول اجلال فرماتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کو قبول کرلوں کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اس کی مغفرت کر دوں
قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 98- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔
قول باری ہے (سوف استغفر لکم ربی۔ میں اپنے رب سے تمہارے لئے معافی کی درخواست کروں گا) حضرت ابن مسعود (رض) ، ابراہیم التیمی، ابن جریج اور عمرو بن قیس سے مروی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بیٹوں کے لئے معافی کی درخواست کو صبح تک کے لئے موخر کردیا تھا اس لئے کہ وقت سحر اجابت دعا کے لئے موزوں ترین وقت ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جمعہ کی رات تک دعائے استغفار کو ملتوی کردیا تھا۔ ایک قول کے مطابق بیٹوں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اپنی دعائوں میں ہمیشہ ان کے لئے معافی کی دعا مانگتے رہیں۔ قول باری ہے (و خرولہ سجدا۔ اور سب اس کے آگے بےاختیار سجدے میں جھک گئے) کہا جاتا ہے کہ بادشاہوں کو سجدے میں جھک کر سلام کیا جاتا تھا ایک قول کے مطابق انہوں نے اللہ کا اس امر پر شکر بجا لانے کے لئے سجدہ کیا تھا کہ اس نے اپنی مہربانی اور فضل سے انہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ خوش کن ماحول میں یک جا کردیا تھا۔ اس سجدے کے ذریعے انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تعظیم بجا لانے کا ارادہ کیا تھا اس بنا پر مجاز کے طور پر سجدے کی نسبت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف کردی گئی۔ جس طرح مجازاً یہ کہا جاتا ہے۔ ” صلی للقبلۃ (اس نے قبلے کی طرف نماز پڑھی) یا صلی الی غیر القبلۃ (اس نے قبلے کی طرف نماز نہیں پڑھی) مراد اس سے قبلے کی جہت ہوتی ہے۔- حضرت یوسف کا قرآن کے الفاظ میں یہ قول (ھذا تاویل رویا ی من قبل۔ یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا) یعنی خواب میں دیکھا تھا کہ سورج، چاند اور ستارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ اس طرح خواب میں دیکھا ہوا سجدہ حالت بیداری کا سجدہ بن گیا۔ اور سورج، چاند نیز ستارے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والدین اور آپ کے بھائی ثابت ہوئے۔
(٩٨) حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا تمہارے لیے جمعہ کی رات میں تہجد کے وقت مغفرت کی دعا کروں گا بیشک وہ غفور الرحیم اور توبہ کرنے والوں پر مہربان ہے۔
آیت ٩٨ (قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ )- یہاں پر ” سَوْفَ “ کا لفظ بہت اہم ہے۔ یعنی آپ نے فوری طور پر ان کے لیے استغفار نہیں کیا بلکہ وعدہ کیا کہ میں عنقریب تم لوگوں کے لیے اپنے رب سے استغفار کروں گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اپنے بیٹوں کے بارے میں آپ کے دل میں رنج اور غصہ برقرار تھا۔ شاید آپ کا خیال ہو کہ میں یوسف سے مل کر ساری تفصیلات معلوم کروں گا ‘ اس کے بعد جب تمام معاملات کی صفائی ہوجائے گی تو پھر میں اپنے رب سے ان کے لیے معافی کی درخواست کروں گا۔