بھائیوں پر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے فرمایا تھا کہ ابا جی کو اور گھر کے سب لوگوں کو یہیں لے آؤ ۔ بھائیوں نے یہی کیا ، اس بزرگ قافلے نے کنعان سے کوچ کیا جب مصر کے قریب پہنچے تو نبی اللہ حضرت یوسف علیہ السلام بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لئے چلے اور حکم شاہی سے شہر کے تمام امیر امرا اور ارکان دولت بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ یہ مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لئے شہر سے باہر آیا تھا ۔ اس کے بعد جو جگہ دینے وغیرہ کا ذکر ہے اس کی بابت بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی آپ نے ان سے فرمایا تم مصر میں چلو ، انشاء اللہ پر امن اور بےخطر رہو گے اب شہر میں داخلے کے بعد آپ نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی اور انہیں اونچے تخت پر بٹھایا ۔ لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں سدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بالکل ٹھیک ہے جب پہلے ہی ملاقات ہوئی تو آپ نے انہیں اپنے پاس کر لیا اور جب شہر کا دروازہ آیا تو فرمایا اب اطمینان کے ساتھ یہاں چلئے ۔ لیکن اس میں بھی ایک بات رہ گئی ہے ۔ ایوا اصل میں منزل میں جگہ دینے کو کہتے ہیں جیسے اوؤ الیہ احاہ میں ہے ۔ اور حدیث میں بھی ہے من اوی محدثا پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کا مطلب یہ بیان نہ کریں کہ ان کے آ جانے کے بعد انہیں جگہ دینے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ تم امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو یعنی یہاں قحط وغیرہ کی مصیبتوں سے محفوظ ہو کر با آرام رہو سہو ، مشہور ہے کہ اور جو قحط سالی کے سال باقی تھے ، وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی تشریف آوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دور کر دئے ۔ جیسے کہ اہل مکہ کی قحط سالی سے تنگ آکر ابو سفیان نے آپ سے شکایت کی اور بہت روئے پیٹے اور سفارش چاہی ۔ عبد الرحمن کہتے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کا تو پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا ۔ اس وقت آپ کے والد صاحب کے ہمراہ آپ کی خالہ صاحبہ آئی تھیں ۔ لیکن امام ابن جریر اور امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ آپ کی والدہ خود ہی زندہ موجود تھیں ، ان کی موت پر کوئی صحیح دلیل نہیں اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ اس بات کو چاہتے ہیں کہ آپ کی والدہ ماجدہ زندہ موجود تھیں ، یہی بات ٹھیک بھی ہے ۔ آپ نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا لیا ۔ اس وقت ماں باپ بھی اور گیارہ بھائی کل کے کل آپ کے سامنے سجدے میں گر پڑے ۔ آپ نے فرمایا ابا جی لیجئے میرے خواب کی تعبیر ظاہر ہو گئی یہ ہیں گیارہ ستارے اور یہ ہیں سورج چاند جو میرے سامنے سجدے میں ہیں ۔ ان کی شرع میں یہ جائز تھی کہ بڑوں کو سلام کے ساتھ سجدہ کرتے تھے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک یہ بات جائز ہی رہی لیکن اس ملت محمدیہ میں اللہ تبارک وتعالی نے کسی اور کے لئے سوائے اپنی ذات پاک کے سجدے کو مطلقا حرام کر دیا ۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی نے اسے اپنے لئے ہی مخصوص کر لیا ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے قول کا ماحصل مضمون یہی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک شام گئے ، وہاں انہوں نے دیکہا کہ شامی لوگ اپنے بڑوں کو سجدے کرتے ہیں یہ جب لوٹے تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا ، آب نے پوچھا ، معاذ یہ کیا بات ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے اہل شام کو دیکھا کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں تو آپ تو اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ آپ نے فرمایا اگر میں کسی کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے ۔ بہ سبب اس کے بہت بڑے حق کے جو اس پر ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام کے ابتدائی زمانے میں راستے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپ کے سامنے سجدہ کیا تو آپ نے فرمایا سلمان مجھے سجدہ نہ کرو ۔ سجدہ اس اللہ کو کرو جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبہی نہ مرے گا ۔ الغرض چونکہ اس شریعت میں جائز تھا اس لئے انہوں نے سجدہ کیا تو آپ نے فرمایا لیجئے ابا جی میرے خواب کا ظہور ہو گیا ۔ میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا ۔ اس کا انجام ظاہر ہو گیا ۔ چنانچہ اور آیت میں قیامت کے دن کے لئے بھی یہی لفظ بولا گیا ہے آیت ( یوم یاتی تاویلہ ) پس یہ بھی اللہ کا مجھ پر ایک احسان عظیم ہے کہ اس نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا اور جو میں نے سوتے سوتے دیکھا تھا ، الحمد للہ مجھے جاکنے میں بھی اس نے دکھا دیا ۔ اور احسان اس کا یہ بھی ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نجات دی اور تم سب کو صحرا سے یہاں لا کر مجھ سے ملا دیا ۔ آپ چونکہ جانوروں کے پالنے والے تھے ، اس لئے عموما بادیہ میں ہی قیام رہتا تھا ، فلسطین بھی شام کے جنگلوں میں ہے اکثر اوقات پڑاؤ رہا کرتا تھا ۔ کہتے ہیں کہ یہ اولاج میں حسمی کے نیچے رہا کرتے تھے اور مویشی پالتے تھے ، اونٹ بکریاں وغیرہ ساتھ رہتی تھیں ۔ بھر فرماتے ہیں اس کے بعد کہ شیطان نے ہم میں پھوٹ ڈلوا دی تھی ، اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ کرتا ہے ، اس کے ویسے ہی اسباب مہیا کر دیتا ہے اور اسے آسان اور سہل کر دیتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اپنے افعال اقوال قضا و قدر مختار و مراد میں وہ باحکمت ہے ۔ سلیمان کا قول ہے کہ خواب کے دیکھنے اور اس کی تاویل کے ظاہر ہونے میں چالیس سال کا وقفہ تھا ۔ عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں خواب کی تعبیر کے واقع ہونے میں اس سے زیادہ زمانہ لگتا بھی نہیں یہ آخری مدت ہے ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ باپ بیٹے اسی برس کے بعد ملے تم خیال تو کرو کہ زمین پر حضرت یعقوب علیہ السلام سے زیادہ اللہ کا کوئی محبوب بندہ نہ تھا ۔ پھر بھی اتنی مدت انہیں فراق یوسف میں گزری ، ہر وقت آنکھوں سے آنسو جاری رہتے اور دل میں غم کی موجیں اٹھتیں اور روایت میں ہے کہ یہ مدت تراسی سال کی تھی ۔ فرماتے ہیں جب حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں ڈالے گئے اس وقت آپ کی عمر سترہ سال کی تھی ۔ اسی برس تک آپ باپ کی نظروں سے اوجھل رہے ۔ پھر ملاقات کے بعد تیئس برس زندہ رہے اور ایک سو بیس برس کی عمر میں انتقال کیا ۔ بقول قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ترپن برس کے بعد باپ بیٹا ملے ۔ ایک قول ہے کہ اٹھارہ سال ایک دوسرے سے دور رہے اور ایک قول ہے کہ چالیس سال کی جدائی رہی اور پھر مصر میں باپ سے ملنے کے بعد سترہ سال زندہ رہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنو اسرائیل جب مصر پہنچے ہیں ان کی تعداد صرف تریسٹھ کی تھی اور جب یہاں سے نکلے ہیں اس وقت ان کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کی تھی ۔ مسروق کہتے ہیں آنے کے وقت یہ مع مرد و عورت تین سو نوے تھے ، عبداللہ بن شداد کا قول ہے کہ جب یہ لوگ آئے کل چھیاسی تھے یعنی مرد عورت بوڑھے بچے سب ملا کر اور جب نکلے ہیں اس وقت ان کی گنتی چھ لاکھ سے اوپر اوپر تھی ۔
99۔ 1 یعنی عزت و احترام کے ساتھ انھیں اپنے پاس جگہ دی اور ان کا خوب اکرام کیا۔
[٩٣] خاندان یعقوب کا مصر پہنچنا :۔ جب سیدنا یوسف (علیہ السلام) کا سارا خاندان کنعان سے روانہ ہو کر مصر پہنچا تو سیدنا یوسف بڑے بڑے اعیان سلطنت اور فوجی افسران کو ساتھ لے کر اپنے باپ اور اہل خانہ کے استقبال کے لیے نکلے اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ انھیں دارالسلطنت میں لائے اور یہ دن جشن کا دن تھا، عورتیں، مرد، بچے سب اس جلوس کو دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوگئے تھے اور سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس وقت سیدنا یوسف نے اپنے والدین سے کہا کہ یہاں مصر میں اقامت فرمایئے اور پوری دلجمعی سے رہئے، انشاء اللہ قحط وغیرہ کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ ۔۔ : یعنی یعقوب (علیہ السلام) کنعان سے سارے اہل خانہ سمیت روانہ ہو کر مصر پہنچے۔ آیت کے الفاظ ” مصر میں داخل ہوجاؤ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے شہر سے باہر نکل کر عمائدین حکومت اور عوام سے مل کر اپنے والدین اور افراد خانہ کا شان و شوکت سے استقبال کیا، والدین کو خصوصاً دوسرے خیموں سے جو استقبال کے لیے لگائے گئے تھے، الگ اپنے خیمے میں رکھا اور فرمایا، اب آپ لوگ مصر میں داخل ہوجائیں۔ آپ ان شاء اللہ یہاں نہایت امن سے رہیں گے۔ قحط، غربت، دشمن، غرض کسی چیز کی فکر مت کریں۔ بعض نے لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے یہ الفاظ مصر میں داخل ہونے کے بعد کہے۔ ” اَبَوَیْهِ “ سے مراد ماں باپ ہیں، کئی مفسرین نے لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کا چھوٹے بھائی کی ولادت کے وقت انتقال ہوگیا تھا، یہ ماں یوسف (علیہ السلام) کی خالہ تھیں جن سے یعقوب (علیہ السلام) نے بعد میں نکاح کیا تھا۔ دلیل اس کی اسرائیلی روایات کے سوا کچھ نہیں، جن کی صحت کا یقین نہیں۔ البتہ بعض نے لکھا ہے کہ ان کی والدہ زندہ تھیں اور وہی یعقوب (علیہ السلام) کے ساتھ مصر پہنچی تھیں۔ (معالم) ابن جریر (رض) نے اس دوسرے قول کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر (رض) نے اس کی تائید کی ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن مجید کے الفاظ کا ظاہر معنی یہی ہے۔ یہاں ان مفسرین کی بات پر افسوس ہوتا ہے جو قرآن مجید کی صراحت کے بعد آزر کو باپ کے بجائے چچا اور یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کو ان کی خالہ بتانے پر اصرار کرتے ہیں۔ صرف ان کتابوں میں پڑھ کر جن کی بات کو سچا سمجھنے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرما دیا ہے، اگرچہ جھوٹا کہنے سے بھی منع کیا ہے، مگر ایسی ناقابل یقین بات کے ساتھ قرآن کی بات کو توڑنے مروڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیہ بعض روایات میں ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے اس مرتبہ اپنے بھائیوں کے ساتھ دو سو اونٹوں پر لدا ہوا بہت سا سامان کپڑوں اور دوسری ضروریات کا بھیجا تھا تاکہ پورا خاندان مصر آنے کے لئے عمدہ تیاری کرسکے اس کے مطابق یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد اور تمام متعلقین مصر کے لئے تیار ہو کر نکلے تو ایک روایت میں ان کی تعداد بہتر اور دوسری میں ترانوے ٩٣ نفوس مرد و عورت پر مشتمل تھی - دوسری طرف جب مصر پہنچنے کا وقت قریب آیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ملک مصر کے لوگ استقبال کے لئے شہر سے باہر تشریف لائے اور چار ہزار سپاہی ان کے ساتھ سلامی دینے کے لئے نکلے جب یہ حضرات مصر میں یوسف (علیہ السلام) کے مکان میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے والدین کو اپنے پاس ٹھہرایا، یہاں ذکر والدین کا ہے حالانکہ یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کا انتقال بچپن میں ہوچکا تھا مگر ان کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے مرحومہ کی بہن لیّا سے نکاح کرلیا تھا جو یوسف (علیہ السلام) کی خالہ ہونے کی حیثیت سے بھی مثل والدہ کے تھیں اور والد کے نکاح میں ہونے کی حیثیت سے بھی والدہ ہی کہلانے کی مستحق تھیں۔- وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ یوسف (علیہ السلام) نے سب خاندان کے لوگوں سے کہا کہ آپ سب باذن خداوندی مصر میں بےخوف و خطر بغیر کسی پابندی کے داخل ہوجائیں مطلب یہ تھا کہ دوسرے ملک میں داخل ہونے والے مسافروں پر جو پابندیاں عادۃ ہوا کرتی ہیں آپ ان سب پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ 99ۭ- أوى) ملانا)- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] ، وقال تعالی: آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف 69] آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف 69] أي : ضمّه إلى نفسه .- ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اور آیت کریمہ :۔ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ ( سورة يوسف 69) کے معنی یہ ہیں کہ ہوسف نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملالیا - أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) امن - ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔- وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔
(٩٩) چناچہ جب یہ سب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے باپ اور اپنی خالہ کو کیوں کہ ان کی والدہ پہلے ہی انتقال کرگئی تھیں اپنے پاس جگہ دی اور فرمایا کہ سب مصر چلیے اور وہاں انشاء اللہ دشمن اور تکلیف سے امن میں رہیے۔
آیت ٩٩ (فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ )- کنعان سے چل کر بنی اسرائیل کا یہ پورا خاندان جب حضرت یوسف کے پاس مصر پہنچا تو آپ نے خصوصی اعزاز کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور اپنے والدین کو اپنے پاس امتیازی نشستیں پیش کیں۔- (وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ )- اب آپ لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اگر اللہ نے چاہا تو یہاں آپ کے لیے امن وچین اور سکون و راحت ہی ہے۔
٦۸ ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ سب افراد خانہ جو اس موقع پر مصر گئے ٦۷ تھے ۔ اس تعداد میں دوسرے گھرانوں کی ان لڑکیوں کو شمار نہیں کیا گیا ہے جو حضرت یعقوب کے ہاں بیاہی ہوئی آئی تھیں ، اس وقت حضرت یعقوب کی عمر ۱۳۰ سال تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں ۱۷ سال زندہ رہے ۔ اس موقع پر ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر میں داخل ہوئے تو حضرت یوسف سمیت ان کی تعداد ٦۸ تھے ، اور جب تقریبا ۵ سو سال کے بعد وہ مصر سے نکلے تو وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے ، بائیبل کی روایت ہے کہ خروج کے بعد دوسرے سال بیابان سینا میں حضرت موسی نے ان کی جو مردم شماری کرائی تھی اس میں صرف قابل جنگ مردوں کی تعداد ٦۰۳۵۵۰ تھی ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عوعرت ، مرد ، بچے سب ملا کر وہ کم از کم ۲۰ لاکھ ہوں گے ۔ کیا کسی حساب سے پانچ سو سال میں ٦۸ آدمیوں کی اتنی اولاد ہوسکتی ہے؟ مصر کی کل آبادی اگر اس زمانے میں ۲ کروڑ فرض کی جائے ( جو یقینا بہت مبالغہ آمیز اندازہ ہوگا ) تو اس کے معنی یہ ہیں کہ صرف بنی اسرائیل وہاں ۱۰ فیصد تھے ، کیا ایک خاندان محض تناسل کے ذریعہ ستے اتنا بڑھ سکتا ہے ، اس سوال پر غور کرنے سے ایک اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے ، ظاہر بات ہے کہ ۵ سو برس میں ایک خاندان تو اتنا نہیں بڑھ سکتا ، لیکن بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد تھے ، ان کے لیڈر حضرت یوسف جن کی بدولت مصر میں ان کے قدم جمے ، خود پیغمبر تھے ، ان کے بعد چار پانچ صدی تک ملک کا اقتدار انہی لوگوں کے ہاتھ میں رہا ۔ اس دوران میں یقینا انہوں نے مصر میں اسلام کی خوب تبلیغ کی ہوگی ، اہل مصر میں سے جو لوگ اسلام لائے ہوں گے ان کا مذہب ہی نہیں بلکہ ان کا تمدن اور پورا طریق زندگی غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے ہم رنگ ہوگیا ہوگا ۔ مصریوں نے ان سب کو اسی طرح اجنبی ٹھہرایا ہوگا جس طرح ہندوستان میں ہندوؤں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھہرایا ، ان کے اوپر اسرائیلی کا لفظ اسی طرح چسپاں کردیا گیا ہوگا ، جس طرح غیر عرب مسلمانوں پر محمڈن کا لفظ آج چسپاں کیا جاتا ہے ، اور وہ خود بھی دینی و تہذیبی روابط اور شادی بیاہ کے تعلقات کی وجہ سے غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے وابستہ ہوکر رہ گئے ہوں گے ، یہی وجہ ہے کہ جب مصر میں قوم پرستی کا طوفان اٹھا تو مظالم صرف بنی اسرائیل ہی پر نہیں ہوئے بلکہ مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ یکساں لپیٹ لیے گئے ، اور جب بنی اسرائیل نے ملک چھوڑا تو مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ ہی نکلے اور ان سب کا شمار اسرائیلیوں ہی میں ہونے لگا ۔ ہمارے اس قیاس کی تائید بائیبل کے متعدد اشارات سے ہوتی ہے ، مثال کے طور پر خروج میں جہاں بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کا حال بیان ہوا ہے ، بائیبل کا مصنف کہتا ہے کہ ان کے ساتھ ایک ملی جلی گروہ بھی گئی ، ( ۱۲ ۔ ۳۸ ) اسی طرح گنتی میں وہ پھر کہتا ہے کہ جو ملی جلی بھیڑ ان لوگوں میں تھی وہ طرح طرح کی حرص کرنے لگی ( ۱۱ ۔ ٤ ) پھر بتدریج ان غیر اسرائیلی مسلمانوں کے لیے اجنبی اور پردیسی کی اصطلاحیں استعمال ہونے لگیں ، چنانچہ توراۃ میں حضرت موسی کو جو احکام دیے گئے ان میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے : تمہارے لیے اور اس پردیسی کے لیے جو تم میں رہتا ہے نسل در نسل سدا ایک ہی آئین رہے گا ، خداوند کے آگے پردیسی بھی ویسے ہی ہوں جیسے تم ہو ، تمہارے لیے اور پردیسیوں کے لیے جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ایک ہی شرع اور ایک ہی قانون ہو ( گنتی ۱۵ ۔ ۱۵ ۔ ۱٦ ) جو شخص بے باک ہوکر گناہ کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی وہ خداوند کی اہانت کرتا ہے ، وہ شخص اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے گا ( گنتی ۱۵ ۔ ۳ ) خواہ بھائی بھائی کا معاملہ ہو یا پردیسی کا ، تم ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا ( اتثناء ، ۱ ۔ ۱٦ ) اب یہ تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کتاب الہی میں غیر اسرائیلیوں کے لیے وہ اصل لفظ کیا استعمال کیا گیا تھا جسے مترجموں نے پردیسی بنا کر رکھ دیا ۔ ٦۹ ۔ تلمود لکھا ہے جب حضرت یعقوب کی آمد کی خبر دار السلطنت میں پہنچی تو حضرت یوسف سلطنت کے بڑے بڑے امراء و اہل مناسب اور فوج فراء کو لیکر ان کے استقبال کے لیے نکلے اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ ان کو شہر میں لائے ، وہ دن وہاں جشن کا دن تھا ، عورت ، مرد ، بچے سب اس جلوس کو دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوگئے تھے ، اور سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ۔
61: حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے والدین، بھائیوں اور دوسرے گھر والوں کے استقبال کے لئے شہر سے باہر تشریف لائے تھے، اور جب والدین سے ملاقات ہوئی توانہوں نے انکا خاص اکرام کرکے انہیں اپنے پاس بٹھایا اور ابتدائی باتوں کے بعد سارے آنے والوں سے کہا کہ اب سب لوگ شہر میں اطمینان کے ساتھ چل کر رہیں، اس معاملے میں روایات مختلف ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی حقیقی والدہ اس وقت زندہ تھیں یا نہیں اگر زندہ تھیں تب تو والدین سے مراد حقیقی والدین ہیں اور اگر وفات پاچکی تھیں تو سوتیلی والدہ کو بھی چونکہ ماں ہی کی طرح سمجھاجاتا ہے اس لئے ان کو بھی والدین میں شامل کرلیا گیا۔