100۔ 1 بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سوتیلی ماں اور سگی خالہ تھیں کیونکہ یوسف (علیہ السلام) کی حقیقی ماں بنیامین کی ولادت کے بعد فوت ہوگئی تھیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس کی وفات کے بعد اس کی ہمشیرہ سے نکاح کرلیا تھا یہی خالہ اب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ساتھ مصر میں گئی تھیں (فتح القدیر) لیکن امام ابن طبری نے اس کے برعکس یہ کہا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی والدہ فوت نہیں ہوئی تھیں اور وہی حقیقی والدہ تھیں۔ (ابن کثیر) 100۔ 2 بعض نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ادب و تعظیم کے طور پر یوسف (علیہ السلام) کے سامنے جھک گئے۔ لیکن ( وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا) 12 ۔ یوسف :100) کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ وہ زمین پر یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوئے، یعنی یہ سجدہ، سجدہ ہی کے معنی میں ہے۔ تاہم یہ سجدہ، سجدہ تعظیمی ہے سجدہ عبادت نہیں اور سجدہ تعظیمی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی شریعت میں جائز تھا۔ اسلام شرک کے سد باب کے لئے سجدہ تعظیمی کو بھی حرام کردیا گیا ہے، اور اب سجدہ تعظیمی بھی کسی کے لئے جائز نہیں۔ 100۔ 3 یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو خواب میں دیکھا تھا اتنی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بالآخر اس کی تعبیر سامنے آئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو تخت شاہی پر بٹھایا اور والدین سمیت تمام بھائیوں نے اسے سجدہ کیا۔ 100۔ 4 اللہ کے احسنات میں کنویں سے نکلنے کا ذکر نہیں کیا تاکہ بھائی شرمندہ نہ ہوں۔ یہ اخلاق نبوی ہے۔ 100۔ 5 مصر جیسے متمدن علاقے کے مقابلے میں کنعان کی حیثیت ایک صحرا کی تھی، اس لئے اسے بَدُوْ سے تعبیر کیا۔ 100۔ 6 یہ بھی اخلاق کریمانہ کا ایک نمونہ کہ بھائیوں کو ذرا مورد الزام نہیں ٹھہرایا اور شیطان کو اس کارستانی کا باعث قرار دیا۔
[٩٤] سیدنا یوسف کے خواب کے واقع ہونے کا وقت :۔ دوسرے دن جب سیدنا یوسف شاہی دربار میں پہنچے تو آپ نے اپنے والدین کو تخت شاہی پر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور یہ والدہ سیدنا یوسف کی کوئی سوتیلی والدہ ہی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں چھوٹے بھائیوں کی حقیقی والدہ راحیل، بن یمین کی پیدائش کے وقت ہی فوت ہوگئی تھی۔ جب والدین اور برادران یوسف نے سیدنا یوسف کی یہ شان و شوکت دیکھی تو والدین نیچے اترے اور وہ دونوں اور گیارہ بھائی سب کے سب سیدنا یوسف کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ اس سجدہ کے تعظیمی سجدہ ہونے میں تو کسی کو اختلاف نہیں، اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس سجدہ کی صورت وہی تھی جس پر شرعاً لفظ سجدہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ جیسے ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں یا سجدہ کے معنی صرف جھک جانا ہے۔ جیسے دوسرے کو سلام کرتے وقت بھی بعض دفعہ انسان جھک جاتا ہے۔ کیونکہ لغوی لحاظ سے لفظ سجد میں اس معنی کی بھی گنجائش ہے۔ اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو پھر تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ محض تھوڑا سا جھک جانے پر بھلا کیا ہے اعتراض ہوسکتا ہے البتہ جن مفسرین نے پہلے معنی مراد لئے ہیں وہ صراحت کردیتے ہیں کہ سجدہ تعظیمی ہماری شریعت میں فی الواقع حرام ہے۔ لیکن پہلی شریعتوں میں اس کی اجازت تھی۔ سجدا سے پہلے خروا کا لفظ ہمارے خیال میں دوسرے معنی کی ہی تائید کرتا ہے۔- [٩٥] سیدنا یوسف کا اللہ کے احسانات کا شکر ادا کرنا :۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا یوسف کو اپنے پر اللہ کے احسانات یاد آنا شروع ہوگئے۔ اور اپنے والد محترم سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ جو خواب میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ یہ اس کی حقیقی تعبیر سب کے سامنے آگئی ہے۔ (اس خواب اور اس کی حقیقت کا برادران یوسف کو اسی مجلس میں علم ہوا۔ اس سے پہلے یہ خواب نہ سیدنا یوسف نے کسی کو بتایا تھا اور نہ سیدنا یعقوب نے) یہ بھی اللہ کا مجھ پر بڑا فضل و احسان ہے اور اس وقت بھی اللہ نے بڑا احسان کیا تھا۔ جب مجھے قید سے نکالا تھا اور مجھے باعزت طور پر عورتوں کے مکر و فریب سے بری کیا تھا۔ پھر اب یہ احسان کیا ہے کہ آپ سب لوگوں کو دیہات سے نکال کر یہاں میرے پاس لے آیا ہے۔ یہاں ہر طرح کی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے بافراغت میسر کی ہیں اور ہم سب کو یہاں اکٹھا کردیا ہے کہ پیارو محبت سے گزر بسر کریں۔ ورنہ شیطان نے تو ہم بھائیوں کے درمیان فتنہ کھڑا کر ہی دیا تھا۔ (اس وقت بھی سیدنا یوسف نے بھائیوں سے نہ کوئی شکایت کی اور نہ ان پر کوئی الزام رکھا تاکہ وہ مزید شرمسار نہ ہوں) پھر اسی فتنہ سے بمصداق : عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد۔ اللہ تعالیٰ نے غیر محسوس انداز میں میرے لئے ہر طرح کی بھلائی کی راہیں پیدا کردیں۔ کسی کو کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ مجھے کنویں میں ڈالنے پھر قید خانہ میں ڈالنے میں اللہ کی کیا کیا حکمتیں پنہاں تھیں ؟
وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ ۔۔ : مصر پہنچ کر جب مجلس آراستہ ہوئی تو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو اپنے تخت پر اونچا بٹھانے کا حکم دیا اور دوسرے تمام اہل مجلس کرسیوں یا قالینوں پر نیچے بیٹھے تھے۔ جب یوسف (علیہ السلام) مجلس میں آئے تو ساری مجلس نے جن میں ان کے والدین بھی شامل تھے، ان کی تعظیم کے لیے سجدہ کیا۔ بعض حضرات اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ سب لوگ جھک کر تعظیم بجا لائے، مگر ” وَخَرُّوْا “ کا لفظ اس مطلب کا ساتھ نہیں دیتا، کیونکہ ” وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا “ کا معنی ہے ” اور وہ اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گرپڑے۔ “ حقیقت یہ ہے کہ پہلی امتوں میں تعظیم کے لیے سجدہ جائز تھا، جس میں مسجود کو اللہ کے کسی اختیار میں شریک نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ہاں عبادت کا سجدہ ہمیشہ غیر اللہ کے لیے حرام رہا ہے اور وہ ایسا سجدہ ہے کہ کسی کو غیبی علم اور قوت و اقتدار اور نفع نقصان کا مالک سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ یہ اللہ کے ساتھ شرک ہے، اس مقصد کے لیے قیام اور سینے پر ہاتھ باندھنا بھی شرک ہے۔ ایک سجدہ جبراً کروایا جاتا ہے، وہ نہ عبادت ہے نہ تعظیم، وہ مجبوری ہے۔ پہلی امتوں میں تعظیم کے لیے سجدہ جائز تھا، جیسا کہ فرشتوں کا آدم (علیہ السلام) کو سجدہ اور بردران یوسف اور ان کے والدین کا یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ تھا۔ یہ رواج عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت تک جاری رہا۔ ہماری امت میں شرک کے ذرائع کے سدّباب کے لیے تعظیمی سجدہ بھی قیامت تک کے لیے حرام کردیا گیا اور قیام بھی، ہاں آگے بڑھ کر استقبال کرنا مسنون ہے اور وہ اس عجمی رسم میں شامل نہیں جس میں کسی کے آنے پر سب لوگ اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوجاتے ہیں، اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔ سجدۂ تعظیمی سے بھی صاف الفاظ میں منع فرمایا، چناچہ عبداللہ بن ابی اوفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) جب شام سے آئے تو انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا ھٰذَا یَا مُعَاُذُ ؟ قَالَ أَتَیْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِأَسَاقِفَتِھِمْْ وَبِطَارِقَتِھِمْ فَوَدِدْتُ فِيْ نَفْسِيْ أَنْ نَّفْعَلَ ذٰلِکَ بِکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَلاَ تَفْعَلُوْا، فَإِنِّيْ لَوْکُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِغَیْرِ اللّٰہِ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِھَا ) [ ابن ماجہ، النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ : ١٨٥٣۔ ابن حبان : ٤١٧١، و قال الألبانی حسن صحیح ] ” معاذ یہ کیا ہے ؟ “ کہا : ” میں شام گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میں نے اپنے دل میں چاہا کہ ہم آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم ایسا مت کرو، کیونکہ اگر میں کسی کو حکم دینے والا ہوتا کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ “ سورة حٰم السجدہ (٣٧) میں بھی اللہ کے سوا سجدہ منع کردیا گیا ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” پہلے وقت میں سجدۂ تعظیمی تھا، فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا ہے، اس وقت اللہ نے وہ رواج موقوف کیا، فرمایا : (وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ ) [ الجن : ١٨ ] اس وقت پہلے رواج پر چلنا ویسا ہے کہ کوئی اپنی بہن سے نکاح کرے کہ آدم (علیہ السلام) کے وقت ہوا ہے۔ “ (موضح)- وَقَالَ يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) نے یاد دلایا کہ یہ اس خواب کی تعبیر ہے جو کئی سال پہلے میں نے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے سچا کردیا، محض پریشان خواب نہیں رہنے دیا۔ خواب اور اس ملاقات کے درمیان کی مدت کسی نے چالیس سال بتائی، کسی نے اسّی (٨٠) سال، ابن اسحاق نے اٹھارہ سال بتائی اور کہا کہ اہل کتاب کا خیال ہے کہ وہ چالیس سال یا اس کے لگ بھگ تھی۔ ” التحریر والتنویر “ میں ابن عاشور (رض) نے بائیس سال لکھی ہے۔ اصل حقیقت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، مگر چالیس اور اسّی (٨٠) سال والی بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی اور وحی الٰہی کے فیصلے کے بغیر تعیین کرنا اندھیرے میں تیر چلانا ہے۔ - وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْٓ اِذْ اَخْرَجَنِيْ مِنَ السِّجْنِ : اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ خواب اور اس کی تعبیر کے درمیان کئی سال کا وقفہ ہوسکتا ہے، کنویں میں پھینکے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا احسان بذریعہ وحی حوصلہ دلانا تھا، پھر کنویں سے نکلوانا، پھر باعزت جگہ دینا، علم و حکمت عطا کرنا، غرض اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) پر بیشمار احسانات کیے تھے، مگر انھوں نے اللہ کے احسان کا تذکرہ قید خانے سے نکالنے سے شروع کیا، کیونکہ اس سے پہلے ساتھ آزمائشیں بھی تھیں اور ان کے تذکرے سے بھائیوں کی شرمندگی بھی ممکن تھی۔ یہ انبیاء ہی کا حوصلہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کی کسی زیادتی کا ذکر نہیں کیا، بلکہ ان کے سارے برے سلوک کو شیطان کی کارستانی قرار دے کر انھیں شرمندگی سے بچانے کی کوشش کی۔ شاہ عبد القادر (رض) نے فرمایا : ” جو اللہ کے احسان تھے سو ذکر فرمائے اور جو تکلیف تھی دخل شیطان سے، اس کو منہ پر نہ لائے، مجمل سنا دیا۔ “ (موضح)- وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ ۔۔ : بدو، بادیہ نشینی حضر یعنی شہر میں رہنے کے بالمقابل ہے۔ ” بَدْوٌ“ ” بَدَا یَبْدُوْ “ کا مصدر ہے، یعنی ظاہر ہونا، کیونکہ بادیہ نشینوں کے گھر ہر ایک کو نظر آتے ہیں۔ مصر کے مقابلے میں کنعان کی حیثیت بدو کی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے خاندان کے شہر میں آنے کو بھی اپنے آپ پر احسان کہا، کیونکہ شہر کے لوگ اکثر سلیقہ شعار، میل جول کی وجہ سے نرم طبیعت اور حصول علم کے مواقع کی وجہ سے علم سے آراستہ ہوتے ہیں، اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ سَکَنَ الْبَادِیَۃَ جَفَا ) [ ترمذي، الفتن، باب من أتي أبواب السلطان افتتن : ٢٢٥٦۔ نساءي : ٤٣١٤۔ أبوداوٗد : ٢٨٥٩۔ أحمد : ١؍٣٥٧، ح : ٣٣٦١ و صححہ الألبانی عن ابن عباس (رض) ] ” جو بادیہ میں رہائش رکھے وہ سخت دل ہوجاتا ہے۔ “ اور تمام انبیاء شہروں اور بستیوں ہی میں سے بھیجے گئے، جیسا کہ آگے آیت (١٠٩) میں آ رہا ہے، بلکہ رسول ایسی بستی میں بھیجے گئے جو دوسری بستیوں کے مرکز تھے۔ (دیکھیے قصص : ٥٩) ” لَطِیْفْ “ ایسی چیز جو حواس کی گرفت میں نہ آسکے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت لطیف اس لحاظ سے ہے کہ وہ باریک سے باریک چیز کی خبر رکھنے والا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی تدبیر نہایت باریک ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی اور اس لحاظ سے اس کا معنی لطف و کرم کرنے والا بھی ہے کہ وہ ایسے باریک طریقے سے مہربانی فرماتا ہے کہ نظر ہی نہیں آتا کہ یہ کیسے ہوگئی۔ (مفردات)- اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ : یعنی یہ جو کچھ ہوا اسی کے کمال علم و حکمت کا کرشمہ ہے۔
وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ یعنی یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو اپنے تخت شاہی پر بٹھایا،- وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا یعنی والدین اور سب بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کیا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ سجدہ شکر اللہ تعالیٰ کے لئے کیا گیا تھا یوسف (علیہ السلام) کو نہیں تھا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سجدہ عبادت تو ہر پیغمبر کی شریعت میں غیر اللہ کے لئے حرام تھا لیکن تعظیم انبیاء (علیہم السلام) سابقین کی شریعتوں میں جائز تھا جو شریعت اسلام میں ذریعہ شرک ہونے کی بناء پر ممنوع ہوگیا ہے جیسا کہ حدیث صحیحین میں مذکور ہے کہ کسی غیر اللہ کے لئے سجدہ حلال نہیں - وَقَالَ يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ یوسف (علیہ السلام) کے سامنے جب دونوں ماں باپ اور گیارہ بھائیوں نے بیک وقت سجدہ کیا تو ان کو اپنا بچپن کا خواب یاد آ گیا اور فرمایا کہ ابا جان یہ میرے اس کی تعبیر ہے جو بچپن میں دیکھا تھا کہ آفتاب وماہتاب اور گیارہ ستارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اس خواب کی سچائی کو آنکھوں سے دکھلا دیا،- احکام و مسائل - ١۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے صاحبزادوں کی درخواست معافی و دعائے مغفرت پر جو یہ فرمایا کہ عنقریب تمہارے لئے دعائے مغفرت کروں گا اور فوراً دعاء نہیں کی، اس تاخیر کی ایک وجہ بعض حضرات نے یہ بھی بیان کی ہے کہ منظور یہ تھا کہ یوسف (علیہ السلام) سے مل کر پہلے یہ تحقیق ہوجائے کہ انہوں نے ان کی خطا معاف کردی ہے یا نہیں کیونکہ جب تک مظلوم معافی نہ دے عنداللہ بھی معافی نہیں ہوتی ایسی حالت میں دعائے مغفرت بھی مناسب نہ تھی - یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح اور اصولی ہے کہ حقوق العباد کی توبہ بغیر اس کے نہیں ہوتی کہ صاحب حق اپنا حق وصول کرلے یا معاف کر دے محض زبانی توبہ و استغفار کافی نہیں - ٢۔ حضرت سفیان ثوری (رح) کی روایت ہے کہ جب یہودا قمیض یوسف لے کر آئے اور یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈالا تو پوچھا کہ یوسف کیسے ہیں ؟ انہوں نے بتلایا کہ وہ مصر کے بادشاہ ہیں یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اس کو نہیں پوچھتا کہ وہ بادشاہ ہیں یا فقیر پوچھنا یہ ہے کہ ایمان اور عمل کے اعتبار سے کیا حال ہے تب انہوں نے ان کے تقوٰی و طہارت کے حالات بتلائے یہ ہے انبیاء (علیہم السلام) کی محبت اور تعلق کہ اولاد کی جسمانی راحت سے زیادہ ان کی روحانی حالت کی فکر کرتے ہیں ہر مسلمان کو اسی کا اتباع کرنا چاہئے،- ٣۔ حضرت حسن (رح) سے روایت ہے کہ جب بشارت دینے والا قمیص یوسف لے کر پہنچا تو یعقوب (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ اس کا کچھ انعام دیں مگر حالات سازگار نہ تھے اس لئے عذر کیا کہ سات روز سے ہمارے گھر میں روٹی نہیں پکی اس لئے میں کچھ مادی انعام تو نہیں دے سکتا مگر یہ دعاء دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تم پر سکرات موت کو آسان کردیں قرطبی (رح) نے فرمایا کہ یہ دعاء ان کے لئے سب سے بہتر انعام تھا،- ٤۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خوشخبری دینے والے کو انعام دینا سنت انبیاء (علیہم السلام) ہے صحابہ کرام میں حضرت بن کعب بن مالک (رض) کا واقعہ مشہور ہے کہ غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے پر جب ان پر عتاب ہوا اور بعد میں توبہ قبول کی گئی تو شخص قبول توبہ کی بشارت لایا تھا اپنا جوڑا کپڑوں کا اتار کر اس کو پہنا دیا، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ خوشی کے موقع پر اظہار مسرت کے لئے دوستوں وغیرہ کو کھانے کی دعوت دینا بھی سنت ہے حضرت فاروق اعظم (رض) نے جب سورة بقرہ پڑھ کر ختم کی تو خوشی میں ایک اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو کھلایا،- ٥۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادوں نے حقیقت واقعہ ظاہر ہوجانے کے بعد اپنے والد اور بھائی سے معافی مانگی اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے ہاتھ یا زبان سے کسی شخص کو ایذاء پہنچی یا اس کا کوئی حق اس کے ذمہ رہا اس پر لازم ہے کہ فوراً اس حق کو ادا کر دے یا اس سے معاف کرا لے،- صحیح بخاری میں بروایت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے ذمہ کسی دوسرے کا کوئی حق مالی واجب ہو یا اس کو کوئی ایذاء ہاتھ یا زبان سے پہونچائی ہو اس کو چاہئے کہ آج اس کو ادا کر دے یا معافی مانگ کر اس سے سبکدوشی حاصل کرلے قبل اس کے کہ قیامت کا وہ دن آجائے جہاں کسی کے پاس کوئی مال حق ادا کرنے کے لئے نہ ہوگا اس لئے اس کے اعمال صالحہ مظلوم کو دے دیے جائیں گے یہ خالی رہ جائے گا اور اگر اس کے اعمال بھی صالح نہیں تو دوسرے کے جو گناہ ہیں اس کے سر پر ڈال دیئے جائیں گے والعیاذ باللہ تعالیٰ ،- یوسف (علیہ السلام) کا مقام صبروشکر :- اس کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) نے والدین کے سامنے کچھ اپنی سرگذشت بیان کرنا شروع کی یہاں ایک منٹ ٹھہر کر غور کیجئے کہ آج اگر کسی کو اتنے مصائب کا سامنے کرنا پڑے جتنے یوسف (علیہ السلام) پر گذرے اور والدین سے اتنی طویل مفارقت اور مایوسی کے بعد ملنے کا اتفاق ہو تو وہ والدین کے سامنے اپنی سر گذشت کیا بیان کرے گا کتنا روئے گا اور رلائے گا اور کتنے دن رات مصائب کی داستان سنانے میں صرف کرے گا مگر یہاں طرفین میں اللہ کے رسول اور پیغمبر ہیں ان کا طرز عمل ملاحظہ فرمائیے یعقوب (علیہ السلام) کے بچھڑے ہوئے محبوب فرزند ہزاروں مصائب کے دور سے گذرنے کے بعد جب والد سے ملتے ہیں تو کیا فرماتے ہیں - (آیت) وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْٓ اِذْ اَخْرَجَنِيْ مِنَ السِّجْنِ وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطٰنُ بَيْنِيْ وَبَيْنَ اِخْوَتِيْ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا جبکہ مجھے قیدخانہ سے نکال دیا اور آپ کو باہر سے یہاں لے آیا بعد اس کے شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈلوا دیا تھا،- حضرت یوسف (علیہ السلام) کی مصائب ترتیب تین بابوں میں تقسیم ہوتی ہیں، اول بھائیوں کا ظلم وجور، دوسرے والدین سے طویل جدائی تیسرے قید خانے کی تکالیف خدا تعالیٰ کے اس برگزیدہ پیغمبر نے اپنے بیان میں پہلے تو واقعات کی ترتیب کو بدل کر قید خانے سے بات شروع کی اور اس میں قید خانے میں داخل ہونے اور وہاں کی تکالیف کا نام نہیں لیا بلکہ قید خانے سے نکلنے کا ذکر اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ بیان کیا قیدخانہ سے نجات اور اس پر شکر الہی کے ضمن میں یہ بھی بتلا دیا کہ میں کسی وقت قید خانہ میں بھی رہا ہوں،- یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے جیل خانے سے نکلنے کا ذکر کیا بھائیوں نے جس کنویں میں ڈالا تھا اس کا اس حیثیت سے بھی ذکر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کنویں سے نکالا وجہ یہ ہے کہ بھائیوں کی خطا پہلے معاف کرچکے تھے اور فرما چکے تھے لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ اس لئے مناسبب نہ سمجھا کہ اب اس کنویں کا کسی طرح سے بھی ذکر آئے تاکہ بھائی شرمندہ نہ ہوں (قرطبی)- اس کے بعد والدین کی طویل اور صبر آزما مفارقت اور اس کے تاثرات کا ذکر کرنا تھا تو ان سب باتوں کو چھوڑ کر اس کے آخری انجام اور والدین سے ملاقات کا ذکر اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ کیا کہ آپ کو بدو یعنی دیہات سے شہر مصر میں پہنچا دیا اس میں اس نعمت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کا وطن دیہات میں تھا جہاں معیشت کی آسانیاں کم ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ نے شہر میں شاہی اعزازات کے ساتھ اندر پہنچادیا،- اب پہلی بات رہ گئی بھائیوں کا ظلم وجور، سو اس کو بھی شیطان کے حوالہ کر کے اس طرح بیباق کردیا کہ میرے بھائی تو ایسے نہ تھے جو یہ کام کرتے شیطان نے ان کو دھوکہ میں ڈال کر یہ فساد کرا دیا،- یہ ہے شان نبوت کہ مصائب اور تکالیف پر صرف صبر ہی نہیں بلکہ ہر جگہ شکر کا پہلو نکال لیتے ہیں اسی لئے ان کا کوئی حال ایسا نہیں ہوتا جس میں وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گذار نہ ہوں بخلاف عام انسانوں کے کہ ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں نعمتیں برستی رہیں تو بھی کسی کا ذکر نہ کریں اور کسی وقت کو مصیبت پڑجائے تو اس کو عمر بھر گاتے رہیں قرآن میں اسی کی شکایت کی گئی ہے اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ یعنی انسان اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے،- یوسف (علیہ السلام) نے داستان مصائب کو تین لفظوں میں مختصر کرنے کے بعد فرمایا اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ یعنی میرا پروردگار جو چاہتا ہے اس کی تدبیر لطیف کردیتا ہے بلاشبہ وہ بڑا علم والا حکمت والا ہے
وَرَفَعَ اَبَوَيْہِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا ٠ۚ وَقَالَ يٰٓاَبَتِ ہٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ ٠ۡقَدْ جَعَلَہَا رَبِّيْ حَقًّا ٠ۭ وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْٓ اِذْ اَخْرَجَنِيْ مِنَ السِّجْنِ وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطٰنُ بَيْنِيْ وَبَيْنَ اِخْوَتِيْ ٠ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ ٠ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ ١٠٠- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - خر - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ.- وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] - ( خ ر ر ) خر - ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ - خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- اول ( تاویل)- التأويل من الأول، أي : الرجوع إلى الأصل، ومنه : المَوْئِلُ للموضع الذي يرجع إليه، وذلک هو ردّ الشیء إلى الغاية المرادة منه، علما کان أو فعلا، ففي العلم نحو : وَما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ [ آل عمران 7] ، وفي الفعل کقول الشاعر : وللنّوى قبل يوم البین تأويل وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ [ الأعراف 53] أي : بيانه الذي غایته المقصودة منه . وقوله تعالی: ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [ النساء 59] قيل : أحسن معنی وترجمة، وقیل : أحسن ثوابا في الآخرة .- التاویل ۔ یہ بھی اول سے مشتق ہے جس کے معنی چیز کے اصل کی طرف رجوع ہونے کے ہیں اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موئل ( جائے بازگشت) کہا جاتا ہے ۔ پس تاویل کسی چیز کو اس غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے ۔ چناچہ غایت علمیٰ کے متعلق فرمایا :۔ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ( سورة آل عمران 7) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا گے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور غایت عملی کے متعلق شاعر نے کہا ہے ۔ ، ، وللنوی ٰ قبل یوم البین تاویل ، ، اور جدائی کے دن سے پہلے جدائی کا انجام کا ( اور اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ اور قرآن میں ہے هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ ( سورة الأَعراف 53) اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے ۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وعملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی ۔ اور آیت کریمہ :۔ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ( سورة النساء 59) میں بعض نے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے ( احسن تاویلا ہونا مراد لیا ہے اور بعض نے آخرت میں بلحاظ ثواب کے احسن ہونا مراد لیا ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - سجن - السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33]- ( س ج ن ) السجن - ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- بَدْوُ- خلاف الحضر، قال تعالی: وَجاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ [يوسف 100] أي : البادية، وهي كلّ مکان يبدو ما يعنّ فيه، أي : يعرض، ويقال للمقیم بالبادية : بَادٍ ، کقوله تعالی:- سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] ، لَوْ أَنَّهُمْ بادُونَ فِي الْأَعْرابِ [ الأحزاب 20] .- البدو - یہ حضر کی ضد ہے اور آیت کریمہ :۔ وَجاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ [يوسف 100] آپ کو گاؤں سے یہاں لایا ۔ میں بدو بمعنی بادیۃ ( صحراء) ہے اور ہر وہ مقام جہاں کوئی عمارت وغیر ہ نہ ہوں اور تمام چیزیں ظاہر نظر آتی ہوں اسے بدو ( بادیۃ ) کہا جاتا ہے - نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] .- ( ن زع ) نزع - ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- لطف - اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ- [ الشوری 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، - ( ل ط ف ) اللطیف - ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ - اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ - إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
قول باری (ورفع ابویہ علی العرش۔ اس نے اپنے والدین کو اٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا) کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ حضرت یوسف کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا اور حضرت یعقوب نے ان کی بہن سے نکاح کرلیا تھا۔ سدی سے یہ تفسیر منقول ہے۔ حسن اور ابن اسحاق کا قول ہے کہ ان کی والدہ زندہ تھیں۔ سلیمان اور عبید اللہ بن شداد سے منقول ہے کہ خواب اور اس کی تعبیر کے وقوع پذیر ہونے کی درمیانی مدت چالیس برس تھی۔ حسن سے منقول ہے کہ یہ مدت اسی برس تھی۔ جبکہ ابن اسحاق کا قول ہے کہ یہ مدت اٹھارہ برس تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ انبیاء کے خواب سچے ہوتے ہیں تو پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اس بات کی تسلی کیوں حاصل نہیں کہ یوسف کا دیکھا ایک نہ ایک دن سچا ہوجائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت یوسف نے بچپن میں یہ خواب دیکھا تھا ایک قول کے مطابق محبوب کی کافی عرصے تک نظروں سے دوری غم و حزن کی موجب ہوتی ہے۔ جس طرح کہ دوری آخرت میں یکجا ہونے کے یقین کے باوجود بھی غم کی موجب بن جاتی ہے۔
(١٠٠) اور وہاں پہنچ کر اپنے والدین کو تخت شاہی پر اونچا بٹھایا اور عظمت کے غلبہ کے باعث والدین اور ان کے بھائی سب سجدہ میں جھک گئے اور اس زمانہ میں یہ سجدہ رکوع کے طریقہ پر ہوتا تھا جو کہ سلام کے قائم مقام تھا کہ کم تر باعزت کے اور نوجوان بوڑھے کے اور چھوٹا بڑے کے سامنے جھکتا جیسا کہ عجمی لوگ کرتے تھے حضرت یوسف (علیہ السلام) فرمانے لگے اباجان یہ سجدہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا میرے پروردگار نے اس کو سچا کردکھایا اور مجھ پر قید سے نکلنے کے وقت بھی احسان فرمایا اور مجھے غلامی سے نجات دی اور اس کے بعد بھی کہ شیطان نے حسد میں میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈلوا دیا تھا پھر اللہ تعالیٰ آپ سب کو باہر سے لے آیا بیشک میرا پروردگار جو چاہتا ہے اس کی اچھی تدبیر کردیتا ہے کہ اس طریقے سے ہم سب کو دوبارہ ملانے والا اور وہ ہماری پریشانیوں کو جاننے والا اور ملانے والا اور ملانے اور جدا کرنے میں حکمتوں والا ہے۔
آیت ١٠٠ (وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا)- یہ سجدۂ تعظیمی تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ شریعت محمدی میں جہاں دین کی تکمیل ہوگئی وہاں توحید کا معاملہ بھی آخری درجے میں تکمیل کو پہنچا دیا گیا۔ چناچہ یہ سجدۂ تعظیمی اب حرام مطلق ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں یا قبروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ صریح شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کرام کے حالات و واقعات سے آج اس کے لیے کوئی دلیل اخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔- (وَقَالَ يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ )- حضرت یوسف کے اس خواب کا ذکر آیت ٤ میں ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ اس میں گیارہ بھائی ستاروں کی مانند جبکہ والدین سورج اور چاند کے حکم میں ہیں۔- (وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ )- آپ لوگوں کو صحرا کی پر مشقت زندگی سے نجات دلا کر یہاں مصر کے متمدن اور ترقی یافتہ ماحول میں پہنچا دیا ‘ جہاں زندگی کی ہر سہولت میسر ہے۔ - (اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ )- اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق باریک بینی سے تدبیر کرتا ہے اور اس کی تدبیر بالآخر کامیاب ہوتی ہے۔ اس کے بعد حضرت یوسف اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں :
۷۰ ۔ اس لفظ سجدہ سے بکثرت لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے ، حتی کہ ایک گروہ نے تو اسی سے استدلال کر کے بادشاہوں اور پیروں کے لیے سجدہ تحیۃ اور سجدہ تعظیمی کا جواز نکال لیا ، دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے اس کی یہ توجیہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں صرف سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام تھا ، باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جذبہ سے خالی ہو تو وہ خدا کے سوا دوسروں کو بھی کیا جاسکتا تھا ، البتہ شریعت محمدی میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کردیا گیا ، لیکن ساری غلط فہمیاں دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ لفظ سجدہ کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی سمجھ لیا گیا ، یعنی ہاتھ ، گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا ، حالانکہ سجدہ کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں اور یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے ، قدیم تہذیب میں یہ عام طریقہ تھا ( اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے ) کہ کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ، یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے ، یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے ، اسی جھکاؤ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں ( ) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ، بائیبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم کو ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ طریقہ آداب تہذیب میں شامل تھا ، چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمہ کی طرف تین آدمیوں کو آٹے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے ۔ عربی بائیبل میں اس موقع پر جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: فلما نظر رکض لاستقبالھم من باب الخیمۃ و سجد الی الارض ( تکوین: ۱۸ ۔ ۳ ) پھر جس موقع پر یہ ذکر آتا ہے کہ بنی حت نے حضرت سارہ کے دفن کے لیے قبر کی زمین مفت دی وہاں اردو بائٰیبل کے الفاظ یہ ہیں: ابرھام نے اٹھ کر اور بنی حت کے آگے جو اس ملک کے لوگ ہیں ، آداب بجا لاکر ان سے یوں گفتگو کی ، اور جب ان لوگوں نے قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ ایک پورا کھیت اور ایک غار نذر میں پیش کردیا تب ابرھام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا ، مگر عربی ترجمہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجا لانے اور جھکنے کے لیے سجدہ کرنے ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ فقام ابراہیم و سجد لشعب الارض لبنی حت ( تکوین: ۲۳ ۔ ۷ ) فسجد ابراہیم امام شعب الارض ( ۲۳ ۔ ۱۲ ) انگریزی بائیبل میں ان مواقع پر جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں: اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائیبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جو اب اسلامی اصطلاح کے لفظ سجدہ سے سمجھا جاتا ہے ۔ جن لوگوں نے معاملہ کی اس حقیقت کو جانے بغیر اس کی تاویل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غٰیر اللہ کو تعظیمی سجدہ کرنا یا سجدہ تحیۃ بجالانا جائز تھا انہوں نے محض ایک بے اصل بات کہی ہے ۔ اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے ، تو وہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں رہا ہے ۔ بائیبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب اخسویرس بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامرا بنایا اور حکم دیا کہ سب لوگ اس کو سجدہ تعظیمی بجا لایا کریں تو مرد کی جو بنی اسرائیل کے اولیاء میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا ( آستر ۳: ۱ ۔ ۲ ) تلمود میں اس واقعہ کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے: بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے؟ ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں ، اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہو ، کیا ایک فانی اسنان جو کل خاک میں مل جانے والا ہے اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس کی بڑائی مانی جائے؟ کیا میں اس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ، کل بچہ تھا آج جوان ہے کل بوڑھا ہوگا اور پرسوں مر جائے گا ؟ نہیں میں تو اس ازلی و ابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی و قیوم ہے ۔ وہ جو کائنات کا خالق اور حاکم ہے ، میں تو بس اسی کی تعظیم بجا لاؤں گا ، اور کسی کی نہیں ۔ یہ تقریر نزول قرآن سے تقریبا ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی سجدہ کرنا جائز ہے ۔
62: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے اس آیت کی جو تفسیر مروی ہے، اس کے مطابق ان سب حضرات نے یہ سجدہ یوسف علیہ السلام کے سامنے اﷲ تعالیٰ کا شکر بجالانے کے لئے کیا تھا، یعنی سجدہ اﷲ تعالیٰ ہی کو تھا، البتہ یوسف علیہ السلام کے سامنے اور ان کے مل جانے کی خوشی میں کیا تھا، اِمام رازی رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے۔ البتہ دوسرے مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ عبادت کا نہیں، بلکہ تعظیم کا ویسا ہی سجدہ تھا جیسا فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو کیا تھا، اور وہ حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھا۔ تاہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت میں اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو تعظیمی سجدہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ 63: یعنی اس خواب میں چاند سورج سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کے والدین تھے، اور ستاروں سے مراد ان کے گیارہ بھائی 64: حضرت یوسف علیہ السلام کو مصائب وآلام کے جس طویل دور سے گذرنا پڑا تھا، اگر کوئی اور ہوتا تو والدین سے ملاقات کے بعد اپنی تکلیفوں کو دُکھڑا سناتا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھئے کہ ان مصائب کے بارے میں ایک لفظ کہے بغیر واقعات کے صرف اچھے رُخ کا ذکر کر کے اﷲ تعالیٰ کا شکر اَدا فرمایا۔ قید خانے میں جانے کا نہیں، وہاں سے نکلنے کا ذکر فرمایا، والدین کی جدائی کا بیان کرنے کے بجائے ان کے مصر آجانے کا تذکرہ فرما کر اس پر شکر ادا کیا۔ بھائیوں نے جو ستم ڈھائے تھے، ان کو شیطان کا مچایا ہوا فساد قرار دے کر بات ختم فرما دی۔ اِس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر اِنسان کو چاہئے کہ وہ سخت سے سخت حالات میں بھی واقعات کے مثبت رخ کا تصور کر کے اﷲ تعالیٰ کا شکر گذار ہو۔