نبوت مل چکی ، بادشاہت عطا ہو گئی ، دکھ کٹ گئے ، ماں باپ اور بھائی سب سے ملاقات ہو گئی تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہے کہ جیسے یہ دنیوں نعمتیں تو نے مجھ پر پوری کی ہیں ، ان نعمتوں کو آخرت میں پوری فرما ، جب بھی موت آئے تو اسلام پر اور تیری فرمانبرداری پر آئے اور میں نیک لوگوں میں ملا دیا جاؤں اور نبیوں اور رسولوں میں صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین بہت ممکن ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ دعا بوقت وفات ہو ۔ جیسے کہ بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انتقال کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی اٹھائی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ رفیق اعلی میں ملا دے ۔ تین مرتبہ آپ نے یہی دعا کی ۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اس دعا کا مقصود یہ ہے کہ جب بھی وفات آئے اسلام پر آئے اور نیکوں میں مل جاؤں ۔ یہ نہیں کہ اسی وقت آپ نے یہ دعا اپنی موت کے لئے کی ہو ۔ اس کی بالکل وہی مثال ہے جو کوئی کسی کو دعا دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تجھے اسلام پر موت دے ۔ اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ابھی ہی تجھے موت آ جائے ۔ یا جیسے ہم مانگتے ہیں کہ اللہ ہمیں تیرے دین پر ہی موت آئے یا ہماری یہی دعا کہ اللہ مجھے اسلام پر مار اور نیک کاروں میں ملا ۔ اور اگر یہی مراد ہو کہ واقعی آپ نے اسی وقت موت مانگی تو ممکن ہے کہ یہ بات اس شریعت میں جائز ہو ۔ چنانچہ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جب آپ کے تمام کام بن گئے ، آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں ، ملک ، مال ، عزت ، آبرو ، خاندان ، برادری ، بادشاہت سب مل گئے تو آپ کو صالحین کی جماعت میں پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہی سب سے پہلے اس دعا کے مانگنے والے ہیں ، ممکن ہے اس سے مراد ابن عباس کی یہ ہو کہ اس دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ ہی تھے ۔ جیسے کہ یہ دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ ہی تھے ۔ جیسے کہ یہ دعا رب اففرلی ولوالدی سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام نے مانگی تھی ۔ باوجود اس کے بھی اگر یہی کہا جائے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے موت کی ہی دعا کی تھی تو ہم کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے دین میں جائز ہو ۔ ہمارے ہاں تو سخت ممنوع ہے ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے کوئی کسی سختی اور ضرر سے گھبرا کر موت کی آرزو نہ کرے اگر اسے ایسی ہی تمنا کرنی ضروری ہے تو یوں کہے اے اللہ جب تک میری حیات تیرے علم میں میرے لئے بہتر ہے ، مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم میں میری موت میرے لئے بہتر ہو ، مجھے موت دے دے ۔ بخاری مسلم کی اسی حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی کسی سختی کے نازل ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا ہرگز نہ کرے اگر وہ نیک ہے تو اس کی زندگی اس کی نیکیاں بڑھائے گی اور اگر وہ بد ہے تو بہت ممکن ہے کہ زندگی میں کسی وقت توبہ کی توفیق ہو جائے بلکہ یوں کہے اے اللہ جب تک میرے لئے حیات بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ ۔ مسند احمد میں ہے ہم ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ہمیں وعظ و نصیحت کی اور ہمارے دل گرما دئے ۔ اس وقت ہم میں سب سے زیادہ رونے والے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے ، روتے ہی روتے ان کی زبان سے نکل گیا کہ کاش کہ میں مر جاتا آپ نے فرمایا سعد میرے سامنے موت کی تمنا کرتے ہو ؟ تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے ۔ پھر فرمایا اے سعد اگر تو جنت کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو جس قدر عمر بڑھے گی اور نیکیاں زیادہ ہوں گی ، تیرے حق میں بہتر ہے ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں تم میں سے کوئی ہرگز ہرگز موت کی تمنا نہ کرے نہ اس کی دعا کرے اس سے پہلے کہ وہ آئے ۔ ہاں اگر کوئی ایسا ہو کہ اسے اپنے اعمال کا وثوق اور ان پر یقین ہو ۔ سنو تم میں سے جو مرتا ہے ، اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں ۔ مومن کے اعمال اس کی نیکیاں ہی بڑھاتے ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ یہ حکم اس مصیبت میں ہے جو دنیوی ہو اور اسی کی ذات کے متعلق ہو ۔ لیکن اگر فتنہ مذہبی ہو ، مصیبت دینی ہو ، تو موت کا سوال جائز ہے ۔ جیسے کہ فرعون کے جادو گروں نے اس وقت دعا کی تھی جب کہ فرعون انہیں قتل کی دھمکیاں دے رہا تھا ۔ کہا تھا کہ اللہ ہم کو صبر عطا کر اور ہمیں اسلام کی حالت میں موت دے ۔ اسی طرح حضرت مریم علیہا السلام جب درد زہ سے گھبرا کر کھجور کے تنے تلے گئیں تو بےساختہ منہ سے نکل گیا کہ کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور آج تو لوگوں کی زبان ودل سے بھلا دی گئی ہوتی ۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا جب معلوم ہوا کہ لوگ انہیں زنا کی تہمت لگا رہے ہیں ، اس لئے کہ آپ خاوند والی نہ تھیں اور حمل ٹھر گیا تھا ۔ پھر بچہ پیدا ہوا تھا اور دنیا نے شور مچایا تھا کہ مریم بڑی بدعورت ہے ، نہ ماں بری نہ باپ بدکار ۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی مخلصی کر دی اور اپنے بندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گہوارے میں زبان دی اور مخلوق کو زبردست معجزہ اور ظاہر نشان دکھا دیا صلوات اللہ وسلامہ علیہا ایک حدیث میں ایک لمبی دعا کا ذکر ہے جس میں یہ جملہ بھی ہے کہ اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنہ کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا کرنے سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو چیزوں کو انسان اپنے حق میں بری جانتا ہے ؛ موت کو بری جانتا ہے اور موت مومن کے لئے فتنے سے بہتر ہے ۔ مال کی کمی کو انسان اپنے لئے برائی خیال کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی ہے الغرض دینی فتنوں کے وقت طلب موت جائز ہے ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں جب دیکھا کہ لوگوں کی شرارتیں کسی طرح ختم نہیں ہوتیں اور کسی طرح اتفاق نصیب نہیں ہوتا تو دعا کی کہ الہ العالمین مجھے اب تو اپنی طرف قبض کر لے ۔ یہ لوگ مجھ سے اور میں ان سے تنگ آ چکا ہوں ۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر بھی جب فتنوں کی زیادتی ہوئی اور دین کا سنبھالنا مشکل ہو پڑا اور امیر خراسان کے ساتھ بڑے معرکے پیش آئے تو آپ نے جناب باری سے دعا کی کہ اللہ اب مجھے اپنے پاس بلا لے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ فتنوں کے زمانوں میں انسان قبر کو دیکھ کر کہے گا کاش کہ میں اس جگہ ہوتا کیونکہ فتنوں بلاؤں زلزلوں اور سختیوں نے ہر ایک مفتون کو فتنے میں ڈال رکھا ہوگا ۔ ابن جریر میں ہے کہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے ان بیٹوں کے لئے جن سے بہت سے قصور سرزد ہو چکے تھے ۔ استغفار کیا تو اللہ نے ان کا استغفار قبول کیا اور انہیں بخش دیا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سارا خاندان مصر میں جمع ہو گیا تو برادران یوسف نے ایک روز آپس میں کہا کہ ہم نے ابا جان کو جتنا ستایا ہے ظاہر ہے ہم نے بھائی یوسف پر جو ظلم توڑے ہیں ، ظاہر ہیں ۔ اب گویہ دونوں بزرگ ہمیں کچھ نہ کہیں اور ہماری خطا سے درگزر فرما جائیں ۔ لیکن کچھ خیال بھی ہے کہ اللہ کے ہاں ہماری کیسی درگت بنے گی ؟ آخر یہ ٹھیری کہ آؤ ابا جی کے پاس چلیں اور ان سے التجائیں کریں ۔ چنانچہ سب مل کر آپ کے پاس آئے ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام بھی باپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، آتے ہی انہوں نے بیک زبان کہا کہ حضور ہم آپ کے پاس ایک ایسے اہم امر کے لئے آج آئے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی ایسے اہم کام کے لئے آپ کے پاس نہیں آئے تھے ، ابا جی اور اے بھائی صاحب ہم اس وقت ایسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہمارے دل اس قدر کپکپا رہے ہیں کہ آج سے پہلے ہماری ایسی حالت کبھی نہیں ہوئی ۔ الغرض کچھ اس طرح نرمی اور لجاجت کی کہ دونوں بزرگوں کا دل بہر آیا ظاہر ہے کہ انبیا کے دلوں میں تمام مخلوق سے زیادہ رحم اور نرمی ہوتی ہے ۔ پوچھا کہ آخر تم کیا کہتے ہو اور ایسی تم پر کیا بپتا پڑی ہے ؟ سب نے کہا آپ کو خوب معلوم ہے کہ ہم نے آپ کو کس قدر ستایا ، ہم نے بھائی پر کیسے ظلم وستم ڈھائے ؟ دونوں نے کہا ہاں معلوم ہے پہر ؟ کہا کیا یہ درست ہے کہ آپ دونوں نے ہماری تقصیر معاف فرما دی ؟ ہاں بالکل درست ہے ۔ ہم دل سے معاف کر چکے ۔ تب لڑکوں نے کہا ، آپ کا معاف کر دینا بھی بےسود ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف نہ کر دے ۔ پوچھا اچھا پھر مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ جواب دیا یہی کہ آپ ہمارے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں ، یہاں تک کہ بذریعہ وحی آپ کو معلوم ہو جائے کہ اللہ نے ہمیں بخش دیا تو البتہ ہماری آنکھوں میں نور اور دل میں سرور آ سکتا ہے ورنہ ہم تو دونوں جہاں سے گئے گزرے ۔ اس وقت آپ کھڑے ہو گئے ، قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے ، بڑے ہی خشوع خضوع سے جناب باری میں گڑگڑا گڑا گڑا کر دعائیں شروع کیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام دعا کرتے تھے اور حضرت یوسف آمین کہتے تھے ، کہتے ہیں کہ بیس سال تک دعا مقبول نہ ہوئی ۔ آخر بیس سال تک جب کہ بھائیوں کا خون اللہ کے خوف سے خشک ہونے لگا ، تب وحی آئی اور قبولیت دعا اور بخشش فرزندان کی بشارت سنائی گئی بلکہ یہ بھی فرمایا گیا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تیرے بعد نبوت بھی انہیں ملے گی ۔ یہ قول حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے اور اس میں دو راوی ضعیف ہیں یزید رقاشی ۔ صالح مری ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی موت کے وقت حضرت یوسف علیہ السلام کو وصیت کی کہ مجھے ابراہیم واسحاق کی جگہ میں دفن کرنا ۔ چنانچہ بعد از انتقال آپ نے یہ وصیت پوری کی اور ملک شام کی زمین میں آپ کے باپ دادا کے پاس دفن کیا ۔ علیہم الصلوات والسلام
101۔ 1 یعنی ملک مصر کی فرمانروائی عطا فرمائی، جیسا کہ تفصیل گزری۔ 101۔ 2 حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے، جن پر اللہ کی طرف سے وحی کا نزول ہوتا اور خاص خاص باتوں کا علم انھیں عطا کیا جاتا۔ چناچہ اس علم نبوت کی روشنی میں پیغمبر خوابوں کی تعبیر بھی صحیح طور پر کرلیتے۔ تھے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس فن تعبیر میں خصوصی ملکہ حاصل تھا جیسا کہ قید کے ساتھیوں کے خواب کی اور سات موٹی گایوں کے خواب کی تعبیر پہلے گزری۔ 101۔ 3 اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر جو احسانات کیے، انھیں یاد کرکے اور اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کا تذکرہ کرکے دعا فرما رہے ہیں کہ جب مجھے موت آئے تو اسلام کی حالت میں آئے اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ اس سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے آباواجداد، حضرت ابراہیم و اسحاق (علیہا السلام) وغیرہ مراد ہیں۔ بعض لوگوں کو اس دعا سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے موت کی دعا مانگی حالانکہ یہ موت کی دعا نہیں ہے آخر وقت تک اسلام پر استقامت کی دعا ہے۔
[٩٦] سیدنا یوسف (علیہ السلام) کی اپنے حق میں دعا :۔ باپ اور بھائیوں سے خطاب کے بعد سیدنا یوسف اسی ہستی کی طرف متوجہ ہوئے جس نے آپ پر یہ سب احسانات فرمائے تھے۔ پہلے ان احسانات کا اعتراف کیا جن کی بنا پر آپ کو ہر طرح کی دنیوی اور دینی بھلائیاں میسر آئی تھیں پھر اس کی حمد و ثنا اور اپنے لیے دعا میں مشغول ہوگئے اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی اللہ کا بندہ جس قدر اللہ کا احسان شناس ہوتا ہے۔ اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اس کا دل اللہ کی عظمت اور اس کی مہربانیوں پر شکریہ ادا کرنے کے لیے جھک جاتا ہے۔ اپنے پروردگار سے اس کی محبت اور ایمان میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ حمد و ثنا کے بعد دوبارہ آپ نے اعتراف فرمایا کہ تو ہی میرا کارساز، حامی، سرپرست اور نگہبان ہے۔ لہذا مجھے اپنی فرمانبرداری پر قائم رکھنا۔ مجھے موت آئے تو تیری فرمانبرداری کی حالت میں آئے اور مرنے کے بعد مجھے نیک لوگوں یعنی میرے آباؤ و اجداد سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) ، سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب کے ساتھ ملا دینا، نیز اس سے تمام نیک لوگ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں، جیسا کہ الفاظ کے عموم سے واضح ہوتا ہے۔- جب تک سیدنا یعقوب زندہ رہے۔ سیدنا یوسف حکومت کرتے رہے۔ لیکن جب والد فوت ہوگئے تو آپ اپنی مرضی سے اقتدار سے دست بردار ہوگئے سیدنا یعقوب نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو جو وصیتیں کی تھیں ان کا ذکر سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ منجملہ ایک یہ بھی تھی کہ میری میت کو شام لے جاکر وہاں آباؤ اجداد کے ساتھ دفن کرنا۔ چناچہ سیدنا یوسف خود انھیں دفن کرنے کے لیے شام آئے اور دفن کے بعد واپس چلے گئے۔ ایک دفعہ آپ (سیدنا یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا جب بنی اسرائیل مصر سے نکل جائیں گے، اس وقت وہ میری میت کو ساتھ لے جائیں چناچہ تقریباً پانچ سو سال بعد جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے تو سیدنا یوسف کا تابوت بھی ساتھ لے گئے۔- سیدنا یوسف کا زلیخا سے نکاح کا افسانہ :۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ زلیخا بعد میں مسلمان ہوگئی تھی اور سیدنا یوسف نے ان سے نکاح کرلیا تھا۔ لیکن جس قدر تکلف اور تصنع سے اسرائیلی روایات سے کھینچ تان کر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں حقیقت کا حصہ کس قدر ہوسکتا ہے۔ قرآن و احادیث اس بارے میں مطلق خاموش ہیں۔ ویسے بھی کسی پیغمبر کے شایان شان نہیں ہوتا کہ وہ زلیخا جیسی حیا باختہ اور مکرو فریب کرنے والی عورت سے نکاح کرے۔
رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ ۔۔ : پچھلی آیت میں یوسف (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کیا ہے، یہاں سے وہ اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت ربوبیت کے ساتھ مخاطب کرکے اور مزید نعمتوں کا ذکر کرکے اس چیز کی دعا کرتے ہیں جو ان تمام نعمتوں سے بڑی ہے اور اتنی نعمتوں کے باوجود یوسف (علیہ السلام) سب سے زیادہ اسی کے متعلق فکر مند ہیں اور فی الواقع اصل فکر اسی کی ہونا لازم ہے۔ عرض کیا اے ہر لمحے میری نگہداشت کر کے، میری ہر ضرورت پوری کر کے مجھے پالنے والے تو نے مجھے حکومت میں سے حصہ بھی دیا ( ” مِنْ “ بمعنی بعض ہے، کیونکہ وہ وزیر خزانہ تھے اور اگر کوئی بادشاہ ہے تو اس کے پاس بھی بادشاہی کا ایک حصہ ہی ہے، کل بادشاہی تو ایک ہی ہستی کی ہے۔ ” تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ “ ) اور مجھے باتوں کی اصل حقیقت سمجھنے میں سے کچھ سکھایا۔ یہاں بھی ” مِن “ بعض کے معنی میں ہے، کیونکہ ہر بات کی اصل حقیقت تو ایک ہستی ہی جانتی ہے۔ ” وَمَایَعْلَمُ تَاوِیلہ اِلَّا اللّٰه “ ، یہاں ” تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ “ میں خوابوں کی تعبیر، مقدمات کے فیصلے، وحی الٰہی کا علم سب شامل ہیں) ، دنیا و آخرت میں میرا یارومددگار صرف تو ہے، میری آخری درخواست یہ ہے کہ جب تو مجھے فوت کرے تو میں اس وقت تیرا فرماں بردار ہوں، کیونکہ ہمیشہ کی زندگی کا سارا دارو مدار اسی پر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِِنَّمَا الْأَعْمَال بالْخَوَاتِیْمِ ) [ بخاري، الرقاق، باب الأعمال بالخواتیم ۔۔ : (٦٤٩٣) ] ” اعمال کا دارومدار ان کے خاتموں ہی پر ہے۔ “ اس میں ہمارے لیے سبق ہے کہ آدمی دنیا کے جتنے بھی اونچے مرتبے پر پہنچ جائے اسے ہر وقت فکر آخرت ہی کی لازم ہے، کیونکہ وہ باقی ہے اور دنیا کا ہر منصب فانی ہے۔- وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ : صالحین میں عام صالحین کے ساتھ اعلیٰ درجے کے صالح، یعنی انبیاء بھی داخل ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ ) [ آل عمران : ٣٩ ] ” اور وہ سردار اور اپنے آپ پر بہت ضبط رکھنے والا اور نبی ہوگا، صالحین (نیک لوگوں) میں سے۔ “ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( مَا مِنْ نَبِيٍّ یَمْرَضُ إِلاَّ خُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَکَانَ فِيْ شَکْوَاہُ الَّذِيْ قُبِضَ فِیْہِ أَخَذَتْہٗ بُحَّۃٌ شَدِیْدَۃٌ، فَسَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ : ( مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ) فَعَلِمْتُ أَنَّہٗ خُیِّرَ ) [ بخاری، التفسیر، باب ( فأولئک مع الذین ۔۔ ) : ٤٥٨٦ ]” کوئی نبی مرض الموت میں بیمار نہیں ہوتا حتیٰ کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس بیماری میں فوت ہوئے، آپ کو گلے کی سخت تکلیف ہوگئی تو میں نے آپ سے سنا، آپ کہہ رہے تھے : ( مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ ) [ النساء : ٦٩ ] ” میں ان کا ساتھ چاہتا ہوں جن پر اللہ نے انعام فرمایا، نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالح لوگوں میں سے “ تو میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ “ معلوم ہوا قیامت کے دن صالحین کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش اور دعا صرف یوسف (علیہ السلام) ہی نے نہیں بلکہ ساری اولاد آدم کے سردار نے بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بےپایاں فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمت عطا فرمائے۔ (آمین)- ” تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا “ سے بعض لوگوں نے دلیل پکڑی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے موت کی دعا کی، اس لیے موت کی دعا جائز ہے، حالانکہ یہ مطلب درست نہیں۔ کسی بھی امر یا نہی کے ساتھ کوئی قید مثلاً حال یا صفت وغیرہ ہو تو وہ قید مقصود ہوتی ہے، مثلاً ” لَا تَشْرَبْ قَاءِمًا “ کے یہ معنی نہیں کہ مت پیو، بلکہ معنی یہ ہے کہ کھڑے ہو کر مت پیو اور ” کُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ “ میں یہ حکم نہیں کہ کھانا کھاؤ، بلکہ یہ ہے کہ کھاؤ تو دائیں ہاتھ سے اور ادھر ادھر سے نہیں بلکہ اپنے سامنے سے کھاؤ۔ اسی طرح ” تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا “ کا معنی ہے کہ مجھے جب بھی فوت کرے مسلم (فرماں بردار) ہونے کی حالت میں فوت کرنا۔ اسی طرح ” فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ “ میں نماز اور قربانی کا حکم نہیں، وہ دوسری بہت سی آیات میں موجود ہے، بلکہ مراد ہے کہ نماز پڑھو تو صرف اپنے رب کے لیے اور اسی طرح قربانی بھی اسی کے لیے کرو، اس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔ - انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا کسی تکلیف کی وجہ سے ہرگز نہ کرے، جو اس پر آئے، اگر اسے ضرور ہی یہ تمنا کرنی ہے تو یوں کہے : ( اَللّٰھُمَّ أَحْیِنِيْ مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِّيْ وَتَوَفَّنِيْ إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِّيْ ) [ بخاری، المرض، باب تمنی المریض الموت : ٥٦٧١۔ مسلم : ٢٦٨٠ ] ” اے اللہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہے اور مجھے اس وقت فوت کرلے جب موت میرے لیے بہتر ہو۔ “ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی تکلیف یا بیماری کی وجہ سے موت کی دعا کرنا منع ہے، البتہ جب دین میں فتنے کا خوف ہو تو یہ دعا کرسکتا ہے، جیسا کہ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے محمد جب تو نماز پڑھے تو یوں کہا کر : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَ إِذَا أَرَدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِيْ إِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ ) [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة صٓ : ٣٢٣٣، و صححہ الألبانی ] ” اے اللہ میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے کا اور مساکین کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور جب تو اپنے بندوں کے متعلق کسی فتنے (آزمائش) کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا ہوئے بغیر اپنے پاس فوت کرلے۔ “ اور جیسا کہ مریم [ نے کہا : (يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا ) [ مریم : ٢٣ ] ” اے کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوتی۔ “ حافظ ابن کثیر نے یہاں علی (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنی امارت کے آخر وقت میں جب دیکھا کہ معاملات ان کے حق میں جمع نہیں ہو رہے اور معاملہ زیادہ سخت ہوتا جاتا ہے تو کہا : ” اَللّٰھُمَّ خُذْنِیْ إِلَیْکَ فَقَدْ سَءِمْتُھُمْ وَ سَءِمُوْنِیْ “ ” اے اللہ مجھے اپنے پاس لے جا، کیونکہ میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ لوگ مجھ سے اکتا گئے ہیں۔ “ اور امام بخاری پر جب آزمائشیں آئیں اور امیر خراسان کے ساتھ ان کا معاملہ بگڑا تو انھوں نے دعا کی : ” اَللّٰھُمَّ تَوَفَّنِيْ إِلَیْکَ “ ” اے اللہ مجھے اپنے پاس لے جا۔ “ ان تاریخی روایات کی سند حافظ ابن کثیر نے ذکر نہیں فرمائی۔ (واللہ اعلم)- 3 یہاں یوسف (علیہ السلام) کا قصہ ختم ہوا۔ یہ واحد قصہ ہے جو قرآن مجید میں اکٹھا ایک ہی مقام پر بیان کیا گیا ہے، مگر لطف یہ ہے کہ اس میں سے ہر وہ تفصیل ترک کردی گئی ہے جس کی اس موقع پر ہدایت کے مقصد کے لیے ضرورت نہیں تھی۔ اب آگے اس قصے سے حاصل ہونے والے چند اسباق ذکر ہوں گے۔
خلاصہ تفسیر :- (اس کے بعد سب ہنسی خوشی رہتے رہے یہاں تک کہ یعقوب (علیہ السلام) کی عمر اختتام پر پہنچی اور بعد وفات ان کی وصیت کے مطابق ملک شام میں لے جا کر اپنے بزرگوں کے پاس دفن کئے گئے پھر یوسف (علیہ السلام) کو بھی آخرت کا اشتیاق ہوا اور دعا کی کہ) اے میرے پروردگار آپ نے مجھ کو (ہر طرح کی نعمتیں دیں، ظاہری بھی باطنی بھی، ظاہری یہ کہ مثلا) سلطنت کا بڑاحصہ دیا، اور (باطنی یہ کہ مثلا) مجھ کو خوابوں کی تعبیر دینا تعلیم فرمایا (جو کہ علم عظیم ہے خصوصاً جب کہ وہ یقینی ہو جو موقوف ہے وحی پر پس اس کا وجود مستلزم ہوگا عطاء نبوت کو) اے خالق آسمانوں اور زمین کے آپ میرے کارساز ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی (پس جس طرح دنیا میں میرے سارے کام بنا دیئے کہ سلطنت دی، علم دیا، اسی طرح آخرت کے کام بھی بنا دیجئے کہ) مجھ کو فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے اٹھا لیجئے اور خاص نیک بندوں میں شامل کر دیجئے (یعنی میرے بزرگوں میں جو انبیاء عظام ہوئے ہیں ان میں مجھ کو بھی پہنچا دیجئے)- معارف و مسائل :- سابقہ آیات میں تو والد بزرگوار سے خطاب تھا اس کے بعد جبکہ والدین اور بھائیوں کی ملاقات سے ایک اہم مقصد حاصل ہو کر سکون ملا تو براہ راست حق تعالیٰ کی حمد وثناء اور دعاء میں مشغول ہوگئے، فرمایا (آیت) رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۣاَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ یعنی اے پروردگار آپ نے ہی مجھ کو سلطنت کا بڑا حصہ دیا اور مجھ کو خوابوں کی تعبیر دینا تعلیم فرمایا، اے آسمان و زمین کے خالق آپ ہی دنیا وآخرت میں میرے کارساز ہیں مجھ کو پوری فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے اٹھا لیجئے اور مجھ کو کامل نیک بندوں میں شامل رکھئے کامل نیک بندے انبیاء (علیہم السلام) ہو سکتے ہیں جو ہر گناہ سے معصوم ہیں (مظہری)- اس دعاء میں حسن خاتمہ کی دعاء خاص طور پر قابل نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کا رنگ یہ ہوتا ہے کہ کتنے ہی درجات عالیہ دنیا و آخرت کے ان کو نصیب ہوں اور کتنے ہی جاہ و منصب ان کے قدموں میں ہوں وہ کسی وقت ان پر مغرور نہیں ہوتے بلکہ ہر وقت اس کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ حالات سلب یا کم نہ ہوجائیں اس کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ظاہری اور باطنی نعمتیں موت تک برقرار رہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا رہے یہاں تک حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عجیب و غریب قصہ اور اس کے ضمن میں آئی ہوئی ہدایات کا سلسلہ جو قرآن میں مذکور ہے پورا ہوگیا اس کے بعد کا قصہ قرآن کریم یا کسی حدیث مرفوع میں منقول نہیں اکثر علماء تفسیر نے تاریخی یا اسرائیلی روایات کے حوالہ سے نقل کیا ہے تفسیر ابن کثیر میں حضرت حسن (رح) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو جس وقت بھائیوں نے کنویں میں ڈالا تھا تو ان کی عمر سترہ سال کی تھی پھر اسی سال والد سے غائب رہے اور والدین کی ملاقات کے بعد تئیس سال زندہ رہے اور ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پائی - اور محمد بن اسحاق نے فرمایا کہ اہل کتاب کی روایات میں ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کی مفارقت کا زمانہ چالیس سات تھا پھر یعقوب (علیہ السلام) مصر میں تشریف لانے کے بعد یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ سترہ سال زندہ رہے اس کے بعد ان کی وفات ہوگئی،- تفسیر قرطبی میں اہل تاریخ کے حوالہ سے مذکور ہے کہ مصر میں چوبیس سال رہنے کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی و فات ہوئی اور وفات سے پہلے یوسف (علیہ السلام) کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ میری لاش کو میرے وطن بھیج کر میرے والد اسحاق (علیہ السلام) کے پاس دفن کیا جائے ،- سعید بن جبیر (رح) نے فرمایا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو سال کی لکڑی کے تابوت میں رکھ کر بیت المقدس کی طرف منتقل کیا گیا اسی وجہ سے عام یہود میں یہ رسم چل گئی کہ اپنے مردوں کو دور دوسرے بیت المقدس میں لے جا کر دفن کرتے ہیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی عمر وفات کے وقت ایک سو سینتالیس سال تھی - حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ یعقوب (علیہ السلام) مع اپنی اولاد کے جب مصر میں داخل ہوئے تو ان کی تعداد ترانوے مرد و عورت پر مشتمل تھی اور جب یہ اولاد یعقوب یعنی بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مصر سے نکلے تو ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تھی (قرطبی و ابن کثیر) یہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ سابق عزیز مصر کے انتقال کے بعد شاہ مصر نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شادی زلیخا کے ساتھ کرا دی تھی - تورات اور اہل کتاب کی تاریخ میں ہے کہ ان سے یوسف (علیہ السلام) کے دو لڑکے افرائیم اور منشا اور ایک لڑکی رحمت بنت یوسف پیدا ہوئے رحمت کا نکاح حضرت ایوب (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا اور افرائیم کی اولاد میں یوشع بن نون پیدا ہوئے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رفیق تھے (مظہری )- حضرت یوسف (علیہ السلام) کا انتقال ایک سو بیس سال کی عمر میں ہوا اور دریائے نیل کے کنارے پر دفن کئے گئے - ابن اسحاق نے حضرت عروہ ابن زبیر (رض) کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکل جائیں تو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ یوسف (علیہ السلام) کی لاش کو مصر میں نہ چھوڑیں اس کو اپنے ساتھ لے کر ملک چلے جائیں اور ان کے آباء و اجداد کے پاس دفن کریں اس کو اپنے ساتھ لے کر ملک شام چلے جائیں اور ان کے آباء و اجداد کے پاس دفن کریں اس حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تفتیش کر کے ان کی قبر دریافت کی جو ایک سنگ مرمر کے تابوت میں تھی اس کو اپنے ساتھ ارض کنعان فلسطین میں لے گئے اور حضرت اسحاق اور یعقوب (علیہما السلام) کے برابر دفن کردیا (مظہری)- حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بعد قوم عمالیق کے فراعنہ مصر پر مسلط ہوگئے اور بنواسرائیل ان کی حکومت میں رہتے ہوئے دین یوسف (علیہ السلام) پر قائم رہے مگر ان کو غیر ملکی سمجھ کر طرح طرح کی ایذائیں دی جانے لگیں یہاں تک کہ حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس عذاب سے نکالا (تفسیر مظہری)- ہدایات اور احکام :- آیات مذکورہ میں ایک مسئلہ تو یہ معلوم ہوا کہ والدین کی تعظیم و تکریم واجب ہے جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ سے ثابت ہوا، دوسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کی شریعت میں سجدہ تعظیمی جائز تھا اسی لئے والدین اور بھائیوں نے سجدہ کیا مگر شریعت محمدیہ میں سجدہ کو خاص عبادت کی علامت قرار دے کر غیر اللہ کے لئے حرام قرار دیا گیا قرآن مجید میں فرمایا لَا تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ اور حدیث میں ہے کہ حضرت معاذ (رض) جب ملک شام گئے اور وہاں دیکھا کہ نصاریٰ اپنے بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں تو واپس آ کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سجدہ کرنے لگے آپ نے منع فرمایا اور فرمایا کہ اگر میں کسی کو سجدہ کرنا جائز سمجھتا تو عورت کو کہتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے اسی طرح حضرت سلمان فارسی (رض) نے آپ کو سجدہ کرنا چاہا تو آپ نے فرمایا لا تسجد لی یا سلمان واسجد للحی الذی لایموت یعنی اے سلمان مجھے سجدہ نہ کرو بلکہ سجدہ صرف اس ذات کو کرو جو حی وقیوم ہے جس کو کبھی فنا نہیں (ابن کثیر)- اس سے معلوم ہوا کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تعظیمی سجدہ جائز نہیں تو اور کسی بزرگ یا پیر کے لئے کیسے جائز ہوسکتا ہے - هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ سے معلوم ہوا کہ خواب کی تعبیر بعض اوقات زمانہ دراز کے بعد ظاہر ہوتی ہے جیسے اس واقعہ میں چالیس یا اسی سال کے بعد ظہور ہوا (ابن جریر وابن کثیر)- وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْ سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی مرض یا مصیبت میں مبتلا ہو پھر اس سے نجات ہوجائے تو سنت پیغمبری یہ ہے کہ نجات پر شکر ادا کرے اور مرض و مصیبت کے ذکر کو بھول جائے،- اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ فرماتے ہیں اس کی ایسی لطیف اور مخفی تدبیریں اور سامان کردیتے ہیں کہ کسی کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا،- تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا میں یوسف (علیہ السلام) نے ایمان واسلام پر موت کی دعاء مانگی ہے اس سے معلوم ہوا کہ خاص حالات میں موت کی دعاء کرنا ممنوع نہیں اور احادیث صحیہ میں جو موت کی تمنا کو منع فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی تکلیفوں سے گھبرا کر بےصبری سے موت مانگنے لگے یہ درست نہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے اگر کہنا ہی ہے تو یوں کہے کہ یا اللہ مجھے جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے اس وقت تک زندہ رکھ اور جب موت بہتر ہو تو مجھے موت دیدے،
رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ٠ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ۣ اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ ٠ۚ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ١٠١- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - اول ( تاویل)- التأويل من الأول، أي : الرجوع إلى الأصل، ومنه : المَوْئِلُ للموضع الذي يرجع إليه، وذلک هو ردّ الشیء إلى الغاية المرادة منه، علما کان أو فعلا، ففي العلم نحو : وَما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ [ آل عمران 7] ، وفي الفعل کقول الشاعر : وللنّوى قبل يوم البین تأويل وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ [ الأعراف 53] أي : بيانه الذي غایته المقصودة منه . وقوله تعالی: ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [ النساء 59] قيل : أحسن معنی وترجمة، وقیل : أحسن ثوابا في الآخرة .- التاویل ۔ یہ بھی اول سے مشتق ہے جس کے معنی چیز کے اصل کی طرف رجوع ہونے کے ہیں اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موئل ( جائے بازگشت) کہا جاتا ہے ۔ پس تاویل کسی چیز کو اس غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے ۔ چناچہ غایت علمیٰ کے متعلق فرمایا :۔ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ( سورة آل عمران 7) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا گے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور غایت عملی کے متعلق شاعر نے کہا ہے ۔ ، ، وللنوی ٰ قبل یوم البین تاویل ، ، اور جدائی کے دن سے پہلے جدائی کا انجام کا ( اور اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ اور قرآن میں ہے هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ ( سورة الأَعراف 53) اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے ۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وعملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی ۔ اور آیت کریمہ :۔ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ( سورة النساء 59) میں بعض نے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے ( احسن تاویلا ہونا مراد لیا ہے اور بعض نے آخرت میں بلحاظ ثواب کے احسن ہونا مراد لیا ہے ۔- فطر - أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، يقال : فَطَرَ فلان کذا فَطْراً ، وأَفْطَرَ هو فُطُوراً ، وانْفَطَرَ انْفِطَاراً. قال تعالی: هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] ، أي : اختلال ووهي فيه، وذلک قد يكون علی سبیل الفساد، وقد يكون علی سبیل الصّلاح قال : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل 18] . وفَطَرْتُ الشاة : حلبتها بإصبعین، وفَطَرْتُ العجین : إذا عجنته فخبزته من وقته، ومنه : الفِطْرَةُ. وفَطَرَ اللہ الخلق، وهو إيجاده الشیء وإبداعه علی هيئة مترشّحة لفعل من الأفعال، فقوله : فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم 30] ، فإشارة منه تعالیٰ إلى ما فَطَرَ. أي : أبدع ورکز في النّاس من معرفته تعالی، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] ، وقال : الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء 56] ، وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه 72] ، أي : أبدعنا وأوجدنا . يصحّ أن يكون الِانْفِطَارُ في قوله : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل 18] ، إشارة إلى قبول ما أبدعها وأفاضه علینا منه . والفِطْرُ : ترک الصّوم . يقال : فَطَرْتُهُ ، وأَفْطَرْتُهُ ، وأَفْطَرَ هو وقیل للکمأة : فُطُرٌ ، من حيث إنّها تَفْطِرُ الأرض فتخرج منها .- ( ف ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فطر فلانا کذا فطرا کسی چیز کو پھاڑ ڈالنا ۔ افطر ھو فطورا روزہ افطار کرنا انفطر انفطار پھٹ جانا اور آیت کریمہ : ۔ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] بھلا تجھ کو کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں فطور کے معنی خلل اور شگاف کے ہیں اور یہ پھاڑ نا کبھی کیس چیز کو بگاڑنے اور کبھی مبنی بر مصلحت ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل 18]( اور ) جس سے آسمان پھٹ جائیگا یہ اس کا وعدہ ( پورا ) ہو کر رہے گا ۔ فطر ت الشاۃ : میں نے بکری کو دو انگلیوں سے دو ہا فطرت العجین : آٹا گوندھ کر فورا روتی پکانا ۔ ( اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ : ۔ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم 30] اور خدا کی فطرت کو، جس پر لوگوں کو پیدا کیا ( اختیار کئے رہو۔ میں اس معرفت الہی کی طرف اشارہ ہے جو تخلیق طور پر انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے لہذا فطرۃ اللہ سے معرفت الہیٰ کی استعداد مراد ہے جو انسان کی جبلت میں پائی جاتی ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف 87] اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو بول اٹھیں گے خدا نے ۔ میں اسی قوت معرفت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء 56] جس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه 72] اور جن نے ہم کو پیدا کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل 18] اور جس سے آسمان پھٹ جائے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ انفطار سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر فیضان ہوگا ۔ وہ اسے قبول کرلے گا الفطر روزہ افطار کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ فطر تہ وافطرتہ افطرھو یعنی لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور گما ۃ کھمبی ) کو فطر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- لحق - لَحِقْتُهُ ولَحِقْتُ به : أدركته . قال تعالی: بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة 3] - ( ل ح ق )- لحقتہ ولحقت بہ کے معنی کیس کو پالینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ۔ ( اور شہید ہو کر ) ان میں شامل نہ ہو سکے ۔ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة 3] اور ان میں سے دوسرے لوگوں کی طرف بھی ( ان کو بھیجا ہے جو ابھی ان مسلمان سے نہیں ملے ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔
(١٠١) اے میرے پروردگار آپ نے مجھ کو ملک مصر کی سلطنت عطا کی جس کا رقبہ چالیس فرسخ (فاصلے کا ایک ماپ جو اٹھارہ ہزار فٹ ہوتا ہے) اور مجھ کو خوابوں کی تعبیر دنیاکا علم دیا اے آسمانوں اور زمین کے خالق آپ ہی میرے پروردگار خالق رازق ومحافظ ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، مجھے عبادت توحید میں پورے خلوص کے ساتھ دنیا سے اٹھائیے اور میرے آباؤ اجداد مرسلین کے ساتھ جو جنت میں ہیں شامل کردیجیے۔
۷۱ ۔ یہ چند فقرے جو اس موقع پر حضرت یوسف کی زبان سے نکلے ہیں ہمارے سامنے ایک سچے مومن کی سیرت کا عجیب دلکش نقشہ پیش کرتے ہیں ، صحرائی گلہ بانوں کے خاندان کا ایک فرد جس کو خود اس کے بھائیوں نے حسد کے مارے ہلاک کردینا چاہا تھا زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا ہوا بالاخر دنیوی عروج کے انتہائی مقام پر پہنچ گیا ہے ، اس کے قحط زدہ اہل خاندان اب اس کے دست نگر ہوکر اس کے حضور آئے ہیں اور وہ حاسد بھائی بھی جو اس کو مار ڈالنا چاہتے تھے ، اس کے تخت شاہی کے سامنے سرنگوں کھڑے ہیں ۔ یہ موقع دنیا کے عام دستور کے مطابق فخر جتانے ، ڈینگیں مارنے ، گلے اور شکوے کرنے ، اور طعن و ملامت کے تیر برسانے کا تھا ، مگر ایک سچا خدا پرست انسان اس موقع پر کچھ دوسرے ہی اخلاق ظاہر کرتا ہے ، وہ اپنے اس عروج پر فخرنے کے بجائے اس خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے جس نے اسے یہ مرتبہ عطا کیا ، وہ خاندان والوں کو اس ظلم و ستم پر کوئی ملامت نہیں کرتا جو وائل عمر میں انہوں نے اس پر کیے تھے ، اس کے برعکس وہ اس بات پر شکر ادا کرتا ہے کہ خدا نے اتنے دنوں کی جدائی کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے ملایا ۔ وہ حاسد بھائیوں کے خلاف شکایت کا ایک لفظ زبان سے نہیں نکالتا ، حتی کہ یہ بھی نہیں کہتا کہ انہوں نے میرے ساتھ برائی کی تھی ۔ بلکہ ان کی صفائی خود ہی اس طرح پیش کرتا ہے کہ شیطان نے میرے اور ان کے درمیان برائی ڈال دی تھی اور پھر اس برائی کے بھی برے پہلو چھوڑ کر اس کا یہ اچھا پہلو پیش کرتا ہے کہ خدا جس مرتبے پر مجھے پہنچانا چاہتا تھا اس کے لیے یہ لطیف تدبیر اس نے فرمائی ، یعنی بھائیوں سے شیطان نے جو کچھ کرایا اسی میں حکمت الہی کے مطابق میرے لیے خیر تھی ، چند الفاظ میں یہ سب کچھ کہہ جانے کے بعد وہ بے اختیار اپنے خدا کے آگے جھک جاتا ہے ، اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے بادشاہی دی اور وہ قابلیتیں بخشیں جن کی بدولت میں قید خانے میں سڑنے کے بجائے آج دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر فرماں روائی کررہا ہوں ، اور آخر میں خدا سے کچھ مانگتا ہے تو یہ کہ دنیا میں جب تک زندہ رہوں تیری بندگی و غلامی پر ثابت قدم رہوں ، اور جب اس دنیا سے رخصت ہوں تو مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دیا جائے کسی قدر بلند اور کتنا پاکیزہ ہے یہ نمونہ سیرت ۔ حضرت یوسف کی اس قیمتی تقریر نے بھی بائیبل اور تلمود میں کوئی جگہ نہیں پائی ہے ، حیرت ہے کہ یہ کتابیں قصوں کی غیر ضروری تفصیلات سے تو بھری پڑی ہیں مگر جو چیزیں کوئی اخلاقی قدر و قیمت رکھتی ہیں اور جن سے انبیاء کی اصلی تعلیم اور ان کے حقیقی مشن اور ان کی سیرتوں کے سبق آموز پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے ان سے ان کتابوں کا دامن خالی ہے ۔ یہاں یہ قصہ ختم ہورہا ہے اس لیے ناظرین کو پھر اس حقیقت پر متنبہ کردینا ضروری ہے کہ قصہ یوسف علیہ السلام کے متعلق قرآن کی یہ روایت اپنی جگہ ایک مستقل روایت ہے ، بائیبل یا تلمود کا چربہ نہیں ہے ، تینوں کتابوں کا متقابل مطالعہ کرنے سے یہ بات بات واضح ہوجاتی ہے کہ قصے کے متعدد اہم اجزاء میں قرآن کی روایت ان دونوں سے مختلف ہے ۔ بعض چیزیں قرآن ان سے زائد بیان کرتا ہے ، بعض ان سے کم ، اور بعض میں ان کی تردید کرتا ہے ، لہذا کسی کے لیے کہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قصہ سنایا وہ بنی اسرائیل سے سن لیا ہوگا ۔