حضرت یوسف علیہ السلام کا تمام وکمال قصہ بیان فرما کر کس طرح بھائیوں نے ان کے ساتھ برائی کی اور کس طرح ان کی جان تلف کرنی چاہی اور اللہ نے انہیں کس طرح بچایا اور کس طرح اوج وترقی پر پہنچایا اب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ یہ اور اس جیسی اور چیزیں سب ہماری طرف سے تمہیں دی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان سے نصیحت حاصل کریں اور آپ کے مخالفین کی بھی آنکھیں کھلیں اور ان پر ہماری حجت قائم ہو جائے تو اس وقت کچھ ان کے پاس تھوڑے ہی تھا ۔ جب وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ کھلا داؤ فریب کر رہے تھے ۔ کنویں میں ڈالنے کے لئے سب مستعد ہو گئے تھے ۔ صرف ہمارے بتانے سکھانے سے تجھے یہ واقعات معلوم ہوئے ۔ جیسے حضرت مریم علیہ السلام کے قصے کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ جب وہ قلمیں ڈال رہے تھے کہ مریم کو کون پالے تو اس وقت ان کے پاس نہ تھا ۔ الخ ۔ حضرت موسیٰ کو اپنی باتیں سمجھا رہے تھے تو وہاں نہ تھا ۔ اسی طرح اہل مدین کا معاملہ بھی تجھ سے پوشیدہ ہی تھا ۔ ملاء اعلٰی کی آپس کی گفتگو میں تو موجود نہ تھا ۔ یہ سب ہماری طرف سے بذریعہ وحی تجھے بتایا گیا یہ کھلی دلیل ہے تیری رسالت ونبوت کی کہ گزشتہ واقعات تو اس طرح کہول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے کہ گویا تو نے آپ بچشم خود دیکھے ہیں اور تیرے سامنے ہی گزرے ہیں ۔ پھر یہ واقعات نصیحت وعبرت حکمت وموعظت سے پر ہیں ، جن سے انسانوں کی دین و دنیا سنور سکتی ہے ۔ باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ایمان سے کورے رہے جاتے ہیں گو تو لاکھ چاہے کہ یہ مومن بن جائیں اور آیت میں ہے آیت ( وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ ١١٦ ) 6- الانعام:116 ) اگر تو انسانوں کی اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکا اور بھٹکا دیں گے ۔ بہت سے واقعات کے بیان کے بعد ہر ایک واقعہ کے ساتھ قرآن نے فرمایا ہے کہ گو اس میں بڑا زبردست نشان ہے لیکن پھر بھی اکثر لوگ ماننے والے نہیں ۔ آپ جو کچھ بھی جفاکشی کر رہے ہیں اور اللہ کی مخلوق کو راہ حق دکھا رہے ہیں ، اس میں آپ کا اپنا دنیوی نفع ہرگز مقصود نہیں ، آپ ان سے کوئی اجرت اور کوئی بدلہ نہیں چاہتے بلکہ یہ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے مخلوق کے نفع کے لئے ہے ۔ یہ تو تمام جہان کے لئے سراسر ذکر ہے کہ وہ راہ راست پائیں نصیحت حاصل کریں عبرت پکڑیں ہدایت ونجات پائیں ۔
102۔ 1 یعنی یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ، جب کہ انھیں کنوئیں میں پھینک آئے یا مراد حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہیں یعنی ان کو یہ کہہ کر کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے اور یہ اس کی قمیص ہے، جو خون میں لت پت ہے ان کے ساتھ فریب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر بھی اس بات کی نفی فرمائی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کا علم تھا لیکن یہ نفی مطلق علم کی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو آگاہ فرمایا دیا۔ یہ نفی مشاہد کی ہے کہ اس وقت آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ اسی طرح ایسے لوگوں سے بھی آپ کا رابطہ وتعلق نہیں رہا ہے جن سے آپ نے سنا ہو۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو وحی نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی مقامات پر اسی طرح غیب اور مشاہدے کی نفی فرمائی ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہو، سورة آل عمران (ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ ۠وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران :44) (وَلٰكِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْٓ اَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا ۙ وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ 45 وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَيْنَا وَلٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 46) 28 ۔ القصص :46-45) (مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍۢ بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰٓي اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ 69 اِنْ يُّوْحٰٓى اِلَيَّ اِلَّآ اَنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ 70) 38 ۔ ص :70 ۔ 69) ۔
[٩٧] کفار مکہ کے سوال کا جواب دینا آپ کی نبوت کی دلیل ہے :۔ اگرچہ تورات اور دوسری اسرائیلی روایات میں کئی جگہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن میں انبیاء کو ایک پاکیزہ صورت انسان کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی روایات انھیں کئی مقامات پر مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ دوسرے قرآن میں قصہ کے بیان سے زیادہ مواعظ حسنہ اور تذکیربآیاٰت اللہ پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی روایات اس سے خالی ہیں۔ تاہم قصہ کی اصولی باتیں بہت حد تک ملتی جلتی ہیں اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ آپ اس وقت موجود نہیں تھے اور یہ بھی کہ آپ نے نہ اسرائیلیات کو پڑھا ہے اور نہ علمائے یہود سے استفادہ کیا ہے۔ پھر آپ کا اس طرح یہ واقعہ بیان کردینا بجز وحی الٰہی کے ممکن نہیں۔ لہذا یہ آپ کی نبوت پر واضح دلیل ہے۔
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ : یعنی غیب کی یہ خبریں اپنی صحیح تفصیلات کے ساتھ ہم نے آپ کو وحی کے ذریعے سے بتائیں، ہماری وحی کے بغیر آپ کو یہ کیسے معلوم ہوسکتی تھیں۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں، اگر سچے پیغمبر نہ ہوتے تو ہزاروں برس پہلے کے یہ واقعات کیسے معلوم کرسکتے تھے اور تمہیں کیسے سنا سکتے تھے۔ - وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا ۔۔ : یعنی اگر ہم آپ کو نہ بتاتے تو آپ کو کچھ خبر نہ تھی، کیونکہ آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے۔ قرآن مجید نے ” وما کنت “ کے ساتھ یہ بات کئی جگہ دہرائی ہے اور اپنا احسان جتلایا ہے کہ آپ کو گزشتہ واقعات کا کچھ علم نہ تھا، نہ آپ وہاں موجود تھے جب یہ سب کچھ ہوا، یہ ہم ہی ہیں جنھوں نے وحی کے ذریعے سے آپ کو یہ واقعات بتائے۔ اس لیے اہل مکہ اور دوسرے کفار کو آپ کی نبوت میں ہرگز شک نہیں کرنا چاہیے۔ اس میں ان مسلمانوں کے لیے بھی سبق ہے جو کہتے ہیں کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر بات کا پہلے ہی علم تھا، اگر ایسا ہی تھا تو وحی کی کیا ضرورت تھی۔ قرآن مجید کی ” وَمَا كُنْتَ “ والی تمام آیات آپ کے علم غیب کی نفی کرتی ہیں۔ ” وَمَا كُنْتَ “ کے مقامات کی سیر کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورة آل عمران (٤٤) ، ہود (٤٩) ، یوسف (١٠٢) ، قصص (٤٤، ٤٥، ٤٦، ٨٦) ، عنکبوت (٤٨) اور شوریٰ (٥٢) ۔- 3 اس آیت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کا قصہ اہل کتاب سے جن تفصیلات کے ساتھ منقول ہے وہ تمام کی تمام صحیح نہیں، کیونکہ اگر صحیح ہوتیں تو ان کی کوئی بات قرآن مجید کے خلاف نہ ہوتی جو ان کی کتابوں پر نگران اور ان کے صحیح مضامین کا محافظ ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ (٤٨) اس لیے صحیح و غلط کے گڈ مڈ ہوجانے کی وجہ سے ان کی معلومات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
خلاصہ تفسیر :- یہ قصہ (جو اوپر بیان کیا گیا آپ کے اعتبار سے) غیب کی خبروں میں سے ہے (کیونکہ آپ کے پاس کوئی ظاہری ذریعہ اس کے جاننے کا نہیں تھا صرف) ہم (ہی) وحی کے ذریعہ سے آپ کو یہ قصہ بتلاتے ہیں اور (یہ ظاہر ہے کہ) آپ ان (برادران یوسف) کے پاس اس وقت موجود نہ تھے جبکہ انہوں نے اپنا ارادہ (یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں ڈالنے کا) پختہ کرلیا تھا اور وہ (اس کے متعلق) تدبیریں کر رہے تھے (کہ آپ سے یوں کہیں کہ ان کو یوں لے جائیں وغیر ذٰلک، اور اس طرح یہ امریقینی ہے کہ آپ نے کسی سے یہ قصہ سنا سنایا بھی نہیں پس یہ صاف دلیل ہے نبوت کی اور صاحب وحی ہونے کی) اور (باوجود نبوت پر دلائل قائم ہونے کے) اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے گو آپ کا کیسا ہی جی چاہتاہو اور (ان کے ایمان نہ لانے سے آپ کا تو کوئی نقصان ہی نہیں کیونکہ) آپ ان سے (قرآن) پر کچھ معاوضہ تو چاہتے نہیں (جس میں یہ احتمال ہو کہ اگر یہ قرآن کو قبول نہ کریں گے تو آپ کا معاوضہ فوت ہوجائے گا) یہ (قرآن) تو صرف تمام جہان والوں کے لئے نصیحت ہے (جو نہ مانے گا اسی کا نقصان ہوگا) اور (جیسی یہ لوگ منکر نبوت ہیں اسی طرح باوجود دلائل کے منکر توحید بھی ہیں چنانچہ) بہت سی نشانیاں ہیں (کہ توحید پر دلالت کرنے والی) آسمانوں میں (جیسا کواکب وغیرہ) اور زمین میں (جیسے عناصر و عنصریات) جن پر ان کا گذر ہوتا رہتا ہے (یعنی ان کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں) اور وہ ان کی طرف (ذرا) توجہ نہیں کرتے (یعنی ان سے استدلال نہیں کرتے) اور اکثر لوگ جو خدا کو مانتے ہیں تو اس طرح کہ شرک بھی کرتے جاتے ہیں (پس بدون توحید خدا کا ماننا مثل نہ ماننے کے ہے پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کیساتھ بھی کفر کرتے ہیں اور نبوت کیساتھ بھی کفر کرتے ہیں) سو کیا (اللہ و رسول کے منکر ہو کر) پھر بھی اس بات سے مطمئن ہوئے بیٹھے ہیں کہ ان پر خدا کے عذاب کی کوئی ایسی آفت آ پڑے جو ان کو محیط ہوجائے یا ان پر اچانک قیامت آجائے اور ان کو (پہلے سے) خبر بھی نہ ہو (مطلب یہ ہے کہ مقتضاء کفر کا عقوبت ہے خواہ دنیا میں نازل ہوجائے یا قیامت کے دن واقع ہو رہے ان کو ڈرنا اور کفر کو چھوڑنا دینا چاہئے) آپ فرما دیجئے کہ میں خدا کی طرف اس طور پر بلاتا ہوں کہ میں (توحید کی اور اپنے داعی من اللہ ہونے کی) دلیل پر قائم ہوں میں بھی اور میرے ساتھ والے بھی (یعنی میرے پاس بھی دلیل ہے توحید و رسالت کی اور میرے ساتھ والے بھی استدلال کے ساتھ مجھ پر ایمان لائے ہیں میں بےدلیل بات کی طرف کسی کو نہیں بلاتادلیل سنو اور سمجھو پس حاصل طریق یہ ہوا کہ خدا واحد ہے اور میں داعی ہوں) اور اللہ (شرک سے) پاک ہے اور میں (اس طریق کو قبول کرتا ہوں اور) مشرکین میں سے نہیں ہوں اور (یہ جو نبوت پر شبہ کرتے ہیں کہ نبی فرشتہ ہونا چاہئے محض مہمل بات ہے کیونکہ) ہم نے آپ سے پہلے مختلف بستی والوں میں سے جتنے (رسول) بھیجے سب آدمی ہی تھے جن کے پاس ہم وحی بھیجتے تھے (کوئی بھی فرشتہ نہ تھا جنہوں نے ان کو نہ مانا اور ایسے ہی مہمل شبہات کرتے رہے ان کو سزائیں دی گئیں اسی طرح ان کو بھی سزا ہوگی خواہ دنیا میں خواہ آخرت میں اور یہ لوگ جو بےفکر ہیں تو کیا یہ الگ ملک میں (کہیں) چلے پھرے نہیں کہ (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیتے کہ ان لوگوں کا کیسا (برا) انجام ہوا جو ان سے پہلے (کافر) ہو گذرے ہیں اور (یاد رکھو کہ جس دنیا کی محبت میں مدہوش ہو کر تم نے کفر کیا ہے یہ دنیا فانی اور ہیچ ہے) البتہ عالم آخرت ان لوگوں کے لئے نہایت بہیودگی کی چیز ہے (شرک وغیرہ سے) احتیاط رکھتے ہیں (اور توحید و اطاعت اختیار کرتے ہیں) تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے (کہ فانی اور بےحقیقت چیز اچھی ہے یا باقی اور پائدار)- معارف و مسائل :- ان آیات میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ پورا بیان فرمانے کے بعد پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے،- ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ یعنی یہ قصہ غیب کی ان خبروں میں سے ہے جو ہم نے بذریعہ وحی آپ کو بتلایا ہے آپ برادران یوسف کے پاس نہ تھے، جبکہ وہ یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں ڈالنا طے کرچکے تھے اور اس کے لئے تدبیریں کررہے تھے، اس اظہار کا مقصد یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے اس قصہ کو پوری تفصیل کے ساتھ صحیح صحیح بیان کردینا آپ کی نبوت اور وحی کی واضح دلیل ہے کیونکہ یہ قصہ آپ کے زمانہ سے ہزاروں سال پہلے کا ہے نہ آپ موجود تھے کہ دیکھ کر بیان فرمادیاہو اور نہ آپ نے کہیں کسی سے تعلیم حاصل کی، کہ کتب تاریخ دیکھ کر یا کسی سے سن کر بیان فرمادیا ہو اس لئے بجز وحی الہی ہونے کے اور کوئی راستہ اس کے علم کا نہیں ،- قرآن کریم نے اس جگہ صرف اتنی بات پر اکتفاء فرمایا ہے کہ آپ وہاں موجود نہ تھے کسی دوسرے شخص یا کتاب سے اس کا علم حاصل نہ ہونے کا ذکر اس لئے ضروری نہیں سمجھا کہ پورا عرب جانتا تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امی ہیں آپ نے کسی لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا اور یہ بھی سب کو معلوم تھا کہ آپ کی پوری عمر مکہ معظمہ میں گذری ہے ملک شام کا ایک سفر تو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ کیا تھا جس میں راستے ہی سے واپس تشریف لے آئے دوسرا سفر تجارت کے لئے کیا چند ایام میں کام کرکے واپس تشریف لے آئے اس سفر میں بھی کسی عالم سے ملاقات یا کسی علمی ادارے سے تعلق کا کوئی شائبہ نہیں تھا اس لئے اس جگہ اس کے ذکر کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی اور قرآن کریم میں دوسری جگہ اس کا بھی ذکر فرمادیا ہے مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا یعنی نزول قرآن سے پہلے ان واقعات کو نہ آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم،- امام بغوی (رح) نے فرمایا کہ یہود اور قریش نے مل کر آزمائش کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا تھا کہ اگر آپ اپنے دعوائے نبوت میں سچے ہیں تو یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بتلائیے کہ کیا اور کس طرح ہوا جب آپ نے بوحی الہی یہ سب بتلادیا اور وہ پھر بھی اپنے کفر و انکار پر جمے رہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صدمہ پہونچا اس پر اگلی آیت میں فرمایا گیا کہ آپ کی نبوت و رسالت کے دلائل واضح ہونے کے باوجودبہت سے لوگ ایمان لانے والے نہیں آپ کتنی ہی کوشش کریں مطلب یہ ہے کہ آپ کا کام تبلیغ اور اصلاح کی کوشش ہے اس کا کامیاب بنانا نہ آپ کے اختیار میں ہے نہ آپ کے ذمہ ہے نہ آپ کو اس کا کوئی رنج ہونا چاہئے اس کے بعد فرمایا،- احکام و ہدایات :- اخبار غیب اور علم غیب میں فرق :- ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ یہ سب کچھ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کو وحی کے ذریعہ بتلاتے ہیں یہی مضمون تقریبا انہی الفاظ کے ساتھ سورة آل عمران آیت نمبر ٤٤ میں حضرت مریم کے قصہ میں آیا ہے ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ اور سورة ہود کی آیت نمبر ٤٩ میں نوح (علیہ السلام) کے واقعہ سے متعلق آیا ہے تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَ ان آیتوں سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ حق تعالیٰ اپنے انبیاء (علیہم السلام) کو بہت سی غیب کی خبروں پر بذریعہ وحی مطلع کردیتے ہیں خصوصا ہمارے رسول سید الرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان غیب کی خبروں کا خاص حصہ عطا فرمایا ہے جو تمام انبیاع سابقین سے زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کو قیامت تک ہونے والے بہت سے واقعات کا تفصیل یا اجمال سے پتہ دیا ہے کتب حدیث میں کتاب الفتن کی تمام حدیثیں اس سے بھری ہوئی ہیں - عوام الناس چونکہ علم غیب صرف اسی کو جانتے ہیں کہ کوئی شخص غیب کی خبروں سے کسی طرح واقف ہوجائے اور یہ وصف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بدرجہ اتم موجود ہے اس لیے خیال لئے خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم الغیب تھے مگر قرآن کریم نے صاف لفظوں میں اعلان فرمادیا لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم الغیب سوائے خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہوسکتا علم غیب اللہ جل شانہ کی صفت خاصہ ہے اس میں کسی رسول یافرشتہ کو شریک سمجھنا ان کو برابر بنانے کی مرادف اور عیسائیوں کا عمل ہے جو رسول کو خدا کا بیٹا اور خدائی کا شریک قرار دیتے ہیں قرآن کریم کی مذکورہ آیتوں سے معاملہ کی پوری حقیقت واضح ہوگئی کہ علم غیب تو صرف اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے اور عالم الغیب صرف اللہ جل شانہ ہی ہیں البتہ غیب کی بہت سی خبریں اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو بذریعہ وحی بتلا دیتے ہیں یہ قرآن کریم کی اصطلاح میں علم غیب نہیں کہلاتا اور عوام چونکہ اس باریک فرق کو نہیں سمجھتے تو غیب کہہ دیتی ہیں اور جب قرآنی اصطلاح کے مطابق غیر اللہ سے علم غیب کی نفی کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے اختلاف کرنے لگتے ہیں جس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ۔- اختلاف خلق ازنام اوفتاد چوں بمعنی رفت آرام اوفتاد
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُوْنَ ١٠٢- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :
(١٠٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کا قصہ بیان کیا گیا یہ آپ کے اعتبار سے غیب کی خبروں میں سے ہے اور بذریعہ جبریل امین آپ کو یہ قصہ بتلاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ برادران یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں موجود نہ تھے، جب انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں میں ڈالنے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا اور وہ یوسف (علیہ السلام) کی ہلاکت کے بارے میں تدابیر کررہے تھے۔
65: جیسا کہ شروع سورت میں عرض کیا گیا تھا، حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ واقعہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے جواب میں نازل فرمایا تھا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ پوچھ رہے تھے کہ بنی اسرائیل کے مصر میں آباد ہونے کی کیا وجہ تھی، ان کو یقین تھا کہ آپ کے پاس بنی اسرائیل کی تاریخ کے اس حصے کا علم نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے آپ کو یہ معلومات حاصل ہوسکیں، اس لئے ان کا خیال یہ تھا کہ آپ اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ پوری سورت اس واقعے کو بیان فرمانے کے لئے نازل فرمادی، اب آخر میں یہ نتیجہ نکالا جارہا ہے کہ اس واقعے کو معلوم کرنے کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی کے سوا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اس کا تقاضا یہ تھا کہ جو لوگ یہ سوال کررہے تھے، وہ یہ تفصیل سننے کے بعد آپ کی نبوت اور رسالت پر ایمان لے آئیں ؛ لیکن چونکہ ان میں سے اکثر لوگوں کا ان سوالات سے یہ مقصد نہیں تھا کہ حق واضح ہونے کے بعد اس کو قبول کرلیں ؛ بلکہ یہ سارے سوالات صرف ضد کی وجہ سے کئے جارہے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیات میں واضح فرمادیا کہ ان کھلے کھلے دلائل کے باوجود ان میں اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔