103۔ 1 یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو پچھلے واقعات سے آگاہ فرما رہا ہے تاکہ لوگ ان سے عبرت پکڑیں اور اللہ کے پیغمبروں کا راستہ اختیار کر کے نجات ابدی کے مستحق بن جائیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے کیونکہ وہ گذشتہ قوموں کے واقعات سنتے ہیں لیکن عبرت پذیری کے لئے نہیں، صرف دلچسپی اور لذت کے لئے، اس لئے وہ ایمان سے، محروم ہی رہتے ہیں۔
[٩٨] کفار مکہ نے سوال یہ کیا تھا کہ بنی اسرائیل تو شام کے ملک میں آباد تھے وہ مصر میں کیسے جا پہنچے، اس سوال کا مفصل جواب اس قصہ میں آگیا ہے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ایمان لے آتے مگر انہوں نے سوال اس لیے نہیں کیا تھا کہ اگر درست جواب مل جائے تو فوراً ایمان لے آئیں گے بلکہ وہ سوال اس لیے کرتے ہیں کہ کوئی ایسی بات ہاتھ لگ جائے جو ان کے عدم اعتماد اور بےایمانی پر مزید اضافہ کا سبب بن سکے اور اس سے وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرسکیں۔ لہذا محض آپ کی خواہش کی وجہ سے یہ لوگ کبھی ایمان لانے والے نہیں۔
وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ ۔۔ : سورة یوسف کے نزول کے بعد، جو آپ کی نبوت کی واضح دلیل تھی، جب آپ کی یہ خواہش اور توقع پوری نہ ہوئی کہ اسے سننے والے ایمان لے آئیں گے تو اس پر آپ کا غم زدہ ہونا فطری بات تھی، اللہ تعالیٰ نے اس پر تسلی دی کہ آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ شیطان کے غلبے اور اپنی نفسانی خواہشات، حرص، حسد وغیرہ کی وجہ سے ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اس کی حکمتیں پوری طرح وہی جانتا ہے۔ اس سے جمہوریت، یعنی اکثریت کے نمائندوں کو قانون سازی کا حق دینے کی حیثیت بھی خوب واضح ہوتی ہے، خصوصاً جب وہ صاف اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف قانون بناتے اور چلاتے ہوں۔
وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ١٠٣- حرص - الحِرْص : فرط الشّره، وفرط الإرادة . قال عزّ وجلّ : إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ- [ النحل 37] ، أي : إن تفرط إرادتک في هدایتهم، وقال تعالی: وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة 96] ،- ( ح ر ص ) الحرص - شدت آزیا شرط ارادہ ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ [ النحل 37] یعنی ان کی ہدایت کے لئے تمہارے دل میں شدید آزر اور خواہش ہو وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة 96] بلکہ ان کو تم اور لوگوں سے زندگی پر کہیں زیادہ حریص دیکھو گے ۔
(١٠٣) اور خواہ آپ کیسی ہی کیوں نہ کوشش کریں اہل مکہ میں سے اکثر آسمانی کتابوں اور اللہ کے رسولوں پر ایمان نہیں لاتے۔
آیت ١٠٣ (وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ )- ان منکرین حق نے اپنی طرف سے ایک سوال کیا تھا ہم نے اس کا مفصل جواب دے دیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قدر عمدہ اور خوبصورت جواب پا کر وہ لوگ ایمان بھی لے آئیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ ان میں سے اکثر لوگ آپ کی شدید خواہش کے باوجود بھی ایمان نہیں لائیں گے۔
۷۲ ۔ یعنی ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا عجیب حال ہے ، تمہاری نبوت کی آزمائش کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اور مشورے کر کے جو مطالبہ انہوں نے کیا تھا اسے تم نے بھری محفل میں برجستہ پورا کردیا ، اب شاید تم متوقع ہوگے کہ اس کے بعد تو انہیں یہ تسلیم کرلیتے ہیں کوئی تامل نہ رہے گا کہ تم یہ قرآن خود تصنیف نہیں کرتے ہو بلکہ واقعی تم پر وحی آتی ہے ، مگر یقین جانو کہ یہ اب بھی نہ مانیں گے اور اپنے انکار پر جمے رہنے کے لیے کوئی دوسرا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے کیونکہ ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری صداقت کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے یہ کھلے دل سے کوئی معقول دلیل چاہتے تھے اور وہ ابھی تک انہیں نہیں ملی ، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہاری بات یہ ماننا چاہتے ہیں ہیں ، اس لیے ان کو تلاش دراصل ماننے کے لیے کسی دلیل کی نہیں بلکہ نہ ماننے کے لیے کسی بہانے کی ہے ۔ اس کلام سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی غلط فہمی کو رفع کرنا نہیں ہے ، اگرچہ بظاہر خطاب آپ ہی سے ہے ، لیکن اس کا اصل مقصد مخاطب گروہ کو جس کے مجمع میں یہ تقریر کی جارہی تھی ، ایک نہایت لطیف و بلیغ طریقہ سے اس کی ہٹ دھرمی پر متنبہ کرنا ہے ، انہوں نے اپنی محفل میں آپ کو امتحان کے لیے بلایا تھا اور اچانک یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر تم نبہ ہو تو بتاؤ بنی اسرائیل نے مصڑ جانے کا قصہ کیا ہے ، اس کے جواب میں ان کو وہیں اور اسی وقت پورا قصہ سنا دیا گیا اور آخر میں یہ مختصر سا فقرہ کہہ کر آئینہ بھی ان کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ہٹ دھرمو اس میں اپنی صورت دیکھ لو ، تم کس منہ سے امتحان لینے بیٹھے تھے ؟ معقول انسان اگر امتحان لیتے ہیں تو اس لیے لیتے ہیں کہ اگر حق ثابت ہوجائے تو اسے مان لیں گے ، مگر تم وہ لوگ ہو جو اپنا منہ مانگا ثبوت مل جانے پر بھی مان کر نہیں دیتے ۔