Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 کہ جس سے ان کو یہ شبہ ہو کہ یہ دعوائے نبوت تو صرف پیسے جمع کرنے کا بہانہ ہے۔ 104۔ 2 تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور اپنی دنیا و آخرت سنوار لیں۔ اب دنیا کے لوگ اگر اس سے آنکھیں پھیر رکھیں اور اس سے ہدایت حاصل نہ کریں تو لوگوں کا قصور اور ان کی بدقسمتی ہے، قرآن تو فی الواقع اہل دنیا کی ہدایت اور نصیحت ہی کے لئے آیا ہے۔ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ آفتاب را چہ گناہ

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٩] کفار کی ہٹ دھرمی :۔ یعنی اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ یہ قرآن صرف ان کے لیے نہیں بلکہ تمام اہل عالم کے لیے نصیحت ہے۔ انھیں نہیں تو کوئی دوسروں کو اس سے ایمان نصیب ہوجائے گا پھر اگر یہ نہیں مانتے تو آپ کا اس میں کچھ نقصان بھی نہیں۔ آپ ان سے کچھ معاوضہ تھوڑے مانگ رہے تھے جو یہ بند کردیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا تَسْــــَٔـلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ : یعنی ان کے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی تھی کہ آپ ان سے اس تبلیغ پر اجرت مانگ کر ان پر بوجھ بن رہے ہوں، سو یہ بات ہے ہی نہیں۔ - اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ : اور یہ بھی نہیں کہ یہ نہ مانیں گے تو دین کا کچھ بگاڑ لیں گے، یہ قرآن اور اسلام صرف انھی کے لیے تو نہیں، یہ تو سارے جہانوں کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اور بندے لے آئے گا جو اس کا علم اٹھا لیں گے، باقی رہ گئے یہ لوگ تو اگر مانیں گے تو اپنے آپ کو فائدہ پہنچائیں گے اور نہ مانیں گے تو اپنا نقصان کریں گے، آپ ان کے رویے سے ہرگز رنجیدہ نہ ہوں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَمَا تَسْــــَٔـلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ یعنی آپ جو کچھ ان کو تبلیغ کرنے اور صحیح راستے پر لانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اس پر ان لوگوں سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگتے جس کی وجہ سے ان کو اس کے سننے یا ماننے میں کوئی دشواری ہو بلکہ آپ کا کلام تو خالص خیر خواہی اور نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لئے اس میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ جب اس کوشش سے آپ کا مقصد کوئی دنیوی منفعت نہیں بلکہ ثواب آخرت اور قوم کی خیرخواہی ہے تو وہ مقصد آپ کا حاصل ہوچکا پھر آپ کیوں غمگین ہوتے ہیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا تَسْــــَٔـلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ ١٠٤؀ۧ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ - علم - العالم، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ،- ( ع ل م ) العلم - اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوح اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار وغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٤) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تبلیغ توحید پر ان سے کچھ معاوضہ تو نہیں لیتے یہ قرآن تو تمام جنات اور انسانوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

۷۳ ۔ اوپر کی تنبیہ کے بعد یہ دوسری لطیف تر تنبیہ ہے جس میں ملامت کا پہلو کم اور فہمائش کا پہلو زیادہ ہے ، اس ارشاد کا خطاب بھی بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر اصل مخاطب کفار کا مجمع ہے اور اس کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ کے بندو غور کرو ، تمہاری یہ ہٹ دھرمی کس قدر بے جا ہے ، اگھر پیغمبر نے اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے دعوت و تبلیغ کا یہ کام جاری کیا ہوتا یا اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی چاہا ہوتا تو بے شک تمہارے لیے یہ کہنے کا موقع تھا کہ ہم اس مطلبی آدمی کی بات کیوں مانی ، مگر تم دیکھ رہے ہو کہ یہ شخص بے غرض ہے ، تمہاری اور دنیا بھر کی بھلائی کے لیے نصیحت کر رہا ہے اور اس میں اس کا اپنا کوئی مفاد پوشیدہ نہیں ہے ، پھر اس کا مقابلہ اس ہٹ دھرمی سے کرنے میں آخر کیا معقولیت ہے؟ جو انسان سب کے بھلے کے لیے ایک بات بے غرضی کے ساتھ پیش کرے اس سے کسی کو خواہ مخواہ ضد کیوں ہو؟ کھلے دل سے اس کی بات سنو ، دل کو لگتی ہو تو مانو ، نہ لگتی ہو نہ مانو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani