Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بیان ہو رہا ہے قدرت کی بہت سی نشانیاں ، وحدانیت کی بہت سے گواہیاں ، دن رات ان کے سامنے ہیں ، پھر بھی اکثر لوگ نہایت بےپرواہی اور سبک سری سے ان میں کبھی غور وفکر نہیں کرتے ۔ کیا یہ اتنا وسیع آسمان ، کیا یہ اس قدر پھیلی ہوئی ، زمین ، کیا یہ روشن ستارے یہ گردش والا سورج ، چاند ، یہ درخت اور یہ پہاڑ ، یہ کھیتیاں اور سبزیاں ، یہ تلاطم برپا کرنے والے سمندر ، یہ بزور چلنے والی ہوائیں ، یہ مختلف قسم کے رنگا رنگ میوے ، یہ الگ الگ غلے اور قدرت کی بیشمار نشانیاں ایک عقل مند کو اس قدر بھی کام نہیں آ سکتیں ؟ کہ وہ ان سے اپنے اللہ کی جو احد ہے ، صمد ہے ، فرد ہے ، واحد ہے ، لا شریک ہے ، قادر و قیوم ہے ، باقی اور کافی ہے اس ذات کو پہچان لیں اور اس کے ناموں اور صفتوں کے قائل ہو جائیں؟ بلکہ ان میں سے اکثریت کی ذہنیت تو یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ اللہ پر ایمان ہے پھر شرک سے دست برداری نہیں ۔ آسمان وزمین پہاڑ اور درخت کا انسان اور دن کا خالق اللہ مانتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اس کے سوا دوسروں کو اس کے ساتھ اس کا شریک ٹھراتے ہیں ۔ یہ مشرکین حج کو آتے ہیں ، احرام باندھ کر لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تیرا کوئی شریک ہیں ، جو بھی شریک ہیں ، ان کا خود کا مالک بھی تو ہے اور ان کی ملکیت کا مالک بھی تو ہی ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب وہ اتنا کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں الہٰی تیرا کوئی شریک نہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے بس بس ، یعنی اب آگے کچھ نہ کہو ۔ فی الواقع شرک ظلم عظیم ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کی بھی عبادت ۔ بخاری ومسلم میں ہے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شریک ٹھرانا حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ اسی طرح اسی آیت کے تحت میں منافقین بھی داخل ہیں ۔ ان کے عمل اخلاص والے نہیں ہوتے بلکہ وہ ریا کار ہوتے ہیں اور ریا کاری بھی شرک ہے ۔ قرآن کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢؁ۡۙ ) 4- النسآء:142 ) ، منافق اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ کی طرف سے خود دھوکے میں ہیں ۔ یہ نماز کو بڑے ہی سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے ذکر اللہ تو برائے نام ہوتا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ بعض شرک بہت ہلکے اور پوشیدہ ہوتے ہیں خود کرنے والے کو بھی پتہ نہیں چلتا ۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک بیمار کے پاس گئے ، اس کے بازو پر ایک دھاگا بندھا ہوا دیکھ کر آپ نے اسے توڑ دیا اور یہی آیت پڑھی کہ ایماندار ہوتے ہوئے بھی مشرک بنتے ہو ؟ حدیث شریف میں ہے اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی جس نے قسم کھائی وہ مشرک ہو گیا ۔ ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جھاڑ پھونک ڈورے دھاگے اور جھوٹے تعویذ شرک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو توکل کے باعث سب سختیوں سے دور کر دیتا ہے ۔ ( ابو داؤد وغیرہ ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیوی صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت عبداللہ کی عادت تھی ، جب کبھی باہر سے آتے زور سے کھنکھارتے ، تھوکتے کہ گھر والے سمجھ جائیں اور آپ انہیں کسی ایس حالت میں نہ دیکھ پائیں کہ برا لگے ۔ ایک دن اسی طرح آپ آئے اس وقت میرے پاس ایک بڑھیا تھی جو بوجہ بیماری کے مجھ پر دم جھاڑ کرنے کو آئی تھی میں نے آپ کی کھنکھار کی آواز سنتے ہی اسے چار پائی تلے چھپا دیا آپ آئے میرے پاس میری چار پائی پر بیٹھ گئے اور میرے گلے میں دھاگا دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا اس میں دم کرا کے میں نے باندھ لیا ہے . آپ نے اسے پکڑ کر توڑ دیا اور فرمایا عبداللہ کا گھر شرک سے بےنیاز ہے ۔ خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک تعویدات اور ڈورے دھاگے شرک ہیں ۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے فرماتے ہیں میری آنکھ دکھ رہی تھی ، میں فلاں یہودی کے پاس جایا کرتی تھی ، وہ دم جھارا کر دیتا تھا تو سکون ہو جاتا تھا ، آپ نے فرمایا تیری آنکھ میں شیطان چوکا مارا کرتا تھا اور اس کی پھونک سے وہ رک جاتا تھا تجھے یہ کافی تھا کہ وہ کہتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے دعا ( اذھب الباس رب الناس اشف وانت الشاف لا شفاء الا شفاوک شفاء لا یغدر سقما ) ( مسند احمد ) مسند احمد کی اور حدیث میں عیسیٰ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن حکیم بیمار پڑے ۔ ہم ان کی عیادت کے لئے گئے ، ان سے کہا گیا کہ آپ کوئی ڈورا دھاگا لٹکا لیں تو اچھا ہو آپ نے فرمایا میں ڈورا دھاگا لٹکاؤں ؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو شخص جو چیز لٹکائے وہ اسی کے حوالہ کر دیا جاتا ہے ۔ مسند میں ہے جو شخص کوئی ڈورا دھاگا لٹکائے اس نے شرک کیا ۔ ایک روایت میں ہے جو شخص ایسی کوئی چیز لٹکائے ، اللہ اس کا کام پورا نہ کرے اور جو شخص اسے لٹکائے اللہ اسے لٹکا ہوا ہی رکھے . ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمام شریکوں سے زیادہ بےنیاز اور بےپرواہ ہوں جو شخص اپنے کسی کام میں میرا کوئی شریک ٹھرائے میں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ ( مسلم ) مسنند میں ہے قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہوں گے ، اللہ کی طرف سے ایک منادی ندا کرے گا کہ جس نے اپنے عمل میں شرک کیا ہے ، وہ اس کا ثواب اپنے شریک سے طلب کر لے ، اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بڑھ کر شرک سے بےنیاز ہے ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے ، لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ فرمایا ریا کاری ، قیامت کے دن لوگوں کو جزائے اعمال دی جائے گی ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ریا کرو تم جاؤ اور جن کے دکھانے سنانے کے لئے تم نے عمل کئے تھے ، انہیں سے اپنا اجر طلب کرو اور دیکھو کہ وہ دیتے ہیں یا نہیں ؟ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں جو شخص کوئی بد شگونی لے کر اپنے کام سے لوٹ جائے وہ مشرک ہو گیا ۔ صحابہ علیہ السلام نے دریافت کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہنا دعا ( اللہم لا خیر الا خیرک ولا طیر الا طیرک ولا الہ غیرک ) یعنی اے اللہ سب بھلائیاں سب نیک شگون تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ، تیرے سوا کوئی بھلائیوں اور نیک شگونیوں والا نہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ لوگو شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے زیادہ پوشیدہ چیز ہے ، اس پر حضرت عبداللہ بن حرب اور حضرت قیس بن مصابب کھڑے ہو گئے اور کہا یا تو آپ اس کی دلیل پیش کیجئے یا ہم جائیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کی شکایت کریں ۔ آپ نے فرمایا لو دلیل لو ۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ سنایا اور فرمایا لوگو شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے پس کسی نے آپ سے پوچھا کہ پھر اس سے بچاؤ کیسے ہو سکتا ہے ؟ فرمایا یہ دعا پڑھا کرو دعا ( اللہم انا نعوذ بک ان نشرک بک شیئا تعلمہ ونستغفرک مما لا نعلم ) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سوال کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ شرک تو یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کو پکارا جائے ۔ اس حدیث میں دعا کے الفاظ یہ ہیں آیت ( اللہم انی اعوذ بک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک مما لا اعلم ( مسند ابو یعلی ) ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے جسے میں صبح شام اور سوتے وقت پڑھا کروں تو آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھ دعا ( اللہم فاطر السموت والارض عالم الغیب الشہادۃ رب کل شئی وملیکہ اشہد ان لا الہ الا انت اعوذ بک من شر نفسی ومن شر الشیطان وشر کہ ) ایک روایت میں ہے کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھنی سکھائی اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں دعا ( وان اقترف علی نفسی سوا او اجرہ الی مسلم ۔ ) فرمان ہے کہ کیا ان مشرکوں کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ اگر اللہ کو منظور ہو تو چاروں طرف سے عذاب الہٰی انہیں اس طرح آ گھیرے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ 45؀ۙ ) 16- النحل:45 ) یعنی مکاریاں اور برائیاں کرنے والے کیا اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ایسی جگہ سے عذاب لا دے کہ انہیں شعور بھی نہ ہو یا انہیں لیٹتے بیٹھتے ہی پکڑ لے یا ہوشیار کر کے تھام لے ۔ اللہ کسی بات میں عاجز نہیں ، یہ تو صرف اس کی رحمت و رافت ہے کہ گنا کریں اور پھلیں پھولیں ۔ فرمان اللہ ہے کہ بستیوں کے گنہگار اس بات سے بےخطرے ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس راتوں کو ان کے سوتے ہوئے ہی عذاب آ جائیں یا دن دھاڑے بلکہ ہنستے کھیلتے ہوئے عذاب آ دھمکیں اللہ کے مکر سے بےخوف نہ ہونا چاہئے ایسے لوگ سخت نقصان اٹھاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 آسمان اور زمین کی پیدائش اور ان میں بیشمار چیزوں کا وجود، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک خالق و صانع ہے جس نے ان چیزوں کو وجود بخشا ہے اور ایک مدبر ہے جو ان کا ایسا انتظام کر رہا ہے کہ صدیوں سے یہ نظام چل رہا ہے اور ان میں کبھی آپس میں ٹکراؤ اور تصادم نہیں ہوا لیکن لوگ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے یوں ہی گزر جاتے ہیں ان پر غو و فکر کرتے ہیں اور نہ ان سے ان کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] یعنی اگر قرآن کی آیات میں غور نہیں کرتے تو کائنات کی نشانیوں میں غور کرلیں تب بھی انھیں اللہ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے کائنات میں بکھری ہوئی لاتعداد نشانیاں ان کے سامنے موجود ہیں مگر یہ ادھر توجہ ہی نہیں کرتے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ اللہ کی معرفت یا ہدایت کے طالب ہی نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ ۔۔ : ” وَكَاَيِّنْ “ کاف تشبیہ اور ” اَیٌّ“ کا مرکب ہے، معنی اس کا ہے کتنی ہی، مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد ذکر ہونے والی چیز اتنی زیادہ ہے کہ اس کا شمار نہیں ہوسکتا۔ ” اٰیَةٍ “ نشانی سے مراد ایسی عجیب چیز ہے جو توجہ کو اپنی طرف کھینچ لے، اس طرح کہ وہ بھولنے نہ پائے، جیسے کہتے ہیں : ” فَلَانٌ آیَۃٌ فِي الذَّکَاءِ “ یعنی فلاں شخص ذہانت میں آیت ہے، یعنی اتنا ذہین ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ توحید کی کچھ آیات تنزیلیہ ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتریں اور بیشمار کونیہ ہیں جو کائنات کے ذرے ذرے میں بکھری پڑی ہیں۔ ” یَمُرُّوْنَ “ گزرنے سے مراد صرف یہی نہیں کہ چلتے ہوئے گزرتے ہیں، کیونکہ آسمان کی نشانیوں پر گزر کیسے ہوسکتا ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ کتنی ہی بیشمار عجیب و غریب چیزیں ہیں جو روزانہ ان کی نگاہوں کے سامنے آتی ہیں، مگر یہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ موٹی سی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس دعوے کے مقابلے میں کہ ” میں نے ہر چیز پیدا کی ہے، کوئی اور ہے جس نے ایک مکھی یا اس کا پر بھی پیدا کیا ہے تو سامنے لاؤ “ جب کوئی بھی سر نہیں اٹھاتا اور تمہیں بھی یہ مانے بغیر چارہ نہیں تو اس کائنات میں اختیارات کا مالک یا اللہ تعالیٰ سے زبردستی منوالینے والا کوئی دوسرا کیوں بنا لیتے ہو ؟ اور ہر چیز کے خالق ومالک کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کو کس دلیل سے مشکل کشا سمجھتے اور پکارتے ہو۔ وہ نشانیاں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت جگہ ذکر کی ہیں۔ مثال کے طور پر دو تین مقامات ذکر کیے جاتے ہیں : (وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ) [ الذاریات : ٢٠، ٢١ ] ” اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں اور تمہارے نفسوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے۔ “ اور دیکھیے سورة بقرہ (١٦٤ تا ١٦٧) کائنات میں پھیلی ہوئی ان بیشمار نشانیوں میں سے کافی نشانیاں ان آیات میں بھی آگئی ہیں، بلکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہر اختیار ہونے کو بھی کمال طرز سے بیان فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے سورة روم (١٧ تا ٢٨) تھوڑی سی زحمت فرما کر ان مقامات کا مطالعہ کر لیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر پوری طرح غور کرنے والا شخص یقیناً توحید، آخرت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت تک پہنچ جائے گا، ورنہ کم از کم کائنات کی چیزوں پر غور کرنے سے کسی نہ کسی مفید نتیجے یا ایجاد تک ضرور پہنچ جائے گا جو کم از کم دنیا میں اسے اور دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچائے گی۔ جیسا کہ دیگچی کی بھاپ سے ڈھکنا اٹھنے پر غور نے بھاپ کی قوت کو دریافت کرکے ریل اور کتنی ایجادات کیں۔ بجلی، گیس، لیزر، ایٹم یہ سب اللہ کی آیات کو نیہ پر غور ہی کا نتیجہ ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ اپنی نشانیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، اگر کوئی توحید تک نہ پہنچ سکے تو محنت اس کی بھی ضائع نہیں کرتا، کافر کو بھی اس کی سوچ اور فکر کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی انعام دنیوی ہی سہی، ضرور دے دیتا ہے، مگر اصل کامیاب وہ ہے کہ یہ غور و فکر اسے اپنے خالق ومالک کی پہچان، اس اکیلے کی عبادت اور اس کے رسول پر ایمان تک پہنچا دے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ یعنی یہ لوگ صرف یہی نہیں کہ کسی ناصح کی نصیحت ضد اور ہٹ دھرمی سے نہیں سنتے بلکہ ان کا تو حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی جو کھلی کھلی نشانیاں آسمان و زمین میں ہر وقت سامنے رہتی ہیں ان پر بھی یہ غفلت و اعراض سے گذرے چلے جاتے ہیں ذرا دھیان نہیں دیتے کہ یہ کس کی قدرت و عظمت کی نشانیاں ہیں آسمان و زمین میں حق تعالیٰ شانہ کی خدائی و حکمت وقدرت کی نشانیاں بیشمار ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ پچھلی قوموں پر جو عذاب آئے اور ان کی الٹی ہوئی یا برباد کی ہوئی بستیاں ان کی نظروں سے گذرتی مگر ان سے بھی کوئی عبرت نہیں پکڑتے - یہ بیان تو ایسا لوگوں کا تھا جو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمت وقدرت ہی کے قائل نہیں تھے آگے ان کا بیان ہے جو وجود باری تعالیٰ کے تو قائل ہیں مگر اس کی خدائی میں دوسری چیزوں کو شریک قرار دیتے ہیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ١٠٥؁- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- مرر - المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ- [ المطففین 30] - ( م ر ر ) المرور - کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

کائنات میں تفکر کی دعوت - قول باری ہے (وکاین من ایۃ فی السموت والارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون، زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے) یعنی زمین و آسمان میں کتنی نشانیاں موجود ہیں جن کے بارے میں یہ لوگ غور و فکر نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے توحید باری پر استدلال کرتے ہیں۔ آیت میں اللہ کی آیات اور اس کے دلائل سے اس کی ذات پر استدلال کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ نیز کائنات کے نظام پر غور و فکر کرنے اور اس پر اس زاویے سے نظر ڈالنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اس نظام کو ایک مدبر ذات چلا رہی ہے جسے اس کائنات پر پوری قدرت حاصل ہے اور جو اس کے ایک ایک ذرے کا علم رکھتی ہے نیز یہ کہ یہ ذات کائنات کے ساتھ کسی پہلو سے بھی مشابہت نہیں رکھتی بلکہ بےمثل اور یکتا ہے۔ یہ غور و فکر کائنات کی ان چیزوں پر نظر ڈال کر کیا جاسکتا ہے جو آنکھوں پر عیاں ہیں اور حواس خمسہ سے جن کا ادراک کیا جاسکتا ہے مثلاً سورج، چاند، ستاروں، ہوائوں، درختوں، نباتات و حیوانات اور ان کی نسل کا تسلسل وغیرہ کے اندر کارفرما تدبیر وغیرہ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٥) اور بہت سی نشانیاں ہیں، آسمانوں میں جیسا کہ چاند، سورج، ستارے وغیرہ اور زمین میں جیسا کہ پہاڑ، دریا، درخت، جانور، وغیرہ جن پر اہل مکہ کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان کی طرف توجہ اور غور نہیں کرتے، بلکہ الٹا جھٹلاتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ )- یہ لوگ زمین و آسمان کی وسعتوں میں اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیوں کو بار بار دیکھتے ہیں مگر کبھی ان پر غور کرکے سبق حاصل نہیں کرتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

۷٤ ۔ اوپرے کے گیارہ رکوعوں میں حضرت یوسف کا قصہ ختم ہوگیا ، اگر وحی الہی کا مقصد محض قصہ گوئی ہوتا تو اسی جگہ تقریر ختم ہوجانی چاہیے تھی ، مگر یہاں تو قصہ کسی مقصد کی خاطر کہا جاتا ہے ، اور اس مقصد کی تبلیغ کے لیے جو موقع بھی مل جائے اس سے فائدہ اٹھانے میں دریغ نہیں کیا جاتا ، اب چونکہ لوگوں نے خود نبی کو بلایا تھا اور قصہ سننے کے لیے کان متوجہ تھے اس لیے ان کے مطلب کی بات ختم کرتے ہی چند جملے اپنے مطلب کے بھی کہہ دیے گئے اور غایت درجہ اختصار کے ساتھ ان چند جملوں ہی میں نصیحت اور دعوت کا سارا مضمون سمیٹ دیا گیا ۔ ۷۵ ۔ اس سے مقصد لوگوں کو ان کی غفلت پر متنبہ کرنا ہے ، زمین اور آسمان کی ہر چیز بجائے خود محض ایک چیز ہی نہیں ہے بلکہ ایک نشانی بھی ہے جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے ، جو لوگ ان چیزوں کو محض چیز ہونے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ، وہ انسان کا سا دیکھنا نہیں بلکہ جانوروں کا سا دیکھنا دیکھتے ہیں ، درخت کو درخت اور پہاڑ کو پہاڑ اور پانی کو پانی تو جانور بھی دیکھتا ہے اور اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے ہر جانور ان چیزوں کا مصرف بھی جانتا ہے ، مگر جس مقصد کے لیے انسان کو حواس کے ساتھ سوچنے والا دماغ بھی دیا گیا ہے ، وہ صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ آدمی ان چیزوں کو دیکھے اور ان کا مصرف اور استعمال معلوم کرے ، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی حقیقت کی جستجو کرے اور ان نشانیوں کے ذریعہ سے اس کا سراغ لگائے ، اسی معاملہ میں اکثر انسان غفلت برت رہے ہیں ، اور یہی غفلت ہے جس نے ان کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے ، اگر دلوں پر یہ قفل نہ چڑھ لیا گیا ہوتا تو انبیاء کی بات سمجھنا اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانا لوگوں کے لیے اس قدر مشکل نہ ہوجاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani