106۔ 1 یہ وہ حقیقت ہے جسے قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ متعدد جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ مشرک یہ تو مانتے ہیں کہ آسمان اور زمین کا خالق، مالک، رازق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عبادت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھرا لیتے ہیں۔ اور یوں اکثر لوگ مشرک ہیں یعنی ہر دور میں لوگ توحید ربوبیت کے تو قائل رہے ہیں لیکن توحید الوہیت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے آج کے قبر پرستوں کا شرک بھی یہی ہے کہ وہ قبروں میں مدفون بزرگوں کو صفات الوہیت کا حامل سمجھ کر انھیں مدد کے لیے پکارتے بھی ہیں اور عبادت کے کئی مراسم بھی ان کے لیے بجا لاتے ہیں اعاذنا اللہ منہ
[١٠١] مذہبی طبقہ کی اکثریت بھی ہمیشہ مشرک ہی ہوتی ہے :۔ اگرچہ اس دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود کا بھی منکر ہے اور وہ اس کائنات کے وجود اور اس کے نظام کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ تاہم اکثریت اسی بات کی قائل رہی ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہی اس کا انتظام چلا رہا ہے۔ پھر اس مذہبی طبقہ میں بھی ایک قلیل طبقہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہیں بناتے اور یہی طبقہ فی الحقیقت راہ مستقیم پر ہے۔ اس مذہبی طبقہ میں بھی اکثریت ایسے ہی لوگوں کی رہی ہے جو اللہ کے خالق ومالک ہونے کا اقرار بھی کرتے جاتے ہیں۔- مشرکین مکہ کا تلبیہ :۔ پھر اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بھی بناتے جاتے ہیں اور یہ بات صرف مشرکین مکہ سے مختص نہیں بلکہ ان سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا رہا اور ان کے بعد آج تک بھی یہی صورت حال ہے۔ مشرکین مکہ کے اصل عقیدہ کی وضاحت اس تلبیہ سے صاف واضح ہوتی ہے جو وہ حج وعمرہ کے احرام باندھتے وقت یوں پکارتے تھے :- ( لیبک لا شریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک) (مسلم، کتاب الحج، باب التلبیۃ) یعنی اے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس کے جسے تو نے اختیار دے رکھا ہے وہ خود کوئی اختیار نہیں رکھتا) - یہی عقیدہ شرک کی سب سے بڑی بنیاد ہے اور یہ آج بھی ویسے ہی پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ مشرکین مکہ میں یا ان سے بھی پہلے پایا جاتا تھا۔ آج بھی لوگ اولیاء اللہ کے تصرفات کے بڑی شدت سے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصرفات اور اختیارات انھیں اللہ ہی نے عطا کئے ہوئے ہیں جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ یہ بات تم کسی الہامی کتاب سے دکھلا سکتے ہو کہ اللہ نے فلاں فلاں قسم کے اختیارات فلاں فلاں لوگوں کو تفویض کر رکھے ہیں ؟
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ۔۔ : اللہ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ شرک کرنے والوں کی پہلی مثال کفار قریش ہیں جو آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، خود ان مشرکین کو پیدا کرنے والے اور ہر چیز کی مکمل ملکیت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کو جانتے اور مانتے تھے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ) [ الزخرف : ٨٧ ] ” اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ “ اور فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ) [ لقمان : ٢٥ ] ” اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ “ اس کے علاوہ دیکھیے سورة مومنون (٨٤ تا ٨٩) اور یونس (٣١ تا ٣٥) اور ساتھ ہی کچھ ہستیوں کو اللہ کے ہاں اپنے سفارشی، اللہ کے قریب کرنے والے اور اپنے کام نکلوانے والے سمجھتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ ) [ یونس : ١٨ ] ” اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ “ اور فرمایا : (وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ) [ الزمر : ٣ ] ” اور وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا اور حمایتی بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں، اچھی طرح قریب کرنا۔ “ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ مشرکین کہتے تھے : ( لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : ( وَیْلَکُمْ قَدٍْ قَدٍْ ) ” تمہاری بربادی ہو، اس سے آگے مت کہنا “ (مگر وہ کہتے) ( إِلاَّ شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ ، یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا وَھُمْ یُطُوْفُوْنَ بالْبَیْتِ ) ” مگر ایک شریک جو تیرا ہی ہے، تو ہی اس کا مالک ہے، وہ مالک نہیں۔ “ وہ یہ الفاظ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے۔ “ [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ وصف تھا ووقتھا : ١١٨٥ ] مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، اس طرح بھی وہ اللہ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے تھے۔ جیسا کہ فرمایا : (وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ ۭ سَـتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْــَٔــلُوْنَ ) [ الزخرف : ١٩ ] ” اور انھوں نے فرشتوں کو، وہ جو رحمن کے بندے ہیں، عورتیں بنادیا، کیا وہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ؟ ان کی گواہی ضرور لکھی جائے گی اور وہ پوچھے جائیں گے۔ “ مشرکین مکہ اللہ پر ایمان کے ساتھ ہی بزرگوں کے بتوں کی بھی پوجا کرتے تھے، جیسا کہ فرمایا : (اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى 19ۙوَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى 20 اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى 21 تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِيْزٰى 22 اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ ) [ النجم : ١٩ تا ٢٣ ] ” پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا۔ اور تیسری ایک اور (دیوی) منات کو۔ کیا تمہارے لیے لڑکے ہیں اور اس کے لیے لڑکیاں ؟ یہ تو اس وقت ناانصافی کی تقسیم ہے۔ یہ (بت) چند ناموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ “ انھوں نے عین کعبہ کے اندر ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی صورتیں رکھی ہوئی تھیں۔ [ بخاري، الحج، باب من کبّر في نواحي الکعبۃ : ١٦٠١ ] اہل کتاب بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان کے دعوے دار تھے، اس کے باوجود عزیر اور مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ کبھی کہتے تھے، اللہ تعالیٰ خود ہی مسیح کی شکل میں آگیا، اصل میں دونوں ایک ہیں : (لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ ) [ المائدۃ : ٧٢ ] کبھی تین کو ایک کہتے، کبھی اللہ کو تین کا تیسرا کہتے : (لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ) [ المائدۃ : ٧٣ ] اپنے احبارو رہبان کو اللہ کے سوا حلال و حرام کرنے کا اختیار رکھنے والے رب سمجھتے : (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ) [ التوبۃ : ٣١ ] ان کی قبروں پر مسجدیں بنا کر ان کی پرستش کرتے، فرمان رسول ہے : ( لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْیَھُوْدِ وَالنَّصَارٰی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَاءِھِمْ مَسَاجِدَ ) [ بخاري، المغازی، باب مرض النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ووفاتہ : ٤٤٤٣، ٤٤٤٤ ] ” اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انھوں نے اپنے انبیاء ( علیہ السلام) کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ “ - افسوس کہ عرصۂ دراز سے اکثر کلمۂ اسلام پڑھنے والوں کا بھی یہی حال ہوگیا ہے، ان میں سے بہت سے لوگ اللہ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صورت میں زمین پر اتر آیا ہے۔ بعض اپنے پیر کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے آنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بعض اپنے بزرگوں کی عبادت کرتے کرتے ان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ہی ہوجانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بیشمار بڑے بڑے نام والے عالموں، پیروں اور ان کے معتقدین نے ہندوؤں کی طرح ہر چیز کو اللہ تعالیٰ قرار دے کر اس کا نام وحدت الوجود رکھ دیا ہے اور اس صریح کفر و شرک کو معرفت کا نام دے رکھا ہے، حالانکہ اس عقیدے سے اسلام کا ہر حکم ہی ختم ہوجاتا ہے اور یہی وہ الحاد اور صریح کفر ہے جس پر اسلام کا نقاب ڈال کر یہ لوگ زبردستی مسلمان بلکہ اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ عام مسلمانوں میں سے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو زندہ یا مردہ بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا مانتے ہیں، مصیبت میں ان کو پکارتے ہیں، ان سے اولاد اور عزت و مال کے لیے فریاد کرتے ہیں، ان کے نام کے وظیفے کرتے اور نیازیں دیتے ہیں، ان کی پختہ قبریں بنا کر ان کا طواف اور انھیں سجدے کرتے ہیں۔ غرض کہ جو کچھ مکہ کے مشرک اپنے بتوں کے ساتھ کرتے تھے یہ جھوٹے مسلمان اپنے داتاؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے ساتھ کرتے ہیں اور دعویٰ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے اور ہم سب کو شرک سے بچائے اور توحید پر قائم رکھے۔ (آمین)- ایمان لانے کے باوجود شرک کرنے کی کچھ اور صورتیں بھی ہیں جن سے بچنا لازم ہے، مثلاً غیر اللہ کی قسم کھانا، ریاکاری یعنی دکھلاوا کرنا، بیماری سے بچنے کے لیے دھاگے، کڑے، منکے وغیرہ لٹکانا، بدشگونی لینا، کاہنوں، یعنی آئندہ کی خبریں بتانے والوں کے پاس جانا، ان سب کاموں کو صحیح احادیث میں شرک قرار دیا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے توحید کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابیں، مثلاً تقویۃ الایمان اور کتاب التوحید وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
فرمایا - (آیت) وَمَا يُؤ ْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ یعنی ان میں جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی لاتے ہیں تو وہ بھی شرک کے ساتھ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت وغیرہ اوصاف میں دوسروں کو شریک ٹھراتے ہیں جو سراسر ظلم اور جہل ہے - ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت کے مفہوم میں وہ مسلمان بھی داخل ہیں جو ایمان کے باوجود مختلف قسم کے شرک میں مبتلا ہیں مسند احمد میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے تم پر جس چیز کا خطرہ ہے ان میں سب سے زیادہ خطرناک شرک اصغر ہے صحابہ کے دریافت کرنے پر فرمایا کہ ریاء شرک اصغر ہے اسی طرح ایک حدیث میں غیر اللہ کی قسم کھانے کو شرک فرمایا ہے (ابن کثیر عن الترمذی) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے نام کی منت اور نیاز ماننا بھی باتفاق فقہا اس میں داخل ہے،- اس کے بعد ان کی مخالفت و جہالت پر اظہار افسوس و تعجب ہے کہ یہ لوگ اپنے انکار و سرکشی کے باوجود اس بات سے کیسے بےفکر ہوگئے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حادثہ عذاب آ پڑے یا دفعۃ ان پر قیامت آجائے اور وہ اس کے لئے تیار نہ ہوں
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
قول باری ہے (وما یومن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون۔ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھہراتے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور قتادہ (رض) سے مروی ہے کہ ان میں سے اکثر لالہ کو اس اقرار کے ساتھ مانتے ہیں کہ وہ ان کا خالق اور ارض و سما کا پیدا کرنے والا ہے مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ بت پرستی کے ذریعے دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ آیت کے مصداق اہل کتاب ہیں جن کے اندر ایمان بھی تھا اور شرک بھی تھا۔ ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی عبادت کی تصدیق کرتے اور اسے مانتے ہیں مگر اس طرح کہ عبادت میں بتوں کو بھی شریک کرلیتے ہیں۔ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ایک یہودی کے اندر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان ہوتا ہے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے کفر اور انکار ہوتا ہے اس لئے کہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایمان اور کفر الگ الگ جہت سے ایک دوسرے کے منافی نہیں ہوتے اور اس طرح ایک انسان میں ایک جہت سے کفر ہوتا ہے اور ایک جہت سے ایمان۔ تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ الگ الگ جہت سے ان دونوں کا اجتماع ایسے شخص پر مومن کے اسم کے اطلاق اور اس کے لئے ایمان کے ثواب کے استحقاق کا سبب نہیں بنتا اس لئے کہ کفر ان دونوں باتوں کے منافی ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو) اس قول باری نے یہودیوں کے اندر کتاب کے ایک حصے پر ایمان اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کو ثابت کردیا۔ اس کے ذریعے ایک جہت سے ایمان اور دوسری جہت سے کفر کے ثبوت کا جواز پیدا ہوگیا تاہم یہ جائز نہیں کہ ایسے شخص میں مومن ہونے کی صفت اور کافر ہونے کا وصف یکجا ہوجائے۔ اس لئے کہ مومن ہونے کی صفت علی الاطلاق صفت مدح ہے جبکہ کافر ہونے کی صفت صفت ذم ہے اور ایک ہی حالت میں ایک شخص کا ان دونوں صفات سے متصف ہونے کا علی الاطلاق استحقاق ممتنع ہوتا ہے۔
(١٠٦) اور اکثر اہل مکہ جو دل میں اللہ کی عبودیت کو مانتے بھی ہیں مگر علانیہ وحدانیت خداوندی میں شرک کرتے ہیں۔
آیت ١٠٦ (وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ )- یہ آیت ہمارے لیے بہت زیادہ لائق توجہ ہے اور ہم سب کو اس پر بہت غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ شرک کا معاملہ ان لوگوں کا تو بالکل واضح ہے جو ایک اللہ کے ساتھ بیشمار دوسرے معبودوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مختلف ناموں سے ان کی پوجا کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ خود کو موحد سمجھتے ہیں اور اپنے خیال میں وہ امکانی حد تک موحد ہوتے بھی ہیں ‘ بسا اوقات غیر شعوری طور پر وہ بھی کسی نہ کسی نوع کے شرک میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے بڑی گہری بصیرت کی ضرورت ہے ‘ اور ایسی بصیرت اور ایسا علم حاصل کرنا ہر صاحب شعور مسلمان پر فرض ہے تاکہ وہ خود کو اس مہلک اور تباہ کن گناہ سے بچا سکے۔- شرک کو قرآن مجید میں بدترین گناہ اور سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس گناہ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوررۃ النساء میں وہ آیت (٤٨ اور ١١٦) دو مرتبہ آئی ہے جس میں شرک کا ارتکاب کرنے والے فرد کے لیے معافی اور مغفرت کے کسی بھی امکان کو سختی سے رد کردیا گیا ہے : (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ) اس اعتبار سے میں یہاں پر ایک دفعہ پھر ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ” حقیقت و اقسام شرک “ کے موضوع پر میری چھ گھنٹے کی تقاریر کی ریکارڈنگ آپ ضرور سنیں (اب اسی نام سے کتاب بھی دستیاب ہے جس کا مطالعہ کرلیں) اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ شرک کی حقیقت اور اس کی اقسام کیا ہیں ؟ ماضی میں شرک کی کیا صورتیں تھیں اور آج کے دور کا سب سے بڑا شرک کون سا ہے ؟ شرک فی الذات کیا ہے ؟ شرک فی الصفات کیا ہے ؟ شرک فی الحقوق کیا ہے ؟ نظریاتی شرک کیا ہے ؟ سائنس میں یہ شرک کس طور سے آیا ہے ؟ قوم پرستی ‘ مادہ پرستی ‘ نفس پرستی اور دولت پرستی کس اعتبار سے شرک کے زمرے میں آتی ہے ؟ کون کون سے بڑے شرک ہیں جن میں آج ہمارے ملوث ہونے کا امکان ہے ؟ شرک کے بارے میں یہ تمام تفصیلات جاننا ایک بندۂ مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
۷٦ ۔ یہ فطری نتیجہ ہے اس غفلت کا جس کی طرف اوپر کے فقرے میں اشارہ کیا گیا ہے جب لوگوں نے نشان راہ سے آنکھیں بند کیں تو سیدھے راستے سے ہٹ گئے اور اطراف کی جھاڑیوں میں پھنس کر رہ گئے ، اس پر بھی کم انسان ایسے ہیں جو منزل کو بالکل ہی گم کرچکے ہوں اور جنہیں اس بات سے قطعی انکار ہو کہ خدا ان کا خالق و رازق ہے ، پیشتر انسان جس گمراہی میں مبتلا ہیں وہ انکار خدا کی گمراہی نہیں بلکہ شرک کی گمراہی ہے ، یعنی وہ یہ نہیں کہتے کہ خدا نہیں ہے ، بلکہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ خدا کی ذات اس کی صفاتت ، اختیارات اور حقوق میں دوسرے بھی کسی نہ کسی طرح شریک ہیں ، یہ غلط فہمی ہرگز نہ پیدا ہوتی اگر زمین و آسمان کی ان نشانیوں کو نگاہ عبرت سے دیکھا جاتا جو ہر جگہ اور ہر آن خدائی کی وحڈت کا پتہ دے رہی ہیں ۔