اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ ۔۔ : ” غَشِیَ یَغْشٰی غَشْیًا وَ غَشَیَانًا “ ہر جانب سے گھیر لینا، ڈھانک لینا، جیسے فرمایا : (وَاِذَا غَشِيَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ ) [ لقمان : ٣٢ ] ” اور جب انھیں سائبانوں جیسی عظیم موج ڈھانک لیتی ہے۔ “ غاشیہ وہ حادثہ جو چاروں طرف سے گھیر لے۔ عرب ایسے حوادث کو مؤنث ہی استعمال کرتے ہیں، مثلاً ” اَلطَّامَّۃُ ، اَلصَّاخَّۃُ ، اَلدَّاھِیَۃُ ، اَلْمُصِیْبَۃُ ، اَلْکَارِثَۃُ ، اَلْحَادِثَۃُ ، اَلْوَاقِعَۃُ ، اَلْحَآقَّۃُ “ اس آیت میں مشرکین کے لیے سخت وعید ہے کہ کچھ بعید نہیں کہ کسی بھی وقت ان پر ہر طرف سے گھیرنے والا عذاب آجائے، مثلاً زلزلہ، طاعون، سیلاب اور طوفان وغیرہ۔- ” بَغْتَةً “ ” بَغَتَ “ (ف) سے مصدر بمعنی اسم فاعل حال ہے ( بَاغِتًا) اچانک۔
اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللّٰهِ اَوْ تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ١٠٧- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- بغت - البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107]- ( ب غ ت) البغت - ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔- تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
(١٠٧) کیا پھر بھی مکہ والے اس بات سے مطمئن بیٹھے ہیں کہ بدر کی طرح عذاب الہی میں سے کوئی عذاب ان پر نازل ہو یا ان پر اچانک عذاب قیامت آپڑے اور ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو۔
۷۷ ۔ اس سے مقصود لوگوں کو چونکانا ہے کہ فرصت زندگی کو دراز سمجھ کر اور حال کے امن کو دائم خیال کر کے فکر مآل کو کسی آنے والے وقت پر نہ ٹالو ، کسی انسان کے پاس بھی اس امر کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کی مہلت حیات فلاں وقت تک یقینا باقی رہے گی ، کوئی نہیں جانتا کہ کب اچانک اس کی گرفتاری ہوجاتی ہے اور کہاں سے کس حال میں وہ پکڑ بلایا جاتا ہے ، تمہارا شب و روز کا تجربہ ہے کہ پردہ مستقبل ایک لمحہ پہلے بھی خبر نہیں دیتا کہ اس کے اندر تمہارے لیے کیا چھپا ہوا ہے ، لہذا کچھ فکر کرنی ہے تو ابھی کولر زندگی کی جس راہ پر چلے جارہے ہو اس میں آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ٹھہر کر سوچ لو کہ کیا یہ راستہ ٹھیک ہے؟ اس کے درست ہونے کے لیے کوئی واقعی حجت موجود ہے؟ اس کے راہ راست ہونے کی کوئی دلیل آثات کائنات سے مل رہی ہے؟ اس پر چلنے کے جو نتائج تمہارے ابنائے نوع پہلے دیکھ چکے ہیں اور جو نتائج اب تمہارے تمدن میں رونما ہورہے ہیں وہ یہی تصدیق کرتے ہیں کہ تم ٹھیک جارہے ہو ۔