دعوت وحدانیت اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جنہیں تمام جن و انس کی طرف بھیجا ہے ، حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو خبر کر دوں کہ میرا مسلک ، میرا طریق ، میری سنت یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کی دعوت عام کر دوں ۔ پورے یقین دلیل اور بصیرت کے ساتھ ۔ میں اس طرف سب کو بلا رہا ہوں میرے جتنے پیرو ہیں ، وہ بھی اسی طرف سب کو بلا رہے ہیں ، شرعی ، نقلی اور عقلی دلیلوں کے ساتھ اس طرف دعوت دیتے ہیں ہم اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ، اس کی تعظیم تقدیس ، تسبیح تہلیل بیان کرتے ہیں ، اسے شریک سے ، نظیر سے ، عدیل سے ، وزیر سے ، مشیر سے اور ہر طرح کی کمی اور کمزوری سے پاک مانتے ہیں ، نہ اس کی اولاد مانیں ، نہ بیوی ، نہ ساتھی ، نہ ہم جنس ۔ وہ ان تمام بری باتوں سے پاک اور بلند و بالا ہے ۔ آسمان و زمین اور ان کی ساری مخلوق اس کی حمد و تسبیح کر رہی ہے لیکن لوگ ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ، اللہ بڑا ہی حلیم اور غفور ہے ۔
108۔ 1 یعنی توحید کی راہ ہی میری راہ ہے بلکہ ہر پیغمبر کی راہ رہی ہے اسی کی طرف میں اور میرے پیروکار پورے یقین اور دلائل شرعی کے ساتھ لوگوں کو بلاتے ہیں۔ 108۔ 2 یعنی میں اس کی تنزیہ و تقدیس بیان کرتا ہوں اس بات سے کہ اس کا کوئی شریک، نظیر، مثیل یا وزیر ومشیر یا اولاد اور بیوی ہو وہ ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔
[١٠٢] نبی کی دعوت علی وجہ البصیرت :۔ یعنی میں جس راہ پر گامزن ہوں اور اس کی طرف دوسروں کو بلاتا ہوں تو سوچ سمجھ کر اور علی وجہ البصیرت چل رہا ہوں اور میرے پیرو کار بھی ایسے ہی ہیں۔ میں دلائل سے اور تجربہ سے ثابت کرسکتا ہوں کہ اللہ کے سوا دوسرے معبودان باطل نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں نیز اس بات پر بھی میرا ضمیر پوری طرح مطمئن ہے کہ جو ہستی ہماری خالق ومالک اور رازق ہے۔ و ہی خالصتاً ہماری عبادت کی مستحق ہوسکتی ہے اگر اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے تو یہ انتہائی ناانصافی کی بات ہے۔ لہذا نہ میں مشرکوں کے کام کرنے کو تیار ہوں اور نہ میرے پیروکار۔
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ : لفظ ” سَبِیْلٌ“ مؤنث بھی آتا ہے، جیسا کہ یہاں ہے اور مذکر بھی، جیسا کہ فرمایا : (ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ) [ الأعراف : ١٤٦ ] معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے پیروکاروں کا راستہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت ہے، یعنی صرف اللہ کی عبادت اور اسی کے احکام کی اطاعت جو بذریعہ وحی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترے، اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کی دعوت دے، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی طرف سے اترنے والے احکام و مسائل کے بجائے کسی اور کی پیروی، مثلاً کسی امام یا پیر وغیرہ کی تقلید کی دعوت دے تو وہ نہ اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہے اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے پر چل رہا ہے، کیونکہ جس چیز کی طرف وہ بلا رہا ہے وہ اللہ کی طرف سے اتری ہی نہیں، وہ محض انسانی رائے یا خیال ہے۔- عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۔۔ : ” بَصَارَۃٌ“ آنکھوں کا دیکھنا اور ” بَصِيْرَةٍ “ دل سے اچھی طرح سمجھنا، یعنی میں اور میرے پیروکار خوب سوچ سمجھ کر اللہ کے راستے پر قائم ہیں۔ ” وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور خطا سے پاک ہے۔ اس اکیلے کی عبادت ہی حق ہے اور اس اکیلے کی وحی پر چلنا ہی حق ہے اور جو اس راہ کو چھوڑتا ہے وہ ایسی ہستیوں کی عبادت اور اطاعت کی وجہ سے مشرک ہے جو عیب اور خطا سے پاک نہیں ہیں۔ اس لیے میں کبھی ایسے مشرکوں میں شامل نہیں ہوسکتا۔
(آیت) قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ یعنی آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ (تم مانو یا نہ مانو) میرا تو یہی طریقہ اور مسلک ہے کہ لوگوں کو بصیرت اور یقین کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتا رہوں میں بھی اور وہ لوگ بھی جو میرا اتباع کرنے والے ہیں - مطلب یہ ہے کہ میری یہ دعوت کسی سرسری نظر پر مبنی نہیں بلکہ پوری بصیرت اور عقل و حکمت پر کا ثمرہ ہے اس دعوت و بصیرت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے متبعین اور پیروؤں کو بھی شامل فرمایا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جو علوم رسالت کے خزانے اور خداوند سبحانہ وتعالیٰ کے سپاہی ہیں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اس تمام امت کے بہترین افراد ہیں جن کے قلوب پاک اور علم گہرا ہے تکلف کا ان میں نام نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی صحبت و خدمت کے لئے منتخب فرما لیا ہے تم انہی کے اخلاق و عادات اور طریقوں کو سیکھو کیونکہ وہی سیدھے راستہ پر ہیں - اور یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ مَنِ اتَّبَعَنِيْ عام ہو ہر اس شخص کے لئے جو قیامت تک دعوت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امت پہنچانے کی خدمت میں مشغول ہو کلبی اور ابن زید نے فرمایا کہ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا دعویٰ کرے اس پر لازم ہے کہ آپ کی دعوت کو لوگوں میں پھیلائے اور قرآن کی تعلیم کو عام کرے (مظہری)- وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ یعنی شرک سے پاک ہے اللہ اور میں شرک کرنے میں سے نہیں اوپر چونکہ یہ ذکر آیا تھا کہ اکثر لوگ جب اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں تو اس کے ساتھ شرک جلی یا خفی ملا دیتے ہیں اس لئے شرک سے اپنی بالکل براءت کا اعلان فرمایا خلاصہ یہ کہ میری دعوت کا یہ مطلب نہیں کہ میں لوگوں کو اپنا بندہ بناؤں بلکہ میں خود بھی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں البتہ بحیثیت داعی مجھ پر ایمان لانا فرض ہے - اس پر جو مشرکین مکہ یہ شبہ پیش کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول اور قاصد تو انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہونا چاہئے اس کا جواب اگلی آیت میں اس طرح فرمایا
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ٧ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٠٨- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، - ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو :- وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے
قول باری ہے (قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی تم ان سے صاف کہہ دو کہ ” میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی) آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لئے ہوئی ہے نیز آپ خود بھی اس راستے پر پوری بصیرت کے ساتھ چل رہے ہیں کہ گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں نیز آپ کے متبعین بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہے ہیں اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے کے لئے آپ کا یہی طریق کار ہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ اہل ایمان پر لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی اسی طرح ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھی۔ قول باری ہے (وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم من اھل القری اے محمد تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے۔ اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں) ایک قول کے مطابق شہروں میں رہنے والوں میں سے نہ کہ صحرا نشینوں میں سے، اس لئے کہ شہروں میں رہنے والے علم و حکمت میں دوسروں سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور لوگوں میں ان کی باتوں کو قبول کرنے کا زیادہ رجحان ہوتا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیہاتوں اور صحرائوں میں رہنے والوں میں سے کبھی کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا۔ نہ ہی جنات میں کوئی نبی ہوا اور نہ ہی عورتوں میں۔
(١٠٨) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان اہل مکہ سے فرما دیجیے کہ ملت ابراہیمی ہی میرا طریق ہے میں لوگوں کو اللہ کی طرف اس طور پر بلاتا ہوں کہ میں دلیل اور دین خداوندی پر قائم ہوں، میں بھی اور میرے اوپر جو ایمان لائے وہ بھی اللہ کی طرف اس طور پر دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی دلیل اور دین خداوندی پر قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ شریک اور اولاد سے پاک ہے اور میں مشرکین کے ساتھ نہیں ہوں۔
آیت ١٠٨ (قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ٧ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ )- یعنی میرا اس راستے کو اختیار کرنا اور پھر اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا یونہی کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف نہیں ہے بلکہ میں اپنی بصیرت باطنی کے ساتھ پوری سوجھ بوجھ اور پورے شعور کے ساتھ اس راستے پر خود بھی چل رہا ہوں اور اس راستے کی طرف دوسروں کو بھی بلا رہا ہوں۔ اسی طرح میرے پیروکار بھی کوئی اندھے بہرے مقلد نہیں ہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ میری پیروی کر رہے ہیں۔- آج کے دور میں اس شعوری ایمان کی بہت ضرورت ہے۔ اگرچہ بھی اپنی جگہ بہت قیمتی چیز ہے اور یہ بھی انسان کی زندگی اور زندگی کی اقدار میں انقلاب لاسکتا ہے ‘ لیکن آج ضرورت چونکہ نظام بدلنے کی ہے اور نظام پر معاشرے کے کا تسلط ہے اس لیے جب تک اس طبقے کے اندر شعور اور بصیرت والا ایمان پیدا نہیں ہوگا یہ نظام تبدیل نہیں ہوسکتا۔
۷۸ ۔ یعنی ان باتوں سے پاک جو اس کی طرف منسوب کی جارہی ہیں ، ان نقائص اور کمزوریوں سے پاک جو ہر مشرکانہ عقیدے کی بنا پر لازما اس کی طرف منسوب ہوتی ہیں ، ان عیوب اور خطاؤں اور برائیوں سے پاک جن کا اس کی طرف منسوب ہونا شرک کا منقطی نتیجہ ہے ۔