رسول اور نبی صرف مرد ہی ہوئے ہیں بیان فرماتا ہے کہ رسول اور نبی مرد ہی بنتے رہے نہ کہ عورتیں ۔ جمہور اہل اسلام کا یہی قول ہے کہ نبوت عورتوں کو کبھی نہیں ملی ۔ اس آیت کریمہ کا سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن بعض کا قول ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی بیوی حضرت سارہ ، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ مریم بھی نبیہ تھیں ۔ ملائیکہ نے حضرت سارہ کو ان کے لڑکے اسحاق اور پوتے یعقوب کی بشارت دی ۔ موسیٰ کی ماں کی طرف انہیں دودھ پلانے کی وحی ہوئی ۔ مریم کو حضرت عیسیٰ کی بشارت فرشتے نے دی ۔ فرشتوں نے مریم سے کہا کہ اللہ نے تجھے پسندیدہ پاک اور برگزیدہ کر لیا ہے تمام جہان کی عورتوں پر ۔ اے مریم اپنے رب کی فرماں برداری کرتی رہو ، اس کے لئے سجدے کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اتنا تو ہم مانتے ہیں ، جتنا قرآن نے بیان فرمایا ۔ لیکن اس سے ان کی نبوت ثابت نہیں ہوتی ۔ صرف اتنا فرمان یا اتنی بشارت یا اتنے حکم کسی کی نبوت کے لئے دلیل نہیں ۔ اہل سنت والجماعت کا اور سب کا مذہب یہ کہ عورتوں میں سے کوئی نبوت والی نہیں ۔ ہاں ان میں صدیقات ہیں جیسے کہ سب سے اشرف وافضل عورت حضرت مریم کی نسبت قرآن نے فرمایا ہے آیت ( وامہ صدیقتہ ) پس اگر وہ نبی ہوتیں تو اس مقام میں وہی مرتبہ بیان کیا جاتا ۔ آیت میں آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۭ اَتَصْبِرُوْنَ ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا 20ۧ ) 25- الفرقان:20 ) یعنی تجھ سے بھلے جتنے رسول ہم نے بھیجے وہ سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں آمد و رفت بھی رکھتے تھے ۔ وہ ایسے نہ تھے کہ کھانا کھانے سے پاک ہوں ، نہ ایسے تھے کہ کبھی مرنے والے ہی نہ ہوں ، ہم نے ان سے اپنے وعدے پورے کئے ، انہیں اور ان کے ساتھ جنہیں ہم نے چاہا ، نجات دی اور مسرف لوگوں کو ہلاک کر دیا ۔ اسی طرح اور آیت میں ہے آیت ( قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ۭ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ Ḍ ) 46- الأحقاف:9 ) یعنی میں کوئی پہلا رسول تو نہیں ؟ الخ یاد رہے کہ اہل قری سے مراد اہل شہر ہیں نہ کہ بادیہ نشین وہ تو بڑے کج طبع اور بداخلاق ہوتے ہیں ۔ مشہور و معروف ہے کہ شہری نرم طبع اور خوض خلق ہوتے ہیں اسی طرح بستیوں سے دور والے ، پرے کنارے رہنے والے بھی عموما ایسے ہی ٹیڑھے ترچھے ہوتے ہیں ۔ قرآن فرماتا ہے آیت ( اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 97 ) 9- التوبہ:97 ) جنگلوں کے رہنے والے بدو کفر ونفاق میں بہت سخت ہیں ۔ قتادہ بھی یہی مطلب بیان فرماتے ہیں کیونکہ شہریوں میں علم وحلم زیادہ ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ بادیہ نشین اعراب میں سے کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا آپ نے اسے بدلہ دیا لیکن اسے اس نے بہت کم سمجھا ، آپ نے اور دیا اور دیا یہاں تک کہ اسے خوش کر دیا ۔ پھر فرمایا میرا تو جی چاہتا ہے کہ سوائے قریش اور انصاری اور ثقفی اور دوسی لوگوں کے اوروں کا تحفہ قبول ہی نہ کروں ۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ مومن جو لوگوں سے ملے جلے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے ، وہ اس سے بہتر ہے جو نہ ان سے ملے جلے ہو نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے ۔ یہ جہٹلانے والے کیا ملک میں چلتے پھرتے نہیں ؟ کہ اپنے سے پہلے کے جھٹلانے والوں کی حالتوں کو دیکھیں اور ان کے انجام پر غور کریں ؟ جیسے فرمان ہے آیت ( اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ 46 ) 22- الحج:46 ) یعنی کیا انہوں نے زمین کی سیر نہیں کی کہ ان کے دل سجھدار ہوتے ، الخ ۔ ان کے کان سن لیتے ، ان کی آنکھیں دیکھ لیتیں کہ ان جیسے گنہگاروں کا کیا حشر ہوتا رہا ہے ؟ وہ نجات سے محروم رہتے ہیں ، عتاب الہٰی انہیں غارت کر دیتا ہے ، عالم آخرت انکے لئے بہت ہی بہتر ہے جو احتیاط سے زندگی گزار دیتے ہیں ۔ یہاں بھی نجات پاتے ہیں اور وہاں بھی اور وہاں کی نجات یہاں کی نجات سے بہت ہی بہتر ہے ۔ وعدہ الہٰی ہے آیت ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51ۙ ) 40-غافر:51 ) ہم اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والوں کی اس دینا میں بھی مدد فرماتے ہیں اور قیامت کے دن بھی ان کی امداد کریں گے ، اس دن گواہ کھڑے ہوں گے ، ظالموں کے عذر بےسود رہیں گے ، ان پر لعنت برسے گی اور ان کے لئے برا گھر ہو گا ۔ گھر کی اضافت آخرت کی طرف کی ۔ جیسے صلوۃ اولیٰ اور مسجد جامع اور عام اول اور بارحۃ الاولیٰ اور یوم الخمیس میں ایسے ہی اضافت ہے ، عربی شعروں میں بھی یہ اضافت بکثرت آئی ہے ۔
109۔ 1 یہ آیت اس بات پر قطعی حکم ہے کہ تمام نبی مرد ہی ہوئے ہیں، عورتوں میں سے کسی کو نبوت کا مقام نہیں ملا، اسی طرح ان کا تعلق قریہ سے تھا، جو قصبہ دیہات اور شہر سب شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اہل بادیہ (صحرا نشینوں) میں سے نہیں تھا کیونکہ اہل بادیہ نسبتاً طبعیت کے سخت اور اخلاق کے کھردرے ہوتے ہیں اور شہری ان کی نسبت نرم، دھیمے اور با اخلاق ہوتے ہیں اور یہ خوبیاں نبوت کے لئے ضروری ہیں۔
[١٠٣] رسول کا اسی قوم سے اور بشر ہونا کیوں ضروری ہے ؟:۔ یہ دراصل ہر دور کے منکرین رسالت اور اسی طرح کفار مکہ کے ایک اعتراض کا جواب ہے کہ ہم اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی نبوت اور رسالت پر ایمان کیسے لائیں جسے ہماری طرح تمام بشری احتیاجات اور کمزرویاں لاحق ہیں۔ یہ اعتراض ذکر کیے بغیر اس آیت میں اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ یعنی تمام انبیاء نے اپنی قوم کے سامنے اپنا بچپن اور جوانی گزاری، تاکہ ان کی نبوت سے پہلے کی زندگی ان کی دعوت پر گواہی کی حیثیت سے پیش کی جاسکے اور ان کی قوم ان کی دعوت کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اگر ہم باہر سے کوئی اجنبی آدمی نبی بنا کر بھیج دیتے تو کیا وہ ان کی دعوت کو سمجھ سکتے تھے، پھر اگر وہ سمجھ ہی نہ پاتے تو کیا ایمان لاسکتے تھے ؟ پھر جب اس صورت کے علاوہ کوئی دوسری صورت ممکن ہی نہیں تو ان کے لیے ایسے اعتراض کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایسے ہی اعتراض کرکے انبیاء کی دعوت تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کم از کم ان کا انجام ہی دیکھ لیتے۔ پھر اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا تھا کہ جب دنیا میں ان منکریں حق کا یہ حشر ہوا ہے تو آخرت میں تو اس سے بھی بدتر ہوگا نیز یہ کہ جن لوگوں نے دنیا میں اپنی اصلاح کرلی اور اللہ سے ڈرتے رہے وہ صرف دنیا میں ہی اچھے نہ رہے بلکہ آخرت میں ان کا انجام اس سے بھی بہتر ہوگا۔- کوئی عورت نبیہ نہیں ہوئی :۔ اس آیت میں ضمناً دو باتیں مزید معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ کوئی عورت کسی دور میں نبی نہیں بنائی گئی۔ دوسرے یہ کہ کوئی نبی کسی بدوی یا جنگلی علاقہ میں مبعوث نہیں کیا گیا۔ وہ بڑی بستیوں یا شہروں میں ہی پیدا ہوئے اور وہی ان کا مرکز تبلیغ رہا۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ ۔۔ : اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسان ہونے کی وجہ سے نبی ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اترے۔ (دیکھیے فرقان : ٢١) یہ رسول تو ہماری طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ (دیکھیے فرقان : ٧) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے تمام رسول ” رِجَالٌ“ (مرد) ہی بھیجے۔ دوسرے مردوں سے ان کا فرق یہ تھا کہ ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے جس سے دوسرے لوگ محروم تھے۔- اِلَّا رِجَالًا : اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ کچھ عورتیں بھی پیغمبر ہوئی ہیں، مثلاً حوا، آسیہ، سارہ، ام موسیٰ اور مریم علیھن السلام۔ حافظ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ ان عورتوں کو فرشتوں کے ذریعے سے وحی یا بشارت تو ضرور ملی ہے مگر اس سے ان کا معروف معنی میں نبی ہونا لازم نہیں آتا۔ نبی وہ ہے جس پر شرع کے احکام اتریں اور اس قسم کی وحی کسی عورت پر نہیں اتری، یہ شرف رجال (مردوں) ہی کو حاصل رہا ہے۔ اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صراحت فرما دی تھی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، مگر اس آیت میں ان عورتوں کے جھوٹے دعوے کا پیشگی مزید رد ہے جنھوں نے آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تھا، مثلاً سجاح نامی عورت۔ چناچہ فرمایا کہ آپ سے پہلے ہم نے مردوں کو رسول بنا کر بھیجا، عورتوں کا اس میں کچھ دخل نہیں، کیونکہ رسول نے مردوں کو بھی دعوت دینا ہوتی ہے، الجھنا بھی پڑتا ہے، جنگ بھی ہوتی ہے اور یہ کام عورت کے بس کے نہیں ہیں۔ - مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى : اکثر اہل علم اس سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ نبی ہمیشہ شہروں اور بستیوں کے رہنے والوں میں سے آئے ہیں، بادیہ یا صحرا نشینوں سے نہیں آئے، کیونکہ بادیہ نشین قدرتی طور پر غیر سنجیدہ اور سخت طبع ہوتے ہیں۔ مگر ابن عاشور (رض) نے فرمایا :” یہ حصر اضافی ہے حقیقی نہیں۔ “ یعنی جو بات تم کہہ رہے ہو کہ آسمان سے فرشتہ اترنا چاہیے، یہ بات درست نہیں، تمام پیغمبر انسان ہی تھے اور زمین کی بستیوں ہی کے رہنے والے تھے، آسمان سے نہیں اترے تھے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) بدو میں رہتے تھے اور پیغمبر تھے، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا : ( وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ ) [ یوسف : ١٠٠ ] یا پھر یہ کہا جائے کہ یعقوب (علیہ السلام) بھی بستی ہی میں رہتے تھے، مگر ترقی یافتہ اور متمدن شہر مصر کے مقابلے میں اس بستی کنعان کی حیثیت بھی بدو اور صحرا کی تھی، جیسا کہ پیچھے گزرا۔ - اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : کفار آخرت کو تو مانتے نہیں تھے، اس لیے انھیں سمجھانے کے لیے دنیا میں گزرنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے شام کو جاتے ہوئے پہاڑوں کو کھود کر بنائے ہوئے قوم ثمود کے مکانات اور قوم لوط کی بستیوں کی جگہ والاخرابہ اور پھر مصر کے اہرام نہیں دیکھیے کہ انھیں عبرت ہوتی۔ - وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ ل۔۔ : اگرچہ پچھلے کلام کا تقاضا تھا کہ کہا جاتا کہ ان کفار سے آخرت میں ہونے والا معاملہ اس سے بھی کہیں برا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ان کا ذکر ہی چھوڑ کر متقی لوگوں کا انجام ذکر فرمایا، جس سے ان کا انجام خود بخود ظاہر ہو رہا ہے، اسے بلاغت کی اصطلاح میں احتباک کہتے ہیں۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى یعنی ان کا یہ خیال بےبنیاد اور لغو ہے کہ اللہ کا رسول اور پیغمبر فرشتہ ہونا چاہئے انسان نہیں ہوسکتا بلکہ معاملہ برعکس ہے کہ انسانوں کے لئے اللہ کا رسول ہمیشہ انسان ہی ہوتا چلا آیا ہے البتہ عام انسانوں سے اس کو یہ امتیاز حاصل ہوتا ہے کہ اس کی طرف براہ راست حق تعالیٰ کی وحی اور پیغام آتا ہے اور وہ کسی کی سعی و عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے بندوں میں سے جس کو مناسب سمجھتے ہیں اس کام کے لئے انتخاب فرما لیتے ہیں اور یہ انتخاب ایسی خاص صفات کمال کی بناء پر ہوتا ہے جو عام انسانوں میں نہیں ہوتیں - آگے ان لوگوں کو تنبیہ ہے جو اللہ کی طرف داعی اور رسول کی ہدایات کی خلاف ورزی کر کے عذاب الہی کو دعوت دیتے ہیں فرمایا - اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّـلَّذِيْنَ اتَّقَوْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ یعنی کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان کو پچھلی قوموں کے حالات کا مشاہدہ ہو کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انکار نے ان کو کس انجام بد میں مبتلا کیا مگر یہ لوگ دنیا کی ظاہری زینت و راحت میں مست ہو کر آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں حالانکہ پرہیزگاروں کے لئے آخرت اس دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے کیا ان لوگوں کو اتنی عقل نہیں کہ دنیا کی چند روزہ راحت کو آخرت کی دائمی اور مکمل نعمتوں اور راحتوں پر ترجیح دیتے ہیں - (آیت) وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے متعلق لفظ رجالا سے معلوم ہوا کہ رسول ہمیشہ مرد ہی ہوتے ہیں عورت نبی یا رسول نہیں ہوسکتی - امام ابن کثیر نے جمہور علماء کا یہی قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی عورت کو نبی یا رسول نہیں بنایا بعض علماء نے چند عورتوں کے متعلق نبی ہونے کا اقرار کیا ہے مثلا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بی بی سارہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اور حضرت مریم ام عیسیٰ (علیہ السلام) کیونکہ ان تینوں خواتین کے بارے میں قرآن کریم میں ایسے الفاظ موجود ہیں جن سے سمجھا جاتا ہے کہ بحکم خداوندی فرشتوں نے ان سے کلام کیا اور بشارت سنائی یا خود ان کو وحی الہی سے کوئی بات معلوم ہوئی مگر جمہور علماء کے نزدیک ان آیتوں سے ان تینوں خواتین کی بزرگی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا بڑا درجہ ہونا تو ثابت ہوتا ہے مگر وہ فرماتے ہیں کہ صرف یہ الفاظ ان کی نبوت و رسالت کے ثبوت کے لئے کافی نہیں - اور اسی آیت میں لفظ اَهْلِ الْقُرٰى سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول عموما شہروں اور قصبوں کے رہنے والوں میں سے بھیجتے ہیں دیہات اور جنگل کے باشندوں میں سے رسول نہیں ہوتے کیونکہ عموما دیہات اور جنگل کے باشندے سخت مزاج اور عقل و فہم میں کامل نہیں ہوتے (ابن کثیر و قرطبی وغیرہ)
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى ۭ اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّـلَّذِيْنَ اتَّقَوْا ۭاَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ١٠٩- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - سير - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير - ( س ی ر ) السیر - ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
(١٠٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ نے آپ سے پہلے مختلف بستی والوں میں جتنے رسول بنا کر بھیجے سب آدمی ہی تھے جس طرح اب ہم آپ کے پاس بذریعہ جبریل امین وحی بھیجتے ہیں اسی طرح ان کے پاس وحی بھیجتے تھے کیا مکہ والے کہیں چلے پھرے نہیں کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر غور کرلیتے کہ ان سے پہلے جو کافر تھے ان کا کیسا برا انجام ہوا۔- البتہ جنت ان حضرات کے لیے جو کفر وشرک اور فواحش سے بچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں نہایت بھلائی کی چیز ہے۔- کیا تمہارے پاس انسانوں والا دماغ نہیں کہ سوچو آخرت دنیا سے بہتر ہے یا یہ کی دنیا فانی اور آخرت باقی رہنے والی ہے یا یہ کہ کیا اس بات کو نہیں مانتے کہ گزشتہ قوموں پر جب انہوں نے رسولوں کو جھوٹا قرار دیا کیا کیا عذاب نازل ہوئے۔
آیت ١٠٩ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى)- یعنی آپ سے پہلے مختلف ادوار میں اور مختلف علاقوں میں جو انبیاء و رسل آئے وہ سب آدمی ہی تھے اور ان ہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے۔- (اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ )- یہ انہی اقوام کے انجام کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر انباء الرسل کے تحت قرآن میں بار بار آیا ہے۔ - (وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّـلَّذِيْنَ اتَّقَوْا ۭاَفَلَا تَعْقِلُوْنَ )- اگلی آیت مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کے بارے میں بہت سی آراء ہیں۔ میرے نزدیک جو رائے صحیح تر ہے صرف وہ یہاں بیان کی جا رہی ہے۔
۷۹ ۔ یہاں ایک بہت بڑے مضمون کو دو تین جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے ، اس کو اگر کسی تفصیلی عبارت میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے یہ لوگ تمہاری بات کی طرف اس لیے توجہ نہیں کرتے کہ جو شخص کل ان کے شہر میں پیدا ہوا اور انہی کے درمیان بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھا ہوا اس کے متعلق یہ کیسے مان لیں کہ یکایک ایک روز خدا نے اسے اپنا سفیر مقرر کردیا ، لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے جس سے آج دنیا میں پہلی مرتبہ انہی کو سابقہ پیش آیا ہو ، اس سے پہلے بھی خدا اپنے نبی بھیج چکا ہتے اور وہ سب بھی انسان ہی تھے ، پھر یہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ اچانک ایک اجنبی شخص کسی شہر میں نمودار ہوگیا ہو اور اس نے کہا ہو کہ میں پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں ، بلکہ جو لوگ بھی انسانوں کی اصلاح کے لیے اٹھائے گئے وہ سب ان کی اپنی ہی بستیوں کے رہنے والے تھے ، مسیح ، موسی ، ابراہیم ، نوح ( علیہم السلام ) آخر کون تھے؟ اب تم خود ہی دیکھ لو کہ جن قوموں نے ان لوگوں کی دعوت اصلاح کو قبول نہ کیا اور اپنے بے بنیاد تخیلات اور بے لگام خواہشات کے پیچھے چلتی رہیں ان کا انجام کیا ہوا ، تم خود اپنے تجارتی سفروں میں عاد ، ثمود ، مدین اور قوم لوط وغیرہ کے تباہ شدہ علاقوں سے گزرتے رہے ہو ، کیا وہاں کوئی سباق تمہیں نہیں ملا ؟ یہ انجام جو انہوں نے دنیا میں دیکھا یہی تو خبر دے رہا ہے کہ عاقبت میں وہ اس سے بد تر انجام دیکھیں گے ۔ اور یہ کہ جن لوگوں نے دنیا میں اپنی اصلاح کرلی وہ صرف دنیا ہی میں اچھے نہ رہے آخرت میں ان کا انجام اس سے بھی زیادہ بہتر ہوگا ۔
66: یہ کافروں کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی فرشتہ ہمارے پاس رسول بنا کر کیوں نہیں بھیجا؟