Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جب مخالفت عروج پر ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کی مدد اس کے رسولوں پر بروقت اترتی ہے ۔ دنیا کے جھٹکے جب زوروں پر ہوتے ہیں ، مخالفت جب تن جاتی ہے ، اختلاف جب بڑھ جاتا ہے ، دشمنی جب پوری ہو جاتی ہے ، انبیاء اللہ کو جب چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے ، معا اللہ کی مدد آ پہنچتی ہے ۔ کذبوا اور کذبوا دونوں قرأت یں ہیں ، حضرت عائشہ کی قرأت ذال کی تشدید سے ہے ، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ یہ لفظ کذبوا یا کذبوا ہے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کذبوا ہے ۔ انہوں نے کہا پھر تو یہ معنی ہوئے کہ رسولوں نے گمان کیا کہ وہ جھٹلائے گئے تو یہ گمان کی کون سی بات تھی یہ تو یقینی بات تھی کہ وہ جھٹلائے جاتے تھے ۔ آپ نے فرمایا بیشک یہ یقینی بات تھے کہ وہ کفار کی طرف سے جھٹلائے جاتے تھے لیکن وہ وقت بھی آئے کہ ایمان دار امتی بھی ایسے زلزلے میں ڈالے گئے اور اس طرح ان کی مدد میں تاخیر ہوئی کہ رسولوں کے دل میں آئی کہ غالبا اب تو ہماری جماعت بھی ہمیں جھٹلانے لگی ہو گی ۔ اب مدد رب آئی ۔ اور انہیں غلبہ ہوا ۔ تم اتنا تو خیال کرو کہ کذبوا کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے ؟ معاذ اللہ کیا انبیاء علیہم السلام اللہ کی نسبت یہ بدگمانی کر سکتے ہیں کہ انہیں رب کی طرف سے جھٹلایا گیا ؟ ابن عباس کی قرأت میں کذبوا ہے ۔ آپ اس کی دلیل میں آیت ( حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ٢١٤؁ ) 2- البقرة:214 ) پڑھ دیتے تھے یعنی یہاں تک کہ انبیاء اور ایماندار کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے ۔ یاد رکھو مدد رب بالکل قریب ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کا سختی سے انکار کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ جناب رسول اللہ آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے جتنے وعدے کئے ، آپ کو کامل یقین تھا کہ وہ سب یقینی اور حتمی ہیں اور سب پورے ہو کر ہی رہیں گے آخر دم تک کبھی نعوذ باللہ آب کے دل میں یہ وہم ہی پیدا نہیں ہوا کہ کوئی وعدہ ربانی غلط ثابت ہو گا ۔ یا ممکن ہے کہ غلظ ہو جائے یا پورا نہ ہو ۔ ہاں انبیا علیہم السلام پر برابر بلائیں اور آزمائشیں آتی رہیں ، یہاں تک کہ ان کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں میرے ماننے والے بھی مجھ سے بدگمان ہو کر مجھے جھٹلا نہ رہے ہوں ۔ ایک شخص قاسم بن محمد کے پاس آ کر کہتا ہے کہ محمد بن کعب قرظی کذبوا پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ صدیقہ عائشہ سے سنا ہے وہ کذبوا پڑھتی تھیں یعنی ان کے ماننے والوں نے انہیں جھٹلایا ۔ پس ایک قرأت تو تشدید کے ساتھ ہے دوسری تخفیف کے ساتھ ہے ، پھر اس کی تفسیر میں ابن عباس سے تو وہ مری ہے جو اوپر گزر چکا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے یہ آیت اسی طرح پڑھ کر فرمایا یہی وہ ہے جو تو برا جانتا ہے ۔ یہ روایت اس روایت کے خلاف ہے ، جسے ان دونوں بزرگوں سے اوروں نے روایت کیا ہے ، اس میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب رسول ناامید ہو گئے کہ ان کی قوم ان کی مانے گی اور قوم نے یہ سمجھ لیا کہ نبیوں نے ان سے جھوٹ کہا ، اسی وقت اللہ کی مدد آ پہنچی اور جسے اللہ نے چاہا نجات بخشی ۔ اسی طرح کی تفسیر اوروں سے بھی مروی ہے ۔ ایک نوجوان قریشی نے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضرت ہمیں بتائیے ، اس لفظ کو کیا پڑھیں ، مجھ سے تو اس لفظ کی قرأت کی وجہ سے ممکن ہے کہ اس سورت کا پڑھنا ہی چھوٹ جائے ۔ آپ نے فرمایا سنو اس کا مطلب یہ کہ انبیاء اس سے مایوس ہو گئے کہ ان کی قوم ان کی بات مانے گی اور قوم والے سمجھ بیٹھے کہ نبیوں نے غلط کہا ہے یہ سن کر حضرت ضحاک بن مزاحم بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس جیسا جواب کسی ذی علم کا میں نے نہیں سنا اگر میں یہاں سے یمن پہنچ کر بھی ایسے جواب کو سنتا تو میں اسے بھی بہت آسان جانتا ۔ مسلم بن یسار رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کا یہ جواب سن کر اٹھ کر آپ سے معانقہ کیا اور کہا اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیوں کو بھی اسی طرح دور کر دے ، جس طرح آپ نے ہماری پریشانی دور فرمائی ۔ بہت سے اور مفسرین نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے بلکہ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی تو قرأت ذال کے زبر سے ہے یعنی کذبوا ہاں بعض مفسرین وظنوا کا فاعل مومنوں کو بتاتے ہیں اور بعض کافرویں کو یعنی کافروں نے یا یہ کہ بعض مومنوں نے یہ گمان کیا کہ رسولوں سے جو وعدہ مدد کا تھا اس میں وہ جھوٹے ثابت ہوئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں رسول ناامید ہو گئے یعنی اپنی قوم کے ایمان سے اور نصرت ربانی میں دیر دیکھ کر ان کو قوم گمان کرنے لگی کہ وہ جھوٹا وعدہ دئے گئے تھے ۔ پس یہ دونوں روایتیں تو ان دونوں بزرگ صحابیوں سے مروی ہیں ۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کا صاف انکار کرتی ہیں ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ بھی قول صدیقہ کی طرفداری کرتے اور دوسرے قول کی تردید کرتے ہیں اور اسے ناپسند کر کے رد کر دیتے ہیں ، واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 یہ مایوسی اپنی قوم کے ایمان لانے سے ہوئی۔ 110۔ 2 قرأت کے اعتبار سے اس آیت کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن سب سے مناسب مفہوم یہ ہے کہ ظَنُّوا کا فاعل قوم کفار کو قرار دیا جائے یعنی کفار عذاب کی دھمکی پر پہلے تو ڈرے لیکن جب زیادہ تاخیر ہوئی تو خیال کیا کہ عذاب تو آتا نہیں ہے، (جیسا کہ پیغمبر کی طرف سے دعویٰ ہو رہا ہے) اور نہ آتا نظر ہی آتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں سے بھی یوں ہی جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے۔ مطلب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ آپ کی قوم پر عذاب میں جو تاخیر ہو رہی ہے، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلی قوموں پر بھی عذاب میں بڑی بڑی تاخیر روا رکھی گئی ہے اور اللہ کی مشیت و حکمت کے مطابق انھیں خوب خوب مہلت دی گئی حتیٰ کہ رسول اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ شاید انھیں عذاب کا یوں ہی جھوٹ موٹ کہہ دیا گیا ہے۔ 110۔ 3 اس میں دراصل اللہ تعالیٰ کے اس قانون مہلت کا بیان ہے، جو وہ نافرمانوں کو دیتا ہے، حتیٰ کہ اس بارے میں وہ اپنے پیغمبروں کی خواہش کے برعکس بھی زیادہ سے زیادہ مہلت عطا کرتا ہے، جلدی نہیں کرتا، یہاں تک کہ بعض دفعہ پیغمبر کے ماننے والے بھی عذاب سے مایوس ہو کر یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ان سی یوں ہی جھوٹ موٹ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ محض ایسے وسوسے کا پیدا ہوجانا ایمان کے منافی نہیں ہے۔ 110۔ 4 یہ نجات پانے والے اہل ایمان ہی ہوتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] اللہ کی مدد میں تاخیر سے مومنوں پر اثر :۔ اس آخری جملہ کی تشریح کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا عروہ بن زبیر نے سیدہ عائشہ (رض) سے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا اور ان کی تصدیق کی۔ جب ایک مدت دراز تک ان پر آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوگئی اور پیغمبر جھٹلانے والوں کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں اب وہ بھی ہمیں جھوٹا سمجھنے لگیں گے۔ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- اس آیت سے اللہ کے قانون امہال (مہلت دینے کے قانون) پر روشنی پڑتی ہے۔ یعنی بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ رسولوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب جن لوگوں نے ایمان لانا تھا وہ لاچکے۔ پھر بھی ان پر عذاب الٰہی نہ آیا جس کا رسولوں کی زبان سے انھیں وعدہ دیا گیا تھا۔ اب جو لوگ ایمان لاکر منکرین حق کے ظلم و ستم برداشت کر رہے تھے اور ان سے جو وعدہ فتح و نصرت کیا جارہا تھا۔ ایک تو وہ پورا نہیں ہو رہا تھا۔ دوسرے منکرین حق کو یہ یقین ہوگیا کہ نبیوں کے یہ عذاب کے وعدے سب ڈھکوسلے ہیں۔ لہذا ایمان لانے والے بھی یہ سمجھنے لگے کہ ان پیغمبروں نے ہمارے ساتھ کہیں جھوٹ ہی نہ بولا ہو۔ یا ایسے وعدے جھوٹے ہی نہ ثابت ہوں۔ ایسے مایوس کن حالات میں بعض دفعہ پیغمبروں کے پائے ثبات میں بھی لغزش آنے لگی ہو۔ جیسا کہ سورة بقرہ میں ہے۔ (وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ٢١٤۔ ) 2 ۔ البقرة :214) تو اس وقت اللہ کا عذاب آگیا اور جب عذاب کا وقت آجاتا ہے تو پھر وہ موخر نہیں ہوسکتا اور اس عذاب سے اللہ ایمان والوں کو بچانے کی کوئی راہ دکھلا ہی دیتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ ۔۔ :” اسْتَيْــــَٔـسَ “ ” یَءِسَ “ میں مبالغہ ہے، یعنی بالکل مایوس ہوگئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ” حَتّٰٓي “ (یہاں تک) کا تعلق پیچھے کس سے ہے، جواب یہ ہے کہ اس کا تعلق گزشتہ آیت : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ ) سے ہے، یعنی ہم نے تجھ سے پہلے فرشتے یا جن نہیں بلکہ آدمی بھیجے، وہ مدتوں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے مگر ان کی قومیں ان پر ایمان نہیں لائیں، یہاں تک کہ جب رسول ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہوگئے۔ ” ظَنُّوْٓا “ ” ظَنَّ “ کے معنی وسوسہ، گمان اور یقین تینوں آتے ہیں، یعنی انھوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا۔ ” ظَنُّوْٓا “ کے فاعل کے متعلق تین قول ہیں، ایک یہ کہ کفار ہیں، یعنی ان کی قوم کے کفار نے یقین کرلیا کہ رسولوں نے ہم سے جو کہا تھا کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو تم پر عذاب آجائے گا، یہ بات ہم سے جھوٹ ہی کہی گئی تھی، کوئی عذاب وغیرہ نہیں آئے گا۔ اس وقت ان رسولوں کے پاس ہماری مدد آگئی اور مجرموں سے ہمارا عذاب ہٹایا نہیں جاتا۔ یہ معنی ابن عباس اور ابن مسعود (رض) سے مروی ہے۔ دوسرا یہ کہ ” ظَنُّوْٓا “ کے فاعل اہل ایمان ہیں، یعنی رسول کفار کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے اور مومنوں کو بھی وسوسہ پیدا ہونے لگا کہ شاید کفار پر عذاب آنے کی بات ان سے جھوٹ ہی کہی گئی تھی۔ یہ معنی بھی درست ہے، کیونکہ وسوسہ پیدا ہونا ایمان کے منافی نہیں، شیطان کا کام ہی لوگوں کے سینے میں وسوسے ڈالنا ہے، مگر اس پر مؤاخذہ نہیں۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِيْ عَنْ أُمَّتِيْ مَا وَسْوَسَتْ بِہٖ صُدُوْرُھَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَکَلَّمْ ) [ بخاري، العتق، باب الخطأ والنسیان في العتاقۃ۔۔ : ٢٥٢٨۔ مسلم : ١٢٧ ] ” اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جن کا وسوسہ ان کے سینے ڈالیں، جب تک وہ انھیں منہ سے نہ نکالیں یا ان پر عمل نہ کریں۔ “ - تیسرا وہ جو شاہ عبد القادر (رض) نے فرمایا : ” یعنی وعدۂ عذاب کو دیر لگی یہاں تک کہ رسول لگے ناامید ہونے کہ شاید ہماری زندگی میں نہ آیا پیچھے آوے اور ان کے اصحاب خیال کرنے لگے کہ شاید وعدہ خلاف تھا۔ اتنے خیال سے آدمی کافر نہیں ہوتا، مگر جانتا ہے کہ یہ خیال بد ہے۔ “ (موضح) اگر ” ظَنَّ “ سے مراد وسوسہ ہو تو ” ظنوا “ سے مراد رسول بھی بعید نہیں، کَذَا قَالَ ابْنُ تَیْمِیَۃَ (روح المعانی) کیونکہ لمبی آزمائشوں اور مصیبتوں میں خیال آ ہی جاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ) [ البقرۃ : ٢١٤ ] ” یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔ “ اس آیت کی روشنی میں یہ معنی بھی قرین عقل ہے۔ مراد اس آیت سے رسولوں پر آنے والی آزمائشوں کی مدت کی لمبائی اور ان کے صبر کے پیمانے کے لبریز ہونے کے قریب تک پہنچ جانے پر اللہ کی مدد کا آنا ہے، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا۔ - جَاۗءَهُمْ نَصْرُنَا : یعنی پیغمبروں کو ہماری مدد پہنچ گئی۔- وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ : لہٰذا اب اگر عذاب آنے میں دیر ہو رہی ہے تو دھوکا نہ کھاؤ کہ یہ محض ڈراوا ہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- ( اگر تم کو کفار پر تاخیر عذاب سے شبہ عدم وقوع کا ہوتا ہو تو تمہاری غلطی ہے اس لئے کہ پچھلی امتوں کے کفار کو بھی بڑی بڑی مہلتیں دی گئی تھیں) یہاں تک کہ (مدت مہلت دراز ہونے کی وجہ سے) پیغمبر (بات سے) مایوس ہوگئے (کہ ہم نے اللہ کی طرف سے کفار پر عذاب آنے کے وعدہ کا جو وقت اپنے قیاس اور اندازے سے مقرر کرلیا تھا کہ اس وقت میں کفار پر عذاب آ کر ہمارا غلبہ اور حقانیت واضح ہوجائے گی) اور ان (پیغمبروں) کو گمان غالب ہوگیا کہ ( وعدہ الہیہ کا وقت مقرر کرنے میں) ہمارے فہم نے غلطی کی (کی بلا تنصیص محض قرائن یا نصرت الہیہ کے جلد آنے کی خواہش سے قریب کا وقت معین کرلیا حالانکہ وعدہ مطلق ہے ایسی مایوسی کی حالت میں) ان کو ہماری مدد پہنچی (وہ مدد یہ کہ کفار پر عذاب سے) ہم نے جس کو چاہا وہ بچا لیا گیا (مراد اس سے مؤمنین ہیں) اور (اس عذاب میں کفار ہلاک کئے گئے کیونکہ) ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے نہیں ہٹتا (بلکہ ان پر ضرور واقع ہوتا ہے گو بدیر سہی پس یہ کفار مکہ بھی اس دھوکہ میں نہ رہیں) ان (انبیاء وامم سابقین) کے قصہ میں سمجھدار لوگوں کے لئے (بڑی) عبرت ہے (جو اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں کہ اطاعت کا یہ انجام ہے اور معصیت کا یہ انجام ہے) یہ قرآن ( جس میں یہ قصے ہیں) کوئی تراشی ہوئی بات تو ہے نہیں ( کہ اس سے عبرت نہ ہوتی) بلکہ اس سے پہلے جو آسمانی کتابیں (نازل) ہوچکی ہیں یہ ان کی تصدیق کرنے والے ہے اور ہر (ضروری) بات کی تفصیل کرنے والا ہے اور ایمان والوں کے لئے ذریعہ ہدایت و رحمت ہے (پس ایسی کتاب میں جو مضامین عبرت کے ہوں گے ان سے تو عبرت حاصل کرنا لازم ہی ہے)- معارف و مسائل :- پچھلی آیتوں میں انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور دعوت حق دینے کا ذکر اور انبیاء کے متعلق کچھ شبہات کا جواب دیا گیا تھا آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں اس پر تنبیہ ہے کہ یہ لوگ انبیاء کی مخالفت کے انجام بد پر نظر نہیں کرتے اگر یہ ذرا بھی غور کریں اور اپنے گردو پیش کے شہروں اور مقامات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء (علیہم السلام) مخالفت کرنے والوں کا انجام بد اس دنیا میں بھی کس قدر سخت ہوا ہے قوم لوط (علیہ السلام) کی بستی الٹ دی گئی قوم عاد وثمود کو طرح طرح کے عذابوں سے نیست و نابود کردیا گیا اور آخرت کا عذاب اس سے زیادہ سخت ہے،- دوسری آیت میں ہدایت کی گئی کہ دنیا کی تکلیف و راحت تو بہرحال چند روزہ ہے اصل فکر آخرت کی ہونی چاہئے جہاں کا قیام دائمی اور رنج یا راحت بھی دائمی ہے اور فرما دیا کہ آخرت کی درستگی تقوی پر موقوف ہے جس کے معنی تمام احکام شرعیہ کی پابندی کرنا ہیں - اس آیت میں پچھلے رسولوں اور ان کی امتوں کے حالات سے موجودہ لوگوں کو متنبہ کرنا تھا اس لئے اگلی آیت میں ان کے شبہ کو دور کیا گیا وہ یہ کہ اکثر لوگ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عذاب الہی سے ڈرانے کا ذکر عرصہ سے سن رہے تھے اور کوئی عذاب آتا نظر نہیں آتا تھا اس سے ان کی ہمتیں بڑھ رہی تھیں کہ کوئی عذاب آتا ہوتا تو ابتک آ چکا ہوتا اس لئے فرمایا کہ اللہ جل شانہ اپنی رحمت اور حکمت بالغہ سے بسا اوقات مجرم قوموں کو مہلت دیتے رہتے ہیں اور یہ مہلت بعض اوقات بڑی طویل بھی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے سرکشوں کی جرأت بڑھ جاتی ہے اور پیغمبروں کو ایک گونہ پریشانی پیش آتی ہے ارشاد فرمایا۔- (آیت) حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا جَاۗءَهُمْ نَصْرُنَا ۙ فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْن یعنی پچھلی امتوں کے نافرمانوں کو بڑی بڑی مہلتیں دی گیٔں یہاں تک کہ مدت دراز تک ان پر عذاب نہ آنے سے پغمبر یہ خیال کر کے مایوس ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ کے اجمالی وعدہ عذاب کا جو وقت ہم نے اپنے انداز سے اپنے ذہنوں میں مقرر کر رکھا تھا اس وقت میں کفار پر عذاب نہ آئے گا اور حق کا غلبہ ظاہر نہ ہوگا اور ان پغمبروں کو گمان غالب ہوگیا کہ وعدہ الہیہ کا اپنے اندازہ سے وقت مقرر کرنے میں ہماری فہم نے غلطی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو کوئی معین وقت بتلایا نہیں تھا ہم نے مخصوص قرائن سے ایک مدت متعین کرلی تھی اسی مایوسی کی حالت میں ان کو ہماری مدد پہنچی وہ یہ کہ وعدے کے مطابق کفار پر عذاب آیا پھر اس عذاب سے ہم نے جس کو چاہا اس کو بچا لیا گیا مراد اس سے یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے ماننے والے مؤمنین کو بچا لیا گیا اور کفار مکہ ہلاک ہوگئے کیونکہ ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے نہیں ہٹتا بلکہ ضرور آ کر رہتا ہے اس لئے کفار مکہ کو چاہئے کہ عذاب میں دیر ہونے سے دھوکہ میں نہ رہیں - اس آیت میں لفظ كُذِبُوْا مشہور قرات کے مطابق پڑھا گیا ہے اور اس کی جو تفسیر ہم نے اختیار کی ہے وہ سب سے زیادہ اسلم اور بےغبار ہے کہ لفظ كُذِبُوْا کا حاصل اپنے تخمینہ اور خیال کا غلط ہونا ہے جو ایک قسم کی اجتہادی غلطی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) سے کوئی ایسی اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے البتہ انبیاء اور دوسرے مجتہدین میں یہ فرق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سے جب کوئی اجتہادی غلطی ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو اس غلطی پر قائم نہیں رہنے دیتے بلکہ ان کو باخبر کر کے حقیقت کھول دیتے ہیں دوسرے مجتہدین کا یہ مقام نہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واقعہ صلح حدیبیہ اس مضمون کے لئے کافی شاہد ہے کیونکہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ اس واقعہ کی بنیاد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ خواب ہے آپ نے دیکھا کہ آپ مع صحابہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں اور انبیاء (علیہم السلام) کا خواب بھی بحکم وحی ہوتا ہے اس لئے اس واقعہ کا ہونا یقینی ہوگیا مگر خواب میں اس کا کوئی خاص وقت اور مدت نہیں بتلائی گئی تھی آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اندازہ سے خیال فرمایا کہ اسی سال ایسا ہوگا اس لئے صحابہ کرام (رض) اجمعین میں اعلان کر کے ان کی خاصی تعداد کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے مکہ معظمہ کو روانہ ہوگئے مگر قریش مکہ نے مزاحمت کی اور اس وقت طواف وعمرہ کی نوبت نہ آئی بلکہ اس کا مکمل ظہور دو سال بعد دیکھا تھا وہ حق یقینی تھا مگر اس کا وقت جو قرائن یا اندازہ سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرما لیا تھا مگر اس غلطی کا ازالہ اسی وقت ہوگیا،- اسی طرح آیت مذکورہ میں قَدْ كُذِبُوْا کا بھی یہی مفہوم ہے کہ کفار پر عذاب آنے میں دیر ہوئی اور جو وقت اندازہ سے انبیاء نے اپنے ذہن میں مقرر کیا تھا اس وقت عذاب نہ آیا تو ان کو یہ گمان ہوا کہ ہم نے وقت متعین کرنے میں غلطی کی ہے یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے منقول ہے اور علامہ طیبی نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ذکر کی گئی ہے (مظہری)- اور بعض قراتوں میں یہ لفظ ذال کی تشدید کے ساتھ قَدْ كُذِبُوْا بھی آیا ہے جو مصدر تکذیب سے مشتق ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ انبیاء (علیہم السلام) نے جو اندازہ سے وقت عذاب مقرر کردیا تھا اس وقت پر عذاب نہ آنے سے ان کو یہ خطرہ ہوگیا کہ اب جو مسلمان ہیں وہ بھی ہماری تکذیب نہ کرنے لگیں کہ جو کچھ ہم نے کہا تھا وہ پورا نہیں ہوا ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھا یا منکروں پر عذاب آ پڑا اور مؤمنین کو اس سے نجات ملی اس طرح ان کا غلبہ ظاہر ہوگیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا جَاۗءَهُمْ نَصْرُنَا ۙ فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ ١١٠؁- يأس - اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] ،- ( ی ء س ) یأس - ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - صدق وکذب - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔ الکذب - یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (حتی اذا ستیئس الرسل و ظنوا انھم قدکذبوا جاء ھم نصرنا۔ یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان پر جھوٹ بولا گیا تھا تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی) یاس امید کے انقطاع کا نام ہے۔ قول باری (کذبوا) کو حرف ذال کی تخفیف اور تشدید کے ساتھ پڑھا گیا۔ اگر پہلی قرأت لی جائے تو آیت اس معنی پر محمول ہوگی جس کی حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) ، حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) ، سعید بن جبیر، مجاہد اور ضحاک سے روایت کی گئی ہے۔ یعنی قوموں نے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبروں نے ان سے جو کہا تھا کہ انہیں اللہ کی نصرت حاصل ہے اور ان کے دشمن ہلاک ہوجائیں گے، وہ جھوٹ تھا۔ حماد بن زید سے مروی ہے۔ انہوں نے سعید بن الحجات سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے ابراہیم بن ابی حرۃ الجزری نے یہ بات سنائی کہ ” میں نے کھانا تیار کیا اور اپنے کچھ دوستوں کو جن میں سعید بن جبیر بھی شامل تھے کھانے پر بلایا۔ میں ضحاک بن مزاحم کو بھی پیغام بھیجا لیکن انہوں نے آنے سے انکار کردیا۔ اس پر میں خود ان کے پاس گیا اور انہیں لئے بغیر واپس نہیں آیا۔ دوران مجلس میں ایک قریشی نوجوان نے سعید بن جبیر سے دریافت کیا کہ ” ابو عبد اللہ ، آپ اس لفظ کی تلاوت کس طرح کرتے ہیں میں تو جب تلاوت کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچتا ہوں تو میرے دل میں یہ تمنا بیدار ہوجاتی ہے کہ کاش میں یہ سورت نہ ہی پڑھتا یعنی قول باری (حتی اذا استیئس الرسل وظنوا انھم قدکذبوا) نوجوان کی یہ بات سن کر سعید بن جبیر نے فرمایا : ہاں سنو یہاں تک کہ جب پیغمبروں کو اپنی قوموں سے اس بارے میں مایوسی ہوگئی کہ وہ ان کی تصدیق کریں گے اور قوموں نے بھی سمجھ لیا کہ پیغمبروں سے جھوٹ کہا گیا ہے۔ “ یہاں سعید بن جبیر نے (کذبوا) کی تخفیف والی قرأت کی۔ یہ سن کر ضحاک بن مزاحم نے فرمایا : میں نے آج کی طرح کبھی کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی ہو اور اس نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اس کا جواب دے دیا ہو، اگر مجھے یہ بات معلوم کرنے کے لئے یمن تک کا سفر کرنا پڑتا تو بھی میں اسے تھوڑا سمجھتا “ ایک اور روایت کے مطابق مسلم بن یسار نے سعید بن جبیر سے اسی آیت کی تفسیر پوچھی تھی اور جواب ملنے پر انہوں نے سعید کے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ” اللہ تم سے بھی اسی طرح سختیدور کر دے جس طرح تم نے اس آیت کے سلسلے میں مجھ سے سختی اور الجھن دور کردی ہے۔ “ جن حضرات نے لفظ (کذبوا) کی تشدید کے ساتھ قرأت کی ہے ان کے نزدیک آیت اس معنی پر محمول ہے کہ پیغمبروں کو یہ یقین ہوگیا کہ قوموں نے ان کی تکذیب کی ہے۔ اس طرح ان قوموں نے ہماری تکذیب کردی حتیٰ کہ ان میں سے ایک کو بھی فلاح نصیب نہیں ہوئی۔ حضرت عائشہ (رض) ، حسن اور قتادہ سے یہ تفسیر مروی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٠) چناچہ جب پیغمبر اپنی قوم کی تصدیق کرنے سے مایوس ہوگئے اور ان پیغمبروں کو گمان غالب ہوگیا کہ انکی قوم جو وہ اللہ کا پیغام اپنی قوم کے پاس لے کر آئے تھے جھٹلانے پر تلی ہوئی ہے اور اب ایمان نہیں لائے گی اور لفظ ” کذبوا “۔ کو تخفیف کے ساتھ پڑھا جائے گا تو مطلب یہ ہوگا کہ قوم کو غالب گمان ہوا کہ رسولوں نے جو وعدہ کیا تھا (نزول عذاب کا) اس کے خلاف کیا تو ایسی مایوسی کی حالت میں ان کی قوم کی ہلاکت کے لیے ہمارا عذاب آپہنچے گا، چناچہ ہم نے اس عذاب سے رسولوں اور انکے ماننے والوں کو بچا لیا اور ہمارا عذاب مشرکین سے نہیں ٹلتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٠ (حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ )- یعنی متعلقہ قوم میں جس قدر فطرت سلیمہ کی استعداد ( ) تھی اس لحاظ سے نتائج سامنے آچکے۔ ان میں سے جن لوگوں نے ایمان لانا تھا وہ ایمان لا چکے اور مزید کسی کے ایمان لانے کی توقع نہ رہی۔ بالفاظ دیگر اس چاٹی میں سے جس قدر مکھن نکلنا تھا نکل چکا ‘ اب اسے مزید بلونے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔- (وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا)- یہاں ظَنُّوْٓا کا فاعل متعلقہ قوم کے لوگ ہیں ‘ یعنی اب تک جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے وہ مزید دلیر ہوگئے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ واقعی جھوٹ تھا۔ کیونکہ اگر سچ ہوتا تو اتنے عرصے سے ہمیں جو عذاب کی دھمکیاں مل رہی تھیں وہ پوری ہوجاتیں۔ ہم ایمان بھی نہیں لائے اور عذاب بھی نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کا دعویٰ اور عذاب کے یہ ڈراوے سب جھوٹ ہی تھا۔- (جَاۗءَهُمْ نَصْرُنَا)- یعنی انبیاء و رسل کی دعوت اور حق و باطل کی کشمکش کے دوران ہمیشہ ایسا ہوا کہ جب دونوں طرف کی سوچ اپنی اپنی آخری حد تک پہنچتی (پیغمبر سمجھتے کہ اب مزید کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا اور منکرین سمجھتے کہ اب کوئی عذاب وغیرہ نہیں آئے گا یہ سب ڈھونگ تھا) تو عین ایسے موقع پر نبیوں اور رسولوں کے پاس ہماری طرف سے مدد پہنچ جاتی۔- (فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ )- یعنی اپنے انبیاء ورسل کے لیے ہماری یہ مدد منکرین حق پر عذاب کی صورت میں آتی اور اس عذاب سے جسے ہم چاہتے بچا لیتے ‘ لیکن اس سلسلے کی اٹل حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر مجرمین پر ہمارا عذاب آکر ہی رہتا ہے۔ ان کی طرف سے اس کا رخ کسی طور سے موڑا نہیں جاسکتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

67: اس آیت کا یہ ترجمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہ، حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اﷲ علیہ اور بعض دوسرے تابعین وغیرہ کی تفسیر پر مبنی ہے جسے علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی طویل بحث کے بعد آخر میں راجح قرار دیا ہے۔ آیت کی دوسری تفسیریں بھی ممکن ہیں۔ اور بعض مفسرین نے ان کو بھی اختیار کیا ہے۔ لیکن شاید یہ تفسیر جو ترجمے میں اختیار کی گئی ہے، سب سے زیادہ بے غبار ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ پچھلے انبیائے کرام کے دور میں بھی ایسا ہوچکا ہے کہ ان کو جھٹلانے والے کفار کو جب لمبی مہلت دی گئی، اور ان پر مدت تک عذاب نہ آیا تو ایک طرف انبیائے کرام ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے، اور دوسری طرف وہ کافر یہ سمجھ بیٹھے کہ انبیائے کرام نے ان کو عذاب الہی کی جو دھمکیاں دی تھیں، (معاذ اللہ) وہ جھوٹی تھیں۔ لیکن اس کے بعد اچانک انبیائے کرام کے لئے اﷲ تعالیٰ کی مدد آئی، ان کے جھٹلانے والوں پر عذاب نازل ہوا، اور ان کی بات سچی ہوئی۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔