عبرت ونصیحت نبیوں کے واقعات ، مسلمانوں کی نجات ، کافروں کی ہلاکت کے قصے ، عقلمندوں کے لئے بڑی عبرت و نصیحت والے ہیں ۔ یہ قرآن بناوٹی نہیں بلکہ اگلی آسمانی کتابوں کی سچائی کی دلیل ہے ۔ ان میں جو حقیقی باتیں اللہ کی ہیں ان کی تصدیق کرتا ہے ۔ اور جو تحریف و تبدیلی ہوئی ہے اسے چھانٹ دیتا ہے ان کی دو باتیں باقی رکھنے کی ہیں انہیں باقی رکھتا ہے ۔ اور جو احکام منسوخ ہو گئے انہیں بیان کرتا ہے ۔ ہر ایک حلال و حرام ، محبوب و مکروہ کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے ۔ طاعات واجبات ، مستحبات ، محرمات ، مکروہات وغیرہ کو بیان فرماتا ہے اجمالی اور تفصیلی خبریں دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جل وعلا کی صفات بیان فرماتا ہے اور بندوں نے جو غلطیاں اپنے خالق کے بارے میں کی ہیں ان کی اصلاح کرتا ہے ۔ مخلوق کو اس سے روکتا ہے کہ وہ اللہ کی کوئی صفت اس کی مخلوق میں ثابت کریں ۔ پس یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے ، ان کے دل ضلالت سے ہدایت اور جھوٹ سے سچ اور برائی سے بھلائی کی راہ پاتے ہیں اور رب العباد سے دنیا اور آخرت کی بھلائی حاصل کر لیتے ہیں ۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دنیا آخرت میں ایسے ہی مومنوں کا ساتھ دے اور قیامت کے دن جب کہ بہت سے چہرے سفید ہوں گے اور بہت سے منہ کالے ہو جائیں گے ، ہمیں مومنوں کے ساتھ نورانی چہروں میں شامل رکھے آمین ۔ الحمد للہ سورۃ یوسف کی تفسیر ختم ہو گئی ۔ اللہ کا شکر ہے وہی تعریفوں کے لائق ہے اور اسی سے ہم مدد چاہتے ہیں ۔
111۔ 1 یعنی قرآن، جس میں قصہ یوسف (علیہ السلام) اور دیگر قوموں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں کوئی گھڑا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ یہ پچھلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں دین کے بارے میں ساری ضروری باتوں کی تفصیل ہے اور ایمان داروں کے لئے ہدایت و رحمت۔
[١٠٥] قرآن کی تین صفات :۔ قرآن کا موضوع، نوع انسان کی ہدایت ہے۔ لہذا جو بات بھی انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی تفصیل اس کتاب میں آگئی ہے۔ تفصیل کُلِّ شَئْیٍ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اس میں سے علم طب یا حساب یا جغرافیہ وغیرہ کی تفصیلات تلاش کرنے لگیں۔ نیز یہ کتاب صرف ان لوگوں کو ہدایت کا کام دیتی ہے جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ پھر ان لوگوں کے لیے رحمت بھی ہے۔ بھلا جس شخص کو بلا کسی معاوضہ اور تکلیف کے زندگی کے ہر پہلو میں بہترین رہنمائی مل جائے اس کے لیے اس سے زیادہ نعمت اور رحمت کیا ہوسکتی ہے ؟ اور اس میں جو اقوام سابقہ کے اور انبیاء و رسل کے قصے بیان ہوئے ہیں وہ اپنے اندر اہل عقل و خرد کے لیے عبرتوں کے بیشمار پہلو سمیٹے ہوئے ہیں اور یہی چیز اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کسی انسان کی تصنیف کردہ کتاب نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جو قرون اولیٰ کے صحیح صحیح واقعات بیان کرنے کے ساتھ ان تاریخی واقعات اور قصوں میں بھی ہدایت اور عبرت کے لیے بیشمار اسباق سمو دیتا ہے۔
لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِهِمْ ۔۔ : یعنی رسولوں اور گزشتہ قوموں خصوصاً یوسف (علیہ السلام) اور ان سے متعلق تمام لوگوں مثلاً والد، بھائی، قافلے والے، عزیز مصر، اس کی بیوی، زنان مصر، قید کے ساتھی اور شاہ مصر ان سب کے بیان میں عقل مندوں کے لیے بڑی عبرت ہے، یہ کوئی گھڑی ہوئی کہانیاں نہیں، بلکہ پہلی آسمانی کتابوں کی صحیح باتوں کی تصدیق، ان کی کمی بیشی کو کھول کر بیان کرنے والی، ان کے صحیح مضامین کی محافظ اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِي الْاَلْبَاب یعنی ان حضرات کے قصوں میں عقل والوں کے لئے بڑی عبرت ہے،- اس سے مراد تمام انبیاء (علیہم السلام) کے قصے جو قرآن میں مذکور ہیں وہ بھی ہو سکتے ہیں اور خاص حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ جو اس سورة میں بیان ہوا ہے وہ بھی کیونکہ اس واقعہ میں یہ بات پوری طرح روشن ہو کر سامنے آگئی کہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندوں کی کس کس طرح سے تائید ونصرت ہوتی ہے کہ کنویں سے نکال کر ایک تخت سلطنت پر اور بدنامی سے نکال کر نیک نامی کی انتہا پر پہنچا دیئے جاتے ہیں اور مکرو فریب کرنے والوں کا انجام ذلت و رسوائی ہوتا ہے - (آیت) مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ یعنی نہیں ہے یہ قصہ کوئی گھڑی ہوئی بات بلکہ تصدیق ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں کیونکہ تورات و انجیل میں بھی یہ قصہ یوسف (علیہ السلام) کا مذکور ہے اور حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ جتنی آسمانی کتابیں اور صحیفے نازل ہوئے ہیں یوسف (علیہ السلام) کے قصہ سے کوئی خالی نہیں (مظہری )- وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤ ْمِنُوْنَ یعنی یہ قرآن تفصیل ہے ہر چیز کی مراد یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے جس کی دین میں انسان کو ضرورت ہے عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت، حکومت، سیاست وغیرہ انسانی زندگی کے ہر انفرادی یا اجتماعی حال سے متعلق احکام و ہدایات اس میں موجود ہیں اور فرمایا کہ یہ قرآن ہدایت اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے اس میں ایمان لانے والوں کی تخصیص اس لئے کی گئی کہ اس کا نفع ایمان والوں ہی کو پہنچ سکتا ہے کافروں کے لئے بھی اگرچہ قرآن رحمت اور ہدایت ہی ہے مگر ان کی اپنی بدعملی اور نافرمانی کے سبب یہ رحمت و ہدایت ان کے لئے وبال بن گئی - شیخ ابو منصور نے فرمایا کی پوری سورة یوسف اور اس میں درج شدہ قصہ یوسف کے بیان سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا مقصود ہے کہ آپ کو جو کچھ ایذائیں اپنی قوم کے ہاتھوں پہنچ رہی ہیں پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی پہنچتی ہیں مگر انجام کار اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو غالب فرمایا آپ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہونے والا ہے،
(١١١) حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے واقعہ میں سمجھدار لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے، یہ قرآن کریم کوئی خود سے بنائی ہوئی بات تو نہیں بلکہ یہ تو ریت انجیل اور تمام آسمانی کتب کی بیان توحید اور بعض دوسرے احکام اور واقعہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تصدیق کرنیو الی ہے اور یہ قرآن کریم حلال و حرام میں سے ہر ایک چیز کو تفصیل سے بیان کرنے والا ہے اور ان حضرات کے لیے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس قرآن کریم پر جو کہ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ایمان رکھتے ہیں، گمراہی سے ہدایت اور عذاب سے رحمت ہے۔
(مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ )- یعنی یہ واقعات تورات میں بھی ہیں اور قرآن انہی واقعات کی تصدیق کررہا ہے۔ حضرت یوسف کے قصے کے سلسلے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بہت عمدگی کے ساتھ تورات اور قرآن کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے حسن بیان اور اس کے حکیمانہ انداز کا معیار اس قدر بلند ہے کہ تورات میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل تورات تو گم ہوگئی تھی۔ بعد میں حافظے کی مدد سے جو تحریریں مرتب کی گئیں ان میں ظاہر ہے وہ معیار تو پیدا نہیں ہوسکتا تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تورات میں تھا۔- (وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ )- یعنی وہ علم جو اس دنیا میں انسان کے لیے ضروری ہے اور وہ راہنمائی جو دنیوی زندگی میں اسے درکار ہے سب کچھ اس قرآن میں موجود ہے۔
۸۰ ۔ یعنی ہر اس چیز کی تفصیل جو انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ضروری ہے ، بعض لوگ ہر چیز کی تفصیل سے مراد خواہ مخواہ دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل لے لیتے ہیں ، اور پھر انکو یہ پریشانی پیش آتی ہے کہ قرآن میں جنگلات اور طب اور ریاضی اور دوسرے علوم و فنون کے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی ۔
68: ایک طرف تو قرآن کریم یہ فرما رہا ہے کہ اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کر کے پچھلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کی ہے جن میں یہ واقعہ مجموعی طور پر اسی طرح بیان ہوا ہے۔ مگر دوسری طرف ہر بات کی وضاحت فرما کر شاید اس طرف اشارہ ہے کہ اس واقعے کے سلسلے میں ان پچھلی کتابوں میں کچھ کتر بیونت ہوگئی تھی قرآن کریم نے اس کی وضاحت فرما دی ہے۔ چنانچہ اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعے کو بائبل کی کتاب پیدائش میں پڑھا جائے۔ تو بعض تفصیلات میں وہ قرآن کریم کے بیان سے مختلف نظر آتا ہے۔ اشارہ غالباً اس طرف ہے کہ قرآن کریم نے ان تفصیلات کی وضاحت فرما دی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم۔