سب پہ محیط علم اللہ کا علم تمام مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے ۔ کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ، پست اور بلند ہر آواز وہ سنتا ہے چھپا کھلا سب جانتا ہے ۔ تم چھپاؤ یا کھولو اس سے مخفی نہیں ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں وہ اللہ پاک ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیرا ہوا ہے قسم اللہ کی اپنے خاوند کی شکایت لے کر آنے والی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کانا پھوسی کی کہ میں پاس ہی گھر میں بیٹھی ہوئی تھی لیکن میں پوری طرح نہ سن سکی لیکن اللہ تعالیٰ نے آیتیں ( قد سمع اللہ ) الخ اتاریں یعنی اس عورت کی یہ تمام سرگوشی اللہ تعالیٰ سن رہا تھا ۔ وہ سمیع وبصیر ہے ، جو اپنے گھر کے تہ خانے میں راتوں کے اندھیرے میں چھپا ہوا ہو وہ اور جو دن کے وقت کھلم کھلا آباد راستوں میں چلا جا رہا ہو وہ علم اللہ میں برابر ہیں ۔ جیسے آیت ( اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ ۭ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ Ĉ ) 11-ھود:5 ) میں فرمایا ہے اور آیت ( وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْهِ ) 61 ) 10- یونس:61 ) میں ارشاد ہوا ہے کہ تمہارے کسی کام کے وقت ہم ادھر ادھر نہیں ہوتے ، کوئی ذرہ ہماری معلومات سے خارج نہیں ۔ اللہ کے فرشتے بطور نگہبان اور چوکیدار کے بندوں کے ارد گرد مقرر ہیں ، جو انہیں آفتوں سے اور تکلیفوں سے بچاتے رہتے ہیں جیسے کہ اعمال پر نگہبان فرشتوں کی اور جماعت ہے ، جو باری باری پے درپے آتے جاتے رہتے ہیں ، رات کے الگ دن کے الگ ۔ اور جیسے کہ دو فرشتے انسان کے دائیں بائیں اعمال لکھنے پر مقرر ہیں ، داہنے والا نیکیاں لکھتا ہے بائیں جانب والا بدیاں لکھتا ہے ۔ اسی طرح دو فرشتے اس کے آگے پیچھے ہیں جو اس کی حفاظت وحراست کرتے رہتے ہیں ۔ پس ہر انسان ہر وقت چار فرشتوں میں رہتا ہے ، دو کاتب اعمال دائیں بائیں دو نگہبانی کرنے والے آگے پیچھے ، پھر رات کے الگ دن کے الگ ۔ چنانچہ حدیث میں ہے تم میں فرشتے پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں ، رات کے اور دن کے ان کا میل صبح اور عصر کی نماز میں ہوتا ہے رات گزارنے والے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں ۔ باوجود علم کے اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا ؟وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم گئے تو انہیں نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ آئے ۔ اور حدیث میں ہے تمہارے ساتھ وہ ہیں جو سوا پاخانے اور جماع کے وقت کے تم سے علیحدہ نہیں ہوتے ۔ پس تمہیں ان کا لحاظ ، ان کی شرم ، ان کا اکرام اور ان کی عزت کرنی چاہئے ۔ پس جب اللہ کو کوئی نقصان بندے کو پہنچانا منظور ہوتا ہے ۔ بقول ابن عباس محافظ فرشتے اس کام کو ہو جانے دیتے ہیں ۔ مجاہد کہتے ہیں ہر بندے کے ساتھ اللہ کی طرف سے موکل ہے جو اسے سوتے جاگتے جنات سے انسان سے زہریلے جانوروں اور تمام آفتوں سے بچاتا رہتا ہے ہر چیز کو روک دیتا ہے مگر وہ جسے اللہ پہنچانا چاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ دنیا کے بادشاہوں امیروں وغیرہ کا ذکر ہے جو پہرے چوکی میں رہتے ہیں ۔ ضحاک فرماتے ہیں کہ سلطان اللہ کی نگہبانی میں ہوتا ہے امر اللہ سے یعنی مشرکین اور ظاہرین سے ۔ واللہ اعلم ۔ ممکن ہے غرض اس قول سے یہ ہو کہ جیسے بادشاہوں امیروں کی چوکیداری سپاہی کرتے ہیں اسی طرح بندے کے چوکیدار اللہ کی طرف سے مقرر شدہ فرشتے ہوتے ہیں ۔ ایک غریب روایت میں تفسیر ابن جریر میں وارد ہوا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے دریافت کیا کہ فرمائیے بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ایک تو دائیں جانب نیکیوں کا لکھنے والا جو بائیں جانب والے پر امیر ہے جب تو کوئی نیکی کرتا ہے وہ ایک کی بجائے دس لکھ لی جاتی ہیں جب تو کوئی برائی کرے تو بائیں جانب والا دائیں والے سے اس کے لکھنے کی اجازت طلب کرتا ہے وہ کہتا ہے ذرا ٹھر جاؤ شاید یہ توبہ واستغفار کر لے تین مرتبہ وہ اجازت مانگتا ہے تب تک بھی اگر اس نے توبہ نہ کی تو یہ نیکی کا فرشتہ اس سے کہتا ہے اب لکھ لے اللہ ہمیں اس سے بچائے یہ تو بڑا برا ساتھی ہے ۔ اسے اللہ کا لحاظ نہیں یہ اس سے نہیں شرماتا ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ انسان جو بات زبان پر لاتا ہے اس پر نگہبان متعین اور مہیا ہیں ۔ اور دو فرشتے تیرے آگے پیچھے ہیں فرمان الہٰی ہے لہ معقبات الخ اور ایک فرشتہ تیرے ماتھے کا بال تھامے ہوئے ہے جب تو اللہ کے لئے تواضع اور فروتنی کرتا ہے وہ تجھے پست اور عاجز کر دیتا ہے اور دو فرشتے تیرے ہونٹوں پر ہیں ، جو درود تو مجھ پر پڑھتا ہے اس کی وہ حفاظت کرتے ہیں ۔ ایک فرشتہ تیرے منہ پر کھڑا ہے کہ کوئی سانپ وعیر جیسی چیز تیرے حلق میں نہ چلی جائے اور دو فرشتے تیری آنکھوں پر ہیں ، پس یہ دس فرشتے ہر بنی آدم کے ساتھ ہیں پھر دن کے الگ ہیں ۔ اور رات کے الگ ہیں یوں ہر شخص کے ساتھ بیس فرشتے منجانب اللہ موکل ہیں ۔ ادھر بہکانے کے لئے دن بھر تو ابلیس کی ڈیوٹی رہتی ہے اور رات کو اس کی اولاد کی ۔ مسند احمد میں ہے تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جن ساتھی ہے اور فرشتہ ساتھی ہے لوگوں نے کہا آپ کے ساتھ بھی ؟ فرمایا ہاں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے ، وہ مجھے بھلائی کے سوا کچھ نہیں کہتا ( مسلم ) یہ فرشتے بحکم رب اس کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔ بعض قرأت وں میں من امر اللہ کے بدلے بامر اللہ ہے کعب کہتے ہیں کہ اگر ابن آدم کے لئے ہر نرم وسخت کھل جائے تو البتہ ہر چیز اسے خود نظر آنے لگے ۔ اور اگر اللہ کی طرف سے یہ محافظ فرشتے مقرر نہ ہوں جو کھانے پینے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تو واللہ تم تو اچک لئے جاؤ ۔ ابو امامہ فرماتے ہیں ہر آدمی کے ساتھ محافظ فرشتہ ہے ، جو تقدیری امور کے سوا اور تمام بلاؤں کو اس سے دفعہ کرتا رہتا ہے ۔ ایک شخص قبیلہ مراد کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا انہیں نماز میں مشغول دیکھا تو کہا کہ قبیلہ مراد کے آدمی آپ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں آپ پہرہ چوکی مقرر کر لیجئے آپ نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے اس کے محافظ مقرر ہیں بغیر تقدیر کے لکھے کے کسی برائی کو انسان تک پہنچنے نہیں دیتے سنو اجل ایک مضبوط قلعہ ہے اور عمدہ ڈھال ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں ۔ جیسے حدیث شریف میں ہے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ جھاڑ پھونک جو ہم کرتے ہیں کیا اس سے اللہ کی مقرر کی ہوئی تقدیر ٹل جاتی ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ خود اللہ کی مقرر کردہ ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک کی طرف وحی الہٰی ہوئی کہ اپنی قوم سے کہہ دے کہ جس بستی والے اور جس گھر والے اللہ کی اطاعت گزاری کرتے کرتے اللہ کی معصیت کرنے لگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی راحت کی چیزوں کو ان سے دور کر کے انہیں وہ چیزیں پہنچاتا ہے جو انہیں تکلیف دینے والی ہوں ۔ اس کی تصدیق قرآن کی آیت ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ 11 ) 13- الرعد:11 ) سے بھی ہوتی ہے ۔ امام ابن ابی شیبہ کی کتاب صفۃ العرش میں یہ روایت مرفوعا بھی آئی ہے ۔ عمیر بن عبد الملک کہتے ہیں کہ کوفے کے منبر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ سنایا جس میں فرمایا کہ اگر میں چپ رہتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بات شروع کرتے اور جب میں پوچھتا تو آپ مجھے جواب دیتے ۔ ایک دن آپ نے مجھ سے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے قسم ہے اپنی عزت وجلال کی اپنی بلندی کی جو عرش پر ہے کہ جس بستی کے جس گھر کے لوگ میری نافرمانیوں میں مبتلا ہوں پھر انہیں چھوڑ کر میرے فرمانبرداری میں لگ جائیں تو میں بھی اپنے عذاب اور دکھ ان سے ہٹا کر اپنی رحمت اور سکھ انہیں عطا فرماتا ہوں ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں ایک راوی غیر معروف ہے ۔
[ ١٥] اس آیت میں زمانہ حال سے متعلق دو مثالیں پیش کی گئی ہیں اور ان مثالوں میں غیب اور شہادت دونوں آجاتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی اپنے دل میں کوئی بات کرتا یا سوچتا ہے یہ ہم لوگوں کے لیے غیب ہے اور دوسرا بلند آواز سے پکار کر بات کرتا ہے۔ یہ ہم لوگوں کے لیے شہادت ہے۔ مگر اللہ کے ہاں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ وہ غیب کو بھی ویسے ہی جانتا ہے جیسے شہادت کو۔ اسی طرح ایک شخص رات کی تاریکیوں میں چھپ چھپا کر کوئی کام کرتا ہے۔ یہ ہمارے لیے غیب ہے اور دوسرا دن دہاڑے برسرعام کوئی کام کر رہا ہے یہ ہمارے لیے شہادت ہے۔ مگر اللہ کے ہاں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں وہ غیب کو بھی اتنا ہی جانتا ہے جتنا شہادت کو۔
سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ ۔۔ : یہ اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کی ایک اور تاکید ہے، یعنی تمہارا کوئی آدمی چھپا کر بات کرے یا بلند آواز سے اللہ کے نزدیک دونوں برابر ہیں، وہ دونوں کو یکساں سنتا ہے، جبکہ تم اور ساری مخلوق چھپی بات کو تو سن ہی نہیں سکتے، البتہ بلند آواز سے کی ہوئی ایک شخص کی بات تم سن اور سمجھ سکتے ہو، مگر جب چار چھ آدمی اونچی آواز میں بولنا شروع کردیں تو کسی کے پلے کچھ نہیں پڑے گا، اب اللہ تعالیٰ کے علم کا اندازہ کرلو کہ اس کے ہاں یہ سب برابر ہیں، وہ ایک ہی وقت میں سب کی سنتا اور سمجھتا اور سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ - ” مُسْتَخْفٍ “ ” خَفِیَ یَخْفَی “ (چھپنا) کے باب استفعال سے اسم فاعل برائے مبالغہ ہے، بالکل چھپنے والا۔ ” بالیل “ رات کو، کیونکہ رات کی تاریکی چھپنے میں مزید مدد دیتی ہے۔ ” وَسَارِبٌ“ یعنی ظاہر، ” سَرَبَ فِی الْاَرْضِ اَيْ ذَھَبَ فِيْ طَرِیْقِہٖ “ وہ اپنے راستے میں گیا، یعنی گھر کے کسی کمرے یا کونے کے بجائے راستے یا گلی بازار میں پھرنے والا اور وہ بھی دن کو ہر ایک کے سامنے ہوتا ہے۔ دن کا ذکر خصوصاً اس لیے کیا کہ وہ ہر چیز کو خوب ظاہر کردیتا ہے۔ اس لیے بعض اہل علم نے ” وَسَارِبٌ“ کا معنی گلیوں میں پھرنے والا، یعنی بالکل ظاہر کیا ہے۔ یعنی یہ سب اس کے علم میں برابر ہیں۔
(آیت) سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ- اَسَرَّ الْقَوْلَ- اسرار سے بنا ہے جس کے معنی خفیہ کلام اور جہر کے معنی علانیہ کلام کے ہیں جو کلام انسان کسی دوسرے کو سنانے کے لئے کرتا ہے اسے جہر کہتے ہیں اور جو خود اپنے آپ کو سنانے کے لئے کرتا ہے اس کو سر کہا جاتا ہے مستخف کے معنی چھپنے والا سارب کے معنی آزادی اور بےفکری سے راستہ پر چلنے والا - معنی آٰیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم محیط کی وجہ سے اس کے نزدیک خفیہ کلام کرنے والا اور بلند آواز سے کلام کرنے والا دونوں برابر ہیں وہ دونوں کے کلام کو یکساں طور پر سنتا اور جانتا ہے اسی طرح جو شخص رات کی اندھیری میں چھپا ہوا ہے اور جو دن کے اجالے میں کھلے راستے پر چل رہا ہے یہ دونوں اس کے علم اور قدرت کے اعتبار سے برابر ہیں کہ دونوں پر اس کی قدرت یکساں حاوی ہے کوئی اس کے دست قدرت سے باہر نہیں اسی کا مزید بیان اگلی آیت میں اس طرح ہے۔
سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ 10- سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- سرر (كتم)- والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] - ( س ر ر ) الاسرار - السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ - جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ - أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- خفی - والاسْتِخْفَاءُ : طلب الإخفاء، ومنه قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ [هود 5] ، والخَوَافي : جمع خافية، وهي : ما دون القوادم من الرّيش .- ( خ ف ی ) خفی ( س )- الا ستخفاء ۔ چھپنا ۔ قرآن میں ہے : أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ [هود 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں تاکہ خدا سے پردہ کریں ۔ الخوافی ۔ پرند کے بازوں کے نیچے چھپے ہوئے پر اس کا مفرد خفیتہ ہے اور القوادم کی ضدہی۔- سرب - السَّرَبُ : الذّهاب في حدور، والسَّرَبُ : الْمَكَانُ الْمُنْحَدِرُ ، قال تعالی: فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف 61] ، والسَّارِبُ : الذّاهب في سَرَبِهِ أيّ طریق کان، قال تعالی: وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد 10] ، والسَّرْبُ : جمع سَارِبٍ ، - ( س ر ب ) السرب - ( مصدرن ) اس کے اصل معنی نشیب کی طرف جانے کے ہیں اور ( اسم کے طور پر ) نشیبی جگہ کو بھی سرب کہہ دیتے ہیں قرآن میں ہے ؛فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف 61] تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنالیا ۔ - السارب کسی راستہ پر ( راضی مرضی سے ) چلاجانیوالا ۔ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد 10] یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن ( کی روشنی ) میں کھلم کھلا چلے پھرے ۔ سارب کی جمع سرب آتی ہے ۔- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔
(١٠) تم میں سے کوئی بات یا کوئی کام چپکے سے کرین یا پکار کر کہے سب کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ سب برابر ہیں اور ایسے ہی جو شخص رات میں کہیں چھپ جائے اور جو دن میں چلے پھرے وہ سب کو جانتا ہے۔
آیت ١٠ (سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ )- غیاب کی صورت ہو یا ظہور کا عالم ‘ اللہ کے علم کے سامنے سب برابر ہے۔ ہرچیز اور اس کی ہر کیفیت ہر آن اس کے سامنے حاضر و موجود ہے۔