Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کمال قدرت اور عظمت سلطنت ربانی دیکھو کہ بغیر ستونوں کے آسمان کو اس نے بلند بالا اور قائم کر رکھا ہے ۔ زمین سے آسمان کو اللہ نے کیسا اونچا کیا اور صرف اپنے حکم سے اسے ٹھرایا ۔ جس کی انتہا کوئی نہیں پاتا ۔ آسمان دنیا ساری زمین کو اور جو اس کے ارد گرد ہے پانی ہوا وغیرہ سب کو احاطہ کئے ہوے ہے اور ہر طرف سے برابر اونچا ہے ، زمین سے پانچ سو سال کی راہ پر ہے ، ہر جگہ سے اتنا ہی اونچا ہے ۔ پھر اس کی اپنی موٹائی اور دل بھی پانچ سو سال کے فاصلے کا ہے ، پھر دوسرا آسمان اس آسمان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اور پہلے سے دوسرے تک کا فاصلہ وہی پانچ سو سال کا ہے ۔ اسی طرح تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں جیسے فرمان الٰہی ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ 12۝ۧ ) 65- الطلاق:12 ) یعنی اللہ نے سات آسمان بیدا کئے ہیں اور اسی کے مثل زمین ۔ حدیث شریف میں ہے ساتوں آسمان اور ان میں اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے وہ کرسی کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے کہ چٹیل میدان میں کوئی حلقہ ہو اور کرسی عرش کے مقابلے پر بھی ایسی ہی ہے ۔ عرش کی قدر اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ بعض سلف کا بیان ہے کہ عرش سے زمین تک کا فاصلہ پچاس ہزار سال کا ہے ۔ عرش سرخ یاقوت کا ہے ۔ بعض مفسر کہتے ہیں آسمان کے ستون تو ہیں لیکن دیکھے نہیں جاتے ۔ لیکن ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں آسمان زمین پر مثل قصبے کے ہے یعنی بغیر ستون کے ہے ۔ قرآن کے طرز عبارت کے لائق بھی یہی بات ہے اور آیت ( ویمسک السماء ان تقع علی الارض ) سے بھی ظاہر ہے پس ترونھا اس نفی کی تاکید ہو گی یعنی آسمان بلا ستون اس قد بلند ہے اور تم آپ دیکھ رہے ہو ، یہ ہے کمال قدرت ۔ امیہ بن ابو الصلت کے اشعار میں ہے ، جس کے اشعار کی بابت حدیث میں ہے کہ اس کے اشعار ایمان لائے ہیں اور اس کا دل کفر کرتا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ اشعار حضرت زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہے جن میں ہے وانت الذی من فصل من ورحمتہ بعثت الی موی رسولا منادیا فقلت لہ فاذہب وہارون فادعوا الی اللہ فرعون الذی کان طاغیا وقولا لہ ہل انت سویت ہذہ بلا عمدا وثوق ذالک بانیا ولوالا لہ ہل انت سویت وسطہا منیرا انا جنک الیل ہادیا وقولا لنا من انبت الحب فی الثری فیصبح منہ العشب یفتر دابیا ویخرج منہ حبہ فی روسہ ففی ذالک ایات لمن کان واعیا یعنی تو وہ اللہ ہے جس نے اپنے فضل وکرم سے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو مع ہارون علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ان سے فرما دیا کہ اس سرکش کو قائل کرنے کے لئے اس سے کہیں کہ اس بلند وبالا بےستون آسمان کو کیا تو نے بنایا ہے ؟ اور اس میں سورج چاند ستارے تو نے پیدا کئے ہیں ؟ اور مٹی سے دانوں کو اگانے والا پھر ان درختوں میں بالیں پیدا کر کے ان میں دانے پکانے والا کیا تو ہے ؟ کیا قدرت کی یہ زبردست نشانیاں ایک گہرے انسان کے لئے اللہ کی ہستی کی دلیل نہیں ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا ۔ اس کی تفسیر سورہ اعراف میں گزر چکی ہے ۔ اور یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جس طرح ہے اسی طرح چھوڑ دی جائے ۔ کیفیت ، تشبیہ ، تعطیل ، تمثلیل سے اللہ کی ذات پاک ہے اور برتر وبالا ہے ۔ سورج چاند اس کے حکم کے مطابق گردش میں ہیں اور وقت موزوں یعنی قیامت تک برابر اسی طرح لگے رہیں گے ۔ جیسے فرمان ہے کہ سورج اپنی جگہ برابر چل رہا ہے اس کی جگہ سے مراد عرش کے نیچے ہے جو زمین کے تلے سے دوسری طرف سے ملحق ہے یہ اور تمام ستارے یہاں تک پہنچ کر عرش سے اور دور ہو جاتے ہیں کیونکہ صحیح بات جس پر بہت سی دلیلیں ہیں یہی ہے کہ وہ قبہ ہے متصل عالم باقی آسمانوں کی طرح وہ محیط نہیں اس لئے کہ اس کے پائے ہیں اور اس کے اٹھانے والے ہیں اور یہ بات آسمان مستدیر گھومے ہوئے آسمان میں تصور میں نہیں آ سکتی جو بھی غور کرے گا اسے سچ مانے گا ۔ آیات واحادیث کا جانچنے والا اسی نتیجے پر پہنچے گا ۔ وللہ الحمد والمنہ صرف سورج چاند کا ہی ذکر یہاں اس لیے ہے کہ ساتوں سیاروں میں بڑے اور روشن یہی دو ہیں پس جب کہ یہ دونوں مسخر ہیں تو اور تو بطور اولیٰ مسخر ہوئے ۔ جیسے کہ سورج چاند کو سجدہ نہ کرو سے مراد اور ستاروں کو بھی سجدہ نہ کرنا ہے ۔ پھر اور آیت میں تصریح بھی موجود ہے فرمان ہے آیت ( وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54؀ ) 7- الاعراف:54 ) یعنی سورج چاند اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں ، وہی خلق و امر والا ہے ، وہی برکتوں والا ہے وہی رب العالمین ہے ۔ وہ اپنی آیتوں کو اپنی وحدانیت کی دلیلوں کو بالتفصیل بیان فرما رہا ہے کہ تم اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ اور اسے مان لو کہ وہ تمہیں فنا کر کے پھر زندہ کر دے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 استوا علی العرش کا مفہوم اس سے قبل بیان ہوچکا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کا یہی مسلک ہے وہ اس کی تاویل نہیں کرتے، جیسے بعض دوسرے گروہ اس میں اور دیگر صفات الٰہی میں تاویل کرتے ہیں۔ تاہم محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کیفیت نہ بیان کی جاسکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ (لیس کمثلہ شیء وہو السمیع البصیر) الشوری 2۔ 2 اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک وقت مقرر تک یعنی قیامت تک اللہ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ فرمایا (والشمس تجری لمستقرلھا ذلک تقدیر العزیز العلیم) یسین۔ اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کرلیتا ہے جس طرح فرمایا (والقمر قدرنہ منازل) یسین۔ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کردی ہیں سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہاں صرف ان دو کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی دو سب سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے تو بطریق اولی اس کے تابع ہونگے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو یہ معبود نہیں ہوسکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہوا ہے اس لیے فرمایا (لَا تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ) 41 ۔ فصلت :37) حم السجدہ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔ ( ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ ) 16 ۔ النحل :12) الاعراف سورج چاند اور تارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] آسما نوں کے ستون یا کشش ثقل ؟۔ یعنی اس بات کا امکان ہے کہ آسمان ستونوں یا سہاروں پر قائم ہوں لیکن وہ ستون یا سہارے غیر مرئی ہوں، انھیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ چناچہ تفسیر ابن کثیر میں سیدنا ابن عباس (رض) ، مجاہد، حسن بصری، قتادہ اور بعض دوسروں سے ایسی ہی روایت کی گئی ہے۔ ان غیر مرئی سہاروں کو ہم آج کل کی زبان میں کشش ثقل کہہ سکتے ہیں۔- [٣] اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ کی تفسیر کے لیے دیکھئے (٧: ٥٤ کا حاشیہ نمبر ٥٤)- [٤] سیا روں کی گر دش تا قیامت۔ یہ مقررہ مدت قیامت ہے۔ جب یہ سارا نظام کائنات درہم برہم کردیا جائے گا۔ اس آیت میں پہلے سورج اور چاند کا ذکر فرمایا۔ آگے فرمایا : (کُلٌ یَّجْرِیْ لاِجَلٍ مُّسَمًّی) حالانکہ کل کا لفظ دو کے لیے نہیں آتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور چاند کی طرح کے سب سیارے اپنی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں اور یہ قیامت تک چلتے ہی رہیں گے۔ ضمناً اس سے دو باتیں اور معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ سورج کو ساکن سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے وہ غلطی پر ہیں۔ لفظ جریان کا اطلاق گردش محوری پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی ضروری ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین بھی چونکہ ایک سیارہ ہے۔ اس لیے اس کی گردش بھی ثابت ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب - [٥] کا ئنات کے نظام سے وجود باری تعالیٰ کی دلیل۔ یعنی سیاروں کی گردش کے جو قاعدے اور قوانین مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ ان کے پابند ہیں۔ ذرہ بھر ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔ پھر وہ ہر وقت اپنے اس نظام کی نگرانی بھی کر رہا ہے۔ کیونکہ جو چیز ہر وقت حرکت میں رہے وہ خراب بھی ہوسکتی ہے۔ گھس بھی جاتی ہے۔ اس کی حرکت میں کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔ حتیٰ کہ کسی وقت وہ تباہ بھی ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی تمام باتوں کی تدبیر بھی کر رہا ہے ان سیاروں کو صرف ان کی قوت جاذبہ اور دافعہ کے سپرد ہی نہیں کر رکھا بلکہ ان کی پوری پوری نگہداشت اور ان کی تدبیر یا واقع ہونے والی خامیوں کا علاج بھی کر رہا ہے۔- [٦] کا ئنات کے وجود سے معاد پر دلیل۔ اس جملہ میں موجودہ نظام کائنات کو یوم آخرت پر دلیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے یعنی جو قادر مطلق ایسا عظیم کارخانہ کائنات وجود میں لاسکتا ہے اور اس پر کنٹرول رکھ سکتا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا چنداں مشکل نہیں اور اس دلیل کی دوسری صورت یہ ہے کہ جو ہستی اس نظام کائنات کو ایسے تناسب، عدل اور حکمت کے ساتھ چلا رہی ہے۔ کیا وہ انسان کو ایسا ہی بےلگام چھوڑ سکتی ہے کہ وہ اس دنیا میں جو کچھ کرنا چاہے کرتا پھرے اور اس سے کچھ مؤاخذہ نہ کیا جائے۔ لہذا اللہ کے عدل اور حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جن لوگوں نے اپنی ساری زندگی ظلم و ستم ڈھانے میں گزاری ہے۔ ان کو ان کی بدکرداریوں کی ضرور سزا دی جائے۔ اسی طرح جن لوگوں نے اپنے آپ کو ساری زندگی میں اللہ تعالیٰ کی حدود وقیود میں جکڑے رکھا۔ انھیں اس کا بدلہ بھی ضرور دیا جائے اور اس دنیا میں چونکہ انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ لہذا از روئے عدل و حکمت دوسری زندگی کا قیام ضروری ہوا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ : لفظ ” اَللّٰهُ “ اس پاک ہستی کا ذاتی نام ہے جس نے سب کچھ بنایا اور اسے چلا رہا ہے۔ اس ایک لفظ میں اس کی ساری صفات آجاتی ہیں۔ ایمان اس ہستی کی توحید، اس کے رسولوں کی تصدیق اور اس کے سامنے قیامت کو پیش ہونے کے عقیدے کا نام ہے۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے آسمان و زمین میں اپنی قدرت کی کچھ نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے، تاکہ وہ توحید و رسالت اور قیامت پر ایمان لے آئے۔ سب سے پہلے آسمان کا ذکر فرمایا، سورة نازعات (٢٧) میں فرمایا : ” کیا تمہیں (پہلی بار یا دوبارہ) پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کو ؟ “ اپنے وجود اور آسمان کے وجود کا مقابلہ کرکے تو دیکھو، اور فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے۔ “- بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا : ” عَمَدٍ “ اسم جمع ہے، جمع نہیں، اس کا مفرد ” عَمُوْدٌ“ یا ” عِمَادٌ“ ہے۔ (شعراوی) اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر وسیع اور عظیم آسمانوں کو کسی بھی قسم کے ستونوں کے بغیر بلند کردیا، تم خود انھیں دیکھ رہے ہو کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں، جب کہ تم چھوٹی سے چھوٹی چھت بھی دیواروں یا ستونوں کے بغیر نہیں بنا سکتے۔ محض اپنی قدرت اور بےپناہ قوت کے ساتھ اتنا اونچا بنانے کے بعد وہیں تھام کر رکھنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے، چناچہ فرمایا : (وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ) [ الحج : ٦٥ ] ” اور وہ آسمان کو تھام کر رکھتا ہے، اس سے کہ زمین پر گرپڑے مگر اس کے اذن سے۔ “ مزید دیکھیے سورة فاطر (٤١) اس صورت میں ” تَرَوْنَهَا “ (تم انھیں دیکھتے ہو) میں ضمیر کا مرجع لفظ ” السَّمٰوٰتِ “ ہوگا اور ” تَرَوْنَهَا “ الگ نیا جملہ ہوگا کہ تم خود آسمانوں کو اس حالت میں دیکھ رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ” تَرَوْنَهَا “ کو ” عَمَدٍ “ کی صفت قرار دیا جائے، پھر ترجمہ یہ ہوگا کہ اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بلند فرمایا جنھیں تم دیکھتے ہو، گویا ستون ہیں مگر تمہیں نظر نہیں آتے، نہ کہیں نگاہ کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ آیت دونوں معنوں کا امکان رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دونوں ممکن ہیں، اس لیے ترجمہ میں بھی دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ علمائے تفسیر میں سے کسی نے پہلے معنی کو ترجیح دی اور کسی نے دوسرے کو۔ امام المفسرین طبری (رض) نے فرمایا، حق یہ ہے کہ ہم بھی اسی طرح کہیں جیسے اللہ نے فرمایا۔ (خلاصہ) یعنی پورے علم کے بغیر ایک معنی کو ترجیح نہ دیں۔ (واللہ اعلم) (یہاں طبری کے فیصلے کی پوری عبارت نہایت پُر لطف ہے) کیا معلوم کہ کسی وقت تجزیے سے ثابت ہوجائے کہ فضا میں نظر نہ آنے والی کوئی چیز موجود ہے جس پر آسمان قائم ہیں۔- ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ : قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا سات جگہ آتا ہے، سورة اعراف (٥٤) ، یونس (٣) ، رعد (٢) ، طٰہٰ (٥) ، فرقان (٥٩) ، سجدہ (٤) اور حدید (٤) اللہ تعالیٰ کے تعلق سے عرش کا ذکر اکیس (٢١) مرتبہ اور ملکہ سبا کے تعلق سے چار (٤) مرتبہ آیا ہے۔ مستوی علی العرش کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٥٤) اور سورة حاقہ (١٧) ۔ - وَسَخَّرَ الشَّمْسَ : یہاں سے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی چند نہایت واضح نعمتیں ذکر فرمائیں۔ تسخیر کا معنی ہے کسی کو اپنے تابع اور قابو میں کرلینا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو اپنے تابع اور پوری طرح پابند کر رکھا ہے، اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جس طرح جس کام پر لگا دیا ہے وہ اس سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ جو مدت مقرر کی ہے اس کے عین مطابق مقرر وقت پر چل رہے ہیں، یعنی قیامت تک یا اپنے دورے کے مقرر وقت کے مطابق، نہ ان کی رفتار بدلتی ہے نہ طلوع وغیرہ کے نظام میں فرق آتا ہے۔ سورج اپنا دورہ سال میں پورا کرتا ہے، چاند ایک ماہ میں۔ کسی بھی سیارے یا سورج اور چاند کا آپس میں نہ کوئی ٹکراؤ ہے نہ حادثہ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت و حکمت کی کتنی بڑی نشانی ہے۔ - يُدَبِّرُ الْاَمْرَ : کسی کام کی تدبیر کا معنی اسے اس کے سب سے اچھے، مضبوط اور مکمل طریقے پر چلانا ہے۔ مختصر سے عطا کردہ اختیار سے تم جو تدبیریں کرتے ہو ان کا نتیجہ بھی دیکھ لو، کوئی پوری ہوتی ہے کوئی نہیں اور کوئی کسی حادثے کی نذر ہوجاتی ہے اور اس عزیز و حکیم کی تدبیر امور کو دیکھو۔- يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ : اس میں کائنات میں موجود نشانیاں بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں پر نازل شدہ آیات بھی کھول کر بیان کرنا ہے کہ دونوں کس قدر واضح ہیں، جن کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ - لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ : یعنی ان تمام آیات کی تفصیل کا مقصد تمہیں یہ یقین دلانا ہے کہ ایسی عظیم مخلوقات کو پیدا کرنے اور ان کی تدبیر کرنے والے پروردگار کے لیے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں اور ہر حال میں تمہیں اس کے سامنے پیش ہونا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ارشاد فرمایا : اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا یعنی اللہ ایسا ہے جس نے آسمانوں کے اتنے بڑے وسیع اور بلند رقبہ کو بغیر کسی ستون کے اونچا کھڑا کردیا جیسا کہ تم ان آسمانوں کو اسی حالت میں دیکھ رہے ہو - کیا آسمان کا جرم آنکھوں سے نظر آتا ہے :- عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نیلا رنگ جو ہمیں اوپر نظر آتا ہے آسمان کا رنگ ہے مگر فلاسفہ کہتے ہیں کہ یہ رنگ روشنی اور اندہیری کی آمیزش سے محسوس ہوتا ہے کیونکہ نیچے ستاروں کی روشنی اور اس کی اوپر اندھیرہ ہے تو باہر سے رنگ نیلا محسوس ہوتا ہے جیسے گہرے پانی پر روشنی پڑتی ہے تو وہ نیلا نظر آتا ہے قرآن کریم کی چند آیات ایسی ہیں جن میں آسمان کے دیکھنے کا ذکر ہے جیسے اسی آیت مذکورہ میں تَرَوْنَهَا کے الفاظ ہیں اور دوسری آیت میں وَاِلَى السَّمَاۗءِ كَيْفَ رُفِعَتْ کے الفاظ ہیں فلاسفہ کی یہ تحقیق اول تو اس کے منافی نہیں کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ آسمان کا رنگ بھی نیلگوں ہو یا کوئی دوسرا رنگ ہو مگر درمیانی روشنی اور اندھیری کے امتزاج سے نیلا نظر آتا ہو اس سے انکار کی کوئی دلیل نہیں کہ اس فضاء کے رنگ میں آسمان کا رنگ بھی شامل ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کریم میں جہان آسمان کے دیکھنے کا ذکر ہے وہ حکمی اور مجازی ہو کہ آسمان کا وجود ایسے یقینی دلائل سے ثابت ہے کہ گویا دیکھ ہی لیا (روح المعانی)- اس کے بعد فرمایا (آیت) ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ یعنی پھر عرش پر جو تخت سلطنت کے مشابہ ہے قائم اور اس طرح جلوہ فرما ہوا جو اس کی شان کے لائق ہے اس جلوہ فرمانے کی کیفیت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا اتنا اعتقاد رکھنا کافی ہے کہ جس طرح کا استواء شان الہی کے شایان ہے وہ مراد ہے۔- وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند مسخر اور تابع حکم کیا ہوا ہے ان میں سے ایک معین رفتار سے چلتا ہے۔- مسخر کرنے سے مراد یہ ہے کہ دونوں کو جس جس کام پر لگادیا ہے برابر لگے ہوئے ہیں ہزاروں سال گذر گئے ہیں لیکن نہ کبھی ان کی رفتار میں کمی بیشی ہوتی ہے نہ تھکتے ہیں نہ کبھی اپنے مقررہ کام کے خلاف کسی دوسرے کام میں لگتے ہیں اور معین مدت کی طرف چلنے کے معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پورے عالم دنیا کے لئے جو آخری مدت قیامت متعین ہے سب اسی کی طرف چل رہے ہیں اس منزل پر پہنچ کر ان کا یہ سارا نظام ختم ہوجائے گا۔- اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہر ایک سیارے کے لئے ایک خاص رفتار اور خاص مدار مقرر کردیا ہے وہ ہمیشہ اپنے مدار پر اپنے مدار پر اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ چلتا رہتا ہے چاند اپنے مدار کو ایک ماہ میں پورا کرلیتا ہے اور آفتاب سال بھر میں پورا کرتا ہے۔- ان سیاروں کا عظیم الشان وجود پھر ایک خاص مدار پر خاص رفتار کے ساتھ ہزاروں سال سے یکساں انداز میں اسی طرح چلتے رہنا کہ نہ کبھی ان کی مشین گھستی ہے نہ ٹوٹتی ہے نہ اس کو گریسنگ کی ضرورت ہوتی ہے انسانی مصنوعات میں سائنس کی اس انتہائی ترقی کے بعد بھی اس کی نظیر تو کیا اس کا ہزارواں حصہ ملنا بھی ناممکن ہے یہ نظام قدرت بآواز بلند پکار رہا ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والی کوئی ایسی ہستی ضرور ہے جو انسان کے ادراک و شعور سے بالاتر ہے - ہر چیز کی تدبیر درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے انسانی تدبیر برائے نام ہے :- يُدَبِّرُ الْاَمْرَ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے انسان جو اپنی تدبیروں پر نازاں ہے ذرا آنکھ کھول کر دیکھے تو معلوم ہوگا کہ اس کی تدبیر کسی چیز کو نہ پیدا کرسکتی ہے نہ بنا سکتی ہے اس کی ساری تدبیروں کا حاصل اس سے زیادہ نہیں کہ خداوند سبحانہ وتعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کا صحیح استعمال سمجھ لے تمام اشیاء عالم کے استعمال کا نظام بھی اس کی قدرت سے خارج ہے کیونکہ انسان اپنے ہر کام میں دوسرے ہزاروں انسانوں، جانوروں، اور دوسری مخلوقات کا محتاج ہے جن کو اپنی تدبیر سے اپنے کام میں نہیں لگا سکتا قدرت خداوندی ہی نے ہر چیز کی کڑی دوسری چیز سے اس طرح جوڑی ہے کہ ہر چیز کھینچی چلی آتی ہے آپ کو مکان بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو نقشہ بنانے والے آرکٹیکٹ سے لے رنگ و روغن کرنے والوں تک سینکڑوں انسان اپنی جان اور اپنا ہنر لئے ہوئے آپ کی خدمت کو تیار نظر آتے ہیں سامان تعمیر جو بہت سی دکانوں میں بکھرا ہوا ہے سب آپ کو تیار مل جاتا ہے کیا آپ کی قدرت میں تھا کہ اپنے مال یا تدبیر کے زور سے یہ ساری چیزیں مہیا اور سارے انسانوں کو اپنی خدمت کے لئے حاضر کرلیتے آپ تو کیا کوئی بڑی سے بڑی حکومت بھی قانون کے زور سے یہ نظام قائم نہیں کرسکتی بلاشبہ یہ تدبیر اور نظام عالم کا قیام صرف حی وقیوم ہی کا کام ہے انسان اگر اس کو اپنی تدبیر قرار دے تو جہالت کے سوا کیا ہے - يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ یعنی وہ اپنی آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے اس سے مراد آیات قرآنی بھی ہو سکتی ہیں جن کو حق تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ نازل فرمایا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ مزید ان کا بیان اور تفسیر فرمائی۔- اور آیات سے مراد آیات قدرت یعنی اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ کی نشانیاں جو آسمان زمین اور خود انسان کے وجود میں موجود ہیں وہ بھی ہو سکتی ہیں جو بڑی تفصیل کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ انسان کی نظر کے سامنے ہیں - لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ یعنی یہ سب کائنات اور ان کا عجیب و غریب نظام و تدبیر اللہ تعالیٰ نے اس لئے قائم فرمائے ہیں کہ تم اس میں غور کرو تو تمہیں آخرت اور قیامت کا یقین ہوجائے کیونکہ اس نظام عجیب اور پیدائش عالم پر نظر کرنے کے بعد یہ اشکال تو رہ نہیں سکتا کہ آخرت میں انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج سمجھیں اور جب داخل قدرت اور ممکن ہونا معلوم ہوگیا اور ایسی ہستی نے اس کی خبر دی جس کی زبان پوری عمر میں کبھی جھوٹ پر نہیں چلی تو اس کے واقع اور ثابت ہونے میں کیا شک رہ سکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ ۝- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - عمد - العَمْدُ : قصد الشیء والاستناد إليه، والعِمَادُ : ما يُعْتَمَدُ. قال تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ- [ الفجر 7] ، أي : الذي کانوا يَعْتَمِدُونَهُ ، يقال : عَمَّدْتُ الشیء : إذا أسندته، وعَمَّدْتُ الحائِطَ مثلُهُ. والعَمُودُ : خشب تَعْتَمِدُ عليه الخیمة، وجمعه : عُمُدٌ وعَمَدٌ. قال : فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ [ الهمزة 9] وقرئ : فِي عَمَدٍ ، وقال :- بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] ، وکذلک ما يأخذه الإنسان بيده مُعْتَمِداً عليه من حدید أو خشب .- ( ع م د ) العمد - کے معنی کسی چیز کا قصد کرنے اور اس پر ٹیک لگانا کے ہیں اور العماد وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے یا بھروسہ کیا جائے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر 7] جو ارم ( کہلاتے تھے اتنے ) دراز قد ۔ میں العماد سے وہ چیزیں مراد ہیں جن پر انہیں بڑا بھروسہ تھا محاورہ ہے ۔ عمدت الشئی کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا کرنا عمدت الحائط دیوار کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور العمود اس لکڑی ( بلی ) کو کہتے ہیں جس کے سہارے خیہا کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی جمع عمد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ، [ الهمزة 9] ( یعنی آگ کے ) لمبے لمبے ستونوں میں ۔ اور ایک قرات میں فی عمد ہے نیز فرمایا : ۔ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو ۔ نیز العمود ہر اس لکڑی یا لوہے کو کہتے ہیں جس پر سہارا لگا کر انسان کھڑا ہوتا ہے - استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها - [ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت ا لبئر ہے جس کے معنی کنویں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51]- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- دبر - والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً- [ النازعات 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور،- ( د ب ر ) دبر ۔- التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ - تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- لفی - أَلْفَيْتُ : وجدت . قال اللہ : قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا - [ البقرة 170] ، وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل ف ی) - الفیت کے معنی وجدت یعنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛- قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا[ البقرة 170] بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ۔ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں نے دروازے کے پاس اس کے شوہر کو پایا ۔ - يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا ھکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو پیدا کیا اور بغیر ستون کے ان کو زمین پر کھڑا کردیا، تم ان آسمانوں کو اسی طرح دیکھ رہے ہو یہ ایسے ستون ہیں جن کو تم نہیں دیکھ رہے اور آسمانوں کے اونچا کرنے سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ عرش پر تھا اور پھر عرش پر متمکن ہوا یعنی علم وقدرت کے اعتبار سے قریب وبعید سب اس کے نزدیک برابر ہیں اور چاند وسورج کی روشنی کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہر ایک اپنے مدار پر ایک وقت مقررہ میں چلتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کے تمام کاموں کی نگرانی کرتے ہیں وہی تنزیل مصیبت کو بذریعہ فرشتوں کے نازل فرماتا ہے یہ قرآن پاک اوامرو نواہی کو صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم مرنے کے بعد کی تصدیق کرو،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا)- اس کائنات کے اندر جو بلندیاں ہیں انہیں ستونوں یا کسی طبعی سہارے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے باہمی کشش کا ایک عظیم الشان نظام وضع کیا گیا ہے جس کے تحت تمام کہکشائیں ستارے اور سیارے اپنے اپنے مقام پر رہ کر اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔- (كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى)- یعنی اس کائنات کی ہرچیز متحرک ہے چل رہی ہے یہاں پر سکون اور قیام کا کوئی تصور نہیں۔ دوسرا اہم نکتہ جو یہاں بیان ہوا وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر شے کی عمریا مہلت مقرر ہے۔ ہر ستارے ہر سیارے ہر نظام شمسی اور ہر کہکشاں کی مہلت زندگی مقرر و معینّ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :2 بالفاظ دیگر آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی سہاروں پر قائم کیا ۔ بظاہر کوئی چیز فضائے بسیط میں ایسی نہیں ہے جو ان بے حد و حساب اجرام فلکی کو تھامے ہوئے ہو ۔ مگر ایک غیر محسوس طاقت ایسی ہے جو ہر ایک کو اس کے مقام و مدار پر روکے ہوئے اور ان عظیم الشان اجسام کو زمین پر یا ایک دوسرے پر گرنے نہیں دیتی ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :3 اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف حاشیہ نمبر ٤۱ ۔ مختصرا یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ عرش ( یعنی سلطنت کائنات کے مرکز ) پر اللہ تعالی کی جلوہ فرمائی کو جگہ جگہ قرآن میں جس غرض سے بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا ہے بلکہ وہ آپ ہی اس سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے ۔ یہ جہان ہست و بود کوئی خود بخود چلنے والا کارخانہ نہیں ہے ، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں ، اور نہ مختلف خداؤں کی آماج گاہ ہے ، جیسا کہ بہت سے دوسرے جاہل سمجھے بیٹھے ہیں ، بلکہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جسے اس کا پیدا کرنے والا خود چلا رہا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :4 یہاں یہ امر ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی ، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی ، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں ، اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں ۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے ۔ بلکہ ان واقعات کو ، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے ، ایک دوسری بات پر دلیل قرار دیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظام کائنات میں صاحب اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانے کا مستحق ہو ۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا اور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی مشرکین کے مقابلے میں توحید کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں وجود باری کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں ۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر اقتدار ، ایک بے عیب حکمت ، اور بے خطا علم کے آثار نظر آتے ہیں ۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کے بہت سے فرمانروا نہیں ہیں ، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے ۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر ، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر ، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر ، علم کا تصور ایک عالم کے بغیر ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو ، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :5 یعنی یہ نظام صرف اسی امر کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ ایک ہمہ گیر اقتدار اس پر فرمانروا ہے اور ایک زبردست حکمت اس میں کام کر رہی ہے ، بلکہ اس کے تمام اجزا اور ان میں کام کرنے والی ساری قوتیں اس بات پر بھی گواہ ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیر فانی نہیں ہے ۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو مٹ جاتی ہے ۔ یہ حقیقت جس طرح اس نظام کے ایک ایک جزء کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح اس پورے نظام کے بارے میں بھی صحیح ہے ۔ اس عالم طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ابدی و سرمدی نہیں ہے ، اس کے لیے بھی کوئی وقت ضرور مقرر ہے جب یہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا عالم برپا ہوگا ۔ لہٰذا قیامت ، جس کے آنے کی خبر دی گئی ہے ، اس کا آنا مُستبَعد نہیں بلکہ نہ آنا مُستبَعد ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :6 یعنی اس امر کی نشانیاں کہ رسول خدا جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ فی الواقع سچی حقیقتیں ہیں ۔ کائنات میں ہر طرف ان پر گواہی دینے والے آثار موجود ہیں ۔ اگر لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ قرآن میں جن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے بے شمار نشانات ان کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :7 اوپر جن آثار کائنات کو گواہی میں پیش کیا گیا ہے ان کی یہ شہادت تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے ، لیکن یہ بات کہ موت کے بعد دوسری زندگی ، اور عدالت الہٰی میں انسان کی حاضری ، اور جزا و سزا کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبریں دی ہیں ان کے برحق ہونے پر بھی یہی آثار شہادت دیتے ہیں ، ذرا مخفی ہے اور زیادہ غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے ۔ اس لیے پہلی حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی ، کیونکہ سننے والا محض دلائل کو سن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے ۔ البتہ دوسری حقیقت پر خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین بھی تم کو انہی نشانیوں پر غور کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے ۔ مذکورہ بالا نشانیوں سے آخرت کا ثبوت دو طرح سے ملتا ہے: ایک یہ کہ جب ہم آسمانوں کی ساخت اور شمس و قمر کی تسخیر پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل یہ شہادت دیتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان اجرام فلکی پیدا کیے ہیں ، اور جس کی قدرت اتنے بڑے بڑے کروں کو فضا میں گردش دے رہی ہے ، اس کے لیے نوع انسانی کو موت کے بعد دوبارہ پیدا کر دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسی نظام فلکی سے ہم کو یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا کمال درجے کا حکیم ہے ، اور اس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعور صاحب اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد ، اور اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کر نے کے بعد ، اس کے کارنامہ زندگی کا حساب نہ لے ، اس کے ظالموں سے باز پرس اور اس کے مظلوموں کی داد رسی نہ کرے ، اس کے نیکوکاروں کو جزا اور اس کے بدکاروں کو سزا نہ دے ، اور اس سے کبھی یہ پوچھے ہی نہیں کہ جو بیش قیمت امانتیں میں نے تیرے سپرد کی تھیں ان کے ساتھ تونے کیا معاملہ کیا ۔ ایک اندھا راجہ تو بے شک اپنی سلطنت کے معاملات اپنے کار پردازوں کے حوالے کر کے خواب غفلت میں سرشار ہو سکتا ہے ، لیکن ایک حکیم و دانا سے اس غلط بخشی و تغافل کیشی کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اس طرح آسمانوں کا مشاہدہ ہم کو نہ صرف آخرت کے امکان کا قائل کرتا ہے ، بلکہ اس کے وقوع کا یقین بھی دلا تا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: یعنی یہ آسمان ایسے ستونوں پر نہیں کھڑے ہیں جو آنکھوں سے نظر آ سکیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ ہی کے سہارے انہیں کھڑا کیا ہوا ہے۔ آیت کی یہ تفسیر حضرت مجاہدؒ سے مروی ہے (روح المعانی 110:13) 3: ’’استواء‘‘ کے لفظی معنیٰ سیدھا ہونے، قابو پانے اور بیٹھ جانے کے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ مخلوقات کی طرح نہیں ہیں، اس لئے اُن کا اِستواء بھی مخلوقات جیسا نہیں۔ اس کی ٹھیک ٹھیک کیفیت اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ہم نے اس لفظ کا اُردو میں ترجمہ کرنے کے بجائے اسی لفظ کو برقرار رکھا ہے، کیونکہ ہمارے لئے اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عرش پر اس طرح کا اِستواء فرمایا، جو اُن کی شان کے لائق ہے۔ اس سے زیادہ کسی بحث میں پڑنے کی نہ ضرورت ہے، نہ ہماری محدود عقل اس کا احاطہ کرسکتی ہے۔ 4: اشارہ اس طرف ہے کہ یہ چاند سورج بے مقصد گردش نہیں کر رہے ہیں، ان کے سپرد ایک کام ہے جو وہ انتہائی نظم و ضبط اور استقامت کے ساتھ اس طرح انجام دئیے جارہے ہیں کہ اُن کے نظام الاوقات میں ایک لمحے کا بھی فرق نہیں آتا۔ اگر غور کیا جائے تو ان کے سپرد پوری دُنیا کی خدمت ہے، لہٰذا ایک ہوش مند اِنسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ یہ عظیم الشان مخلوقات اُس کی خدمت کیوں انجام دے رہی ہیں؟ اگر خود اُس کے سپرد کوئی بڑی خدمت نہیں ہے تو چاند سورج کو کیا ضرورت ہے کہ وہ مستقل طور پر اِنسان کی خدمت انجام دیں؟ 5: یعنی آخرت کا یقین پیدا کرلو۔ اور وہ اس طرح کہ جس ذات نے اتنی حیرت انگیز کائنات پیدا فرمائی ہے۔ وہ اس بات پر کیوں قادر نہیں ہوسکتی کہ اِنسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردے۔ نیز اس کی حکمت اور انصاف سے بعید ہے کہ وہ اچھے اور بُرے، ظالم اور مظلوم دونوں کے ساتھ ایک جیسا معاملہ کرے، اور اُس نے اِس دُنیا کے بعد کوئی ایسا عالم پیدا نہ کیا ہو جس میں نیک لوگوں کو اُن کی نیکی کا اچھا بدلہ اور بُرائی کرنے والوں کو اُن کی بُرائی کی سزا دی جا سکے۔