Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سچائی کا مذاق اڑانا آج بھی جاری ہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کے غلظ رویہ سے رنج وفکر نہ کریں آپ سے پہلے کے پیغمبروں کا بھی یونہی مذاق اڑایا گیا تھا میں نے ان کافروں کو بھی کچھ دیر تو ڈھیل دی تھی آخرش بری طرح پکڑ لیا تھا اور نام ونشان تک مٹا دیا تھا ۔ تجھے معلوم ہے کہ کس کیفیت سے میرے عذاب ان پر آئے ؟ اور ان کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟ جیسے فرمان ہے بہت سی بستیاں ہیں جو ظلم کے باوجود ایک عرصہ سے دنیا میں مہلت لئے رہیں لیکن آخرش اپنی بداعمالیوں کی پاداش میں عذابوں کا شکار ہوئیں ۔ بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے پھر آپ نے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) 11 ۔ ہود:102 ) ، کی تلاوت کی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 حدیث میں آتا ہے (ان اللہ لیملی للظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ) اللہ ظالم کو مہلت دیئے جاتا ہے حتٰی کہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ) (11 ۔ ہود :102) اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقینا اس کی پکڑ بہت ہی الم ناک اور سخت ہے۔ (صحیح بخاری) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ ۔۔ :” عِقَابِ “ اصل میں ” عِقَابِیْ “ تھا۔ آیات کی موافقت کے لیے یاء حذف کر کے کسرہ رہنے دیا گیا۔ ” أَمْلَیْتُ “ باب افعال (ناقص واوی) بمعنی مہلت دینا، اس سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان کافروں کے ٹھٹھا مذاق کرنے اور ناجائز اور ناممکن مطالبات کرنے سے بددل نہ ہوں، پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ہر گزرنے والا ان سے ٹھٹھا کرتا۔ [ ہود : ٣٨ ] شعیب (علیہ السلام) سے ان کی قوم نے کہا : ” ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو ۔ “ [ الشعراء : ١٨٧ ] ہود (علیہ السلام) کی قوم نے کہا : ” ہم یقیناً تجھے بےوقوفی میں مبتلا دیکھ رہے ہیں۔ “ [ الأعراف : ٦٦ ] فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ” مُھِیْن “ (حقیر) کہا اور زبان کی لکنت کا طعنہ دیا۔ [ الزخرف : ٥٢ ] فرمایا، اس کے باوجود میں نے کفار کو مہلت دی، تاکہ ان کا عذر ختم ہوجائے، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا تو آپ بھی ان کی حرکتوں سے دل گرفتہ نہ ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ لَیُمْلِيْ للظَّالِمِ حَتّٰی إِذَا أَخَذَہُ لَمْ یُفْلِتْہُ ) ” اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے، یہاں تک کہ جب اسے پکڑتا ہے تو اسے چھوڑتا نہیں۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) [ ھود : ١٠٢ ] ” اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے، جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے، اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والی ہوتی ہیں، بیشک اس کی پکڑ بڑی دردناک، بہت سخت ہے۔ “ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( و کذٰلک أخذ ربک إذا أخذ القریٰ ۔۔ ) : ٤٦٨٦، عن أبي موسیٰ ۔ مسلم : ٢٥٨٣ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَمْلَيْتُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ ۣ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ۔ یہ حالات جو آپ کو درپیش ہیں کچھ آپ ہی کو پیش نہیں آئے آپ سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پڑتا رہا ہے کہ مجرموں اور منکروں کو ان کے جرم پر فورا نہیں پکڑا گیا اور وہ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ استہزاء و تمسخر کرتے رہے جب وہ انتہا کو پہنچ گئے تو پھر ان کو عذاب الہی نے پکڑ لیا اور کیسا پکڑا کہ کسی کو مقابلہ کی تاب نہ رہی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَمْلَيْتُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ ۣ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ 32؁- هزؤ - والاسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] - ( ھ ز ء ) - الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزو کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل معی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔- ملا - الْإِمْلَاءُ : الإمداد، ومنه قيل للمدّة الطویلة مَلَاوَةٌ من الدّهر، ومَلِيٌّ من الدّهر، قال تعالی:- وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] وتملّيت دهراً : أبقیت، وتملّيت الثَّوبَ : تمتّعت به طویلا، وتملَّى بکذا : تمتّع به بملاوة من الدّهر، ومَلَاكَ اللهُ غير مهموز : عمّرك، ويقال : عشت مليّا .- أي : طویلا، والملا مقصور : المفازة الممتدّة «1» ، والمَلَوَانِ قيل : اللیل والنهار، وحقیقة ذلک تكرّرهما وامتدادهما، بدلالة أنهما أضيفا إليهما في قول الشاعر :- 428-- نهار ولیل دائم ملواهما ... علی كلّ حال المرء يختلفان - «2» فلو کانا اللیل والنهار لما أضيفا إليهما . قال تعالی: وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ- [ الأعراف 183] أي : أمهلهم، وقوله : الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد 25] أي : أمهل، ومن قرأ : أملي لهم «3» فمن قولهم : أَمْلَيْتُ الکتابَ أُمْلِيهِ إملاءً. قال تعالی: أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران 178] . وأصل أملیت : أمللت، فقلب تخفیفا قال تعالی: فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] ، وفي موضع آخر : فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة 282] .- ( م ل ی ) الا ملاء - کے معنی امداد یعنی ڈھیل دینے کے ہیں اسی سے ملا وۃ من الدھر یا ملی من الدھر کا محاورہ ہے جس کے معنی عرصہ دراز کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ تملیت الثوب میں نے اس کپڑا سے بہت فائدہ اٹھایا ۔ تملیٰ بکذا اس نے فلاں چیز سے عرصہ تک فائدہ اٹھا یا ۔ ملاک اللہ ( بغیر ہمزہ ) اللہ تیری عمر دراز کرے ۔ چناچہ اسی سے غشت ملیا کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں تم عرصہ دراز تک جیتے رہو ۔ - الملا - ( اسم مقصود ) وسیع ریگستان ۔ بعض نے کہا ہے کہ الملوان کے معنی ہیں لیل ونہار مگر اصل میں یہ لفظ رات دن کے تکرار اور ان کے امتداد پر بولا جاتا ہے ۔ کیونکہ لیل ونہار کی طرف اس کی اضافت ہوتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 413 ) مھار ولیل دائم ملوا ھما علیٰ کل جال المرء یختلفان رات دن کا تکرار ہمیشہ رہتا ہے اور ہر حالت میں یہ مختلف ہوتے رہتے ہیں ۔ اگر ملوان کا اصل لیل ونہار ہوات تو ان کی ضمیر کی طرف مضاف ہو کر استعمال نہ ہوتا اور آیت کریمہ : ۔ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف 183] اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں ۔ میری تدبیر ( بڑی ) مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی ( بڑی مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی مہلت دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران 178] کہ ہم ان کو مہلے دیئے جاتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد 25] طول ( عمر کا وعدہ دیا ۔ میں املا کے معنی امھل یعنی مہلت دینے کے ہیں ۔ ایک قراءت میں املا لھم ہے جو املیت الکتاب املیہ املاء سے مشتق ہے اور اس کے معنی تحریر لکھوانے اور املا کروانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ - فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور وہ صبح شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اصل میں املیت املک ( مضاف ) ہے دوسرے لام کو تخفیف کے لئے یا رسی تبدیل کرلیا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة 282] تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٢) اور جیسا کہ آپ کی قوم قریش آپ کے ساتھ مذاق کرتی ہے، اسی طرح بہت سے رسولوں کے ساتھ ان کی قوم نے مذاق کیا تو پھر اس مذاق کے بعد میں ان کافروں کو مہلت دیتا رہا، پھر میں نے ان پر عذاب نازل کیا تو سمجھنے کی بات ہے کہ کیسا سخت میں نے ان پر عذاب نازل کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ )- ذرا تصور کریں قوم نوح ‘ قوم ہود ، قوم صالح ‘ قوم لوط ‘ قوم شعیب اور آل فرعون کے انجام کا اور پھر سوچیں کہ ان نافرمان قوموں کی جب گرفت ہوئی تو وہ کس قدر عبرتناک تھی ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani