کافر موت مانگیں گے کفار کی سزا اور نیک کاروں کی جزا کا ذکر ہو رہا ہے کافروں کا کفر و شرک بیان فرما کر ان کی سزا بیان فرمائی کہ وہ مومنوں کے ہاتھوں قتل و غارت ہوں گے ، اس کے ساتھ ہی آخرت کے سخت تر عذابوں میں گرفتار ہوں گے جو اس دنیا کی سزا سے درجہا بدتر ہیں ملا عنہ کرنے والے میاں بیوی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہی ہلکا ہے ۔ یہاں کا عذاب فانی وہاں کا باقی اور اس آگ کا عذاب جو یہاں کی آگ سے ستر حصے زیامدہ تیز ہے پھر قید وہ جو تصور میں بھی نہ آ سکے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهٗٓ اَحَدٌ ) 89 ۔ الفجر:25 ) ، آج اس عذاب جیسے نہ کسی کے عذاب نہ اس جیسی کسی کی قید و بند ۔ فرمان ہے آیت ( واعتدنا لمن کذب بالساعۃ سعیرا ) الخ ، قیامت کے منکروں کے لئے ہم نے آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے دور سے ہی انہیں دیکھتے ہی شور و غل شروع کر دے گی وہاں کے تنگ و تاریک مکانات میں جب یہ جکڑے ہوئے ڈالے جائیں گے تو ہائے وائے کرتے ہوئے موت مانگنے لگیں گے ۔ ایک ہی موت کیا مانگتے ہو بہت سے موتیں مانگو ۔ اب بتاؤ کہ یہ ٹھیک ہے یا جنت خلد ٹھیک ہے جس کا وعدہ پرہیز گاروں سے کیا گیا ہے کہ وہ ان کا بدلہ ہے اور ان کا ہمیشہ رہنے کا ٹھکانا ۔ پھر نیکوں کا انجام بیان فرماتا ہے کہ ان سے جن جنتوں کا وعدہ ہے اس کی ایک صفت تو یہ ہے کہ اس کے چاروں طرف نہریں جاری ہیں جہاں چاہیں پانی لے جائیں پانی نہ بگڑنے والا پھر دودھ کی نہریں ہیں اور دودھ بہی ایسا جس کا مزہ کبھی نہ بگڑے اور شراب کی نہریں ہیں جس میں صرف لذت ہے ۔ نہ بدمزگی ، نہ بےہودہ نشہ ، اور صاف شہد کی نہریں ہیں اور ہر قسم کے پھل ہیں اور ساتھ ہی رب کی رحمت مالک معرفت اس کے پھل ہمیشگی والے اس کی کھانے پینے کی چیزیں کبھی فنا ہونے والی نہیں ۔ جب انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز پڑھی تھی تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ پچھلے پاؤں پیچھے کو ہٹنے لگے ۔ آپ نے فرمایا ہاں میں نے جنت کو دیکھا تھا اور چاہا تھا کہ ایک خوشہ توڑ لوں اگر لے لیتا تو رہتی دنیا تک وہ رہتا اور تم کھاتے رہتے ۔ ابو یعلی میں ہے کہ ایک دن ظہر کی نماز میں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ ناگاہ آگے بڑھے اور ہم بھی بڑھے پھر ہم نے دیکھا کہ آپ نے گویا کوئی چیز لینے کا ارادہ کیا پھر آپ پیچھے ہٹ آئے ۔ نماز کے خاتمہ کے بعد حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج تو ہم نے آپ کو ایسا کام کرتے ہوئے دیکھا کہ آج سے پہلے کبھی نیہں دیکھا تھا آپ نے فرمایا ہاں میرے سامنے جنت پیش کی گئی جو تروتازگی سے مہک رہی تھی میں نے چاہا کہ اس میں سے ایک خوشہ انگور کا توڑ لاؤں لیکن میرے اور اس کے درمیان آڑ کر دی گئی اگر میں اسے توڑ لاتا تو تمام دنیا پوری دنیا تک اسے کھاتی رہتی اور پھر بھی ذار سا بھی کم نہ ہوتا ۔ ایک دیہاتی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا جنت میں انگور ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اس نے کہا کتنے بڑے خوشے ہوں گئے ؟ فرمایا اتنے بڑے کا اگر کوئی کالا کوا مہینہ بھر اڑتا رہے تو بھی اس خوشے سے آگے نہ نکل سکے ۔ اور حدیث میں ہے کہ جنتی جب کوئی پھل توڑیں گے اسی وقت اس کی جگہ دوسرا لگ جائے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنتی خوب کھائیں پئیں گے لیکن نہ تھوک آئے گی نہ ناک آئے گی نہ پیشاب نہ پاخانہ مشک جیسی خوشبو والا پسینہ آئے گا اور اسی سے کھانا ہضم ہو جائے گا ۔ جیسے سانس بےتکلف چلتا ہے اس طرح تسبیح و تقدیس الہام کی جائے گی ( مسلم وغیرہ ) ایک اہل کتاب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں جنتی کھائیں پئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ ہر شخص کو کھانے پینے ، جماع اور شہوت کی اتنی قوت دی جائے گی جتنی یہاں سو آدمیوں کو مل کر ہو ۔ اس نے کہا اچھا تو جو کھائے گا پئے گا اسے پیشاب پاخانے کی بھی حاجت لگے گی پھر جنت میں گندگی کیسی ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ پسینے کے راستے سب ہضم ہو جائے گا اور وہ پسینہ مشک بو ہو گا ۔ ( مسند و نسائی ) فرماتے ہیں کہ جس پرندے کی طرف کھانے کے ارادے سے جنتی نظر ڈالے گا وہ اسی وقت بھنا بھنایا اس کے سامنے گر پڑے گا بعض روایتوں میں ہے کہ پھر وہ اسی طرح بحکم الہٰی زندہ ہو کر اڑ جائے گا ، قرآن میں ہے وہاں بکثرت مویوے ہوں گے کہ نہ کٹیں نہ ، ٹوٹیں نہ ختم ہوں نہ گھٹیں سایے جھکے ہوئے شاخین نیچی ۔ سائے بھی دائمی ہوں گے جیسے فرمان ہے ایماندار نیک کر دار بہتی نہروں والی جنتوں میں جائیں گے وہاں ان کے لئے پاگ بیویاں ہوں گی اور بہترین لمبے چوڑے سائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت کے ایک درخت کے سائے تلے تیز سواری والا سوار سو سال تک تیز دوڑتا ہوا جائے لیکن پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا ۔ قرآن میں ہے سائے ہیں پھیلے اور بڑھے ہوئے ۔ عموما قرآن کریم میں جنت اور دوزخ کا ذکر ایک ساتھ آتا ہے تاکہ لوگوں کو جنت کا شوق ہو اور دوزخ سے ڈر لگے یہاں بھی جنت کا اور وہاں کی چند نعمتوں کا ذکر فرما کر فرمایا کہ یہ ہے انجام پرہیزگار اور تقوی شعار لوگوں کا اور کافروں کا انجام جہنم ہے جیسے فرمان ہے کہ جہنمی اور جنتی برابر نہیں جنتی با مراد ہیں ۔ خطیب دمشق حضرت بلال بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اے بندگان رب کیا تمہارے کسی عمل کی قبولیت کا یا کسی گناہ کی معافی کا کوئی پروانہ تم میں سے کسی کو ملا ؟ کیا تم سے کسی کو ملا ؟ کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم بیکار پیدا کئے گئے ہو ؟ اور تم اللہ کے بس میں آنے والے نہیں ہو ؟ واللہ اگر اطاعت ربانی کا بدلہ دنیا میں ہی ملتا تو تم تمام نیکیوں پر جم جاتے ۔ کیا تم دنیا پر ہی فریفتہ ہو گئے ہو؟ کیا اسی کے پیچھے مر مٹو گے ؟ کیا تمہیں جنت کی رغبت نہیں جس کے پھل اور جس کے سائے ہمیشہ رہنے والے ہیں ( ابن ابی حاتم )
34۔ 1 اس سے مراد قتل اور اسیری ہے جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں ان کافروں کے حصے آتی ہے۔ 34۔ 2 جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی لعنت ملامت کرنے والے جوڑے سے فرمایا تھا (ان عذاب الدنیا اھون من عذاب الاخرۃ) صحیح مسلم دنیا کا عذاب، آخرت سے بہت ہلکا ہے علاوہ ازیں دنیا کا عذاب (جیسا کچھ اور جتنا کچھ بھی ہو) عارضی اور فانی ہے اور آخرت کا عذاب دائمی ہے، اسے زوال و فنا نہیں، مذید برآں جہنم کی آگ، دنیا کی آگ کی نسبت 69 گنا تیز ہے، اور اس طرح دوسری چیزیں ہیں۔ اس لئے عذاب کے سخت ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔
لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۔۔ : یعنی دنیا ہی میں بعض اوقات آسمانی آفات، بیماریوں، فاقوں اور مختلف مصیبتوں کے ذریعے سے عذاب ہوگا اور بعض اوقات مجاہدین اسلام کے ہاتھوں قید، قتل یا ذلیل ہوں گے اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت ہے۔ اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( نَارُکُمْ ھٰذِہِ الَّتِيْ یُوْقِدُ ابْنُ آدَمَ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِنْ حَرِّ جَھَنَّمَ ۔۔ کُلُّھَا مِثْلُ حَرِّھَا ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب جہنم أعاذنا اللّٰہ منہا : ٢٨٤٣، عن أبی ہریرہ (رض) ]” تمہاری یہ آگ جو ابن آدم جلاتا ہے، جہنم کی گرمی کے ستر (٧٠) حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔۔ سب کی گرمی اس کی مثل ہے۔ “ اور آخرت کے عذاب کے بہت زیادہ سخت ہونے کا سب سے بڑا باعث یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ مزید دیکھیے سورة فجر (٢٥، ٢٦) اور سورة فرقان (١١ تا ١٥) ۔
خلاصہ تفسیر :- ان کافروں کے لئے دنیوی زندگانی میں (بھی) عذاب ہے (وہ قتل و قید وذلت یا امراض و مصائب ہے) اور آخرت کا عذاب اس سے بدرجہا زیادہ سخت ہے (کیونکہ شدید بھی ہے اور دائم بھی ہے) اور اللہ (کے عذاب) سے ان کو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا (اور) جس جنت کا متقیوں سے (یعنی شرک و کفر سے بچنے والوں سے) وعدہ کیا گیا ہے اس کی کیفیت یہ کہ اس (کی عمارات اور اشجار) کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور اس کا پھل اور اس کا سایہ دائم رہے گا یہ تو انجام ہوگا متقیوں کا اور کافروں کا انجام دوزخ ہوگا اور جن لوگوں کو ہم نے (آسمانی) کتاب (یعنی تورات و انجیل) دی ہے (اور وہ اس کو پورے طور سے مانتے تھے) وہ اس (کتاب) سے خوش ہوئے ہیں جو آپ پر نازل کی گئی ہے (کیونکہ اس کی خبر اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور خوش ہو کر مان لیتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں جیسے یہود میں عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی اور نصاری میں نجاشی اور ان کے فرستادے جن کا ذکر اور آیات میں بھی ہے) اور انہی کے گروہ میں بعضے ایسے ہیں کہ اس (کتاب) کے بعض حصہ کا (جس میں ان کی کتاب کے خلاف احکام ہیں) انکار کرتے ہیں (اور کفر کرتے ہیں) آپ (ان سے) فرمائیے کہ (احکام دو قسم کے ہیں اصول اور فروع اگر تم اصول میں مخالف ہو سو وہ سب شرائع میں مشترک ہیں چنانچہ) مجھ کو (توحید کے متعلق) صرف یہ حکم ہوا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھراؤں (اور نبوت کے متعلق یہ بات ہے کہ) میں (لوگوں کو) اللہ ہی کی طرف بلاتا ہوں (یعنی نبوت کا حاصل یہ ہے کہ میں داعی الی اللہ ہوں) اور (میعاد کے متعلق میرا یہ عقیدہ ہے کہ) اسی کی طرف مجھ کو (دنیا سے لوٹ کر) جانا ہے (یعنی اصول یہ تین ہیں سو ان میں سے ایک بھی قابل انکار نہیں چناچہ توحید سب کے نزدیک مسلم ہے جیسا کہ یہی مضمون دوسری آیت میں ہے (قل تعالوا کلمۃ سواء بننا الخ) اور نبوت میں اپنے لئے مال وجاہ نہیں چاہتا جس پر انکار کی گنجائش ہو محض دعوت الی اللہ کرتا ہوں سو ایسے لوگ پہلے بھی ہوئے ہیں جس کو تم بھی مانتے ہو جیسا یہی مضمون دوسری جگہ بھی ہے (آیت) مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤ ْتِيَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ الخ اسی طرح میعاد کا عقیدہ مشترک اور مسلم اور غیر قابل انکار ہے اور اگر فروع میں مخالف ہو تو اس کا جواب اللہ تعالیٰ یوں دیتے ہیں کہ ہم نے جس طرح اور رسولوں کو خاص خاص زبانوں میں خاص احکام دیئے) اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو اس طور پر نازل کیا کہ وہ خاص حکم ہے عربی زبان میں (عربی کی تصریح سے اشارہ ہوگیا دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی دوسری زبانوں کی طرف اور زبانوں کے اختلاف سے اشارہ ہوگیا اختلاف امم کی طرف تو حاصل جواب کا یہ ہوا کہ فروع میں اختلاف بسبب اختلاف امم کے ہوا کیونکہ مصالح امم کے ہر زمانہ میں جداگانہ ہیں پس یہ اختلاف شرائع کا مقتضی مخالفت نہیں چناچہ خود شرائع مسلمہ میں بھی ایسا اختلاف فروع کا ہوا ہے پھر تمہاری مخالفت و انکار کی کیا گنجائش ہے) اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ (بفرض محال) ان کے نفسانی خیالات کا (یعنی احکام منسوخہ یا احکام محرفہ کا) اتباع کرنے لگیں بعد اس کے کہ آپ کے پاس (احکام مقصودہ کا) علم (صحیح) پہنچ چکا ہے تو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں نہ کوئی آپ کا مددگار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ( اور جب نبی کو ایسا خطاب کیا جا رہا ہے تو اور لوگ انکار کر کے کہاں رہیں گے سو اس میں تعریض ہے اہل کتاب کے ساتھ پس دونوں شقوں پر منکرین و مخالفین کا جواب ہوگیا)
لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَقُّ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ 34- شق - والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] - ( ش ق ق ) الشق - الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ دود سے بدن نا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
(٣٤) یہ لوگ بدر کے مارے جائیں گے اور آخرت کا عذاب اس دنیاوی عذاب سے کئی گنا سخت ہے اور اللہ کے عذاب سے ان کو کوئی بچانے والا نہیں اور کوئی جائے پناہ نہیں کہ جہاں جاکر پناہ حاصل کریں۔