Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

علم الہٰی اللہ کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ تمام جاندار مادہ حیوان ہوں یا انسان ، ان کے پیٹ کے بچوں کا ، ان کے حمل کا ، اللہ کو علم ہے کہ پیٹ میں کیا ہے ؟ اسے اللہ بخوبی جانتا ہے یعنی مرد ہے یا عورت ؟ اچھا ہے یا برا ؟ نیک ہے یا بد ؟ عمر والا ہے یا بےعمر کا ؟ چنانچہ ارشاد ہے آیت ( ھو اعلم بکم ) الخ وہ بخوبی جانتا ہے جب کہ تمہیں زمین سے پیدا کرتا ہے اور جب کہ تم ماں کے پیٹ میں چھپے ہوئے ہوتے ہو ، الخ اور فرمان ہے آیت ( يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰث ) 39- الزمر:6 ) وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے ایک کے بعد دوسری پیدائش میں تین تین اندھیروں میں ۔ ارشاد ہے آیت ( ولقد خلقنا الانسان من سلالتہ ) الخ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفے سے نطفے کو خون بستہ کیا ، خون بستہ کو لوتھڑا گوشت کا کیا ۔ لوتھڑے کو ہڈی کی شکل میں کر دیا ۔ پھر ہڈی کو گوشت چڑھایا ، پھر آخری اور پیدائش میں پیدا کیا پس بہترین خالق با برکت ہے ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے ، پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے ، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ خالق کا ایک فرشے کو بھیجتا ہے ، جسے چار باتوں کے لکھ لینے کا حکم ہوتا ہے ، اس کا رزق عمر عمل اور نیک بد ہونا لکھ لیتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے وہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ مرد ہو گا یا عورت ؟ شق ہو گا یا سعید ؟ روزی کیا ہے ؟ عمر کتنی ہے ؟ اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے اور وہ لکھ لیتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں بجز اللہ تعالیٰ علیم وخبیر کے اور کوئی نہیں جانتا کل کی بات اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ پیٹ میں کیا بڑھتا ہے اور کیا گھٹتا ہے کوئی نہیں جانتا ۔ بارش کب برسے گی اس کا علم بہی کسی کو نہیں کون شخص کہاں مرے گا اسے بھی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کب قائم ہو گی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے ۔ پیٹ میں کیا گھٹتا ہے اس سے مراد حمل کا ساقط ہو جانا ہے اور رحم میں کیا بڑھ رہا ہے کیسے پورا ہو رہا ہے ۔ یہ بھی اللہ کو بخوبی علم رہتا ہے ۔ دیکھ لو کوئی عورت دس مہینے لیتی ہے کوئی نو ۔ کسی کا حمل گھٹتا ہے ، کسی کا بڑھتا ہے ۔ نو ماہ سے گھٹنا ، نو سے بڑھ جانا اللہ کے علم میں ہے ۔ حضرت ضحاک کا بیان ہے کہ میں دو سال ماں کے پیٹ میں رہا جب پیدا ہوا تو میرے اگلے دو دانت نکل آئے تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ حمل کی انتہائی مدت دو سال کی ہوتی ہے ۔ کمی سے مراد بعض کے نزدیک ایام حمل میں خون کا آنا اور زیادتی سے مراد نو ماہ سے زیادہ حمل کا ٹھرا رہنا ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نو سے پہلے جب عورت خون کو دیکھے تو نو سے زیادہ ہو جاتے ہیں مثل ایام حیض کے ۔ خون کے گرنے سے بچہ اچھا ہو جاتا ہے اور نہ گرے تو بچہ پورا پاٹھا اور بڑا ہوتا ہے ۔ حضرت مکحول رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں بالکل بےغم ، بےکھٹکے اور باآرام ہوتا ہے ۔ اس کی ماں کے حیض کا خون اس کی غذا ہوتا ہے ، جو بےطلب آرام اسے پہنچتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کو ان دنوں حیض نہیں آتا ۔ پھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے زمین پر آتے ہی روتا چلاتا ہے ، اس انجان جگہ سے اسے وحشت ہوتی ہے ، جب اس کی نال کٹ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روزی ماں کے سینے میں پہنچا دیتا ہے اور اب بھی بےطلب ، بےجستجو ، بےرنج وغم ، بےفکری کے ساتھ اسے روزی ملتی رہتی ہے ۔ پھر ذرا بڑا ہوتا ہے اپنے ہاتھوں کھانے پینے لگتا ہے ۔ لیکن بالغ ہوتے ہی روزی کے لئے ہائے ہائے کرنے لگتا ہے ۔ موت اور قتل تک سے روزی حاصل ہونے کا امکان ہو تو پس وپیش نہیں کرتا ۔ افسوس اے ابن آدم تجھ پر حیرت ہے جس نے تجھے تیری ماں کے پیٹ میں روزی دی ، جس نے تجھے تیری ماں کی گود میں روزی دی جس نے تجھے بچے سے بالغ بنانے تک روزی دی ۔ اب تو بالغ اور عقل مند ہو کر یہ کہنے لگا کہ ہائے کہاں سے کھاوں گا ؟ موت ہو یا قتل ہو ؟ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ ہر چیز اس کے پاس اندازے کے ساتھ موجود ہے رزق اجل سب مقرر شدہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی صاحبہ نے آپ کے پاس آدمی بھیجا کہ میرا بچہ آخری حالت میں ہے ، آپ کا تشریف لانا میرے لئے خوشی کا باعث ہے ۔ آپ نے فرمایا جاؤ ان سے کہہ دو کہ جو اللہ سے ثواب کی امید رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو بھی جانتا ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہے اور اسے بھی جو بندوں پر ظاہر ہے ، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ۔ وہ سب سے بڑا ۔ وہ ہر ایک سے بلند ہے ہر چیز اس کے علم میں ہے ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز ہے ، تمام سر اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں تمام بندے اس کے سامنے عاجز لا چار اور محض بےبس ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 رحم مادر میں کیا ہے، نر یا مادہ، خوبصورت یا بد صورت، نیک ہے یا بد، طویل العمر ہے یا قصیر العمر ؟ یہ سب باتیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ 8۔ 2 اس سے مراد حمل مدت ہے جو عام طور پر 9 مہینے ہوتی ہے لیکن گھٹتی بڑھتی بھی ہے، کسی وقت یہ مدت 10 مہینے اور کسی وقت 7، 8 مہینے ہوجاتی ہے، اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ 8۔ 3 یعنی کسی کی زندگی کتنی ہے ؟ اسے رزق سے کتنا حصہ ملے گا ؟ اس کا پورا اندازہ اللہ کو ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] اللہ کے علم کی وسعت :۔ یعنی ان لوگوں کی سرشت کو خوب جانتا ہے اور اس وقت سے جانتا ہے جب یہ اپنی ماؤں کے پیٹوں میں تھے۔ اس کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہر مادہ کے پیٹ میں نطفہ پر کیا کچھ تغیرات واقع ہوتے ہیں۔ اس سے شکل و صورت کیونکر بنتی ہے۔ نیز یہ کہ پیٹ میں ایک بچہ ہے یا زیادہ ہیں بچہ تندرست پیدا ہوگا یا وہ اندھا یا لنگڑا اور اپاہج پیدا ہوگا۔ لمبے قد کا ہوگا یا پست قد ناقص العقل ہوگا یا ذہین و نیک بخت ہوگا یا بدبخت، ضدی اور سرکش ہوگا یا حق کو قبول کرنے والا ہوگا۔ اس کی استعداد کار کتنی ہوگی۔ کیونکہ ہر چیز کے لیے اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى ۔۔ : ” تَغِيْضُ “ ” غَاضَ یَغِیْضُ “ سے ہے اور یہ ” نَقَصَ یَنْقُصُ “ کا ہم معنی ہے۔ لازم اور متعدی دونوں معنوں میں آتا ہے، یعنی کم ہونا، کم کرنا۔ اسی طرح ” تَزْدَادُ “ باب افتعال ” زَادَ یَزِیْدُ “ کی طرح ہے، معنی ہے زیادہ ہونا اور زیادہ کرنا۔ یعنی حمل قرار پانے سے لے کر بچہ پیدا ہونے تک ہر چیز کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور ارحام (بچہ دانیوں) کا یہ علم اللہ تعالیٰ کی خاص صفات میں سے ہے، یعنی اس بات کا علم کہ مذکر ہے یا مؤنث، خوب صورت ہے یا بد صورت، بدبخت ہے یا نیک بخت، لمبی عمر والا ہے یا کم عمر۔ مزید دیکھیے سورة نجم (٣٢) ، زمر (٦) اور مومنون (١٢ تا ١٤) ۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَفَاتِحُ الْغَیْبِ خَمْسٌ : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ) ” غیب کی کنجیاں پانچ ہیں (جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا) ۔ “ (پھر سورة لقمان کی آخری آیت میں مذکور چیزیں بیان فرمائیں) ۔ [ بخاری، التفسیر، باب : (وعندہ مفاتح الغیب ۔۔ ) : ٤٦٢٧] مزید وضاحت کے لیے سورة لقمان کی آخری آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ الٹرا ساؤنڈ کی حقیقت بھی وہیں ملاحظہ فرمائیں۔- وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ: اور جو رحم کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں، یعنی بچہ ضائع ہوجاتا ہے یا نامکمل پیدا ہوتا ہے یا مدت ولادت میں اضافہ یا کمی ہوتی ہے کہ بعض کے ہاں چھ یا نو ماہ بعد، بعض کے ہاں دس ماہ یا اس سے بھی زیادہ مدت کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے۔ - وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ : اللہ تعالیٰ کو ازل سے ابد تک ہر چیز کا علم ہے، اس نے ہر چیز کے متعلق پہلے ہی سب کچھ طے کر کے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے اور یہی تقدیر ہے۔ اس پر ایمان نہ ہو تو آدمی مسلمان نہیں ہوتا، فرمایا : (اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ ) [ القمر : ٤٩ ] ” بیشک ہم نے جو بھی چیز ہے، ہم نے اسے ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ “ یعنی وہی جانتا ہے کہ کون سی چیز کتنی ہوگی اور کیسے ہوگی، اس اندازے میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ارشاد ہے (آیت) اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ - یعنی اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے لڑکا ہے یا لڑکی حسین ہے یا بد شکل نیک ہے یا بد اور جو کچھ ان عورتوں کے رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے کہ کبھی ایک بچہ پیدا ہوتا ہے کبھی زیادہ اور کبھی جلدی پیدا ہوتا ہے کبھی دیر میں۔- اس آیت میں حق تعالیٰ کی ایک مخصوص صفت کا بیان ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں تمام کائنات و مخلوقات کے ذرہ ذرہ سے واقف اور ہر ذرہ کے بدلتے ہوئے حالات سے باخبر ہیں اس کے ساتھ ہی تخلیق انسانی کے ہر دور اور ہر تغیر اور ہر صفت سے پوری طرح واقف ہونے کا ذکر ہے کہ حمل کا یقینی اور صحیح علم صرف اسی کو ہوتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی یا دونوں یا کچھ بھی نہیں صرف پانی یا ہوا ہے قرائن اور تخمینہ سے کوئی حکیم یا ڈاکٹر جو کچھ اس معاملہ میں رائے دیتا ہے اس کی حیثت ایک گمان اور اندازہ سے زیادہ نہیں ہوتی بسا اوقات واقعہ اس کے خلاف نکلتا ہے ایکسرے کا جدید آلہ بھی اس حقیقت کو کھولنے سے قاصر ہے اس کا حقیقی اور یقینی علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہوسکتا ہے اسی کا بیان ایک دوسری آیت میں ہے (آیت) وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَام یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے - لفظ تغیض عربی زبان میں کم ہونے اور خشک ہونے کے معنی میں آتا ہے آیت مذکورہ میں اس کے بالمقابل تزدادُ کے لفظ نے متعین کردیا کہ اس جگہ معنی کم ہونے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ رحم مادر میں جو کچھ کمی یا بیشی ہوتی ہے اس کا علم صحیح بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس کمی اور بیشی سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کی تعداد میں کمی بیشی ہو کہ حمل میں صرف ایک بچہ ہے یا زیادہ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زمانہ پیدائش کی کمی بیشی مراد ہو کہ یہ حمل کتنے مہینے کتنے دن اور کتنے گھنٹوں میں پیدا ہو کر ایک انسان کو ظاہری وجود دے گا اس کا یقینی علم بھی بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ہوسکتا۔- امام تفسیر مجاہد نے فرمایا کہ زمانہ حمل میں جو خون عورت کو آجاتا ہے وہ حمل کی جسامت وصحت میں کمی کا باعث ہوتا ہے تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ سے مراد یہ کمی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جتنے اقسام کمی کے ہیں آیت کے الفاظ سب پر حاوی ہیں اس لئے کوئی اختلاف نہیں۔- كُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر چیز کا ایک خاص انداز اور پیمانہ مقرر ہے نہ اس سے کم ہو سکتی ہے نہ زیادہ بچے کے تمام حالات بھی اس میں داخل ہیں کہ اس کی ہر چیز اللہ کے نزدیک متعین ہے کہ کتنے دن حمل میں رہے گا پھر کتنے زمانہ تک دنیا میں زندہ رہے گا کتنا رزق اس کو حاصل ہوگا اللہ جل شانہ کا یہ بےمثال علم اس کی توحید کی واضح دلیل ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ ۝- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- غيض - غَاضَ الشیء، وغَاضَهُ غيره «1» . نحو : نقص ونقصه غيره . قال تعالی: وَغِيضَ الْماءُ [هود 44] ، وَما تَغِيضُ الْأَرْحامُ [ الرعد 8] ، أي : تفسده الأرحام، فتجعله کالماء الذي تبتلعه الأرض، والغَيْضَةُ : المکان الذي يقف فيه الماء فيبتلعه، ولیلة غَائِضَةٌ أي : مظلمة .- ( غ ی ض ) غاض - ( ض ) الشئی غیضا وغاضہ غیرہ یہ نقص کی طرح لازم ومتعدی دونوں طرح آتا ہے ۔ لہذا اس کے معنی کسی چیز کو کم کرنے یا اس کے ازخود کم ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَغِيضَ الْماءُ [هود 44] تو پانی خشک ہوگیا ۔ وَما تَغِيضُ الْأَرْحامُ [ الرعد 8]- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- قدر - تَقْدِيرُ اللہ علی وجهين :- أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] .- والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه - . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه،- ، ، تقدیرالہی ِ ، ،- کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

تغیض الارحام کی تشریح - قول باری ہے (وما لغیض للرحام وما تزداد۔ اور جو کچھ عورتوں کے رحم میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے (اس سے بھی باخبر رہتا ہے) حضرت ابن عباس (رض) اور ضحاک کا قول ہے کہ مدت حمل یعنی 9 ماہ کے عرصے میں جو کمی ہوتی ہے اور اس مدت میں جو اضافہ ہوتا ہے اس لئے کہ بچہ چھ ماہ بعد پیدا ہو کر زندہ رہتا ہے اور دو سال کے بعد پیدا ہو کر بھی زندہ رہتا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اسقاط کی وجہ سے جو حمل ناتمام پیدا ہوتا ہے اور حمل کی مدت بڑھ جانے کی بناء پر جو بچہ پوری ساخت کا پیدا ہوتا ہے “ فراء کا قول ہے کہ غیض نقصان اور کم ہوجانے کو کہتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عرب کیل وگ غاضت المیاہ اس وقت کہتے ہیں جب پانی کی سطح نیچی ہوجاتی ہے۔ عکرمہ کے قول کے مطابق (وما تغیض) کے معنی ” اذا غاضت “ کے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ رحم کے خون میں ایک دن کے اندر جو کمی ہوجاتی ہے حمل کے اندر اتنا ہی اضافہ ہوجاتا ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ غیض سے وہ خون مراد ہے جو حاملہ عورت حمل کے دوران دیکھتی ہے۔ یہ دراصل رحم میں موجود حمل کی ساخت میں کمی کا باعث ہوتا ہے اور بیشی سے مراد وہ مدت ہے جو نو ماہ سے بڑھ جائے اس سے کمی کی تلافی ہوتی ہے۔ اس لئے آیت میں یہی اضافہ مراد ہے۔ - اسماعیل بن اسحاق کا خیال ہے کہ اگر آیت کی تفسیر مجاہد اور عکرمہ سے مروی قول کے مطابق کی جائے تو گویا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حاملہ عورت کو بھی حیض آتا ہے اس لئے کہ رحم سے جو خون بھی نکلتا ہے وہ یا تو حیض کا خون ہوتا ہے یا نفاس کا۔ رہ گیا استحاضہ کا خون تو وہ ایک رگ سے نکلتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل کا یہ قول ایک بےمعنی سی بات ہے۔ اس لئے کہ رحم سے نکلنے والا خون کبھی حیض و نفاس کا خون ہوتا ہے اور کبھی ان دونوں کے سوا ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ استحاضہ کا خون ایک رگ سے نکلنے والا خون ہوتا ہے اس بات کے لئے مانع نہیں ہے کہ رحم سے نکلنے والا بعض خون کبھی استحاضہ کا خون ہوتا ہے۔ اس لئے کہ آپ کا ارشاد ہے (انما ھو عرق انقطعاوداء عرض یا تو یہ کوئی رگ ہے جو منقطع ہوگئی ہے یا کوئی بیماری ہے جو لاحق ہوگئی ہے) آپ نے یہ بتایا کہ استحاضہ کا خون کبھی کسی عارضہ کے لاحق ہوجانے کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگرچہ اس وقت یہ کسی رگ سے خارج نہیں ہوتا۔ نیز اس بات کی راہ میں کون سی چیز حائل ہے کہ رگ کا خون رحم کے راستے خارج ہوجائے۔ اس کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ کوئی رگ منقطع ہوجائے اور اس سے خون بہہ کر رحم میں پہنچ جائے اور پھر وہاں سے خارج ہوجائے اس صورت میں نہ تو وہ حیض کا خون کہلائے گا اور نہ نفاس کا۔- اسماعیل بن اسحاق نے مزید کہا کہ یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا مگر صرف اس بنا پر کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس کی اطلاع دی گئی ہے، اس لئے کہ یہ غیب کی حکایت ہے :“ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس موقع پر اسماعیل یہ بھول گئے کہ ان کا یہ کلیہ اس امر کا موجب ہے کہ ” یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حاملہ عورت کو حیض آتا ہے مگر صرف اس بنا پر کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس کی اطلاع دی گئی ہے “۔ اس لئے کہ اسماعیل کے قاعدے اور کلیے کے مطابق یہ غیب کی حکایت ہے بلکہ اس سے حاملہ عورت کے حیض کی نفی کرنے والوں کے لئے جو گنجائش پیدا ہوجاتی ہے وہ اس کے اثبات کے قائلین کے لئے نہیں پیدا ہوتی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم تھا کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آ رہا تھا کہ اچانک اس نے خون دیکھ لیا۔ اب اختلاف پیدا ہوگیا کہ آیا یہ حیض تھا یا حیض نہیں تھا۔ حیض کا اثبات دراصل احکام کا اثبات ہوگا لیکن اسے کسی شرعی دلیل کے بغیر حیض ثابت کرنا جائز نہیں ہے، اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ حاملہ عورت عدم حیض کی حالت پر برقرار رہے حتیٰ کہ توقیف یعنی شرعی دلیل یا اتفاق امت کی بنا پر اس خون کا حیض ہونا ثابت ہوجائے۔ اس لئے کہ خارج ہونے والے خون کو حیض کا خون ثابت کر کے گویا ایک ایسے حکم کا اثبات ہوجائے گا جس کا علم صرف توقیف کے ذریعے ہوسکتا ہے نیز ہمارا یہ کہنا کہ حیض ہے دراصل رحم سے خارج ہونے والے خون کی خصوصیت اور اس کا حکم بیان کرنا ہے۔ اب خون کی کیفیت کبھی یہ ہوتی ہے کہ وہ یکساں حالت میں رحم سے خارج ہوتا رہتا ہے۔ اگر عورت یہ خون ماہواری کے ایام میں دیکھتی ہے تو اس پر حیض کا حکم عائد کردیا جاتا ہے اور اگر غیر ایام ماہواری میں دیکھتی ہے تو اس پر استحاضہ کا حکم لگا دیا جاتا ہے۔ نفاس کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے جب حیض اس سے زائد اور کوئی امر نہیں ہوتا کہ خاص اوقات میں جاری ہونے والے خون کے لئے کچھ احکام کا اثبات ہوجاتا ہے، اور حیض صرف جاری ہونے والے خون سے عبارت نہیں ہوتا بلکہ اس میں اس کے ساتھ تعلق رکھنے والا حکم بھی اس میں داخل ہوتا ہے اب خون نکلنے پر حکم کے اثبات کا علم صرف توقیف یعنی شرعی دلیل کے ذریعے ہوسکتا ہے اس لئے حاملہ کے رحم سے نکلنے والے خون کے لئے اس حکم کا ثابت قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس سلسلے میں نہ تو توقیف یعنی کوئی شرعی رہنمائی اور دلیل وارد ہوئی ہے اور نہ ہی اس پر امت کا اتفاق ہے۔- اسماعیل بن اسحاق نے اپنے گزشتہ قول پر یہ کہہ کر مزید اضافہ کیا ہے کہ ” یہ بات ان لوگوں پر لازم نہیں آتی جو یہ کہتے ہیں کہ حاملہ کو حیض آتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (ویسئلو منک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ پوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے کہو، وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو) جب اس آیت میں النساء کا لفظ آگیا تو اس سلسلے میں عموم کالزوم ہوگیا اس لئے کہ خون جب عورت کے فرج سے خارج ہوگا تو اسے کہنا اولیٰ ہوگا الایہ کہ اس کے سوا خون کے کسی اور قسم مثلاً نفاس وغیرہ کا علم ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ویسئلونک عن المحیض) میں حیض کی صفت کا اس طور پر بیان نہیں کہ اس کے ذریعے حیض دوسری چیز یعنی نفاس وغیرہ سے ممتاز ہوجائے۔ قول باری (قل ھو اذی) کے ذریعہ صرف ان امور کی خبر دی گئی ہے جن کا حیض سے تعلق ہے مثلاً ترک صلوٰۃ اور ترکیب صوم نیز ہمبستری سے اجتناب وغیرہ۔ اسی طرح اس فقرے کے ذریعے حیض کے خون کی نجاست اور اس سے اجتناب کے لزوم کی خبر دی گئی ہے۔ اس میں کوئی دلالت نہیں ہے کہ حیض کا خون حمل کی حالت میں موجود ہوتا ہے یا موجود نہیں ہوتا۔ اسماعیل کا یہ کہنا ایک بےمعنی سی بات ہے کہ جب آیت میں النساء کا لفظ آگیا تو اس سلسلے میں عموم کالزوم ہوگیا۔ “ اس لئے کہ قول باری ہے (فاعتزلوا النساء فی المحیض) قول باری (فی المحیض) میں یہ بیان نہیں ہے کہ حیض کیا ہے ؟ بلکہ اس کا بیان ہے کہ جب حیض کا ثبوت ہوجائے تو عورتوں سے الگ رہنا واجب ہے۔ اختلاف تو اس میں ہے کہ حمل کی حالت میں نکلنے والا خون آیا حیض ہے یا کچھ اور۔ اب فریق مخالف کا قول خود اس کے لئے حجت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسماعیل کا یہ قول کہ ” حمل کے دوران فرج سے نکلنے والے خون کو حیض قرار دینا اولیٰ ہے “ محض ایک دعویٰ ہے جس کی پشت پر کوئی بربان اور دلیل نہیں ہے۔ اسماعیل کے مدمقابل کے لئے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ ” خون جب عورت کے فرج سے خارج ہو تو اسے غیر حیض قرار دینا اولیٰ ہوگا حتیٰ کہ دلیل قائم ہوجائے کہ یہ حیض ہے اس لئے کہ ایسے خون کا بھی وجود ہے جو فرج سے نکلتا ہے لیکن حیض نہیں ہوتا۔ اس لئے پوری بحث سے صرف ایسے دعاوی کا ہی حصول ہوا جو ایک دوسرے پر مبنی ہیں اور اس لئے یہ تمام دعاوی پشت پناہ بننے والی کسی دلیل کی محتاج ہیں۔ مطر الوراق نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حاملہ عورت اگر خون دیکھے تو وہ نماز نہیں چھوڑے گی۔ حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں :- ” ہمارے نزدیک حضرت عائشہ (رض) سے اس روایت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ کہا کرتی تھیں کہ حاملہ عورت جب خون دیکھے تو نماز پڑھنا چھوڑ دے اور پاک ہونے کے بعد نماز پڑھے۔ “ اس قول میں یہ احتمال ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے اس سے وہ حاملہ عورت مراد لی ہو جس کے بطن میں دو بچے ہوں اور ایک بچہ پیدا ہوچکا ہو تو سا صورت میں پہلے بچے کی پیدائش کے ساتھ نفاس کی ابتدا ہوجائے گی اور جب تک پاک نہیں ہوگی نماز نہیں پڑھے گی جیسا کہ اس بارے میں امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کا قول ہے۔ اس توجیہ کی اس لئے ضرورت پیش آئی تاکہ حضرت عائشہ (رض) سے مروی دونوں روایتیں درست رہ جائیں اور ایک کی دوسری کے ساتھ تعارض لازم نہ آئے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا اگر وہ خون دیکھے تو وہ استحاضہ کا خون ہوگا۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک حاملہ عورت کو بھی حیض آسکتا ہے۔- ہمارے مسلک کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غزوہٗ اوطاس میں گرفتار ہونے والی قیدی عورتوں کے بارے میں مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (لاتوطا حامل حتیٰ تضع ولا حائل حتی تستبری بحیضہ “۔ حاملہ سے جب تک وضع حمل نہ ہو ہمبستری نہ کی جائے اور غیر حاملہ سے جب تک ایک حیض کے ذریعہ استبراء رحم نہ ہو صحبت نہ کی جائے) استبراء رحم کی حمل سے برأت معلوم کرنے کو کہتے ہیں۔ جب شارع (علیہ السلام) نے حیض کے وجود کو رحم کی برأت کی نشانی قرار دیا تو پھر حمل کے وجود کے ساتھ حیض کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہا اس لئے کہ اگر حمل کے وجود کے ساتھ حیض کا بھی وجود ہوتا تو پھر حیض برأت رحم کی نشانی قرار نہ پاتا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طلاق سنت کے متعلق یہ قول بھی دلالت کرتا ہے (فلیطلقھا طاھرا من غیر جماع اوحاملا قد استیان حملھا۔ پھر شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو طہر کی حالت میں طلاق دے جس میں ہمبستری نہ ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو) اگر حاملہ عورت کو حیض آتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ساتھ ہمبستری اور اس کی طلاق کے درمیان ایک حیض کے ذریعہ فصل کردیتے جس طرح غیر حاملہ عورت کی صورت میں آپ نے حکم دیا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاملہ عورت کو جماع کے بعد ایک حیض کے ذریعے جماع و طلاق کے درمیان فصل کئے بغیر طلاق دینے کی اباحت کردی جو اس بات کی دلیل ہے کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨) اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہوتی ہے جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی اور جو کچھ حمل میں نوماہ کے اندر کمی ہوتی ہے اور جو کچھ نوماہ سے زیادہ زیادتی ہوتی ہے۔- اور یہ مدت میں زیادتی وکمی اور رحم مادر میں بچہ کا ٹھہرانا اور اس کا نکلنا سب ایک خاص اندازہ سے مقرر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى)- ہر مادہ چاہے وہ انسان ہے یا حیوان ‘ اس کے رحم میں جو کچھ ہے اللہ کے علم میں ہے۔- (وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ )- جب حمل ٹھہر جاتا ہے تو رحم سکڑتا ہے اور جب بچہ بڑھتا ہے تو اس کے بڑھنے سے رحم پھیلتا ہے۔ ایک ایک مادہ کے اندر ہونے والی اس طرح کی ایک ایک تبدیلی کو اللہ خوب جانتا ہے۔- (وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ )- اس کائنات کا پورا نظام ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت چل رہا ہے جہاں ہرچیز کی مقدار اور ہر کام کے لیے قاعدہ اور قانون مقرر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :17 اس سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کے رحم میں بچے کے اعضاء اس کی قوتوں اور قابلیتوں ، اور اس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں جو کچھ کمی یا زیادتی ہوتی ہے ، اللہ براہ راست نگرانی میں ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: یعنی اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کس ماں کے پیٹ میں کیسابچہ ہے، اور رحم میں رہتے ہوئے حمل بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے۔