Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اعتراض برائے اعتراض کافر لوگ ازروئے اعتراض کہا کرتے تھے کہ جس طرح اگلے پیغمبر معجزے لے کر آئے ، یہ پیغمبر کیوں نہیں لائے ؟ مثلا صفا پہاڑ سونے کا بنا دیتے یا مثلا عرب کے پہاڑ یہاں سے ہٹ جاتے اور یہاں سبزہ اور نہریں ہو جاتیں ۔ پس ان کے جواب میں اور جگہ ہے کہ ہم یہ معجزے بھی دکھا دیتے مگر اگلوں کی طرح ان کی جھٹلانے پر پھر اگلوں جیسے ہی عذاب ان پر آجاتے ۔ تو ان کی باتوں سے مغموم ومتفکر نہ ہو جایا کر ، تیرے ذمے تو صرف تبلیغ ہی ہے تو ہادی نہیں ، ان کے نہ ماننے سے تیری پکڑ نہ ہو گی ۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، یہ تیرے بس کی بات نہیں ۔ ہر قوم کے لئے رہبر اور داعی ہے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ ہادی میں ہوں تو تو ڈرانے والا ہے ۔ اور آیت میں ( وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ 24 ؀ ) 35- فاطر:24 ) وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ 24 ؀ ) 35- فاطر:24 ) ہر امت میں ڈرانے والا گزرا ہے اور مراد یہاں ہادی سے پیغمبر ہے ۔ پس پیشوا رہبر ہر گروہ میں ہوتا ہے ، جس کے علم وعمل سے دوسرے راہ پا سکیں ، اس امت کے پیشوا آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک نہایت ہی منکر واہی روایت میں ہے کہ اس آیت کے اترنے کے وقت آپ نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کے فرمایا منذر تو میں ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اے علی تو ہادی ہے ، میرے بعد ہدایات پانے والے تجھ سے ہدایت پائیں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ اس جگہ ہادی سے مراد قریش کا ایک شخص ہے ۔ جنید کہتے ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہادی ہونے کی روایت کی ہے لیکن اس میں سخت نکارت ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 ہر نبی کو اللہ نے حالات و ضروریات اور اپنی مشیت و مصلحت کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں۔ جیسے کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنادیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہوجائیں، وغیرہ وغیرہ جب ان کی خواہش کے مطابق معجزہ صادر کر کے نہ دکھایا جاتا تو کہتے کہ اس پر کوئی نشان (معجزہ) نازل کیوں نہیں کیا گیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے پیغمبر تیرا کام صرف تبلیغ ہے۔ وہ تو کرتا رہ کوئی مانے نہ مانے، اس سے تجھے کوئی غرض نہیں، اس لئے کہ ہدایت دینا یہ ہمارا کام ہے۔ تیرا کام راستہ دکھانا ہے، اس راستے پر چلا دینا، یہ تیرا کام نہیں، ہمارا کام ہے۔ 7۔ 2 یعنی ہر قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ لیکن سیدھے راستے کی نشان دہی کرنے کے لئے پیغمبر ہر قوم کے اندر ضرور آیا۔ (وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر) فاطر۔ ہر امت میں ایک نذیر ضرور آیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] حسی مطا لبات کے پورا ہونے پر بھی کافر ایمان نہیں لا تے۔ یعنی انھیں کوئی ایسا حسی معجزہ درکار ہے جس سے ان کو یقین آئے کہ آپ فی الواقع اللہ کے نبی ہیں اور سچے ہیں۔ حالانکہ منکرین حق ایسے حسی معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لایا کرتے۔ کیا صالح کے معجزہ اونٹنی کو دیکھ کر ان کی قوم ان پر ایمان لے آئی تھی۔ یا عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اور یدبیضا دیکھ کر ان کی قوم ان پر ایمان لے آئی تھی یا سیدنا عیسیٰ جو مردوں کو زندہ کرتے تھے تو یہود ان پر ایمان لے آئے تھے ؟ ایسے معجزات دیکھ کر بھی معاندین ایمان نہیں لاتے بلکہ ان کی دوسری مادی توجیہات بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ لہذا اگر مشرکین مکہ قرآن کے دلائل اور کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے تو ان کے لیے حسی معجزات بھی بےکار ہیں۔ آپ یہ فکر چھوڑ دیں۔ آپ صرف انھیں سیدھی راہ دکھانے اور انجام سے ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم میں ہم نے جو رہنما بھیجا، اس کا اتنا ہی کام ہوتا تھا۔ منکرین کے ایسے مطالبات کو پورا کرنا نہیں ہوتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ ۭ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی ایک اور کمینگی کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ کفار تمام انبیاء کی آیات (معجزوں) سے بڑی آیت (بڑا معجزہ یعنی قرآن مجید) دیکھنے کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ اس پر کوئی آیت (معجزہ) نازل کیوں نہیں ہوئی۔ ان کے مطالبوں کی مثال دیکھنی ہو تو دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) آیت یعنی نشانی دو قسم کی ہوتی ہے، ایک تنزیلی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترنے والے احکام و آیات اور دوسری تکوینی یعنی جن کا مقابلہ کرنے سے ساری کائنات عاجز ہو۔ قرآن میں دونوں خوبیاں ہیں، اس میں ہدایت کی آیات بھی ہیں اور ساری دنیا کو پہلے پوری کتاب، پھر اس جیسی دس سورتیں اور پھر صرف ایک سورت جیسی سورت لانے کا چیلنج قیامت تک کے لیے ہے، جس کا جواب کافر آج تک نہیں دے سکے، کفار کی خست دیکھو پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی کیوں نہیں اتری۔ - اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبشر بھی تھے اور منذر بھی، مگر یہاں آپ کی صفت صرف منذر بیان فرمائی، کیونکہ ذکر کفار کا ہے۔ ” مُنْذِرٌ“ اور ” هَادٍ “ پر تنوین تعظیم کی ہے، یعنی اللہ پر ایمان نہ لانے والوں کے لیے دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرانے والے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر قوم کے لیے ایک عظیم رہنما ہوتا ہے۔ آپ کا کام کرشمے دکھانا نہیں بلکہ آپ کی ذمہ داری لوگوں کو کفر کے برے انجام سے ڈرانا ہے، اس لیے آپ کرشمے دکھانے والے نہیں بلکہ صرف ایک عظیم ہادی، یعنی ڈرانے اور آگاہ کرنے والے ہیں۔ (” انما “ کے ساتھ یہ حصر اضافی ہے، یعنی معجزہ دکھانے والے کے بجائے منذر ہیں، یہ نہیں کہ آپ منذر کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں) پھر قوموں کو رہنما کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ عظیم رہنما بھی ہیں، لہٰذا ان کے بےجا مطالبے سے پریشان نہ ہوں۔ مستدرک حاکم (٣؍١٢٩، ح : ٤٦٤٦) میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علی (رض) نے اس آیت (اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) کے ضمن میں فرمایا : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منذر ہیں اور میں ہادی ہوں۔ “ مگر یہ روایت صحیح نہیں ہے، پھر خلافت بلا فصل پر اس سے استدلال بھی غلط ہے، جیسا کہ ظاہر ہے، حقیقت یہی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اللہ کی طرف سے منذر ہیں اور وہی ہادی ہیں، پھر وہ لوگ جنھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم اور دین یعنی خالص کتاب و سنت کو (نہ کہ لوگوں کی رائے اور قیاس کو) دعوت و جہاد کے ذریعے آگے پہنچایا، پہنچا رہے ہیں اور پہنچاتے رہیں گے، مثلاً خلفائے اربعہ، صحابہ کرام، مجاہدین اسلام، محدثین اور عادل قاضی اور خلفاء (اللہ سب پر راضی ہو) سب آپ کے خلف صدق ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ- یعنی یہ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت پر اعتراض کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ ان پر خاص معجزہ جس کو طلب کرتے ہیں وہ کیوں نازل نہیں کیا گیا سو اس کا جواب واضح ہے کہ معجزہ ظاہر کرنا پیغمبر اور نبی کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ براہ راست وہ حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔- وہ اپنی حکمت سے جس وقت جس طرح کا معجزہ ظاہر کرنا پسند فرماتے ہیں اس کو ظاہر کردیتے ہیں وہ کسی کے مطالبہ اور خواہش کے پابند نہیں اسی لئے فرمایا (آیت) اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافروں کو خدا کے عذاب سے صرف ڈرانے والے ہیں معجزہ ظاہر کرنا آپ کا کام نہیں - وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ یعنی ہر قوم کے لئے پچھلی امتوں میں ہادی ہوتے چلے آئے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی انوکھے نبی نہیں سب ہی انبیاء (علیہم السلام) کا وظیفہ یہ تھا کہ وہ قوم کو ہدایت کریں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں معجزات کا ظاہر کرنا کسی کے اختیار میں نہیں دیا گیا اللہ تعالیٰ جب اور جس طرح کا معجزہ ظاہر کرنا پسند فرماتے ہیں ظاہر کردیتے ہیں۔ - کیا ہر قوم اور ہر ملک میں نبی آنا ضروری ہے ؟- اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہے اس سے ثابت ہوا کہ کوئی قوم اور کوئی خطہ ملک اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ہدایت کرنے والوں سے خالی نہیں ہوسکتا خواہ وہ کوئی نبی ہو یا اس کے قائم مقام نبی کی دعوت کو پھیلانے والا ہو جیسا سورة یسین میں نبی کی طرف سے کسی قوم کی طرف پہلے دو شخصوں کو دعوت و ہدایت کے لئے بھیجنے کا ہے جو خود نبی نہیں تھے اور پھر تیسرے آدمی کو ان کی تائید ونصرت کے لئے بھیجنا مذکور ہے۔- اس لئے اس آیت میں یہ لازم نہیں آتا کہ ہندوستان میں بھی کوئی نبی و رسول پیدا ہوا ہو البتہ دعوت رسول کے پہونچانے اور پھیلانے والے علماء کا کثرت سے یہاں آنا بھی ثابت ہے اور پھر یہاں بیشمار ایسے ہادیوں کا پیدا ہونا بھی ہر شخص کو معلوم ہے،- یہاں تک تین آیتوں میں نبوت کا انکار کرنے والوں کے شبہات کا جواب تھا چوتھی آیت میں پھر وہی اصل مضمون توحید کا مذکور ہے جس کا ذکر اس سورة کی ابتداء سے آرہا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ۝ۧ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (انما انت منذر ولکل قوم ھاد۔ تم تو محض خبردار کرنے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک رہنما ہے) حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن جبیر، مجاہد اور ضحاک سے مروی ہے کہ ہادی تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مجاہد سے یہ بھی مروی ہے نیز قتادہ سے کہ ہر امت کا نبی اس کا ہادی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ ہادی وہ شخص ہے جو حق کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے، حسن، قتادہ، ابو الضحی اور عکرمہ سے مروی ہے کہ ہادی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یہی تاویل درست ہے اس لئے کہ عبارت کی ترتیب اس طرح ہے (انما انت منذرو ھاد لکل قوم) تم ہر قوم کو خبردار کرنے والے اور ہدایت دینے والے ہو) منذر کو ہادی کہتے ہیں اور ہادی کو منذر۔ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر یوں بھی کہتے ہیں کہ ان پر خاص معجزہ کیوں نہیں اتارا گیا جیسا کہ پہلے انبیاء (علیہ السلام) پر معجزات نازل کیے گئے تھے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو صرف عذاب خدا سے ڈرانے والے رسول ہیں، اور ہر ایک قوم کے لیے نبی ہوتے چلے آئے، یا یہ کہ داعی جو ان کو گمراہی سے نجات دے کر ہدایت کی طرف دعوت دیتے رہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ )- مشرکین مکہ بار بار اسی دلیل کو دہراتے تھے کہ اگر آپ رسول ہیں تو آپ کے رب کی طرف سے آپ کو کوئی حسی معجزہ کیوں نہیں دیا گیا ؟- (اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ )- جس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے پیغمبر بھیجے ہیں اسی طرح آپ کو بھی ہم نے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا ہے۔ آپ کے ذمہ ان کی تبشیر ‘ تنذیر اور تذکیر ہے۔ آپ اپنا یہ فرض ادا کرتے رہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :15 نشانی سے ان کی مراد ایسی نشانی تھی جسے دیکھ کر ان کو یقین آجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو اس کی حقانیت کے دلائل سے سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے سبق لینے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اس زبردست اخلاقی انقلاب سے بھی کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی زندگیوں میں رونما ہو رہا تھا ۔ وہ ان معقول دلائل پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کے اوہام جاہلیت کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے قرآن میں پیش کیے جا رہے تھے ۔ ان سب چیزوں کو چھوڑ کر وہ چاہتے تھے کہ انہیں کوئی کرشمہ دکھایا جائے جس کے معیار پر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو جانچ سکیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :16 یہ ان کے مطالبے کا مختصر سا جواب ہے جو براہ راست ان کو دینے کے بجائے اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے دیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے آخر کون سا کرشمہ دکھایا جائے ۔ تمہارا کام ہر ایک کو مطمئن کر دینا نہیں ہے ۔ تمہارا کام تو صرف یہ ہے کہ خواب غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو چونکا دو اور ان کو غلط روی کے برے انجام سے خبردار کرو ۔ یہ خدمت ہم نے ہر زمانے میں ، ہر قوم میں ، ایک نا ایک ہادی مقرر کر کے لی ہے ۔ اب تم سے یہی خدمت لے رہے ہیں ۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے آنکھیں کھولے اور جس کا جی چاہے غفلت میں پڑا رہے ۔ یہ مختصر جواب دے کر اللہ تعالی ان کے مطالبے کی طرف سے رخ پھیر لیتا ہے اور ان کو متنبہ کرتا ہے کہ تم کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہو جہاں کسی چوپٹ راجہ کا راج ہو ۔ تمہارا واسطہ ایک ایسے خدا سے ہے جو تم میں سے ایک ایک شخص کو اس وقت سے جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بن رہے تھے ، اور زندگی بھر تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے ۔ اس کے ہاں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ ٹھیٹھ عدل کے ساتھ تمہارے اوصاف کے لحاظ سے ہوتا ہے ، اور زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سے معجزات دئیے گئے تھے، لیکن کفار مکہ اپنی طرف سے نت نئے معجزات کی فرمائش کرتے رہتے تھے۔ اور جب ان کا کوئی مطالبہ پورا نہ ہوتا تو وہ یہ بات کہتے تھے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ جواب میں قرآن کریم نے فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک پیغمبر ہیں وہ اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کوئی مجعزہ نہیں دکھا سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے پاس ایسے پیغمبر بھیجے ہیں ان سب کا یہی حال تھا۔