11۔ 1 رسولوں نے پہلے اشکال کا جواب دیا کہ یقینا ہم تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن تمہارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں میں سے ہی بعض انسانوں کو وحی و رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور تم سب میں سے یہ احسان اللہ نے ہم پر فرمایا ہے۔ 11۔ 2 ان کے حسب منشاء معجزے کے سلسلے میں رسولوں نے جواب دیا کہ معجزے کا صدور ہمارے اختیار میں نہیں، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ 11۔ 3 یہاں مومنیں سے مراد اولا خود انبیاء ہیں یعنی ہمیں سارا بھروسہ اللہ پر ہی رکھنا چاہیے جیسا کہ آگے فرمایا آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں۔
[١٦] مشرکوں کے ان اعتراضات و مطالبات کا جواب بھی تمام انبیاء (علیہم السلام) یہی دیتے رہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ ہم بشر نہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہم پر مزید احسان کیا ہے کہ ہمیں علم حق اور بصیرت کاملہ عطا فرمائی ہے۔ اور یہ اللہ کی مرضی ہے کہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے یہ احسان کرے اور اسی علم حق کی دعوت ہم تمہیں دے رہے ہیں ہمارے اپنے اختیار میں کچھ نہیں۔ نہ ہی ہم اپنی مرضی سے تمہیں کوئی معجزہ دکھانے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہی ہم نے کبھی ایسا دعویٰ کیا ہے بلکہ ہم اپنے سب کاموں میں اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ ۔۔ : معلوم ہوا دلیل دیکھنے سے ایمان نہیں آتا، اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے آتا ہے۔ (موضح)- اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبوت سراسر وہبی، یعنی اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔ اس کے لائق افراد کا انتخاب وہ خود کرتا ہے، فرمایا : (وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِھٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ) [ آل عمران : ١٧٩ ] ” اور لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ “ نبوت کسی کو محنت اور ریاضت سے حاصل نہیں ہوتی، جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا خیال ہے، جن میں قادیانی دجال بھی شامل ہے۔ - وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِيَكُمْ ۔۔ : یعنی معجزات ہمارے اختیار میں نہیں، وہ اللہ کے حکم کے بغیر ظاہر نہیں ہوتے، اس لیے ہمارا بھروسا اللہ ہی پر ہے اور تمام اہل ایمان کو اسی پر بھروسا لازم ہے۔
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَمُنُّ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭ وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِيَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ 11 - منن - والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164]- والثاني : أن يكون ذلک بالقول،- وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، - ( م ن ن ) المن - المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔- اور دوسرے معنی منۃ بالقول - یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقول یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے
(١١) ان کے رسولوں نے کہا کہ واقعی ہم بھی تمہارے جیسے انسان ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہی طرح پیدا کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ وہ جس کو چاہے نبوت اور اسلام کی دولت عطا فرمادے۔- اور یہ بات ہمارے بس کی نہیں کہ ہم تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق کوئی کتاب اور معجزہ دکھا سکیں، بغیر اللہ کے حکم کے، ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے تو ان لوگوں نے رسولوں سے کہا، سو تم بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو تاکہ جو تمہارے ساتھ کیا جائے گا اس کو دیکھ لو۔
آیت ١١ (قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَمُنُّ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ )- یہ اللہ کی مرضی کا معاملہ ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نواز دیتا ہے۔ اس نے ہمیں اپنی رسالت کے لیے چن لیا ہے ‘ ہماری طرف وحی بھیجی ہے اور ہمیں مامور کیا ہے کہ ہم آپ لوگوں کو خبردار کریں اور اس کے احکام آپ تک پہنچائیں۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :21 یعنی بلا شبہہ ہم ہیں تو انسان ہی مگر اللہ نے تمہارے درمیان ہم کو ہی علم حق اور بصیرت کاملہ عطا کرنے کے لیے منتخب کیا ہے ۔ اس میں ہمارے بس کی کوئی بات نہیں ۔ یہ تو اللہ کے اختیارات کا معاملہ ہے ۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو جو کچھ چاہے دے ۔ ہم نہ یہ کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس آیا ہے وہ تمہارے پاس بھجوادیں اور نہ یہی کر سکتے ہیں کہ جو حقیقتیں ہم پر منکشف ہوئی ہیں ان سے آنکھیں بند کرلیں ۔
9: یعنی اگر تم اس بات کو نہیں مانتے اور ایمان لانے والوں کو تکلیف پہنچانے کے درپے ہو تو مومن کو ان اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ اس کا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔