15۔ 1 اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہوسکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا ( اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) 8 ۔ الانفال :32) اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے ۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال۔ 19) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔
[١٩] یعنی ایک طرف تو رسول اللہ اللہ سے فتح و نصرت کے لیے دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مخالفین یہ مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب کیوں نہیں لے آتے جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے رہتے ہو۔ اس وقت اللہ رسولوں کی مدد کرتا ہے اور سرکش معاندین اور ہٹ دھرم لوگوں کا سر کچل دیتا ہے۔
وَاسْتَفْتَحُوْا ۔۔ : فتح کا معنی قرآن مجید میں ” فتح و نصرت “ بھی آیا ہے اور ” فیصلہ “ بھی۔ ” َاسْتَفْتَحُوْا “ کا معنی انھوں نے فتح و نصرت مانگی، یا انھوں نے فیصلہ مانگا اور اس کا فاعل پیغمبر بھی ہوسکتے ہیں اور کفار بھی۔ اگر معنی فتح و نصرت ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبروں نے بیشمار آزمائشیں آنے پر اپنے رب سے فتح و نصرت کی دعا کی جو قبول ہوئی، فرمایا : ( حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ) [ البقرۃ : ٢١٤ ] ” یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے کہہ اٹھے، اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔ “ اگر ” َاسْتَفْتَحُوْا “ کا فاعل کفار ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ ” کافروں نے اپنے داتاؤں اور دستگیروں سے فتح و نصرت کی دعا مانگی مگر وہ ناکام ہوئے۔ “ اگر فتح کا معنی فیصلہ ہو تو مطلب ہوگا کہ پیغمبروں اور ان پر ایمان لانے والوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، فرمایا : (رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ ) [ الأعراف : ٨٩ ] ” اے ہمارے رب تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ “ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر سرکش و سخت عناد رکھنے والا ناکام و نامراد ہوا۔ یا مطلب یہ ہے کہ کفار نے اللہ تعالیٰ سے فیصلے کی دعا کی، فرمایا : (وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” اور جب انھوں نے کہا کہ اے اللہ اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔ “ ” َاسْتَفْتَحُوْا “ کے ان چاروں معنوں میں سے جو معنی بھی کریں وہ درست ہے اور قرآن مجید کے مختلف مقامات پر چاروں معانی موجود ہیں۔ قرآن کا اعجاز دیکھیے کہ ایک ہی لفظ ایسا بولا جو چاروں پر صادق آتا ہے۔ غرض دنیا میں نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سرکش اور سخت عناد رکھنے والا کافر ناکام اور نامراد ہوا۔ رہا آخرت کا انجام تو وہ آئندہ آیت میں مذکور ہے۔
وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ 15ۙ- اسْتِفْتَاحُ :- طلب الفتح أو الفتاح . قال : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال 19] ، أي : إن طلبتم الظّفر أو طلبتم الفتاح۔ أي : الحکم أو طلبتم مبدأ الخیرات۔ فقد جاء کم ذلک بمجیء النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم . وقوله : وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة 89]- الاستفتاح - کے معنی غلبہ یا فیصلہ طلب کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال 19] ( کافرو) اگر تم محمدؤ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فتح چاہتے ہو تو تمہارے پاس فتح آچکی ۔ یعنی اگر تم کامیابی یا فیصلہ طلب کرتے ہو تو وہ آچکا ہے اور یا یہ معنی ہیں کہ اگر تم مبدء خیرات طلب کرتے ہو تو آنحضرت کی بعثت سے تمہیں مل چکا ہے اور آیت کریمہ : وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة 89] اور وہ پہلے ہمیشہ کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے ۔ - خاب - الخَيْبَة : فوت الطلب، قال : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] ، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه 61] ، وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس 10] .- ( خ ی ب ) خاب - ( ض ) کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں : قرآن میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہوگیا ۔ وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه 61] اور جس نے افتر ا کیا وہ نامراد رہا ۔ وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس 10] اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا ۔
(١٥) اور ہر ایک قوم اپنے نبی کے خلاف مدد چاہنے لگی اور جتنے متکبر، سرکش اور حق وہدایت سے گمراہ لوگ تھے، وہ سب کے سب مدد چاہنے کے وقت بےمراد ہوئے۔
آیت ١٥ (وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ )- جو لوگ کفر و شرک پر ڈٹے رہتے وہ اس بات پر بھی اپنے رسول سے اصرار کرتے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان آخری فیصلہ ہوجانا چاہیے۔ پھر جب اللہ کی طرف سے وہ آخری فیصلہ عذاب استیصال کی صورت میں آتا تو اس کے نتیجے میں سرکش اور ہٹ دھرم قوم کو نیست و نابود کردیا جاتا۔ ایسے منکرین حق کی تباہی و بربادی کا نقشہ قرآن حکیم میں اس طرح کھینچا گیا ہے : (کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْہَا) (الاعراف : ٩٢) ” وہ ایسے ہوگئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں “ اور (فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسٰکِنُہُمْ ) ( الاحقاف : ٢٥ ) یعنی وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے دیار و امصار میں صرف ان کے محلات و مساکن ہی نظر آتے تھے جبکہ ان کے مکینوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ اور یہ سب کچھ تو ان لوگوں کے ساتھ اس دنیا میں ہوا جبکہ آخرت کی بڑی سزا اس کے علاوہ ہے جس کو جھیلتے ہوئے ان میں سے ہر ایک سرکش ضدی اس طرح نشان عبرت بنے گا :
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :24 ملحوظ خاطر رہے کہ یہاں اس تاریخی بیان کے پیرایہ میں دراصل کفار مکہ کو ان باتوں کا جواب دیا جا رہا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے ۔ ذکر بظاہر پچھلے انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کے واقعات کا ہے مگر چسپاں ہو رہا ہے وہ ان حالات پر جو اس سورہ کے زمانہ نزول میں آ رہے تھے ۔ اس مقام پر کفار مکہ کو ، بلکہ مشرکین عرب کو گویا صاف صاف متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مستقبل اب اس رویے پر منحصر ہے جو دعوت محمدیہ کے مقابلے میں تم اختیار کرو گے ۔ اگر اسے قبول کر لو گے تو عرب کی سرزمین میں رہ سکو گے ، اور اگر اسے رد کر دو گے تو یہاں سے تمہارا نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا ۔ چنانچہ اس بات کو تاریخی واقعات نے ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا ۔ اس پیشین گوئی پر پورے پندرہ برس بھی نہ گزرے تھے کہ سر زمین عرب میں ایک مشرک بھی باقی نہ رہا ۔
10: یعنی پیغمبروں سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالیٰ سے کہہ کر ایسا عذاب ہم پر بھجوا دو جس سے حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے۔ یہ بات کہہ کر وہ در اصل پیغمبروں کا متکبرانہ انداز میں مذاق اڑاتے تھے۔