Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حیات ثانیہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ قیامت کے دن کی دوبارہ پیدائش پر میں قادر ہوں ۔ جب میں نے آسمان زمین کی پیدائش کر دی تو انسان کی پیدائش مجھ پر کیا مشکل ہے ۔ آسمان کی اونچائی کشادگی بڑائی پھر اس میں ٹھیرے ہوئے اور چلتے پھرتے ستارے ۔ اور یہ زمین پہاڑوں اور جنگلوں درختوں اور حیوانوں والی سب اللہ ہی کی بنائی ہوئی ہے جو ان کی پیدائش سے عاجز نہ آیا وہ کیا مردوں کے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک قادر ہے ۔ سورہ یاسین میں فرمایا کہ کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ جھگڑا لو بن بیٹھا ۔ ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اپنی پیدائش بھول گیا اور کہنے لگا ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ کہہ دے کہ وہی اللہ جس نے انہیں اول بار پیدا کیا وہ ہر چیز کی پیدائش کو بخوبی جانتا ہے اسی نے سبز درخت سے تمہارے لئے آگ بنائی ہے کہ تم اسے جلاتے ہو ۔ کیا آسمان و زمین کا خالق ان جیسوں کی پیدائش پر قادر نہیں ؟ بیشک ہے ، وہی بڑا خالق اور بہت بڑا عالم ہے اس کے ارادے کے بعد اس کا صرف اتنا حکم بس ہے کہ ہو جا اسی وقت وہ ہو جاتا ہے وہ اللہ پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تمہارا سب کا لوٹنا ہے ۔ اس کے قبضے میں ہے کہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق تمہارے قائم مقام یہاں آباد کر دے اس پر یہ کام بھی بھاری نہیں تم اس کے امر کا خلاف کرو گے تو یہی ہو گا جیسے فرمایا اگر تم منہ موڑ لو گے تو وہ تمہارے بدلے اور قوم لائے گا جو تمہاری طرح کی نہ ہوگی ۔ اور آیت میں ہے اے ایمان والو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو لائے گا جو اس کی پسندیدہ ہو گی اور اس سے محبت رکھنے والی ہو گی ۔ اور جگہ ہے اگر وہ چاہے تمہیں برباد کر دے اور دوسرے لائے اللہ اس پر قادر ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] یعنی زمین و آسمان اور اس کائنات کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کی بنیاد ٹھوس حقائق پر ہے۔ اسی طرح اگر اعمال صالحہ کی بنیاد کسی ٹھوس حقیقت پر ہو تو اس کا ثمرہ دائمی اور پائیدار ہوگا اور وہ آخرت میں بھی اپنا ثمرہ دے گا۔ مگر جس تعمیر کی بنیاد کسی ٹھوس جگہ کی بجائے ریت یا راکھ پر رکھ دی جائے تو تیز آندھی اسے گرا کر زمین بوس کردے گی۔ اس کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے کہ کوئی تیز آندھی کا جھکڑ آجائے یا نیچے سے پانی بہہ جائے اور یہ جھکڑ یا حادثہ کافر کی موت ہے اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے نیک اعمال بھی برباد ہوجاتے ہیں۔- [ ٢٣] ان آیات میں مسلسل کافروں سے ہی خطاب چل رہا ہے جو محض حق کا انکار ہی نہیں کرتے بلکہ حق کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کی مخالفت اور مومنوں کی ایذا رسانی میں ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ درمیان میں ان کے نیک اعمال کا بھی ذکر آگیا جیسے مشرکین مکہ حاجیوں کی خدمت کیا کرتے تھے، انھیں پانی پلانے کا بندوبست کرتے تھے، کمزور لوگوں کی امداد کے لیے فنڈ اکٹھا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں بھی انھیں ان کی بداعمالیوں پر انتباہ کیا گیا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اگر تم یہی کچھ کرتے رہے تو اللہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو یہاں لانے اور انھیں اقتدار بخشنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ چناچہ چند ہی سالوں کے بعد کفار مکہ کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ ۔۔ :” اَلَمْ تَرَ “ کا معنی ” اَلَمْ تَعْلَمْ “ ہے، یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، یعنی اس صحیح اندازے کے مطابق جس کے مطابق اسے ہونا چاہیے تھا اور جو اپنے خالق کی کمال قدرت پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کسی چیز میں کوئی نہ نقص نکال سکتا ہے نہ کوئی ایسی صورت پیش کرسکتا ہے جو اس سے بہتر ہو۔ ہاں وہ خود اس سے بھی بہتر بنانے پر پوری طرح قادر ہے۔ - وَّمَا ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ بِعَزِيْزٍ : اس کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ایسے کروڑوں عالم دم بھر میں مٹا کر نئے پیدا کر دے۔ ” وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ “ کا ایک معنی بعض اہل علم نے یہ بھی کیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو تم سب کو دفعتاً ختم کرکے تمہیں دوبارہ نئے سرے سے پیدا کر دے۔ آگے آنے والی آیات جو حشر اور قیامت کے واقعات پر مشتمل ہیں اس معنی کی تائید کرتی ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ 19۝ۙ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو یہ معلوم نہیں (یہاں مخاطب اپنے نبی کو کیا ہے مگر مقصود آپ کی قوم ہے) کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اظہار حق اور باطل یا یہ کہ زوال وفناء کے لیے پیدا کیا ہے مکہ والو اگر وہ چاہے تو تم سب کو ہلاک کردے یا موت دے دے اور ایک دوسری مخلوق پیدا کر دے جو تم سے بہتر ہو اور اللہ تعالیٰ کی تم سے زیادہ فرمانبردار ہو اور یہ کرنا اللہ کے لئے بالکل مشکل نہیں، اور بڑے درجے اور اچھے درجے کے لوگ سب اللہ کے حکم سے قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے تو چھوٹے درجے کے لوگ بڑے درجے کے کافروں سے کہیں گے اگر اللہ تعالیٰ ہم کو اپنے دین کی راہ دکھلاتا تو ہم تمہیں کو بھی اس کے دین کا راستہ بتاتے اب تو عذاب ہم پر لازم ہے خواہہم پریشان ہوں اور خواہ ضبط کریں اب ہمارے لیے کوئی فریاد کی جگہ اور کوئی جائے پناہ نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ )- اس کی قدرت قوت تخلیق اور تخلیقی مہارت ختم تو نہیں ہوگئی وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے ختم کر دے اور جب چاہے کوئی نئی مخلوق پیدا کر دے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :26 یہ دلیل ہے اس دعوے کی جو اوپر کیا گیا تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ اس بات کو سن کر تمہیں تعجب کیوں ہوتا ہے؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ زمین و آسمان کا عظیم الشان کارخانہ تخلیق حق پر قائم ہوا ہے نہ کہ باطل پر ؟ یہاں جو چیز حقیقت اور واقعیت پر مبنی نہ ہو ، بلکہ ایک بے اصل قیاس و گمان پر جس کی بنا رکھ دی گئی ہو ، اسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہو سکتی ۔ اس کے لیے قرار ثبات کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ اس کے اعتماد پر کام کرنے والا کبھی اپنے اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ جو شخص پانی پر نقش بنائے اور ریت پر قصر تعمیر کرے وہ اگر یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا نقش باقی رہے گا اور اس کا قصر کھڑا رہے گا تو اس کی یہ امید کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ نقش قبول کرے اور ریت کی حقیقت نہیں کہ وہ عمارتوں کے لیے مضبوط بنیاد بن سکے ۔ لہٰذا سچائی اور حقیقت کو نظر انداز کر کے جو شخص باطل امیدوں پر اپنے عمل کی بنیاد رکھے اسے ناکام ہونا ہی چاہیے ۔ یہ بات اگر تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو پھر یہ سن کر تمہیں حیرت کس لیے ہوتی ہے کہ خدا کی اس کائنات میں جو شخص اپنے آپ کو خدا کی بندگی و اطاعت سے آزاد فرض کر کے کام کرے گا یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان کر ( جس کی فی الواقع خدائی نہیں ہے ) زندگی بسر کرے گا ، اس کا پورا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا ؟ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خود مختار ہو یا خدا کے سوا کسی اور کا بندہ ہو ، تو اس جھوٹ پر ، اس خلاف واقعہ مفروضہ پر ، اپنے پورے نظام فکر و عمل کی بنیاد رکھنے والا انسان تمہاری رائے میں پانی پر نقش کھینچنے والے احمق کا سا انجام نہ دیکھے گا تو اس کے لیے اور کس انجام کی تم توقع رکھتے ہو؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: اِس آیتِ کریمہ میں آخرت کی زندگی کا ضروری ہونا بھی بیان فرمایا گیا ہے، اور اس پر کافروں کو جو شبہہ ہوتا ہے، اُس کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق ایک برحق مقصد کے لئے کی گئی ہے۔ اور وہ مقصد یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فرماں برداروں کو اِنعام دیا جائے، اور نافرمانوں اور ظالموں کو سزا ملے۔ اگر آخرت کی زندگی نہ ہوتی تو نیک اور بد سب برابر ہوجاتے۔ لہٰذا انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس دُنیا کے بعد ایک دوسری زندگی ہو جس میں ہر اِنسان کو اُس کے مناسب بدلہ دیا جا سکے۔ رہا کافروں کا یہ اعتراض کہ مر کر مٹی میں مل جانے کے بعد اِنسان کس طرح دوبارہ زندہ ہوں گے؟ تو اس کا جواب اگلے جملے میں یہ دیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت میں تو یہ بھی ہے کہ تم سب کو فنا کر کے ایک نئی مخلوق پیدا کردے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک مخلوق بالکل عدم سے وجود میں لانا زیادہ مشکل کام ہے اور جو مخلوق ایک مرتبہ وجود میں آچکی ہو، اُس پر موت طاری کر کے اُسے زِندہ کردینا اُس کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ پہلے مشکل کام پر قادر ہے تو اس دوسرے کام کی تو یقینا قدرت رکھتا ہے۔