بے سود اعمال کافر جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادتوں کے خوگر تھے پیغمبروں کی نہیں مانتے تھے جن کے اعمال ایسے تھے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت ہو جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ سخت ضرورت کے وقت خالی ہاتھ کھڑے رہ گئے ۔ پس فرمان ہے کہ ان کافروں کی یعنی ان کے اعمال کی مثال ۔ قیامت کے دن جب کہ یہ پورے محتاج ہوں گے سمجھ رہے ہوں گے کہ اب ابھی ہماری بھلائیوں کا بدلہ ہمیں ملے گا لیکن کچھ نہ پائیں گے ، مایوس رہ جائیں گے ، حسرت سے منہ تکنے لگیں گے جیسے تیز آندھی والے دن ہوا راکھ کو اڑا کر ذرہ ذرہ ادھر ادھر بکھیر دے اسی طرح ان کے اعمال محض اکارت ہو گئے جیسے اس بکھری ہوئی اور اڑی ہوئی راکھ کا جمع کرنا محال ایسے ہی ان کے بےسود اعمال کا بدلہ محال ۔ وہ تو وہاں ہوں گے ہی نہیں ان کے آنے سے پہلے ہی ھبا منشورا ہو گئے ۔ آیت ( مَثَلُ مَا يُنْفِقُوْنَ فِيْ ھٰذِهِ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيْحٍ فِيْھَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَاَھْلَكَتْهُ١١٧ ) 3-آل عمران:117 ) یہ کفار جو کچھ اس حیات دنیا میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس آگ کے گولے جیسی ہے جو ظالموں کی کھیتی جھلسا دے ۔ اللہ ظالم نہیں لیکن وہ اپنے اوپر خود ظلم کرتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے کہ ایمان والو اپنے صدقے خیرات احسان رکھ کر اور ایذاء دے کر برباد نہ کرو جیسے وہ جو ریا کاری کے لئے خرچ کرتا ہو اور اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کی مثال اس چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی تھی لیکن بارش کے پانی نے اسے دھو دیا اب وہ بالکل صاف ہو گیا یہ لوگ اپنی کمائی میں سے کسی چیز پر قادر نہیں اللہ تعالیٰ کافروں کی رہبری نہیں فرماتا ۔ اس آیت میں ارشاد ہوا کہ یہ دور کی گمراہی ہے ان کی کوشش ان کے کام بےپایہ اور بےثبات ہیں سخت حاجت مندی کے وقت ثواب گم پائیں گے یہی انتہائی بد قسمتی ہے ۔
18۔ 1 قیامت والے دن کافروں کے عملوں کا بھی یہی حال ہوگا کہ اس کا کوئی اجر وثواب انھیں نہیں ملے گا۔
[٢١] کافروں کے اچھے اعمال کی مثال راکھ کا ڈھیر :۔ شریعت کا ایک کلیہ ہے کہ اعمال کی جزا و سزا کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے، یہ رسول اللہ کا مشہور و معروف فرمان اور متواتر حدیث ہے یعنی عمل کرتے وقت انسان جیسی نیت کرتا ہے ویسا ہی اسے بدلہ ملے گا۔ ایک مومن سارے کام اس نیت سے کرتا ہے کہ یہی اعمال آخرت میں اس کے کام آئیں گے اور اس کی نجات کا ذریعہ بنیں گے لہذا اسے ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا۔ مگر ایک شخص جو کہ بھلا کام اس نیت سے کرتا ہے جس سے اسے کوئی ذاتی یا قومی مفاد یا اپنی شہرت مطلوب ہوتی ہے تو اسے دنیا میں ہی اس کے اس طرح کے بھلے کاموں کا بدلہ دے دیا جاتا ہے۔ اس کے نیک اعمال خواہ بہت زیادہ ہوں، آخرت میں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کوئی راکھ کا ڈھیر پڑا ہو اور آندھی کا ایک ہُلّہ اسے اڑا کر تتر بتر کردیتا ہے اور وہاں کچھ بھی نہیں رہتا۔ درج ذیل حدیث بھی اسی مضمون کی وضاحت کررہی ہے۔- سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ مومن پر اس کی نیکی کے سلسلے میں ذرہ سا بھی ظلم نہیں کرے گا۔ اسے اس کی نیکی کا بدلہ دنیا میں بھی دیا جائے گا اور آخرت میں بھی۔ اور کافر نے جو نیک عمل کیے ہوں گے اس کو ان کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو کوئی نیکی نہ ہوگی جس کا اس کو صلہ دیا جائے۔ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب جزاء المومن بحسناتہ فی الدنیا والآخرۃ) - اور کافروں کا چونکہ آخرت پر ایمان ہی نہیں ہوتا اور نہ آخرت میں اجر پانے کی نیت سے انہوں نے کوئی کام کیا ہوتا ہے۔ لہذا آخرت میں ان کے اجر کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا اور جو برے کام انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے جن میں سب سے بڑا گناہ یہی آخرت کا انکار ہے۔ ان کی سزا انھیں ضرور ملے گی۔ گویا ان سے نیکی برباد اور گناہ لازم والا معاملہ بن جائے گا۔
مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ۔۔ : کفار دنیا میں جو بھی اچھے کام کرتے ہیں، مثلاً کمزوروں کی مدد اور صدقہ وغیرہ، وہ آخرت میں ان کے کسی کام نہیں آئیں گے، کیونکہ ان کا بدلا انھیں دنیا ہی میں دیا جا چکا ہوگا۔ (دیکھیے الاحقاف : ٢٠) ” عَاصِفٍ “ ” عَصَفَ یَعْصِفُ “ سے ہے، بمعنی توڑنا۔ ” کَعَصْفٍ مَّأْکُوْلٍ “ کا معنی ہے ریزہ شدہ بھس، یعنی تیز و تند ہوا جو ہر چیز کو توڑتی جائے۔ اس آیت میں قیامت کے دن کفار کے اعمال کے بےکار ہونے کی مثال دی ہے کہ ایک تند و تیز ہوا والے دن میں کسی راکھ پر بہت سخت ہوا چلے تو اس ہوا میں راکھ کا ایک ذرہ بھی ہاتھ میں آنا مشکل ہے، اسی طرح کفار کے اعمال صالحہ اس دن بےکار ہوں گے، کیونکہ ان کا کوئی عمل اس دن کے لیے تھا ہی نہیں، نہ اس دن پر ان کا ایمان تھا۔ مزید دیکھیے سورة فرقان (٢٣) ، کہف (١٠٣ تا ١٠٦) اور آل عمران (١١٧) ۔
خلاصہ تفسیر :- (ان کافروں کو اگر اپنی نجات کے متعلق یہ زعم ہو کر ہمارے اعمال ہم کو نافع ہوں گے تو اس کا قاعدہ کلیہ تو یہ سن لو کہ) جو لوگ اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کرتے ہیں ان کی حالت باعتبار عمل کے یہ ہے (یعنی ان کے اعمال کی ایسی مثال ہے) جیسے کچھ راکھ ہو (جو اڑنے میں بہت خفیف ہوتی ہے) جس کو تیز آندھی کے دن میں تیزی کے ساتھ ہوا اڑا لے جائے (کہ اس صورت میں اس راکھ کا نام و نشان بھی نہ رہے گا اسی طرح) ان لوگوں نے جو کچھ عمل کئے تھے اس کا کوئی حصہ (یعنی اثر و نفع کے قبیل سے) ان کو حاصل نہ ہوگا (اس راکھ کی طرح ضائع و برباد ہوجائے گا) یہ بھی بڑی دور دراز کی گمراہی ہے) کہ گمان تو ہو کہ ہمارے عمل نیک اور نافع ہیں اور پھر ظاہر ہوں بد اور مضر جیسے عبادات اصنام یا غیر نافع جیسے اعتاق وصلہ رحمی اور چونکہ حق سے اس کو بہت بعد ہے اس لئے کہا گیا پس اس طریق سے تو نجات کا احتمال نہ رہا اور اگر ان کو یہ زعم ہو کہ قیامت ہی کا وجود محال ہے اور اس صورت میں عذاب کا احتمال نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ) کیا (اے مخاطب) تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو بالکل ٹھیک ٹھیک (یعنی مشتمل بر منافع ومصالح) پیدا کیا ہے (اور اس سے قادر ہونا اس کا ظاہر ہے پس جب وہ قادر مطلق ہے تو) اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور ایک دوسری نئی مخلوق پیدا کر دے اور یہ خدا کو کچھ بھی مشکل نہیں (پس جب نئی مخلوق پیدا کرنا آسان ہے تو تم کو دوبارہ پیدا کردینا کیا مشکل ہے) اور (اگر یہ وسوسہ ہو کہ ہمارے اکابر ہم کو بچا لیں گے تو اس کی حقیقت سن لو کہ قیامت کے دن) خدا کے سامنے سب پیش ہوں گے پھر چھوٹے درجہ کے لوگ (یعنی عوام وتابعین) بڑے درجہ کے لوگوں سے (یعنی خواص و متبوعین سے بطور ملامت و عتاب) کہیں گے کہ ہم (دنیا میں) تمہارے تابع تھے (حتی کہ دین کی جو راہ تم نے ہم کو بتلائی ہم اسی پر ہو لئے اور آج ہم پر مصیبت ہے) تو کیا تم خدا کے عذاب کا کچھ جزو ہم سے مٹا سکتے ہو (یعنی اگر بالکل نہ بچا سکو تو کسی قدر بھی بچا سکتے ہو) وہ (جواب میں) کہیں گے کہ (ہم تم کو کیا بچاتے خود ہی نہیں بچ سکتے ہیں البتہ) اگر اللہ ہم کو (کوئی) راہ (بچنے کی) بتلاتا تو ہم تم کو بھی (وہ) راہ بتلا دیتے (اور اب تو) ہم سب کے حق میں دونوں صورتیں برابر ہیں خواہ ہم پریشان ہوں (جیسا کہ تمہاری پریشانی فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّاسے ظاہر ہے اور ہماری پریشانی تو لو ہدانا اللہ سے ظاہر ہی ہے) خواہ ضبط کریں (دونوں حالتوں میں) ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں (پس اس سوال و جواب سے یہ معلوم ہوگیا کہ طریق کفر کے اکابر بھی اپنے متبعین کے کچھ کام نہ آئیں گے یہ طریق بھی نجات کا محتمل نہ رہا) اور (اگر اس کا بھروسہ ہو کر یہ معبودین غیر اللہ کام آویں گے اس کا حال اس حکایت سے معلوم ہوجائے گا کہ) جب (قیامت میں) تمام مقدمات فیصل ہو چکیں گے (یعنی اہل ایمان جنت میں اور کفار دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے) تو (اہل دوزخ سب شیطان کے پاس کہ وہ بھی وہاں ہوگا جا کر ملامت کریں گے کہ کم بخت تو تو ڈوبا ہی تھا ہم کو بھی اپنے ساتھ ڈبو یا اس وقت) شیطان (جواب میں) کہے گا کہ (مجھ پر تمہاری ملامت ناحق ہے کیونکہ) ( اللہ تعالیٰ نے تم سے (جتنے وعدے کئے تھے سب) سچے وعدے کئے تھے (کہ قیامت ہوگی اور کفر سے ہلاکت ہوگی اور ایمان سے نجات ہوگی) اور میں نے بھی وعدے تم سے کئے تھے (کہ قیامت نہ ہوگی اور تمہارا طریقہ کفر بھی طریقہ نجات ہے) سو میں نے وہ وعدے تم سے خلاف کئے تھے (اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے حق ہونے پر اور میرے وعدوں کے باطل ہونے پر دلائل قطعیہ قائم تھے سو باوجود اس کے تم نے میرے وعدوں کو صحیح اور خدا تعالیٰ کے وعدوں کو غلط سمجھا تو اپنے ہاتھوں تم ڈوبے) اور (اگر تم یوں کہو کہ آخر سچے وعدوں کو جھوٹا سمجھنے اور جھوٹے وعدوں کا سچا سمجھنے کا سبب بھی تو میں ہی ہوا تو بات یہ ہے کہ واقعی میں اغواء کے مرتبہ میں سبب ضرور ہوا لیکن یہ دیکھو کہ میرے اغواء کے بعد تم مختار تھے یا مضطر و مجبور سو ظاہر ہے کہ) میرا تم پر اور تو کچھ زور چلتا نہ تھا بجز اس کے کہ میں نے تم کو (گمراہی کی طرف) بلایا تھا سو تم نے (باختیار خود) میرا کہنا مان لیا (اگر نہ مانتے تو میں بزور تم کو گمراہ نہ کرسکتا تھا جب یہ بات ثابت ہے) تو مجھ پر (ساری) ملامت مت کرو (اس طرح سے کہ اپنے کو بالکل بری سمجھنے لگو) اور (زیادہ) ملامت اپنے آپ کو کرو (کیونکہ اصل علت عذاب کی تمہارا ہی فعل ہے اور میرا فعل تو محض سبب ہے جو بعید اور غیر مستلزم ہے پس ملامت کا تو یہ جواب ہے اور اگر مقصود اس قول سے استعانت واستمداد ہے تو میں کسی کی کیا مدد کروں گا ورنہ میں بھی تم سے اپنے لئے مدد چاہتا کیونکہ زیادہ مناسبت تم سے ہے پس اب تو) نہ میں تمہارا مددگار (ہو سکتا) ہوں اور نہ تم میرے مددگار (ہو سکتے) ہو (البتہ اگر میں تمہارے طریقہ شرک کو حق سمجھتا تو بھی اس تعلق کی وجہ سے نصرت کا مطالبہ کرنے کی گنجائش تھی لیکن) میں خود تمہارے اس فعل سے بیزار ہوں (اور اس کو باطل سمجھتا ہوں) کہ تم اس کے قبل (دنیا میں) مجھ کو (خدا کا) شریک قرار دیتے تھے (یعنی دربارہ عبادت اصنام وغیرھا میری ایسی اطاعت کرتے تھے جو اطاعت کہ خاصہ حق تعالیٰ ہے پس اصنام کو شریک ٹھہرانا بایں معنی شیطان کو شریک ٹھرانا ہے پس مجھ سے تمہارا کوئی تعلق نہ تم کو استمداد کا کوئی حق ہے پس) یقینا ظالموں کے لئے درد ناک عذاب (مقرر) ہے (پس عذاب میں پڑے رہو نہ مجھ پر ملامت کرنے سے نفع کی امید رکھو اور نہ مدد چاہنے سے جو تم نے ظلم کیا تھا تم بھگتو جو میں نے کیا تھا میں بھگتوں گا پس گفتگو قطع کرو یہ حاصل ہوا ابلیس کے جواب کا پس اس سے معبودین غیر اللہ کا بھروسہ بھی قطع ہوا کیونکہ جو ان معبودین کی عبادت کا اصل بانی و محرک ہے اور درحقیقت عبادت غیر اللہ سے زیادہ راضی وہی ہوتا ہے چناچہ اسی بنا پر قیامت کے دن دوزخ میں اہل نار اسی سے کہیں سنیں گے اور کسی معبود غیر اللہ سے کچھ بھی نہ کہیں گے جب اس نے صاف جواب دے دیاتو اوروں سے کیا امید ہو سکتی ہے پس نجات کفار کے سب طریقے مسدود ہوگئے اور یہی مضمون مقصود تھا )- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ سے پہلے ایک آیت میں حق تعالیٰ نے کفار کے اعمال کی یہ مثال بیان فرمائی ہے کہ وہ راکھ کی مانند ہیں جس پر تیز اور سخت ہوا چل جائے تو اس کا ذرہ ذرہ ہوا میں منتشر ہو کر بےنشان ہوجائے پھر کوئی اس کو جمع کر کے اس سے کوئی کام لینا چاہئے تو ناممکن ہوجائے۔- (آیت) مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ- مطلب یہ ہے کہ کافر کے اعمال جو بظاہر اچھے بھی ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں اس لئے سب ضائع اور بیکار ہیں ،- اس کے بعد مذکورہ آیات میں پہلے مومن اور اس کے اعمال کی ایک مثال دی گئی ہے پھر کفار و منافقین کے اعمال کی پہلی آیت میں مومن اور اس کے اعمال کی مثال ایک ایسے درخت سے دی گئی ہے جس کا تنہ مضبوط اور بلند ہو اور اس کی جڑیں زمین میں گہری گئی ہوئی ہوں اور زیر زمین پانی کے چشموں سے سیراب ہوتی ہوں گہری جڑوں کی وجہ سے اس درخت کو استحکام اور مضبوطی بھی حاصل ہو کہ ہوا کے جھونکے سے گر نہ جائے اور سطح زمین سے دور ہونے کی وجہ سے اس کا پھل گندگی سے پاک صاف رہے دوسری صفت اس درخت کی یہ ہے کہ اس کی شاخیں بلندی پر آسمان کی طرف ہوں تیسری صفت اس درخت کی یہ ہے کہ اس کا پھل ہر وقت ہر حال میں کھایا جاتا ہو ،- یہ درخت کون سا اور کہاں ہے ؟ اس کے متعلق مفسرین کے اقوال مختلف ہیں مگر زیادہ اقرب یہ ہے کہ وہ کھجور کا درخت ہے اس کی تائید تجربہ اور مشاہدہ سے بھی ہوتی ہے اور روایات حدیث سے بھی کھجور کے درخت کے تنہ کا بلند اور مضبوط ہونا تو مشاہدہ کی چیز ہے سب ہی جانتے ہیں اس کی جڑوں کا زمین کی دور گہرائی تک پہنچنا بھی معروف و معلوم ہے اور اس کا پھل بھی ہر وقت اور ہر حال میں کھایا جاتا ہے جس وقت سے اس کا پھل درخت پر ظاہر ہوتا ہے اس وقت سے پکنے کے زمانہ تک ہر حال اور ہر صورت میں اس کا پھل مختلف طریقوں سے چٹنی واچار کے طریقہ سے یا دوسرے طریقہ سے کھایا جاتا ہے پھر پھل پک جانے کے بعد اس کا ذخیرہ بھی پورے سال باقی رہتا ہے صبح وشام دن اور رات، گرامی اور سردی، غرض ہر موسم اور ہر وقت میں کام دیتا ہے اس درخت کا گودا بھی کھایا جاتا ہے اس سے میٹھا رس بھی نکالا جاتا ہے اس کے پتوں سے بہت سی مفید چیزیں چٹائیاں وغیرہ بنتی ہیں اس کی گٹھلی جانوروں کا چارہ ہے بخلاف دوسری درختوں کے پھلوں کے کہ وہ خاص موسم میں آتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں ان کا ذخیرہ نہیں رکھا جاتا ہے اور نہ ان کی ہر چیز سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے،- اور ترمذی، نسائی، ابن حبان اور حاکم نے بروایت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شجرۃ طیبۃ (جس کا ذکر قرآن میں ہے) کھجور کا درخت ہے اور شجرۃ خبیثہ حنظل کا درخت (مظہری)- اور مسند احمد میں بروایت مجاہد مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ ایک روز ہم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے کوئی صاحب آپ کے پاس کھجور کے درخت کا گودہ لائے اس وقت آپ نے صحابہ کرام (رض) اجمعین سے ایک سوال کیا کہ درختوں میں سے ایک ایسا درخت بھی ہے جو مرد مومن کی مثال ہے (اور بخاری کی روایت میں اس جگہ یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس درخت کے پتے کسی موسم میں جھڑتے ہیں) بتلاؤ وہ درخت کون سا ہے ؟ عمر (رض) اور دوسرے اکابر صحابہ موجود تھے ان کو خاموش دیکھ کر مجھے بولنے کی ہمت نہ ہوئی پھر خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔- مؤ من کی مثال اس درخت سے دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کلمہ طیبہ میں ایمان اس کی جڑ ہے جو بہت مستحکم اور مضبوط ہے دنیا کے حوادث اس کو ہلا نہیں سکتے مؤمنین کاملین صحابہ وتابعین بلکہ ہر زمانہ کے پکے مسلمانوں کی ایسی مثالیں کچھ کم نہیں کہ ایمان کے مقابلہ میں نہ جان کی پروا کی نہ مال کی اور نہ کسی دوسری چیز کی دوسری وجہ ان کی طہارت ونظافت ہے کہ دنیا کی گندگیوں سے متاثر نہیں ہوتے جیسے بڑے درخت پر سطح زمین کی گندگی کا کوئی اثر نہیں ہوتا یہ دو وصف تو اصلہا ثابت کی مثال ہیں تیسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح کھجور کی شاخیں بلند آسمان کی طرف ہوتی ہیں مومن کے ایمان کے ثمرات یعنی اعمال بھی آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں قرآن کریم میں ہے اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں پاکیزہ کلمات مطلب یہ ہے کہ مومن جو اللہ تعالیٰ کا ذکر تسبیح، تہلیل، قراءۃ قرآن وغیرہ کرتا ہے یہ صبح شام اللہ تعالیٰ کے پاس پہونچتے رہتے ہیں،- چوتھی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کھجور کا پھل ہر وقت ہر حال، ہر موسم میں لیل ونہار کھایا جاتا ہے مومن کے اعمال صالحہ بھی ہر وقت، ہر موسم، اور ہر حال میں صبح شام جاری ہیں اور جس طرح کھجور کے درخت کی ہر چیز کارآمد ہے مومن کا ہر قول وفعل اور حرکت و سکون اور اس سے پیدا ہونے والے آثار پوری دنیا کے نافع ومفید ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ مومن کامل اور تعلیمات خدا و رسول کا پابند ہو،- مذکورہ تقریر سے معلوم ہوا کہ تُؤ ْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍ میں اکل سے مراد پھل اور کھانے کے لائق چیزیں ہیں اور حین سے مراد ہر وقت ہر حال ہے اکثر مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض حضرات کے دوسرے اقوال بھی ہیں۔
مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ 18- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - رمد - يقال : رَمَادٌ ورِمْدِدٌ «1» ، وأَرْمَدُ وأَرْمِدَاءُ ، قال تعالی: كَرَمادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] ، ورَمِدَتِ النارُ : صارت رَمَاداً ، وعبّر بِالرَّمَدِ عن الهلاك كما عبّر عنه بالهمود، ورَمِدَ الماء : صار كأنّه فيه رماد لأُجُونِهِ «2» ، والْأَرْمَدُ ما کان علی لون الرّماد . وقیل للبعوض : رُمْدٌ ، والرَّمَادَةُ : سَنَةُ المَحْلِ.- ( ر مد )- رما و رمد اد ارمد وارمد وارمد ارمد مداء ( خاکستر ) راکھ کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَرَمادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] گویا راکھ کا ڈھیر ہے جسے آندھی کے دن ہوا ڑ ا کرلے جائے رمدت النار کے معنی آگ کے سمجھ کر راکھ بن جانے کے ہیں پھر استعارہ کے طور پر ہلاکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ھمود کا لفظ مجازا بمعنی ہلاکت آجاتا ہے ۔ اور رمد الماء کے معنی پانی کے گدلا ہوجانے کے ہیں ۔ گویا اس میں راکھ ڈال دی گئی ہے اور الا رمد خاکستری رنگ کی چیز کو کہتے ہیں اور مچھر کو رمد کہا جاتا ہے ( جو ارمد کی جمع ہے ) اور رمادۃ کے معنی قحط سالی کے ہیں ۔- عصف - العَصْفُ والعَصِيفَةُ : الذي يُعْصَفُ من الزّرعِ ، ويقال لحطام النّبت المتکسّر : عَصْفٌ.- قال تعالی: وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن 12] ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل 5] ، ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس 22] ، وعَاصِفَةٌ ومُعْصِفَةٌ: تَكْسِرُ الشیءَ فتجعله كَعَصْفٍ ، وعَصَفَتْ بهم الرّيحُ تشبيها بذلک .- ( ع ص ف ) العصف واعصیفتہ - کھیتی کے پتے جو کاٹ لئے جاتے ہیں نیز خشک نباتات جو ٹوٹ کر چور چور ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن 12] اور اناج چھلکے کے اندر ہوتا ہے ۔ ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل 5] جیسے کھا یا ہوا بھس ہو ۔ ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس 22] ریح عاصف وعاصفتہ ومعصفتہ تند ہوا جو ہر چیز کو توڑ کر بھس کی طرح بنادے اور مجازا عصفت بھم الریح کے معنی ہیں وہ ہلاک اور برباد ہوگئے ۔ - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔
(١٨) جو لوگ اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کرتے ہیں ان کے اعمال کی مثال یہ ہے جیسے کچھ راکھ ہو جس کو تیز آندھی کے دن تیز ہوا اڑا کرلے جائے، ان لوگوں نے حالت کفر میں جو اچھے کام کیے تھے، اس کا کچھ بھی ثواب نہیں پائیں گے، جیسا کہ جب راکھ کو ہوا اڑا کرلے جائے، اس کا ایک ذرہ بھی نہیں پاسکتے، یہ کفر اور غیر اللہ کے لیے اعمال کرنا یہ حق اور ہدایت سے دور دراز کی گمراہی ہے۔
آیت ١٨ (مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ )- اللہ کے ہاں کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے ایمان لازمی اور بنیادی شرط ہے۔ چناچہ جو لوگ اپنے رب کا کفر کرتے ہیں ان کے نیک اعمال کو یہاں راکھ کے ایسے ڈھیر سے تشبیہہ دی گئی ہے جس پر تیز آندھی چلی اور اس کا ایک ایک ذرہ منتشر ہوگیا۔ یعنی بظاہر تو وہ ڈھیر نظر آتا تھا مگر اللہ کے ہاں اس کی کچھ بھی حیثیت باقی نہ رہی۔ یہ بہت اہم مضمون ہے اور قرآن کریم میں مختلف مثالوں کے ساتھ اسے تین بار دہرایا گیا ہے۔ سورة النور کی آیت ٣٩ میں کفار کے اعمال کو سراب سے تشبیہہ دی گئی ہے اور سورة الفرقان کی آیت ٢٣ میں منکرین آخرت کے اعمال کو (ہَبَآءً مَّنْثُوْرًا) یعنی ” ہوا میں اڑتے ہوئے ذرات “ کی مانند قراردیا گیا ہے۔ - دراصل ہر انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق نیکی کا ایک تصور رکھتا ہے ‘ کیونکہ نیکی ہر انسان کی روح کی ضرورت ہے مگر نیکی کا تعلق چونکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی قبولیت کے ساتھ ہے ‘ چناچہ اس کے لیے معیار بھی وہی قابل قبول ہوگا جو اللہ نے خود قائم کیا ہے ‘ اور وہ معیار سورة البقرۃ کی آیت البر کی روشنی میں یہ ہے :- (لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ۚ وَاَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ )- ” نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو بلکہ اصل نیکی تو اس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر یوم آخرت پر فرشتوں پر کتاب پر اور نبیوں پر۔ اور اس نے خرچ کیا مال اس کی محبت کے باوجود قرابت داروں یتیموں محتاجوں مسافروں اور مانگنے والوں پر اور گردنوں کے چھڑانے میں۔ اور قائم کی نماز اور ادا کی زکوٰۃ۔ اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کے جب کوئی عہد کرلیں۔ اور صبر کرنے والے فقر و فاقہ میں تکالیف میں اور حالت جنگ میں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی حقیقت میں متقی ہیں۔ “- اگر نیکی اس معیار کے مطابق ہے تو پھر یہ واقعی نیکی ہے ‘ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو نیکی کی شکل میں دھوکہ سراب اور فریب ہے نیکی نہیں ہے۔ دراصل جب انسان کی فطرت مسنح ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا نیکی کا تصور بھی مسنح ہوجاتا ہے۔ نیکی چونکہ ایک برے سے برے انسان کے بھی ضمیر کی ضرورت ہے اس لیے بجائے اس کے کہ ایک برا انسان اپنی اصلاح کر کے اپنے اعمال و کردار کو نیکی کے مطلوبہ معیار پر لے آئے وہ الٹا نیکی کے معیار کو گھسیٹ کر اپنے خیالات و نظریات کی گندگی کے ڈھیر کے اندر اس کی جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں چور ڈاکو اور لٹیرے صدقہ و خیرات کرتے اور خدمت خلق کے بڑے بڑے کام کرتے نظر آتے ہیں اور جسم فروش عورتیں مزاروں پر دھمال ڈالتی اور نیاز بانٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح یہ لوگ اپنے ضمیر کی تسکین کا سامان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے پیشے میں قدرے قباحت کا عنصر پایا جاتا ہے تو کیا ہوا اس کے ساتھ ساتھ ہم نیکی کے فلاں فلاں کام بھی تو کرتے ہیں - اسی طرح جب مذہبی مزاج رکھنے والے لوگوں کی فطرت مسنح ہوتی ہے تو وہ کبیرہ گناہوں کی طرف سے بےحس اور صغائر کے بارے میں بہت حساس ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ صغائر کے بارے میں تو بڑے زور دار مباحثے اور مناظرے کر رہے ہوتے ہیں ‘ مگر کبائر کو وہ لائق اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔ اس پس منظر میں صحیح طرز عمل یہ ہے کہ پہلے کبائر سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے اور پھر اس کے بعد صغائر کی طرف توجہ کی جائے۔ بہر حال قیامت کے دن بیشمار ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے زعم میں بہت زیادہ نیکیاں لے کر آئے ہوں گے مگر اللہ کے نزدیک ان کی نیکیوں کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہوگی۔- (لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ )- ان کو زعم ہوگا کہ انہوں نے دنیا میں بہت نیک کام کیے تھے ‘ خدمت خلق کے بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کر رکھے تھے ‘ مگر اس دن وہاں ان میں سے کوئی نیکی بھی ان کے کام آنے والی نہیں ہوگی۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :25 یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ نمک حرامی ، بے وفائی ، خود مختاری اور نافرمانی و سرکشی کی روش اختیار کی ، اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا جس کی دعوت انبیاء علیہم السلام لے کر آئے ہیں ، ان کا پورا کارنامہ حیات اور زندگی بھر کا سارا سرمایہ عمل آخرکار ایسا لاحاصل اور بے معنی ثابت ہوگا جیسے ایک راکھ کا ڈھیر تھا جو اکٹھا ہو ہو کر مدت دراز میں بڑا بھاری ٹیلہ سا بن گیا تھا ، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑا یا کہ اس کا ایک ایک درہ منتشر ہو کر رہ گیا ۔ ان کی نظر فریب تہذیب ، ان کا شاندار تمدن ، ان کی حیرت انگیز صنعتیں ، ان کی زبردست سلطنتیں ، ان کی عالیشان یونیورسٹیاں ، ان کے علوم و فنون اور ادب لطیف و کثیف کے اتھاہ ذخیرے ، حتی کہ ان کی عبادتیں اور ان کی ظاہری نیکیاں اور ان کے بڑے بڑے خیراتی اور رفائی کارنامے بھی ، جن پر وہ دنیا میں فخر کرتے ہیں ، سب کے سب آخرکار راکھ کا ایک ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یوم قیامت کی آندھی بالکل صاف کر دے گی اور عالم آخرت میں اس کا ایک ذرہ بھی ان کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اسے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ بھی وزن پا سکیں ۔
14: کافر لوگ دنیا میں کچھ اچھے کام بھی کرتے ہیں۔ مثلاً غریبوں کی امداد وغیرہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ ان کے ایسے اچھے کاموں کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے۔ آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہیں ملتا، کیونکہ وہاں ثواب ملنے کے لیے ایمان شرط ہے۔ لہذا آخرت میں وہ اعمال ان کے کچھ کام نہیں آتے۔ اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ جس طرح راکھ کو آندھی اڑا لے جائے تو اس کا کوئی پتہ نشان نہیں ملتا۔ اسی طرح کافروں کے ان اعمال کو ان کا کفر کا لعدم کردے گا۔ اور ان اعمال کا کوئی فائدہ ان کو آخرت میں نہیں ملے گا۔