17۔ 1 یعنی انواع و اقسام کے عذاب چکھ چکھ کر وہ موت کی آرزو کرے گا۔ لیکن، موت وہاں کہاں ؟ وہاں تو اسی طرح دائمی عذاب ہوگا۔
[٢٠] یہ سزا تو دنیا میں ملے گی اور آخرت میں انھیں جہنم میں آتش دوزخ کے علاوہ کئی طرح کی اضافی سزاؤں سے بھی دوچار ہونا پڑے گا۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ گرمی کی شدت کی وجہ سے سخت قسم کی پیاس محسوس کریں گے تو پانی کے لیے فریاد کریں گے مگر پانی کے بجائے انھیں رستے ہوئے زخموں کا دھو ون پینے کو دیا جائے گا اور اس کے پینے پر مجبور کیا جائے گا وہ بھی پیاس کی شدت کی وجہ سے اسے پینے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن اس کی بدبو، اس کی رنگت اور قوام سے کراہت کی وجہ سے حلق سے بمشکل ہی نیچے اترے گا لہذا وہ گھونٹ گھونٹ کرکے پئیں گے۔ وہ موت کی آرزو کریں گے کہ ایسی تکلیف دہ زندگی سے تو موت ہی اچھی ہے لیکن اخروی زندگی میں موت نام کی کوئی چیز نہ ہوگی۔ اس زندگی میں موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں حالانکہ ہر ایک کو زندہ رہنے کی ہوس ہوتی ہے۔ اس زندگی میں اہل دوزخ مرنا چاہیں گے تو مر بھی نہ سکیں گے اور ان پر عذاب سخت سے سخت تر کیا جاتا رہے گا۔ اس دنیا میں موت ایک اضطراری امر ہے۔ آخرت میں زندگی اضطراری امر ہوگا۔
يَّتَجَرَّعُهٗ : یہ باب تفعل سے ہے، جس میں تکلف کا معنی ہوتا ہے، یعنی مشکل سے ایک ایک گھونٹ کرکے اسے پیے گا اور وہ اتنا کڑوا، بدذائقہ، بدبو دار اور گرم ہوگا کہ قریب نہیں کہ گلے سے اتار سکے، مگر پیاس کا عذاب اسے پینے پر مجبور کرے گا اور اندر جا کر وہ ان کی انتڑیاں کاٹ دے گا۔ دیکھیے سورة محمد (١٥) ۔- وَيَاْتِيْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ ۔۔ : اور ہر جگہ سے اسے موت آتی دکھائی دے گی، کیونکہ جہنم کی ایک ایک چیز موت کے لیے کافی ہے، مگر وہ کسی صورت مرنے والا نہیں، کیونکہ وہاں موت ہوگی ہی نہیں۔ ” بِمَيِّتٍ “ کی باء سے نفی کی تاکید ہوئی، اس لیے ترجمہ میں ” کسی صورت “ کا اضافہ ہوگیا۔ دیکھیے سورة فاطر (٣٦) اور سورة اعلیٰ (١٣) ۔- وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ : یعنی اس کے بعد اور سخت عذاب ہے۔ اب اس کی مختلف صورتیں تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، جن میں سے بہت سی چیزیں قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، البتہ عذاب کے طور پر مسلط ہونے والی بھوک اور زقوم کے کھانے کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے، فرمایا : (اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ 43ۙ طَعَامُ الْاَثِيْمِ 44ٻ كَالْمُهْلِ ڔ يَغْلِيْ فِي الْبُطُوْنِ 45ۙكَغَلْيِ الْحَمِيْمِ 46 خُذُوْهُ فَاعْتِلُوْهُ اِلٰى سَوَاۗءِ الْجَحِيْمِ 47 ڰ ثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِهٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيْمِ 48ۭذُقْ ڌ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ ) [ الدخان : ٤٣ تا ٤٩ ] ” بیشک زقوم کا درخت۔ گناہ گار کا کھانا ہے۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح، پیٹوں میں کھولتا ہے۔ گرم پانی کے کھولنے کی طرح۔ اسے پکڑو، پھر اسے بھڑکتی آگ کے درمیان تک دھکیل کرلے جاؤ۔ پھر کھولتے پانی کا کچھ عذاب اس کے سر پر انڈیلو۔ چکھ، بیشک تو ہی وہ شخص ہے جو بڑا زبردست، بہت باعزت ہے۔ “ - جہنم کے سخت عذاب کا اندازہ دنیا میں کسی طرح نہیں ہوسکتا جس کی آگ ہی یہاں کی آگ سے ستر (٧٠) گنا گرم ہے، البتہ جہنم کے سب سے کم عذاب کا بیان جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، اس سے سخت عذاب کا کچھ نہ کچھ اندازہ کرلیں، حقیقی علم تو ممکن ہی نہیں، نہ وہ بیان میں آسکتا ہے۔ نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ أَہْوَنَ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَہُ نَعْلاَن وَ شِرَاکَانِ مِنْ نَارٍ ، یَغْلِيْ مِنْہُمَا دِمَاغُہُ ، کَمَا یَغْلِي الْمِرْجَلُ مَا یَرَی أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّ مِنْہُ عَذَابًا، وَ إِنَّہُ لَأَہْوَنُہُمْ عَذَابًا ) [ مسلم، الإیمان، باب أھون أھل النار عذابا : ٣٦٤؍٢١٣ ]” اہل نار میں سب سے ہلکے عذاب والا وہ ہوگا جس کے لیے آگ کے دو جوتے اور دو تسمے ہوں گے، ان دونوں سے اس کا دماغ اس طرح ابل رہا ہوگا جیسے ہانڈی ابلتی ہے، وہ نہیں خیال کرے گا کہ اس سے زیادہ بھی کسی کو عذاب ہو رہا ہے، حالانکہ وہ ان سب سے کم عذاب والا ہوگا۔ “ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ جَمِیْعِ عَذَاب الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ]
يَّتَجَرَّعُهٗ وَلَا يَكَادُ يُسِيْغُهٗ وَيَاْتِيْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ 17- جرع - جَرِعَ الماء يَجْرَعُ ، وقیل : جَرَعَ «7» ، وتَجَرَّعَهُ : إذا تكلّف جرعه . قال عزّ وجلّ : يَتَجَرَّعُهُ وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم 17] ، والجُرْعَة : قدر ما يتجرّع، وأفلت بجُرَيْعَة الذّقن «1» ، بقدر جرعة من النفس . ونوق مَجَارِيع : لم يبق في ضروعها من اللبن إلا جرع، والجَرَعُ والجَرْعَاء : رمل لا ينبت شيئا كأنّه يتجرع البذر .- ( ج ر ع) جرع - ( ف) جرعا الماء گھونٹ گھونٹ کرکے پانی پینا اور بقول بعض جرع ( س) آتا ہے ۔ تجرعہ ( تفعل ) تکلف سے گھونٹ گھونٹ کرکے پی گیا ۔ گویا اس کا پینا طبعیت پر ناگوار گزررہا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ - يَتَجَرَّعُهُ وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم 17] وہ اس کو گھونٹ گھونٹ پئے گا اور گلے سے نہیں اتار سکیگا ۔ جرعۃ ایک مرتبہ گھونٹ سے نگلنا مثل مشہور ہے افلت بجریعۃ الذقن وہ ہلاکت کے قریب پہنچ کر بچ نکلا ۔ نوق مجاریع وہ اونٹنیاں جن کا دودھ تقریبا خشک ہوگیا ہو ۔ الجرع والجرعاء ریگستان جس میں کچھ نہ اگے گویا وہ بیج کو نگل لیتا ہے ۔- ساغ - سَاغَ الشّراب في الحلق : سهل انحداره، وأَسَاغَهُ كذا . قال : سائِغاً لِلشَّارِبِينَ- [ النحل 66] ، وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم 17] ، وسَوَّغْتُهُ مالا مستعار منه، وفلان سوغ أخيه : إذا ولد إثره عاجلا تشبيها بذلک .- ( س و غ )- ساغ الشراب فی لخلق کے معنی شراب کے آسانی کے ساتھ حلق سے نیچے اتر جانا کے ہیں واساغہ کزا ( افعال ) کے معنی حلق سے نیچے اتار نے کے چناچہ قرآن میں ہے ۔ سائِغاً لِلشَّارِبِينَ [ النحل 66] پینے والوں کے لئے خوش گوار ہے ۔ وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم 17] اور گلے سے نہیں اتار سکے گا ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے سو غتہ مال میں نے اس کے لئے مال خوشگوار بنادیا یعنی مباح کردیا اور پھر اس کے کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان سوغ اخیہ کا محاورہ اس بچے کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو اپنے بھائی کے بعد جلدی دی پیدا ہو یہ مذکر ومونث دونوں کے حق مٰن بولا جاتا ہے - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینو مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - غلظ - الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير «1» . قال تعالی:- وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] - ( ع ل ظ ) الغلظۃ - ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] عذاب شدید سے ۔
(وَيَاْتِيْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّمَا هُوَ بِمَيِّتٍ )- شدید تکلیف میں موت انسان کو راحت پہنچا دیتی ہے۔ بعض بیمار ایسے ہوتے ہیں کہ تکلیف کی شدت میں ایڑیاں رگڑ رہے ہوتے ہیں اور موت ان کے لیے راحت کا سامان بن جاتی ہے۔ لیکن جہنم ایسی جگہ ہے کہ جہاں انسان کو موت نہیں آئے گی۔ سورة طٰہٰ میں اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : (لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی) ” نہ وہ اس میں مرے گا اور نہ جی پائے گا “۔ اہل جہنم شدید خواہش کریں گے کہ موت آجائے اور ان کا قصہ تمام ہوجائے مگر ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی۔- (وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ)- یعنی اس سختی میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے گا عذاب کی شدت درجہ بدرجہ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔
11: یہ ترجمہ اِمام رازی رحمۃ اﷲ علیہ کی بیان فرمائی ہوئی ایک تفسیر پر مبنی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں محسوس یہ ہوگا کہ وہ اس پانی کو حلق سے اُتار نہیں سکیں گے، لیکن گھونٹ گھونٹ کر کے بڑی مشکل سے اور بڑی دیر میں وہ حلق سے اُترے گا۔ 12: ہر طرف سے موت آنے کا مطلب یہ ہے کہ عذاب کی جو مختلف صورتیں سامنے آئیں گی، وہ ایسی ہوں گی جو دُنیا میں جان لیوا اور موت کا سبب ہوتی ہیں، مگر وہاں ان کی وجہ سے انہیں موت نہیں آئے گی۔ 13: یعنی ہر عذاب کے بعد ایک دوسرا سخت عذاب آنے والا ہوگا، تاکہ ایک ہی قسم کا عذاب سہہ سہہ کر اِنسان اُس کا عادی نہ ہوجائے۔ والعیاذ باﷲ تعالیٰ۔