لا الہ الا اللہ کی شہادت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ کی شہادت ہے ۔ پاکیزہ درخت کی طرح کا مومن ہے اس کی جڑ مضبوط ہے ۔ یعنی مومن کے دل میں لا الہ الا اللہ جما ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے ۔ یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہیں ۔ کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام ۔ مومن مثل کھجور کے درخت کے ہے ۔ ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا ۔ تو آپ نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جو آپ نے فرمایا مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے ۔ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتا ہے ۔ حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں حضرت ابو بکر ہیں حضرت عمر ہیں اور وہ خاموش ہیں تو میں بھی چپ کا ہو رہا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ درخت کھجور کا ہے ۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا ۔ تو آپ نے فرمایا پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تو تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ شریف تک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا لیکن سوائے ایک حدیث کے اور کوئی روایت انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہوئے نہیں سنا اس میں ہے کہ یہ سوال آپ نے اس وقت کیا ۔ جب آپ کے سامنے کھجور کے درخت کے بیچ کا گودا لایا گیا تھا ۔ میں اس لئے خاموش رہا کہ میں اس مجلس میں سب سے کم عمر تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ جواب دینے والوں کا خیال اس وقت جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور مالدار لوگ درجات میں بہت بڑھ گئے ۔ آپ نے فرمایا کہ یاد رکھو اگر تمام دنیا کی چیزیں لگ کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔ تجھے ایسا عمل بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں آسمان میں ہیں اس نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ والحمد للہ ) ہر فرض نماز کے بعد دس بار کہہ لیا کرو جس کی اصل مضبوط اور جس کی فرع آسمان میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ پاکیزہ درخت جنت میں ہے ۔ ہر وقت اپنا پھل لائے یعنی صبح شام یا ہر ماہ میں یا ہر دو ماہ میں یا ہر ششماہی میں یا ہر ساتویں مہینے یا ہر سال ۔ لیکن الفاظ کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ مومن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہر وقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں اسی طرح مومن کے نیک اعمال دن رات کے ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل ، اچھے ، بہت اور عمدہ ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبرت ان کی سوچ سمجھ اور ان کی نصیحت کے لئے مثالیں واضح فرماتا ہے ۔ پھر برے کلمہ کی یعنی کافر کی مثال بیان فرمائی ۔ جس کی کوئی اصل نہیں ، جو مضبوط نہیں ، اس کی مثال اندرائن کے درخت سے دی ۔ جسے حنظل اور شریان کہتے ہیں ۔ ایک موقوف روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور یہی روایت مرفوعا بھی آئی ہے ۔ اس درخت کی جڑ زمین کی تہ میں نہیں ہوتی جھٹکا مارا اور اکھڑ آیا ۔ اسی طرح سے کفر بےجڑ اور بےشاخ ہے ، کافر کا نہ کوئی نیک عمل چڑھے نہ مقبول ہو ۔
[٣٠] کلمہ طیبہ کے لغوی معنی ہے پاکیزہ بات اور اس سے مراد کلمہ توحید یعنی (لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ ) ہے۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ جب عقیدہ و عمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو یہ جہاں تمام تر بھلائیوں کی بنیاد بن جاتا ہے وہاں ہر طرح کی برائی کی جڑ بھی کاٹ پھینکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی دعوت کا آغاز اسی کلمہ سے کیا ہے۔- [ ٣١] کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ ہے :۔ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے اور پاکیزہ درخت کی مومن سے مثال پیش کی گئی ہے جس کے دل میں کلمہ طیبہ یا کلمہ توحید رچ بس گیا ہو۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔- سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا بتاؤ وہ درخت کون سا ہے جس کے پتے نہیں گرتے۔ مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے اور یہ بھی نہیں ہوتا اور یہ بھی نہیں ہوتا، یہ بھی نہیں ہوتانہ تو اس کا پھل ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا دانہ معدوم ہوتا اور نہ اس کا نفع ضائع جاتا ہے، اور ہر وقت میوہ دیتا ہے ؟ اس وقت میرے دل میں خیال آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر جب میں نے دیکھا کہ ابوبکر اور عمر جیسے بزرگ خاموش بیٹھے ہیں تو میں نے آپ کو جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ پھر آپ نے خود ہی بتادیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے اٹھ آئے تو میں نے اپنے والد سے کہا اباجان اللہ کی قسم میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے انہوں نے کہا : پھر تم نے کہہ کیوں نہ دیا ؟ میں نے کہا : آپ سب خاموش رہے تو میں نے (آگے بڑھ کر بات کرنا) مناسب نہ سمجھا میرے والد کہنے لگے : اگر تم کہہ دیتے تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے زیادہ خوشی ہوتی (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اور اللہ تعالیٰ نے شجرہ طیبہ کی چار صفات بیان فرمائیں (١) وہ طیب اور پاکیزہ ہے۔ اس کی یہ عمدگی خواہ شکل و صورت کے اعتبار سے ہو یا پھل پھول کے اعتبار سے یا پھل کے خوش ذائقہ، شیریں اور خوشبودار ہونے کے اعتبار سے ہو۔ (٢) اس کی جڑیں زمین میں خوب مستحکم اور گہرائی تک پیوست ہوچکی ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جو اپنے طویل القامت درخت کا بوجھ سہار سکتی ہیں۔ (٣) اس کی شاخیں آسمانوں میں یعنی بہت بلندی تک چلی گئی ہیں لہذا اس سے جو پھل حاصل ہوگا وہ ہوا کی آلودگی اور گندگی وغیرہ کے جراثیم سے پاک و صاف ہوگا۔ (٤) یہ عام درختوں کی طرح نہیں بلکہ ہر موسم میں پورا پھل دیتا ہے اور یہ باتیں کھجور کے درخت اور پھل میں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے اس درخت کو حدیث میں شجرہ طیبہ کہا گیا ہے اور ممکن ہے کہ اللہ کے علم میں کوئی ایسا درخت بھی ہو جو ہر وقت پھل دیتا ہو جیسا کہ آیت کے الفاظ سے متبادرہوتا ہے۔ نیز اللہ نے شجرہ طیبہ کو کلمہ طیبہ کے مثل قرار دیا ہے اور کلمہ طیبہ میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ سدا بہار ہے اور ہر وقت اپنے صالح برگ و بار لاتا رہتا ہے۔
اَلَمْ تَرَ : یہ خطاب اولاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور پھر ہر اس شخص سے ہے جو خطاب کے لائق ہے۔ استفہام سے مراد پوچھنا نہیں بتانا ہے۔ اسے استفہام تقریری کہتے ہیں۔ ” کیا تو نے نہیں دیکھا ؟ “ یہاں دیکھنے سے مراد علم اور جاننا ہے جو کائنات کو دیکھنے اور اس میں غور و فکر سے حاصل ہوتا ہے۔ مفسر آلوسی کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ” الم تر “ کا مخاطب بعض اوقات وہ شخص ہوتا ہے جو پہلے سے اس بات سے واقف ہو، ایسی صورت میں مراد تعجب کا اظہار ہوتا ہے اور بعض اوقات اس کا مخاطب وہ شخص ہوتا ہے جو اس سے واقف نہ ہو، اس وقت مراد ایک تو اسے بتانا ہوتا ہے اور ایک اس بات پر تعجب کا اظہار ہوتا ہے کہ اتنی مشہور بات بھی تمہیں معلوم نہیں، جو سب لوگ دیکھی ہوئی بات کی طرح جانتے ہیں۔ پھر اس مخاطب سے بات اس طرح کی جاتی ہے گویا وہ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ - مَثَلًا ” یہ ” ضَرَبَ “ کا مفعول بہ ہے، ” كَلِمَةً “ اس سے بدل ہے یا عطف بیان۔ مثل کا لفظ کسی چیز کی وضاحت کے لیے اس سے زیادہ واضح چیز کے ساتھ مثال دے کر سمجھانے کے لیے آتا ہے۔ - كَلِمَةً طَيِّبَةً : اس میں ہر پاکیزہ کلام، مثلاً تسبیح، تقدیس، تحمید اور تہلیل وغیرہ شامل ہے اور ہر پاکیزہ کلام کا خلاصہ ” لا الٰہ الا اللہ “ ہے، کیونکہ ہر پاکیزہ کلام یا عمل کا مدار یہی ہے۔ اس لیے مفسرین نے عموماً اس سے کلمۂ اسلام اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا ہر پاکیزہ قول و عمل مراد لیا ہے۔- كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ ۔۔ : پاکیزہ اور عمدہ درخت کی چند خوبیاں بیان فرمائیں، پہلی یہ کہ اس کی جڑ مضبوط ہے، جس کی وجہ سے اس کا اکھڑنا مشکل ہے اور وہ زمین سے غذا بخوبی حاصل کرلیتا ہے اور ڈٹ کر کھڑا رہتا ہے۔ دوسری یہ کہ اس کی چوٹی بہت اونچی ہے، جس کی وجہ سے اسے نقصان پہنچانا مشکل ہے، وہ آلودگی سے محفوظ دھوپ اور صاف ہوا سے بھی اپنی پوری خوراک حاصل کرتا ہے۔ مفسر طنطاوی نے ” الوسیط “ میں لکھا ہے کہ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ درخت اپنی غذا کا صرف پانچ فیصد زمین سے حاصل کرتے ہیں، باقی فضا سے۔ تیسری یہ کہ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے۔ اس صفت کی تفسیر میں مفسرین کو مشکل پیش آئی ہے۔ صحیح بخاری (٦١٢٢، ٦١٤٤) میں ابن عمر (رض) کی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کے درخت کو مومن سے تشبیہ دی ہے کہ اس کے پتے کبھی نہیں گرتے اور وہ ہر وقت اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے دیتا ہے، مگر آپ نے اسے کلمہ طیبہ سے تشبیہ نہیں دی۔ ترمذی (٣١١٩) میں انس (رض) سے روایت ہے کہ یہاں کلمہ طیبہ (كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ ) سے مراد کھجور ہے، مگر شیخ البانی (رض) نے اسے مرفوعاً ضعیف اور موقوفاً صحیح فرمایا ہے۔ بہرحال جو مفسرین اس سے مراد کھجور کا درخت لیتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ کھجور کے درخت سے پھل کی ابتدا سے لے کر اس کے گودے، کچی کھجور، نیم پختہ، تازہ پکی ہوئی غرض ہر مرحلے کے پھل کو تقریباً چھ ماہ تک کھایا جاتا ہے، پھر اسے محفوظ کرکے سارا سال کھایا جاتا ہے۔ مفسر طنطاوی نے فرمایا کہ میرے خیال میں ” تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا “ کو صرف پھل میں محدود کرنا ٹھیک نہیں، مراد یہ ہے کہ وہ درخت ہر وقت فائدہ پہنچاتا رہتا ہے، پھل کی صورت میں، سائے کی صورت میں، خوشبو کی صورت میں، عمارتی لکڑی یا ایندھن کی صورت میں، پتوں اور ٹہنیوں اور گوند کی مصنوعات کی صورت میں اور دوا کی صورت میں، اگر کچھ بھی نہ ہو تو ہوا کو آلودگی سے صاف کرکے آکسیجن بنانے کی صورت میں ہر وقت وہ اپنا فائدہ پہنچاتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کھجور کے علاوہ وہ تمام درخت بھی اس میں آجاتے ہیں جن میں یہ تینوں خوبیاں ہوں۔ اسی طرح کلمہ اسلام دنیا اور آخرت کے ہر مرحلے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مومن کو مختلف قسم کے بیشمار فوائد پہنچاتا رہتا ہے اور ہر وقت مومن کا کوئی نہ کوئی نیک عمل آسمان کی طرف چڑھتا رہتا ہے۔ چونکہ مثال سے بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اسی طرح لوگوں کی نصیحت اور سمجھانے کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- کیا آپ کو معلوم نہیں (اب معلوم ہوگیا) کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی (اچھی اور موقع کی) مثال بیان فرمائی ہے کلمہ طیبہ کی کی (یعنی کلمہ توحید و ایمان کی) کہ وہ مشابہ ہے ایک پاکیزہ دوخت کے (مراد کھجور کا درخت ہے) جس کی جڑ (زمین کے اندر) خوب گڑی ہوئی ہو اور اس کی شاخیں اونچائی میں جارہی ہوں (اور) وہ (یعنی خوب پھلتا ہو کوئی فصل ماری نہ جاتی ہو اسی طرح کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ کی ایک جڑ ہے یعنی اعتقاد جو مومن کے قلب میں استحکام کے ساتھ جائگیر ہے اور اس کی کچھ شاخیں ہیں یعنی اعمال صالحہ جو ایمان پر مرتب ہوتے ہیں جو بارگاہ قبولیت میں آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں پھر ان پر رضائے دائمی کا ثمرہ مرتب ہوتا ہے) اور اللہ تعالیٰ (اس قسم کی) مثالیں لوگوں (کے بتلانے) کے واسطے اس لئے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ (لوگ معانی مقصود کو) خوب سمجھ لیں (کیونکہ مثال سے مقصود کی خوب توضیح ہوجاتی ہے)
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ 24ۙ- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] - قوله تعالی: مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم 24] ، وقوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وَمَساكِنَ طَيِّبَةً [ التوبة 72] ، أي : طاهرة ذكيّة مستلذّة . - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ - ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں - اسی معنی میں فرمایا ؛ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم 24] پاک عمل کی مثال شجرۃ طیبہ کی ہے ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمے پڑھتے ہیں ۔ - أصل - وأَصْلُ الشیء : قاعدته التي لو توهّمت مرتفعة لارتفع بارتفاعه سائره لذلک، قال تعالی:- أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم 24] ، وقد تَأَصَّلَ كذا وأَصَّلَهُ ، ومجد أصيل، وفلان لا أصل له ولا فصل . بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] أي : العشایا، يقال للعشية : أَصِيل وأَصِيلَة، فجمع الأصيل أُصُل وآصَال، وجمع الأصيلة : أَصَائِل، وقال تعالی: بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفتح 9] .- ( ا ص ل ) اصل - الشئی ( جڑ ) کسی چیز کی اس بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کا ارتفاع فرض کیا جائے تو اس شئے کا باقی حصہ بھی معلوم ہوجائے قرآن میں ہے : أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء [إبراهيم : 24] (14 ۔ 25) اس کی جڑ زمین میں ) پختگی سے جمی ہے اور شاخیں آسمان میں ۔ اور تاصل کذا کے معنی کسی چیز کے جڑ پکڑنا ہیں اس سے اصل اور خاندانی بزرگی مجد اصیل کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لااصل لہ ولا فصل یعنی نیست اور احسب ونہ زبان ۔ الاصیل والاصیلۃ کے معنی ( عشیۃ ) عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الأحزاب : 42] اور صبح و شام کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ اصیل کی جمع اصل واٰصال اور اصیلۃ کی جمع اصائل ہے قرآن میں ہے ۔- فرع - فَرْعُ الشّجر : غصنه، وجمعه : فُرُوعٌ. قال تعالی: أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ- [إبراهيم 24] ،- واعتبر ذلک علی وجهين :- أحدهما : بالطّول،- فقیل : فَرَعَ كذا : إذا طال، وسمّي شعر الرأس فَرْعاً لعلوّه، وقیل : رجل أَفْرَعُ ، وامرأة فَرْعَاءُ ، وفَرَّعْتُ الجبل، وفَرَّعْتُ رأسَهُ بالسّيف، وتَفَرَّعْتُ في بني فلان : تزوّجت في أعاليهم وأشرافهم .- والثاني : اعتبر بالعرض،- فقیل : تَفَرَّعَ كذا، وفُرُوعُ- ( ف ر ع )- فرع الشجر کے معنی درکت کی شاخ کے ہیں اس جمع فروع آتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ - وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم 24] اور شاخیں آسمان میں ۔ میں فرعھا کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ بلحاظ طوال کے اسے فی السماء کہا ہو جیسے محاورہ ہے فرع کذا ( یعنی لمبا ہوجانا ) اور سر کے بالوں کو بلندی اور طول کی وجہ سے فرع کہا جاتا ہے ۔ رجل افراغ گھنے اور لمبے بالوں والا اس کی مؤنث فرعاء اور جمع فرع آتی ہے اور کہا جاتا ہے ۔ فرعت الجبل پہاڑ کی چوٹی پر چلا جانا فرعت راسہ بالسیف اس کا سر تجوار ست قلم کردیا ۔ تفرعت فی بنی فلان میں نے ان کے اونچے خاندان میں شادی کرلی ۔ دوم یہ کہ عرض یعنی پھلاؤ کے لحاظ سے اسے فی السماء کہا ہوا اور یہ تفرع کذا سے ہو جس کے معنی پھیل جانے کے ہیں اور مسئلہ کی جز ئیات کو فروع کہا جاتا ہے اور فروع الرجل کے معنی اولاد کے بھی ہیں ۔
(٢٤۔ ٢٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ کی کیسی اچھی مثال بیان فرمائی کہ مومن مشابہ ہے کھجور کے درخت کے جس کی جڑ خوب گہری ہوئی ہو، اس طرح سچے مومن کا دل کلمہ لا الہ الا اللہ پر خوب قائم رہتا ہے اور اس کی شاخیں اونچائی میں جاری ہوں، ایسے ہی سچے مومن کا عمل قبول ہوتا ہے اور وہ درخت اللہ کے حکم سے ہر فصل میں پھل دیتا ہے اسی طرح سچے مومن ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بھلائی کے کاموں میں مصروف رہتا ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے نفع اور تعریف میں یہ لفظ کلمہ طیبہ کی صفت ہے جیسا کہ کھجور کا پاکیزہ درخت اس کا پھل بھی پاکیزہ ہے، اسی طرح مومن کی حالت ہے۔- غرض کہ کھجور کا درخت اپنی جڑوں کے ساتھ زمین پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہے، سو اسی طرح مومن حجت وبرہان کے ساتھ قائم ہے اور جیسا کہ کھجور کی شاخیں آسمان کی طرف بلند رہتی ہیں، اسی طرح سچے مومن کا عمل، آسمان کی طرف چڑھتا رہتا ہے اور جیسا کہ کھجور کا درخت ہر چھ ماہ پر اپنے پروردگار کے حکم سے پھل دیتا ہے، اسی طرح مومن مخلص اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اطلاعت اور بھلائی کے کاموں میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس قسم کی مثال لوگوں کو کلمہ توحید کے اوصاف بتانے کے لیے اس لیے بیان کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور توحید خداوندی کے قائل ہوں۔
آیت ٢٤ (اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً )- کلمہ طیبہ سے عام طور پر تو کلمہ توحید ” لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ “ مراد لیا جاتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ افضل الذکر ہے لیکن یہاں کلمہ طیبہ سے توحید پر مبنی عقائد و نظریات بھلائی کی ہر بات کلام طیب اور حق کی دعوت مراد ہے۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :34 کلمہ طیبہ کے لفظی معنی ” پاکیزہ بات “ کے ہیں ، مگر اس سے مراد وہ قول حق اور عقیدہ صالحہ جو سراسر حقیقت اور راستی پر مبنی ہو ۔ یہ قول اور عقیدہ قرآن مجید کی رو سے لازما وہی ہو سکتا ہے جس میں توحید کا اقرار ، انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کا اقرار ، اور آخرت کا اقرار ہو ، کیونکہ قرآن انہی امور کو بنیادی صداقتوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :35 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین سے لے کر آسمان تک چونکہ سارا نظام کائنات اسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن اپنے کلمہ طیبہ میں کرتا ہے ، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانون فطرت اس سے نہیں ٹکراتا ، کسی شے کی بھی اصل اور جبلت اس سے اِبا نہیں کرتی ، کہیں کوئی حقیقت اور صداقت اس سے متصادم نہیں ہوتی ۔ اسی لیے زمین اور اس کا پورا نظام اس سے تعاون کرتا ہے ، اور آسمان اور اس کا پورا عالم اس کا خیر مقدم کرتا ہے ۔
18: کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الااللہ ہے اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوتی ہیں، اور تیز ہوائیں اور آندھیاں اسے نقصان نہیں پہچاسکتیں، نہ اسے اپنی جگہ سے ہلا سکتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ انسان کے دل ودماغ میں پیوست ہوجاتا ہے تو ایمان کی خاطر اسے کیسی ہی تکلیفوں یا مصیبتوں کا سامناکرنا پڑے اس کے ایمان میں کوئی کمزوری نہیں آتی ؛ چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو ہر قسم کی اذیتیں دی گئیں ؛ لیکن توحید کا جو کلمہ ان کے دل میں گھر کرچکا تھا اس میں مصائب کی ان آندھیوں سے ذرہ برابر تزلزل نہیں آیا، کھجور کے درخت کی دوسری صفت اس آیت میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اسکی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوتی ہیں، اور زمین کی کثافتوں سے دور رہتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ مومن کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے تو اسکے تمام نیک کام جو درحقیقت اسی کلمے کی شاخیں ہیں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچ کر اس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں، اور دنیا پرستی کی کثافتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔