26۔ 1 کلمئہ خبیثہ سے مراد کفر اور شجرہ خبیثہ سے حنظل (اندرائن) کا درخت مراد ہے۔ جس کی جڑ زمین کے اوپر ہی ہوتی ہے اور ذرا سے اشارے سے اکھڑ جاتی ہے۔ یعنی کافر کے اعمال بالکل بےحیثیت۔ نہ وہ آسمان پر چڑھتے ہیں، نہ اللہ کی بارگاہ میں وہ قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔
[٣٣] خلافت اور دوسرے نظام ہائے حیات :۔ کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں کلمہ خبیثہ (گندی بات) یعنی شرک و کفر کی مثال ایسے پودے سے دی گئی ہے جس کی سب صفات شجرہ طیبہ کے برعکس ہیں اس کی جڑ زمین کے اندر گہرائی تک نہیں جاتی بلکہ اوپر ہی اوپر زمین کے قریب ہی رہتی ہے کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا آئے تو اسے بیخ و بن سے اکھاڑ کر پرے پھینک دے یہ مثال ہر باطل بات اور باطل نظام پر صادق آتی ہے۔ ہمارے ہاں جو مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وہ اسی مضمون کا مصداق ہے۔ حدیث کی رو سے شجرہ خبیثہ سے مراد اندرائن کا پودہ ہے۔ (پنجابی تمہ) جس کا پھل سخت کڑوا ہوتا ہے یعنی جہاں بھی باطل نظام حیات رائج ہوگا۔ کڑوے برگ و بار ہی لائے گا۔ معاشرہ میں بدامنی، رشوت ایک دوسرے کے حقوق کا غصب کرنا، فساد، جان ومال یا آبرو وغیرہ کا محفوظ نہ رہنا۔ غرض کہ ایسے معاشرہ میں عوام کی بےچینی اور اضطراب بڑھتا جاتا ہے اور کئی طرح کے مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اگر ان کا کوئی علاج سوچا جائے تو یہ مسائل اور پیچیدہ ہوتے اور بڑھتے جاتے ہیں کیونکہ اصل کا علاج تو کیا نہیں جاتا، ساری توجہ بس علامات پر ہی ہوتی ہے۔- اسلامی نظام حیات صرف ایک ہی طرز پر ہوتا ہے جسے خلافت بھی کہہ سکتے ہیں جبکہ باطل نظام لاتعداد ہوسکتے ہیں جو آئے دن بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں حتیٰ کہ ان کا نام تک صفحہ ئہستی سے مٹ جاتا ہے اور ایسے نظام ہر دور میں مختلف اور ایک سے زیادہ بھی رہے ہیں اور آج بھی پائے جاتے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ ان کی بنیاد باطل یا شجرہ خبیثہ پر ہوتی ہے اور باطل کو کبھی استحکام نصیب نہیں ہوتا اور جب تک یہ قائم رہے اس کے برگ و بار کڑوے ہی ہوتے ہیں۔
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ ۔۔ : اور خبیث کلمہ (گندی بات) سے مراد کفر و شرک کی بات ہے۔ اس کی مثال اس بےکار پودے کی ہے جسے جڑ سے اکھیڑ پھینک دیا گیا ہو اور وہ اتنا کمزور ہو کہ اس کی جڑ زمین میں قائم ہی نہ رہ سکتی ہو۔ معمولی سا ہوا کا جھونکا ہی اسے اکھیڑ پھینکنے کے لیے کافی ہو۔ اسی طرح کلمہ کفر دنیا یا آخرت میں ہر طرح بےکار ہے، کسی کام نہیں آئے گا۔ انس (رض) نے اس سے مراد حنظل (تماں، اندرائن) لیا ہے۔ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة إبراہیم : ٣١١٩ ] البتہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انس (رض) کی یہ روایت مرفوعاً ثابت نہیں۔ [ ضعیف سنن الترمذی للألبانی : ٣١١٩ ] طنطاوی نے فرمایا، یہ صرف بطور مثال ایک فرضی پودا ہے جس کا حقیقت میں وجود نہیں، صرف سمجھانے کے لیے اسے بیان کیا گیا ہے۔ تفسیر طبری میں ابن عباس (رض) سے یہ قول مذکور ہے، مگر اس میں قابوس بن ابی ظبیان ایک راوی ضعیف ہے۔ کیونکہ تماں ہو یا اور کوئی پودا بہرحال اس کے پھر بھی کچھ نہ کچھ غذائی نہ سہی دوائی فائدے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی بےکار فرضی پودے والا حال شرک و کفر کا ہے جس کی نہ کوئی دلیل ہوتی ہے نہ دل پر اس کا اثر ہوتا ہے، نہ اس کے ساتھ کوئی عمل قبول ہوتا ہے۔ بودا اتنا ہوتا ہے کہ ذرا سے غور و فکر سے اس کا بےحقیقت ہونا واضح ہوجاتا ہے۔ کافر کا کوئی عمل نہ آسمان کی طرف چڑھتا ہے نہ اللہ کے ہاں قبول ہوتا ہے۔ یہ تفسیر مناسب حال معلوم ہوتی ہے، کیونکہ کفر و شرک کا حقیقی وجود ہے ہی نہیں، بلکہ یہ صرف وہم و گمان کی پیروی کا نام ہے، اس لیے اس کی مثال بھی ایسے ہی پودے سے مناسب ہے جس کا وجود فرضی ہو۔
خلاصہ تفسیر :- اور گندہ کلمہ کی (یعنی کلمہ کفر و شرک کی) مثال ایسی ہے جیسے ایک خراب درخت ہو (مراد درخت حنظل ہے) کہ وہ زمین کے اوپر ہی اوپر سے اکھاڑ لیا جاوے (اور) اس کو (زمین میں) کچھ اثبات نہ ہو (خراب فرمایا باعتبار اس کی بو اور مزہ اور رنگ کے یا اس کے پھل کی بو اور مزہ اور رنگ کے یہ صفت طیبہ کے مقابل ہوئی اور اوپر سے اکھاڑنے کا مطلب یہ ہے کہ جڑ اس کی دور تک نہیں ہوتی اوپر ہی رکھی ہوتی ہے یہ اَصْلُهَا ثَابِتٌ کے مقابل فرمایا اور مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ اسی کی تاکید کے لئے فرمایا اور اس کی شاخوں کا اونچا نہ جانا اور اس کے پھل کا تفکہا مطلوب نہ ہونا ظاہر ہے یہی حال کلمہ کفر کا ہے کہ گو کافر کے دل میں اس کی جڑ ہے مگر حق کے سامنے اس کا مضمحل و مغلوب ہوجانا مشابہ اسی کے ہے جیسے اس کی جڑ ہی نہیں قال تعالیٰ حُجَّــتُهُمْ دَاحِضَةٌ اور شاید مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ کی تصریح سے کفر کا یہی اضمحلال و مغلوبیت بتلانا مقصود ہے اور چونکہ اس کے اعمال مقبول نہیں ہوتے اس لئے گویا اس درخت کی شاخیں بھی فضاء میں نہیں پھیلیں اور چونکہ اس کے اعمال پر رضائے الہی مرتب نہیں ہوتی اس لئے پھل کی نفی بھی ظاہر ہے اور چونکہ قبول و رضا کا کفر میں بالکل احتمال نہیں اسی لئے مشبہ بہ کی جانب میں شاخوں اور پھل کا ذکر قطعا متروک فرما دیا ہو،- بخلاف نفس کفر کے کہ اس کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ اس کا وجود محسوس بھی ہے اور احکام جہاد وغیرہ میں معتبر بھی ہے یہ تو دونوں کی مثال ہوگئی آگے اثر کا بیان ہے کہ) اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اس پکی بات (یعنی کلمہ طیبہ ثابت الاصل کی برکت) سے دنیا میں اور آخرت (دونوں جگہوں) میں (دین میں اور امتحان میں) مضبوط رکھتا ہے اور (اس کلمہ خبیثہ کی نحوست سے) ظالموں (یعنی کافروں) کو (دونوں جگہ دین میں اور امتحان میں) بچلا دیتا ہے اور (کسی کو ثابت رکھنے اور کسی کو بچلا دینے میں ہزاروں حکمتیں ہیں پس) اللہ تعالیٰ (اپنی حکمت سے) جو چاہتا ہے کرتا ہے کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (یعنی ان کا حال عجیب ہے) جنہوں نے بجائے نعمت الہی (کے شکر) کے کفر کیا (مراد اس سے کفار مکہ ہیں کذا فی الدرالمنثور عن ابن عباس) اور جنہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر یعنی جہنم میں پہنچایا (یعنی ان کو بھی کفر کی تعلیم کی جس سے) وہ اس (جہنم) میں داخل ہوں گے اور وہ رہنے کی بری جگہ ہے (اس میں اشارہ ہوگیا کہ ان کا داخل ہونا قرار اور دوام کے لئے ہوگا)- کفار کی مثال :- اس کے بالمقابل دوسری مثال کفار کی شَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ سے دی گئی جس طرح كَلِمُ الطَّيِّبُ سے مراد قول لا الہ الا اللہ یعنی ایمان ہے اسی طرح كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ سے مراد کلمات کفر اور افعال کفر ہیں شجرہ خبیثہ سے مراد مذکورہ حدیث میں حنظل کو قرار دیا گیا ہے اور بعض نے لہسن وغیرہ کہا ہے۔- اس شجرہ خبیثہ کا حال قرآن نے یہ بیان کیا ہے کہ اس کی جڑیں زمین کے اندر زیادہ نہیں ہوتیں اس لئے جب کوئی چاہے اس درخت کے پورے جثہ کو زمین سے اکھاڑ سکتا ہے اُجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ کے یہی معنی ہیں کیونکہ اُجْتُثَّتْ کے اصل معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کے جثہ کو پورا پورا اٹھا لیا جائے،- کافر کے اعمال کو اس درخت سے تشبیہ دینے کی وجہ ظاہر ہے کہ اول تو اس کے عقائد کی کوئی جڑ بنیاد نہیں ذرا دیر میں متزلزل ہوجاتے ہیں دوسرے دنیا کی گندگی سے متاثر ہوتے ہیں تیسرے ان کے درخت کے پھل پھول یعنی اعمال و افعال عند اللہ کار آمد نہیں۔- ایمان کا خاص اثر :- اس کے بعدمؤ من کے ایمان اور کلمہ طیبہ کا ایک خاص اثر دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے (آیت) يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ یعنی مومن کا کلمہ طیبہ مضبوط و مستحکم درخت کی طرح ایک قول ثابت ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم و برقرار رکھتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بشرطیکہ یہ کلمہ اخلاص کے ساتھ کہا جائے اور لا الہ الا اللہ کے مفہوم کو پوری طرح سمجھ کر اختیار کیا جائے،- مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھنے والے کی دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مرتے دم تک اس کلمہ پر قائم رہتا ہے خواہ اس کے خلاف کتنے ہی حوادث سے مقابلہ کرنا پڑے اور آخرت میں اس کلمہ کو قائم و برقرار رکھ کر اس کی مدد کی جاتی ہے صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آخرت سے مراد اس آیت میں برزخ یعنی قبر کا عالم ہے،- قبر کا عذاب وثواب قرآن و حدیث سے ثابت ہے :- حدیث یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب قبر میں مومن سے سوال کیا جائے گا تو ایسے ہولناک مقام اور سخت حال میں بھی وہ بتائید ربانی اس کلمہ پر قائم رہے گا اور لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دے گا اور پھر فرمایا کہ ارشاد قرآنی يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ کا یہی مطلب ہے (یہ روایت حدیث حضرت براء بن عازب (رض) نے نقل فرمائی) اسی طرح تقریبا چالیس صحابہ کرام (رض) اجمعین سے معتبر اسانید کے ساتھ اسی مضمون کی حدیثیں منقول ہیں جن کو امام ابن کثیر نے اس جگہ اپنی تفسیر میں جمع کیا ہے اور شیخ جلال الدین سیوطی نے اپنے منظوم رسالہ التثبیت عند التبییت میں اور شرح الصدور میں ستر احادیث کا حوالہ نقل کر کے ان روایات کو متواتر فرمایا ہے ان سب حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین نے آیت مذکورہ میں آخرت سے مراد قبر اور اس آیت کو قبر کے عذاب وثواب سے متعلق قرار دیا ہے۔- مرنے اور دفن ہونے کے بعد قبر میں انسان کا دوبارہ زندہ ہو کر فرشتوں کے سوالات کا جواب دینا پھر اس امتحان میں کامیابی اور ناکامی پر ثواب یا عذاب کا ہونا قرآن مجید کی تقریبا دس آیات میں اشارہ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ستر احادیث متواترہ میں بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے جس میں مسلمان کو شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہے وہ عامیانہ شبہات کہ دنیا میں دیکھنے والوں کو یہ ثواب و عذاب نظر نہیں آتے سو اس کے تفصیلی جوابات کی تو یہاں گنجائش نہیں اجمالا اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ کسی چیز کا نظر نہ آنا اس کے موجود نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتی جنات اور فرشتے بھی کسی کو نظر نہیں آتے مگر موجود ہیں ہوا نظر نہیں آتی مگر موجود ہے جس کائناتی فضا کا اس زمانہ میں راکٹوں کے ذریعہ مشاہدہ ہو رہا ہے وہ اب سے پہلے کسی کو نظر نہ آتی تھی مگر موجود تھی خواب دیکھنے والا خواب میں کسی مصیبت میں گرفتار ہو کر سخت عذاب میں بےچین ہوتا ہے مگر پاس بیٹھنے والوں کو اس کی کچھ خبر نہیں ہوتی - اصول کی بات یہ ہے کہ ایک عالم کو دوسرے عالم کے حالات پر قیاس کرنا خود غلط ہے جب خالق کائنات نے اپنے رسول کے ذریعہ دوسرے عالم میں پہنچنے کے بعد اس عذاب وثواب کی خبر دے دیتو اس پر ایمان و اعتقاد رکھنا لازم ہے،
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ 26- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- خبث - الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث .- ( خ ب ث )- المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل - قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔- جث - يقال : جَثَثْتُهُ فَانْجَثَّ ، وجَثَثْتُهُ فَاجْتَثَّ «1» ، قال اللہ عزّ وجل : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ- [إبراهيم 26] ، أي : اقتلعت جثّتها، والمِجَثَّة :- ما يجثّ به، وجثَّة الشیء : شخصه الناتئ، والجُثُّ : ما ارتفع من الأرض، كالأكمة، والجَثِيثَة سمیت به لما بان جثته بعد طبخه، والجَثْجَاث : نبت .- ( ج ث ث )- ( ن ) جثا کے معنی کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے ہیں اور انجث اس کا مطاوع آتا ہے جیسا کہ ِجس کا مطاوع اجتس آتا ہے قرآن میں ہے ۔ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ [إبراهيم 26] زمین کے اوپر ہی ہے اکھیڑ کر پھنیک دیا جائے ۔ المجثۃ ۔ ہر وہ آلہ جس سے درخت کو اکھاڑا یا کھودا جائے ۔ جثۃ الشئء معنی کسی کے ابھرے ہوئے شخص کے ہیں اور الجث ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جو زمین سے بلند ہوجائے جیسے ٹیلہ وغیرہ ۔ - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - قرار - قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64] - ( ق ر ر ) قرر - فی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا
(٢٦) اور ناپاک کلمہ یعنی کفر وشرک کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک خبیث درخت ہو اس سے مراد حنظل ہے جس میں نہ کسی قسم کا نفع ہے اور نہ مٹھاس، اسی طرح، شرک میں بھی نہ نفع ہے اور نہ مٹھاس اور جیسا کہ شرک مذموم ہے کسی بھی تعریف کے لائق نہیں، اسی طرح مشرک بھی مذموم ہے، وہ بھی کسی تعریف کے قابل نہیں۔ اس درخت کو زمین کے اوپر ہی اوپر سے اکھاڑ لیاجائے اور اس کو میں ثبات نہ ہو، اسی طرح مشرک کے استحکام کے لیے کوئی حجت نہیں ہوتی اور نہ شرک کی حالت میں کوئی عمل قبول ہوتا ہے، جس طرح کہ حنظل کے درخت کے ثبات اور قرار کے لیے کوئی جڑ وغیرہ نہیں ہوتی۔
(وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ )- بھلائی اور اس کے اثرات کے مقابلے میں برائی برائی کی دعوت اور برائی کے اثرات کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بہت عمدہ مضبوط اور پھلدار درخت کے مقابلے میں جھاڑ جھنکاڑ۔ نہ اس کی جڑوں میں مضبوطی نہ وجود کو ثبات نہ سایہ نہ پھل۔ برائی بعض اوقات لوگوں میں رواج بھی پا جاتی ہے انہیں بھلی بھی لگتی ہے اور اس کی ظاہری خوبصورتی میں لوگوں کے لیے وقتی طور پر کشش بھی ہوتی ہے۔ جیسے مال حرام کی کثرت اور چمک دمک لوگوں کو متاثر کرتی ہے مگر حقیقت میں نہ تو برائی کو ثبات اور دوام حاصل ہے اور نہ اس کے اثرات میں لوگوں کے لیے فائدہ
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :37 ” یہ لفظ کلمہ طیبہ کی ضد ہے جس کا اطلاق اگرچہ ہر خلاف حقیقت اور مبنی بر غلط قول پر ہو سکتا ہے ، مگر یہاں اس سے مراد ہر وہ باطل عقیدہ ہے جس کو انسان اپنے نظام زندگی کی بنیاد بنائے ، عام اس سے کہ وہ دہریت ہو ، الحاد و زندقہ ہو ، شرک و بت پرستی ہو ، یا کوئی اور ایسا تخیل جو انبیاء علیہم السلام کے واسطے سے نہ آیا ہو ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :38 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدہ باطل چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس لیے قانون فطرت کہیں بھی اس سے موافقت نہیں کرتا ۔ کائنات کا ہر ذرہ اس کی تکذیب کرتا ہے ۔ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی تردید کرتی ہے ۔ زمین میں اس کا بیج بونے کی کوشش کی جائے تو ہر وقت وہ اسے اگلنے کے لیے تیار رہتی ہے ۔ آسمان کی طرف اس کی شاخیں بڑھنا چاہیں تو وہ انہیں نیچے دھکیلتا ہے ۔ انسان کو اگر امتحان کی خاطر انتخاب کی آزادی اور عمل کی مہلت نہ دی گئی ہوتی تو یہ بدذات درخت کہیں اگنے ہی نہ پاتا ۔ مگر چونکہ اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنے رحجان کے مطابق کام کرنے کا موقع عطا کیا ہے ، اس لیے جو نادان لوگ قانون فطرت سے لڑ بھڑ کر یہ درخت لگانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے زور مارنے سے زمین اسے تھوڑی بہت جگہ دے دیتی ہے ، ہوا اور پانی سے کچھ نہ کچھ غذا بھی اسے مل جاتی ہے ، اور فضا بھی اس کی شاخوں کے پھیلنے کے لیے بادل ناخواستہ کچھ موقع دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے ۔ لیکن جب تک یہ درخت قائم رہتا ہے کڑوے ، کسیلے ، زہریلے پھل دیتا رہتا ہے ، اور حالات کے بدلتے ہی حوادث کا ایک جھٹکا اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے ۔ کلمہ طیبہ اور کلمات خبیثہ کے اس فرق کو ہر وہ شخص بآسانی محسوس کر سکتا ہے جو دنیا کی مذہبی ، اخلاقی ، فکری اور تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرے ۔ وہ دیکھے گا کہ آغاز تاریخ سے آج تک کلمہ طیبہ تو ایک ہی رہا ہے ، مگر کلمات خبیثہ بے شمار پیدا ہو چکے ہیں ۔ کلمہ طیبہ کبھی جڑ سے نہ اکھاڑا جا سکا ، مگر کلمات خبیثہ کی فہرست ہزاروں مردہ کلمات کے ناموں سے بھری پڑی ہے ، حتی کہ ان میں سے بہتوں کا حال یہ ہے کہ آج تاریخ کے صفحات کے سوا کہیں ان کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا ۔ اپنے زمانے میں جن کلمات کا بڑا زور و شور رہا ہے آج ان کا ذکر کیا جائے تو لوگ حیران رہ جائیں کہ کبھی انسان ایسی ایسی حماقتوں کا بھی قائل رہ چکا ہے ۔ پھر کلمہ طیبہ کو جب ، جہاں ، جس شخص یا قوم نے بھی صحیح معنوں میں اپنایا اس کی خوشبو سے اس کا ماحول معطر ہوگیا اور اس کی برکتوں سے صرف اسی شخص یا قوم نے فائدہ نہیں اٹھایا ، بلکہ اس کے گردوپیش کی دنیا بھی ان سے مالا مال ہوگئی ۔ مگر کسی کلمہ خبیث نے جہاں جس انفرادی یا اجتماعی زندگی میں بھی جڑ پکڑی اس کی سڑاند سے سارا ماحول متعفن ہو گیا ۔ اور اس کے کانٹوں کی چبھن سے نہ اس کا ماننے والا امن میں رہا ، نہ کوئی ایسا شخص جس کو اس سے سابقہ پیش آیا ہو ۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں تمثیل کے پیرایہ میں اسی مضمون کو سمجھایا گیا ہے جو آیت ۱۸ میں یوں بیان ہوا تھا کہ ” اپنے رب سے کفر کرنے والوں کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو “ ۔ اور یہی مضمون اس سے پہلے سورہ رعد آیت ۱۷ میں ایک دوسرے انداز سیلاب اور پگھلائی ہوئی دھاتوں کی تمثیل میں بیان ہوچکا ہے ۔
20: ناپاک کلمے سے مراد کفر کا کلمہ ہے، اس کی مثال ایسا خراب درخت ہے جس کی کوئی مضبوط جڑ نہ ہو، بلکہ وہ جھاڑ جھنکاڑ کی شکل میں خود اُگ آئے۔ اُس میں جماو بالکل نہیں ہوتا، اس لئے جو شخص چاہے اُسے آسانی سے اُکھاڑ ڈالتا ہے۔ اِسی طرح کافرانہ عقیدوں کی کوئی عقلی یا نقلی بنیاد نہیں ہوتی۔ اُن کی تردید آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ اور غالبا اس سے مسلمانوں کو یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ کفر وشرک کے جن عقیدوں نے آج مسلمانوں پر زمین تنگ کی ہوئی ہے، عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ان کو اس طرح اُکھاڑ پھنکا جائے گا جیسے جھاڑ جھنکاڑ کو اُکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے۔