منافقین قریش صحیح بخاری میں ہے الم تر معنی میں الم تعلم کے ہے یعنی کیا تو نہیں جانتا بوار کے معنی ہلاکت کے ہیں باریبوربورا سے بورا کے معنی ہلکین کے ہیں مراد ان لوگوں سے بقول ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفار اہل مکہ ہیں اور قول ہے کہ مراد اس سے جبلہ بن ابہم اور اس کی اطاعت کرنے والے وہ عرب ہیں جو رومیوں سے مل گئے تھے لیکن مشہور اور صحیح قول ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اول ہی ہے ۔ گو الفاظ اپنے عموم کے اعتبار سے تمام کفار مشتمل ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر اور کل لوگوں کے لئے نعمت بنا کر بھیجا ہے جس نے اس رحمت و نعمت کی قدر دانی کی وہ جنتی ہے اور جس نے ناقدری کی وہ جہنمی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک قول حضرت ابن عباس کے پہلے قول کی موافقت میں مروی ہے ابن کوا کے جواب میں آپ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ بدر کے دن کے کفار قریش ہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص کے سوال پر آپ نے فرمایا مراد اس سے منافقین قریش ہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ کیا مجھ سے قرآن کی بابت کوئی کچھ بات دریافت نہیں کرتا ؟ واللہ میرے علم میں اگر آج کوئی مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہوتا تو چاہے وہ سمندروں پار ہوتا لیکن میں ضرور اس کے پاس پہنچتا ۔ یہ سن کر عبداللہ بن کوا کھڑا ہو گیا اور کہا یہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمان الہٰی ہے کہ انہوں نے اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو کفر سے بدلا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا آپ نے فرمایا یہ مشریکن قریش ہیں ان کے پاس اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو انہوں نے کفر سے بدل دیا ۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ اس سے مراد قریش کے دو فاجر ہیں بنو امیہ اور بنو مغیرہ ۔ بنو مغیرہ نے اپنی قوم کو بدر میں لا کھڑا کیا اور انہیں ہلاکت میں ڈالا اور بنو امیہ نے احد والے دن اپنے والوں کو غارت کیا ۔ بدر میں ابو جہل تھا اور احد میں ابو سفیان اور ہلاکت کے گھر سے مراد جہنم ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ بنو مغیرہ تو بدر میں ہلاک ہوئے اور بنو امیہ کو کچھ دنوں کا فائدہ مل گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی مروی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا یہ دونوں قریش کے بدکار ہیں ۔ میرے ماموں اور تیرے چچا ، میری ممیاں والے تو بدر کے دن ناپید ہو گئے اور تیرے چچا والوں کو اللہ نے مہلت دے رکھی ہے ۔ یہ جہنم میں جائیں گے جو بری جگہ ہے ۔ انہوں نے خود شرک کیا دوسروں کو شرک کی طرف بلایا ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ دینا میں کچھ کھا پی لو پہن اوڑھ لو آخر ٹھکانا تو تمہارا جہنم ہے ۔ جیسے فرمان ہے ہم انہیں یونہی سا آرام دے دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بےبس کر دیں گے دنیاوی نفع اگرچہ ہو گا لیکن لوٹیں گے تو ہماری ہی طرف اس وقت ہم انہیں ان کے کفر کی وجہ سے سخت عذاب کریں گے ۔
28۔ 1 اس کی تفسیر صحیح بخاری میں ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں، جنہوں نت رسالت محمدیہ کا انکار کر کے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑ کر اپنے لوگوں کو ہلاک کروایا، تاہم اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ عام ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین اور لوگوں کے لئے نعمت الٰہیہ بنا کر بھیجا، پس جس نے اس نعمت کی قدر کی، اسے قبول کیا، اس نے شکر ادا کیا، وہ جنتی ہوگیا اور جس نے اس نعمت کو رد کردیا اور کفر اختیار کیے رکھا، وہ جہنمی قرار پایا۔
[٣٦] ان لوگوں سے مراد قریشی مشرک سردار ہیں جن کے ہاتھ میں اس وقت سارے عرب کی باگ ڈور تھی۔ یہ لوگ بیت اللہ کے پاسبان تھے اور اسی پاسبانی کی وجہ سے ان کی عرب بھر میں عزت کی جاتی تھی۔ اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے آپ کو مبعوث فرمایا اور قرآن نازل فرمایا۔ یہ اللہ کی ان پر دوسری بڑی مہربانی تھی۔ مگر ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا جواب ضد اور عناد سے دیا۔ حق کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ پھر اس مخالفت میں بڑھتے ہی گئے تاآنکہ خود بھی تباہ ہوئے اور اپنی قوم کو بھی تباہ کرکے چھوڑا اور مرنے کے بعد خود بھی جہنم واصل ہوں گے اور اپنے پیرو کاروں کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبیں گے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا ۔۔ :” الْبَوَارِ “ یہ ” بَارَ یَبُوْرُ “ (ن) کا مصدر ہے، معنی ہے :” فَرْطُ الْکَسَادِ “ یعنی انتہائی بےقدر و قیمت ہونا، پھر ہلاکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ (راغب)- 3 انسان کو اپنے وجود کی نعمت سب سے پہلے مفت ملی، اس نے اس کا شکر اپنے خالق کی اطاعت کے بجائے کفر، یعنی ناشکری اور اس کے وجود یا اطاعت و عبادت سے انکار کے ساتھ کیا اور جو شخص جس قدر سرداری اور نعمت سے بہرہ ور تھا اس نے اتنا ہی اپنی قوم کو غلط راستے پر لگا کر جہنم میں پہنچایا۔ اس لحاظ سے آیت عام ہے مگر سیاق وسباق اور مفسرین کے مطابق یہاں مراد کفار قریش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں پیدا فرما کر اپنے مقدس گھر کا متولی بنادیا۔ امن و اطمینان اور دنیا کا ہر پھل اور نعمت مہیا فرمائی، انھوں نے اس کا بدلہ توحید اور اطاعتِ الٰہی کے بجائے عین کعبہ میں اور اس کے اردگرد تین سو ساٹھ بت رکھ کر اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں اتار کردیا، فرمایا : ( ۭ اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْــبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ ) [ القصص : ٥٧ ] ” اور کیا ہم نے انھیں ایک باامن حرم میں جگہ نہیں دی ؟ جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں۔ “ اور دیکھیے سورة قریش۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان میں مبعوث فرما کر دنیا اور آخرت میں سرداری کی نعمت حاصل کرنے کا موقع دیا، مگر انھوں نے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی اطاعت کرنے کے بجائے کفر کو اختیار کیا اور آپ کو ہر ایذا دی، حتیٰ کہ آپ کو حرم میں قتل کردینے کا منصوبہ بنا لیا، جس کے نتیجے میں ان کے پیروکاروں کو دنیا میں جنگوں، خصوصاً بدر وغیرہ اور آخر میں فتح مکہ کی صورت میں رسوائی اور بربادی ملی، شدید قحط اور مکہ میں قافلوں کی آمد رک جانے کی صورت میں آمدنی ختم ہونے سے انھیں بھوک اور خوف نے گھیر لیا اور آخرت میں جہنم میں جانے کی ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا۔ چناچہ فرمایا : (وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ١١٢ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ ) [ النحل : ١١٢، ١١٣ ] ” اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی، اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے اور بلاشبہ یقیناً ان کے پاس انھی میں سے ایک رسول آیا تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، تو انھیں عذاب نے اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ ظالم تھے۔ “- اَلَمْ تَرَ : اس کے اولین مخاطب اگرچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر ہر وہ شخص اس کا مخاطب ہے جو مخاطب ہونے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کے ساتھ انسان خصوصاً کفار قریش کی نعمت کے مقابلے میں ناشکری اور کفر پر تعجب کا اظہار فرمایا ہے۔
(آیت) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ۔ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلَوْنَهَا ۭ وَبِئْسَ الْقَرَارُ ۔ یعنی کیا آپ ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بدلہ میں کفر اختیار کرلیا اور اپنی قوم کو جو ان کے کہنے پر چلتی تھی ہلاکت و بربادی کے مقام میں اتار دیا وہ جہنم میں چلیں گے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے ،- یہاں نعمۃ اللہ سے اللہ تعالیٰ کی عام نعمتیں بھی مراد ہو سکتی ہیں جو محسوس و مشاہد ہیں اور جن کا تعلق انسان کے ظاہری منافع سے ہے جیسا کھانے پینے پہننے کی اشیاء زمین اور مکان وغیرہ اور وہ مخصوص معنوی نعمتیں بھی ہو سکتی ہیں جو انسان کے رشد و ہدایت کے لئے حق تعالیٰ کی طرف سے آئی ہیں مثلا انبیاء اور آسمانی کتابیں اور جو نشانیاں اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی اپنے وجود کے ہر جوڑ میں پھر زمین اور اس کی بیشمار مخلوقات میں آسمان اور اس کی ناقابل ادراک کائنات میں انسان کی ہدایات کا سامان ہیں۔- ان دونوں قسم کی نعمتوں کا تقاضا یہ تھا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت وقدرت کو پہچانتا اس کی نعمتوں کا شکر گذار ہو کر اس کی فرمانبرداری میں لگ جاتا مگر کفار و مشرکین نے نعمتوں کا مقابلہ شکر کے بجائے کفران نعمت اور سرکشی و نافرمانی سے کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت و بربادی کے مقام میں ڈال دیا اور خود بھی ہلاک ہوئے،- احکام و ہدایات :- ان تینوں آیتوں میں توحید اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی عظمت و فضیلت اور اس کی برکات وثمرات اور اس سے انکار کی نحوست اور انجام بد کا بیان ہوا ہے کہ توحید ایسی لازوال دولت ہے جس کی برکت سے دنیا میں تائید ایزدی ساتھ ہوتی ہے اور آخرت اور قبر میں بھی اور اس سے انکار اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو عذاب سے بدل ڈالنے کے مرادف ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ 28ۙ- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- حلَ- أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] ،- ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - بور - البَوَار : فرط الکساد، ولمّا کان فرط الکساد يؤدّي إلى الفساد۔ كما قيل : كسد حتی فسد۔ عبّر بالبوار عن الهلاك، يقال : بَارَ الشیء يَبُورُ بَوَاراً وبَوْراً ، قال عزّ وجل : تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر 29] ، وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر 10] ، وروي : «نعوذ بالله من بوار الأيّم» ، وقال عزّ وجل : وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم 28] ، ويقال : رجل حائر بَائِر، وقوم حور بُور . وقال عزّ وجل : حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان 18] ، أي : هلكى، جمع : بَائِر .- البوار ( ن )- اصل میں بارالشئ بیور ( ، بورا وبورا کے معنی کسی چیز کے بہت زیادہ مندا پڑنے کے ہیں اور چونکہ کسی چیز کی کساد بازاری اس کے فساد کا باعث ہوتی ہے جیسا کہ کہا جانا ہے کسد حتیٰ فسد اس لئے بوار بمعنی ہلاکت استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر 29] اس تجارت ( کے فائدے ) کے جو کبھی تباہ نہیں ہوگی ۔ وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر 10] اور ان کا مکرنا بود ہوجائیگا ۔ ایک روایت میں ہے (43) نعوذ باللہ من بوارالایم کہ ہم بیوہ کے مندا پن سے پناہ مانگتے ہیں یعنی یہ کہ اس کے لیے کہیں سے پیغام نکاح نہ آئے ۔ وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم 28] اور اپنی قوم کو تباہی کے گھرا تارا ۔ رجل جائر بائر مرد سر گشتہ خود رائے ۔ جمع کے لئے حور بور کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ ؛۔ حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان 18] یہاں تک کہ وہ تیری یا د کو بھول گئے اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے ۔ میں بوبائر کے جمع ہے بعض نے کہا ہے کہ بور مصدر ہے اور واحد و جمع دونوں کی صفت واقع ہوتا ہے جیسے ۔ رجل بورو قوم بور
(٢٨۔ ٢٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو ان کی خبر نہیں جنہوں نے نعمت خداوندی یعنی کتاب اور رسول کا انکار کیا مراد اس سے بنوامیہ اور بنو مغیرہ ہیں جو بدر کے دن مارے گئے کہ انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن اکرم کا انکار کیا اور ان مکہ والوں نے اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر یعنی بدر میں یا یہ کہ جہنم میں پہنچا دیا، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ قیامت کے دن اس جہنم میں داخل ہوں گے اور وہ بہت بری اترنے اور رہنے کی جگہ ہے۔- شان نزول : (آیت) ”۔ الم ترالی الذین بدلوا “۔ (الخ)- ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عطا بن یسار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ آیت کریمہ ”۔ الم تر الی الذین بدلوا “۔ ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بدر کے دن مارے گئے ،
آیت ٢٨ (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا)- اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت کی نعمت سے نوازا تھا مگر انہوں نے ہدایت ہاتھ سے دے کر ضلالت اور گمراہی خرید لی۔ اللہ اس کے رسول اور اس کی کتاب سے کفر کر کے انہوں نے اللہ کی نعمت سے خود کو محروم کرلیا۔- (وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ )- جیسے سورة ہود آیت ٩٨ میں فرعون کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ روز محشر وہ اپنی قوم کی قیادت کرتا ہوا آئے گا اور اس پورے جلوس کو لا کر جہنم کے گھاٹ اتار دے گا۔ اسی طرح تمام قوموں اور تمام معاشروں کے گمراہ لیڈر اپنے اپنے پیروکاروں کو جہنم میں پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔